جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Wednesday, 6 November 2013

Ahlehadees Aur Angrez


 تاریخی اور تحقیقی آئنہ 
 اہل حدیث(لامذہب) اور انگریز
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھندستان میں فرقہ غیرمقلدین کا ظہور
سارے عالم اسلام میں غیرمقلدین کا فرقہ باقاعدہ جماعتی رنگ میں نہ کبھی پہلے تھا اور نہ ہی اب موجود ہے۔ صرف ہندستان ایک ایسا ملک ہے جس میں یہ فرقہ کہیں کہیں پایا جاتا ہے لیکن ہندستان میں بھی انگریز کی حکمرانی سے قبل اس گروہ کا کہیں بھی نام و نشان تک نہ تھا۔
ہندستان میں اس فرقہ کا ظہور و وجود، انگریز کی نظرکرم اور چشم التفات کارہین منت ہے، ہندستان میں  جب انگریز نے اپنے منحوس قدم جمائے تو اس نے مسلمانوں میں انتشارو خلفشار، اختلاف دافتاق اور تشتت دلا مرکزیت پیدا کرنے کے لئے “لڑاؤ اور حکومت کرو” کے شاطرنہ اصول کے تحت یہاں کے باشندگان کو مذہبی آزادی دی۔ جس کے پردے میں مذہبی آزاد خیالی اور ذہنی آوارگی کو پروان چڑھانے میں اپنے تمام وسائک کو بروئے کار لایا کیونکہ وہ ابلیس سیاست تھا، بنابریں وہ بخوبی جانتا تھا کہ مذہبی آزاد خیالی ہی تمام فتنوں کا منبر ،مصدر اور سر چشمہ ہے، اس مذہبی آزادی کے نتیجہ میں فرقہ غیرمقلدین ظہور پذیر ہوا۔ پھر اس فرقہ کے بطن فتنہ پرور سے فتنہ نچریت، فتنہ انکار حدیث، فتنہ مرزائیت اور فتنہ اناحیت و تجدد پسندی نے جنم لیا۔
مذہبی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جو مذہب چاہے، اختیار کرے، اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق، قرآن و حدیث کا جو مطلب چاہے بیان کرے، قرآن و حدیث کے الفاظ کو غلط معانی پہنائے، ان کے مفاہیم کو مسنح کرے اور ان کے مضامین کا حلیہ بگاڑے  اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب اس بارے میں انگریز سرکار کے حضور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
“کتب تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو امن و آسائش و آزادگی اس حکومت انگریزی میں تمام خلق کو نصیب ہوئی کسی حکومت میں بھی نہ تھی (یعنی انگریز سے قبل عالم اسلام کے سلاطین مثلاً سلجوتی، عثمانی سلاطین، وغیرہ ہم کے ادوار حکومت اس  امن و آسائش اور آزادگی مذہب سے خالی تھے) اور وجہ اس کی سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھی گئی کہ گورنمنٹ نے آزادی  کامل ہر مذہب والے کو دی”
(ترجمان وہابیہ ص۱۶)
دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ:
اور یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں، جس کا اشتہار بار بار انگریز سرکار سے جاری ہوا (ترجمان وہابیہ ص٢٢)
ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ: اور (مقلدین) چاہتے ہیں کہ وہی تعصب مذہبی و تقلید شخصی اور ضدو جہالت آبائی جو ان میں چلتی آتی ہے قائم رہے اور جو آسائش رعایا ہند کو بوجہ آزادی مذہب 


گورنمنٹ نے عطاء کی و ہ اٹھ جائے۔ (ترجمان وہابیہ ص١١٠)
گویا کہ غیرمقلدین انگریز کی عطا کردہ آزادی مذہب کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور انگریز کے اغراض  و مقاصد اور خواہشات کی تکمیل کے لئے آگے بڑھے، اور باطل کے مختلف محاذوں میں شجر اسلام پر خشت باری اور انگریز کے حضور حاضر ہو کر  کہا کہ ہم فدویان آنجناب کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کریں گے، صر ف جناب اشارہ ابرو کی ضرورت ہے۔
چنانچہ انگریز کے اشارہ سے یہ لوگ باطل کے تین محاذوں پر ڈٹ گئے اور انگریز کی خواہشات کی تکمیل میں ہر امکانی سعی بروئے کار لائے، ان تین محاذوں  کی تفصیل ذیل میں ملاحضہ فرمایئے۔
(١)۔۔ ۔ تقلید کی برکت سے جو جھوٹے فرقے اور باطل گروہ زیرزمین دفن ہو گئے تھے، ان میں ایک فرقہ اہم معتزلہ کا تھا ، یہ فرقہ قرآن و حدیث کی تحریف میں سب سے نمایاں تھا، انگریز نے ہندستان میں اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے اور مسلمانوں میں خلفشار پیدا کرنے کے لئے اس فرقہ کے احیاء کی ضرورت محسوس کی، اس مقصد کی تکمیل کے لئے احناف میں تو اس کو کوئی موزوں آدمی نہ ملا تو اس  کی عقابی نگاہوں نے غیرمقلدین میں سے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو اس کام کے لئے نہایت موزوں و مناسب تھا وہ آدمی کون تھا؟
سر سید بانی علی گڑھ کالج، سرسید نے کہا  حضور یہ فدوی بڑا خوش بخت ہے کہ جناب والا کی نظر انتخاب اس حقیر پُر تقصیر پر پڑی ہے۔ چنانچہ سر سید نے نیچریت کے نام سے ایک فرقہ کی بنیاد رکھی، جس نے فرقہ معتزلہ کی تحیفات کو نئے انداز، نئے اسلوب اور نئے عنوان سے خوشنما اور دلکش الفاظ میں امت کے معدے مں اتارنے کی سعی نا مشکور کی اور اس سلسلہ میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے کی بناء پر ”سر“ کے خطاب سے نوازے گئے۔
(٢)۔۔۔۔۔ قرآن کریم کے صحیح مفہوم کو متعین کرنے کے لئے احادیث سے بڑی مدد ملتی ہے بلکہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کا سمجھنا ناممکن ہے، انگریز اس کا متمنی تھا کہ ہندستان میں کوئی ایسا فرقہ وجود میں آئے جو احادیث کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنے کا دعویدار ہو اور احادیث کی ضرورت و اہمیت سے انکار ہو اور اس سلسلہ میں نہایت لگن ،محنت اور کوشش و کاوش سے خدمات سر انجام دے اہل سنت والجماعت سے تو اس کو کوئی ایسا فرد نہ مل سکا جو اس کی تو قعات پر پورا اترتا اور اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل میں کوشاں اور ساعی ہوتا۔
اس مقصد کے لئے بھی غیرمقلدین نے اس کو چند نہایت موزوں افراد فراہم کئے، یہ تھے لاہور کی چینیا نوالی مسجد کے خطیب عبداللہ چکڑالوی (عبداللہ چکڑالوی   پہلے غیرمقلد تھا ' موج کوثر ص٥٢) احمد دین بگوی، اسلم جیرا جپوری (اسلم جیراجیوری بھی ابتداء غیرمقلد تھا، نوادرات ص۳۷۱) نیاز فتحپوری (نیاز فتحپوری بھی پہلے غیرمقلد تھا) اور ان کے اتباع و اذناب اشخاص انگریز کی آرزؤں، خواہشوں اور تمناؤں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نہایت تیزی سے آگے بڑھے، اور فرقہ انکار حدیث کی بنیاد رکھی اور انکار حدیث پر جھوٹے دلائل تراشنے اور غلط برہین وضع کرنے میں انہوں نے اپنی عمریں کھپا دیں اور بہت سے سادہ لوح افراد کو صراط مستقیم سے بھٹکانے میں کامیاب ہو گئے۔
(٣)۔۔۔۔۔ اس کے بعد انگریز اس کا خواہاں اور متمنی تھا کہ پیریرستوں کے علاقہ پنجاب سے کوئی نبی کھڑا کیا جاوے، جو لوگوں کو اپنے دام نبوت میں پھسا کر گمراہ کرے اور امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرے اور اس کا شیرازہ منتشر کرکے ان کو باہم دست دگر یباں کرے۔
اگرچہ پنجاب میں بے شمار گدیاں تھیں اور ان میں بعض خامیاں بھی تھیں، لیکن تقلید کی نکیل اور مہار انگریز کے راستہ میں سد سکندری بن کر حائل تھی، اس گندے مقصد اور غلط کام کے لئے بھی انگریز کو موزوں آدمی ملا  تو غیرمقلدیت کی گندی کان سے، یہ شخص تھا مرزا غلام احمد قادیانی (مرزا غلام احمد قادیانی بھی ابتداءً غیرمقلد تھا
(سہرت مہدی جلد دوم ص۳۳۳)  
 جس نے ایک نئے فر کہ کی بنیاد رکھ کر امت مسلمہ کی کمر میں خنجر پیوست کیا۔
(٤)۔۔۔۔ مرزا غلام احمد قادیانی چونکہ پورا عالم اور کامل العقل نہیں تھا ، اس میں علمی اور عقلی خامیاں تھیں، اس کو سہارا دینے کے لئے کسی پختہ کار عالم اور ہوشیار و شاطر اور گھاگ قسم کے سیاستدان کی ضرورت تھی، اس کو سہارا دینے کے لئے بھی انگریز نے ادھر ادھر نظر ڈوڑائی اور ملک کی تمام جماعتوں کا بنظر غائز جائزہ لیا، مگر کسی جماعت میں اس  کو کوئی موزوں آدمی نظر نہ آیا، مرزا صاحب کو سہارا دینے کے لئے بھی انگریز نے غیرمقلدیت کے بطن سے ایک نہایت مناسب شخص کا سراغ لگا لیا۔
یہ تھا بھیر کا مشہور غیرمقلد عالم حکیم نور الدین بھیروی (حکیم نور الدین بھیروی بھی پہلے غیرمقلد تھا، تاریخ احمدیت جلد٤ص۶۹ تا ۷۰) جو مرزا صاحب کی تائید کے لئے انگریز کے اشارہ سے اگے بڑھا اور اس  تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مرزا صاحب کا دست بازو بنام احمدی جماعت کی ترقی و استحکام کے لئے پالیسیاں و ضع کرنے میں اس کا  عیار ذہن کار فرما تھا۔
، اب ہم غیرمقلدین کے اکابر علماء اور اعظم فضلاء کی عبارات  کے اقتباسات سے یہ حقیقت واضع اور الم نشرح کریں گے کہ سارے ہندستان میں انگریز کے تسلط سے قبل غیرمقلدین کا نام و نشان تک نہ تھا، اور یہاں  سرکاری سطح پر حنفی مسلک رائج و نافذ تھا، ہندستان کے ملوک و سلاطین، امراء ، و زراء ، علماء، وفقہاء، فصحاء، بلغاء، محدثین و مفسرین ، مدققین و محققین سب کے سب حنفی مسلک سے متعلق تھے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہم غیرمقلدین کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب کی رائے پیش کرتے ہیں۔
نواب صاحب لکھتے ہیں:
“خلاصہ حال ہندستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے، چونکہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو پسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک (انگریز کی آمد تک) یہ لوگ  مذہب حنفی پر قائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم اور  فاضل اور قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک جم غفیر نے مل کر فتاویٰ ہند یہ جمع کیا اور اس میں شاہ عبدالرحیم صاحب والد بزرگو ارشاہ ولی اللہ صاحب دہلویؒ بھی شریک تھے۔ (ترجمان وہابیہ ص٢٠)
اسی کتاب میں نواب صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
“ہندستان کے مسلمان ہمیشہ سے مذہب شیعی یا حنفی رکھتے ہیں” (ترجمان وہابیہ)
نواب صاحب کی مذکورہ عبارات سے ثابت ہوا کہ ہندستان میں اسلام کے ظہور سے لیکر انگریزی حکومت کے تسلط تغلب تک یہاں کے اکثر باشندے مذہب حنفی کے پیروکار اور اس پر عمل و کار بند تھے اور کچھ لوگ شیعی مسلک کے حامل اور اس پر عمل تھے۔ ان دو مسالک کے سوا کسی تیسرے فرقہ کا ہند وستان میں نشان تک  نہ تھا۔ اگر غیرمقلدین بھی یہاں شروع سے موجود ہوتے تو نواب صاحب یقیناً اور لازماً ان کا تذکرہ بھی کرتے۔
نواب صاحب نے قطعی طور پر ہندستان میں اس فرقہ کے قدیماً پائے جانے کی صریح الفاظ میں نفی کر دی  ہے۔ اس لئے اس بارہ میں کسی چوں چرا کی گنجائش نہیں ۔
اس کی تائید غیرمقلیدن کے مشہور عالم مولوئ محمد شاہجہانپوری سے
مولانا موصوف غیرمقلدین کے مایہ ناز اور مشہود عالم و محقق ہیں۔ یہ اپنی مشہور کتاب “ الارشاد الٰی سبیل الرشاد” میں ہندستان میں اپنے فرقہ کے نومولود نو خیز ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
“کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیرمانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آرہے ہیں جس سے لوگ بالکل نا آشنا ہیں”۔ پچھے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو تو اہل حدیث  یا محمدی یا موحد کہتے ہیں، مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔ (الارشاد الی سبیل الرشاد، ص١٣)
مولانا موصوف کی اس تحریر سے بھی معلوم ہوا کہ اگر یہ فرقہ ہندستان میں قدیم سے چلا آرہا ہوتا تو لازماً لوگ اس کے افکار و نظریات اور اس کے خیالات و حالات سے واقف ہوتے اور اس فرقہ  کے لوگ اہا لیان ہند کت لئے نا مانوس و نا آشنانہ ہوتے۔
اس کی تائید مزید غیرمقلدین کے
شیخ الکل فی الکل شمس العلماء مولوی نذیر حسن دہلوی کے استاد اور  خسر مولانا ربدالخالق صاحب کے قلم سے
مولانا موصوف اپنی مشہور کتاب “تنبیہ الضالین” میں اس فرقہ کے نواحداث (نوپیدا) ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
“سو بانی مبانی اس فرقہ نو احداث (غیرمقلدین ) کا عبدالحق بنارسی ہے۔ جو چند روز بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المؤمنین (سید احمد شہیدؒ) نے ایسی ہی حرکات ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے اس کو نکال دیا اور علماء حرمین شریفین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح وہاں سے بچ نکلا۔
غیرمقلدین کا نومولود ھونا ایک اور انداز سے
یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ جو چیز، جماعت اور جو قوم قدیم سے موجود ہوتی ہے اس کی قدرت کے کچھ آثار ہوتے ہیں اس  کے قدیم ہونے کی کچھ  علامات اور نشانات ہوتے ہیں جو اس کی قدامت پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے نومولود ہونے کی نفی کرتے ہیں۔
اس کلیہ اور ضابطہ کی روشنی میں جب ہم غیرمقلدین کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو آفتاب نیمروز کی طرح یہ حقیقت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے کہ یہ فرقہ نوخیز ہے۔
تو سنیئے
غیرمقلد حضرات اگر شروع سے بریصغیر پاک و ہند میں موجود ہوتے تو ان  کے آثار قدیمہ پائے جاتے، ان کا بسایا ہوا کوئی شہر ہوتا، ان کی تعمیر کردہ کوئی مسجد ، کوئی سرائے اور کوئی عمارت ہوتی مثلاً لاہور اس ملک کا قدیم شہر ہے، یہاں چونکہ احناف شروع سے چلے آرہے ہیں اس لئے اس تاریخ شہر میں ان کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں۔
یہاں سید الاولیاء حضرت علی ہجویریؒ کا مزار مقدس ہے، یہاں شاہی مسجد ہے ، یہاں مسجد وزیر خاں صاحب ہے اور دیگر آثار قدیمہ ہیں۔
لیکن اس کے برعکس سارے ہندستان میں غیرمقلدین کی سب سے پہلی مسجد  چینیاں والی مسجد ہے جو  انگریزی دور کی یادگار ہے۔
یہ وہی مسجد ہے جس کا خطیب مشہور منکر حدیث عبداللہ چکڑالوی تھا، جو پہلے غیرمقلد تھا اسلاف کو گالیاں دیا کرتا بالخصوص امام اعظمؒ کی شان میں بہت گستاخی کیا کرتا تھا، جس کی اس پر یہ پھٹکار پڑی کہ قہر الٰہی کی بجلی اس کے خرمن ایمان پر گری اور اس کو جلا کر خاکستر کر دیا اور منکر حدیث ہو کر مرا۔ سچ فرمایا ہے  صادق مصدوق ﷺ نے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ  “من عادٰیٰ لی ولیاً فقد اذنتہ بالحرب” یعنی جو شخص میرے ولی سے عداوت کرے گا اس سے میں اعلان جنگ کرتا ہوں، پس جو شخص اللہ تعالٰی کے ولی کو برا کہے گا جیسا کہ ان لوگوں کا وطیرہ اور طرہ امتیاز ہے ایسے ہی مرے گا۔
اور  سنئے
امرتسر میں مولانا عبدالجبار غزنوی سے پہلے بھوپال میں نواب صدیق حسن خان صاحب سے قبل دہلی میں مولانا نذیر حسین دہلوی سے پیشتر، بنارس میں عبدالحق بنارسی  سے قبل اور سیالکوٹ میں مولانا ابراہیم سیالکوٹی سے پہلے غیرمقلدیت کا سراغ نہیں ملتا۔
کیا ہے کوئی مائی کا لعل جو ان شہروں میں مذکورہ حضرات سے پیشتر کسی غیرمقلد کا وجود ثابت کر سکے۔
ایک اور طرز سے
جس طرح غیرمقلد حضرات ہندستان میں انگریز کی آمد سے قبل اپنے کسی مدرسہ، کسی مسجد ، کسی سرائے اور کسی عمارت کی نشاندہی نہیں کر سکتے اسی طرح یہ حضرات انگریز کے دور سے قبل اپنی کسی تصنیفم کسی کتاب حتی کہ کسی رسالہ کی نشاندہی بھی نہیں کر سکتے (اگر چہ اب اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے چھ سات سو سال پرانی تاریخ لکھنے کی سازش کر رہے ہیں) ہمارا ان کو کھلا اور انعامی چیلنج ہے کہ یہ لوگ کسی ایک کتاب، کسی ایک تفسیر کسی ایک شرح حدیث کی نشاندہی کر دیں جو کسی ایسے شخص نے لکھی ہو جو مقلدین کو مشرک قرار دیتا ہو اور ائمہ مجتہدین کو اپنے سب و شتم کا ہدف بناتا ہو  ھل من مبارزِ۔
حتی کہ یہ لوگ آج تک اپنا نصابی قاعدہ بھی مرتب نہیں کر سکے۔ ان کا نصابی قاعدہ “بلوغ المرام” ہے جو ایک شافعی محدث علامہ ابن حجر عسقلانی ؒکی تصنیف لطیف  ہے ان کے مدارس میں جو نصاب زیر تعلیم ہے وہ احناف کا مرتب کردہ ہے غیرمقلدین اپنے مدارس میں مقلدین کا مرتب کردہ نصاب  تعلیم پڑھتے پڑھاتے ہیں  اور مقلدین کی لکھی ہوئی شرح اور حواشی کا مطالعہ کر کے اسباق پڑھانے کی تیاری کرتے ہیں لیکن ان کی طوطا چشمی کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنے درسوں میں انہیں مقلد علماء کو اپنی ظلمانہ گالیوں اور گستاخانہ جسارتوں کا ہدف بناتے  ہیں۔ فیا للعجب ولضیعۃ الادب۔
غیرمقلدین اور انگریز کی خدمات
بفضلہٖ تعالٰی دلائل و براہین کی روشنی میں یہ حقیقت پوری طرح الم نشرح اور  بے نقاب ہو چکی ہے کہ فرقہ غیرمقلدین کا وجود انگریز کی چشم التفات کارہین منت ہے، انگریز کے دور حکومت سے قبل اس فرقہ کا ہندستان بھر میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔
اب ہم غیرمقلدوں کے اکابر و اسلاف اور بانیوں کی انگریز سرکار کی خدمات کا تفصیلی تذکرہ کریں گے۔ تاکہ ان پر انگریز کی نظر التفات کی وجہ واضع ہو جائے۔
سب سے پہلے ہم غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل شمس العلماء مولانا نذیر حسین صاحب کی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔ مولانا کے کارنامے بیان کرنے سے بیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا موصوف کا اجمالی تعارف پیش کر دیا جائے۔
مولانا نذیر حسین صاحب دھلوی کا اجمالی تعارف
مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی غیرمقلدین کے بہت بڑے عالم اور پیشوا ہیں، غیرمقلد حضرات ان کو مجدد اعظم، شیخ الکل فی الکل، شمس العلماء اور آیت من آیات اللہ کے عظیم القابات سے یاد کرتے ہیں اور ان کو اپنی جماعت کے بانیوں میں شمار کرتے ہیں، غرضیکہ ان کی بڑی مایہ ناز اور قابل فخر ہستی ہیں۔  غیرمقلدیت کے فروغ اور اشاعت میں ان کی خدمات کو بڑا دخل ہے، ان کی زندگی کے پورے75 سال سلف صالحین پر تنقید  کرنے اور ان کے عظیم فقہی و علمی کارناموں میں کیڑے نکالنے اور ان کو اپنے خود ساختہ الزامات کا ہدف بنانے میں صرف ہوئے، میاں صاحب قصبہ سورج گڑھ، ضلع مونگیر صوبہ بہار میں ١٢٢٠ھ مطابق1805ء میں متولد ہوئے اور ایک سو سال کی عمر پا کر 1320ھ میں وفات پاگئے، مولانا عبداللہ روپڑی نے ان کو آیت من آیات اللہ، امام زمان ، شیخ العرب والعجم کے القاب سے یاد کیا ہے۔(نتائج التقلید ص١١)
جنگ آزادی 1857 میں نہ صرف یہ میاں صاحب نے قطعاً کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ اس کو غدر اور ہلڑ سے تعبیر کرکے مجاہدین کرام اور  غازیان  عظام کے جذبات کو پامال اور مجروح کیا، اس دور کے مشاہیرواکابر اور جید علماء کرام نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ  تیار کیا،  میاں صاحب نے اس پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
پھر عین حالت جنگ میں مجاہدین سے غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے ایک زخمی میم کو گھر اٹھوا لائے ، اس کا علاج معالجہ کرکے اس کو انگریز کے سپرد کر کے اس سے اپنی وفاداری کے سرٹفکیٹ حاصل کئے۔
تفصیلات:
میاں صاحب  کے ان کارناموں کی تفصیلات بیان کرنے سے قبل احقر مناسب سجمھتا ہے کہ جنگ آزادی 1857ء کے پس منظر پر اجمالی روشنی ڈال دی جائے۔
جنگ آزادی 1857ء کا پس منظر          :
مجاہد کبیر بطل جلیل شیخ الاسلام امام راشد حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نو اللہ مرقدہ اپنی مشہور محققانہ اور مؤرخانہ تصنیف منیف “نقش حیات”  میں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے قمطراز ہیں۔
جہاں تک احوال و واقعات خبر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک تو انگریز اپنی کامیابیوں اور بڑھتی  ہوئی قور کے نشہ میں چور اور بد مست ہوگئے تھے  کہ نہ کسی عہد نامہ کا خیال رہا تھا نہ کسی نواب یا بادشاہ کو خیال میں لاتے تھے۔
تمام ہندستانیوں کو خواہ ہندو ہوں یا مسلمان انتہائی ذلت کی نظر سے دیکھتے تھے اور بات بات پر تحقیر و توہین سے بھرے ہوئے کلمات اور اعمال استعمال کرتے تھے جیسا کہ وارن ہسنگر کا مقالہ ہم پہلے نقل کر آئے ہیں “انگریز ہندوستان میں آکر ایک  نیا انسان بن جاتا ہے،جن جرائم کو وہ انگلستان میں خیال میں بھی نہ لا سکتا تھا ان کے کرنے کے لئے یہاں صرف انگیز یز ہونا سمجھا جاتا ہے۔
الغرض جس قدر بھی زمانہ اگے بڑھتا جاتا  تھا انگریزی عہد تسکنیاں اور نئے نئے مظالم طرح طرح کے روپ میں ظاہر ہوتے جاتے تھے۔
دوسرے ہندوستانیوں کی ہر قسم کی زندگی روز بروز ایسی ہلاکتوں اور مصیبتوں کے گڑھوں میں گرتی جاتی تھی کہ جس کا لوگوں کو وہم فہم و گمان بھی نہ تھا، گدی نشینوں کو طرح طرح کے میلوں سے  بر طرف اور محروم کر دیا جاتا تھا۔
معمولی معمولی حیلوں بلکہ غلط اور جھوٹے پراپیگنڈوں  سے جن کے یورپین لوگ عموماً اور انگریز قوم عادی ہیں والیان ریاست پر حملہ یا ان کی معزولی عمل میں آتی رہتی تھی وغیرہ وغیرہ، حسب قول مشہور 'تنگ آمد بجنگ آمد” مجبور ہو کر آزادی کے لئے  کو شش کرنا ضروری سمجھا گیا نیز وہ لوگ جو سید صاحب کی تحریک رہے تھے اور بالاکوٹ میں سید احمد کے شہید ہو جانے کے بعد اپنے اوطان کو واپس آئے تھے اور وہ لوگ جو کہ حضرت سید  احمد صاحب کے مرید اور ان کی تحریک  میں کسی درجہ میں بھی شریک تھے ان لوگوں کے قلوب ہمیشہ آزادی کی تڑپ سے بے چین رہتے تھے۔
اس لئے تمام ہندستان نے عموماً اور مسلمانوں نے خصوصاً اس انقلاب ۱۸۵۷ء کو ضروری سمجھا۔(نفش حیات صفحہ ٤٤٩ ج٢)
ان حالات کے پیش نظر اس دور کے دور اندیش، بیدار مغزاور جذبہ جہاد سے سرشار علماء کرام نے دستخط کئے، اس فتویٰ کے شائع ہوتے ہی مسلمانوں کے جزبات میں ایک طوفان برپا ہو گیا اور ان جے ایمانی احساسات کی آگ بھڑک اٹھی۔
مگر افسوس صد افسوس کہ اس دور کے بعض عافیت کوش، وقت شناس اور خود غرض علماء نے اس فتویٰ پر دستخط نہ کئے، ان دنیا دار اور مصلحت پرست علماء سر فہرست  غیرمقلدین کے امام مولانا نذیر حسین دہلوی کا نام نامی ہے۔
میاں صاحب کی مجاھدین  ۱۸۵۷ء سے غداری اور گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ وفاداری
میاں صاحب کا سوانح نگا فضل حسین بہاری، میاں صاحب کی سوانح الحیات بعد المماۃ میں“گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ وفاداری” کا عنوان قائم کر کے لکھتا ہے۔
“یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ میاں صاحب گورنمنٹ انگلشیہ کے کیسے وفادار تھے زمانہ غدر  ۱۸۵۷ء میں جب دہلی کے بعض مقتد اور بیشتر معمولی مولویوں نے انگریز پر جہاد کا فتویٰ دیا تو میاں صاحب نے اس پر دستخط کئے نہ مہر لگائی”۔
وہ خود فرماتے تھے کہ میاں وہ “ہلڑ” تھا بہادر شاہی نہ تھی، وہ بے چارہ بہادر شاہ کیا کرتا۔ ۔ ۔ بہادر شاہ کو بہت سمجھایا کہ انگریزوں سے لڑنا مناسب نہیں مگر وہ باغیوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے، کرتے تو کیا کرتے (الحیات بعد الممات ص١٢٥)
اپنوں کی غداری سے انگریز کا دھلی
پر قابض ھو کر قیامت برپا کرنا
جب اپنوں (مرزا الہی بخش، مرزا مغل شہزادہ، اور فتویٰ فروش و عافیت کوش علماء) کی غداری سے ١٩ ستمبر ۱۸۵۷ء کو انگریز دہلی پر قابض ہوگئے تو انہوں نے انتہائی سفا کی اور بے دردی سے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کیا، مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ،وحشت و بربریت کے رکارڈ قائم کئے گئے جن کے سامنے چیگیز خان اور ہلاکو خان کے مظالم کی داستانیں اور ہٹلر و مسولینی کے تشدد کی کہانیاں ماند پڑگئیں۔
انگریزوں کے ظلم و ستم کی ہلکی سی جھلک ذیل میں ملاحظہ فرمایئے۔ اسپنروال لکھتا ہے “وحشی نادر شاہ نے بھی وہ لوٹ نہیں مچائی  تھی جو فتح دہلی کے بعد انگریزی حکومت نے جائز رکھی،شارع عام پھانسی گھر بنائے گئے اور پانچ پانچ چھ چھ آدمیوں کو  روزانہ سزائے موت دی جاتی تھی”وال پول کا بیان ہے۔
“تین ہزار آدمیوں کو پھانسی دی گئی ،جن میں سے انتیس شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔”
مؤلف تبصرہ  التوریخ لکھتا ہے کہ:۔
“ستائیس ہزار مسلمان  قتل کئے گئے اور سات دن تک برابر قتل عام جاری رہا”۔ شاندار ماضی ص۶۹)
امام راشد حضرت مولانا سید حسیناحمد صاحب مدنی قدس سرہ العزیز انگریز کے بے پناہ مظالم کی تصویر پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔
“خصوصیت سے مسلمانوں کے ساتھ جو ذلت آمیز اور جگر خراش برتاؤ کیا گیا وہ بیان سے باہر ہے”۔
زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سلواکر گرم تیل کے کڑھاؤں میں ڈلوانا، سکھ  رجمنٹ سے علی رؤس الا شہاداغلام کروانا، فتحپوری کی مسجد سے قلعہ کے دروازہ تک درختوں کی شاخوں پر مسلمانوں کی لاشوں کا لٹکانا، مساجد کی بے حرمتی خصوصاً شاہ جہاں جامع مسجد دہلی کے حجروں میں گھوڑوں کا باندھنا،  عبادت کی جگہ دفاتر قائم کرنا اور حوض میں وضو کے پانی  کی جگہ گھوڑوں کی لید ڈالنا، منصف مزاج انگریز بھی اس کی مذمت کئے بغیر نہ رہ سکے، تفصیل کے لئے دیکھئے انقلاب ۱۸۵۷ء کو تصویر کا دوسرا رُخ ترجمہ شیخ حسام الدین (ازکتاب مسٹرایڈ ورڈٹامسن مسمی بہ تصویر کا دوسرا رخ)۔(نقش حیات ص۴۵۷)
اپنوں کی غداری اور ضمیر فروشی سے مسلمانوں کو ان روح فرسا مظالم سے دو چار ہونا پڑا، اگر اپنے غداری  نہ کرتے تو مسلمانوں کو یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا۔ ان کی عوتوں کی عصمتیں ان کی مساجد کی بے حرمتی نہ ہوتی۔ ان کی لاشوں کو درختوں کی شاخوں پر نہ لٹکایا جاتا، ان کو سور کی کھالوں میں سلوا کر گرم تیل کے کڑھاؤں میں نہ ڈلوایا جاتا، ان سے سکھ  رجمنٹ سے سب کے سامنے اغلام بازی نہ کروائی جاتی۔
جنگ آذادی1857ء میں غیرمقلدین کا کردار
جب مسلمان انگریز سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اپنی جان مال اور تن من دھن کی قربانیاں دے رہے تھے، ان حالات میں میاں نذیر حسین صاحب دہلوی سے یہ تو نہ ہوسکا کہ کسی بیمار داری کرتے اس کے بجائے میاں صاحب جنگ  آزادی کے دوران یہ گھناؤنا کردار ادا کرتے ہیں کہ انگریز کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر رات کی تاریکی میں سناٹے میں ایک زخمی انگریز خاتون کو اٹھوا کر اپنے گھر میں چھپائے رکھتے ہیں، جب وہ انگریز خاتون تندست اور صحت یاب ہو جاتی ہے تو اس کو انگریزی کیمپ میں پہنچا کر مبلغ اہک ہزار تین صد روپیہ نقد اور وفاداری کا سرٹفکیٹ حاصل کرتے ہیں۔
اس واقعہ کی تفصیل موصوف کے سوانح نگار غیرمقلد عالم مولوی فضل حسین بہاری کی زبانی سنیئے۔ موصوف لکھتے ہیں:۔
عین حالت غدر میں (جہاد حریت کو غدر سے تعبیر کیا جا رہا ہے فوااسفا !) جبکہ ایک  ایک بچہ انگریزوں کا دشمن ہو رہا تھا (سوائے غیرمقلدوں کے)  سزلیسنس ایک زخمی میم کو میاں صاحب رات  کے وقت ا  ٹھوا کر اپنے گھر لے  گئے، پناہ دی، علاج کیا، کھانا دیتے رہے، اس وقت اگر ظالم باغیوں کو ذرا بھی خبر ہو جاتی تو آپ کے قتل اور خانماں بربادی میں مطلق دیر نہ لگتی۔ (الحیات بعد الممات ص۱۲۷)
مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی اس بارہ میں رقمطراز ہیں:۔
“غدر  ۱۸۵۷ء میں کسی اہل حدیث نے گونمنٹ کی مخالفت نہیں کی ( کیوں کرتے اس کے وفادار اور جان نثار جو تھے) بلکہ پیشوا یان اہل حدیث نے عین اس طوفان بے تمیزی میں ایک زخمی یورپین لیڈی کی جان بچائی اور عرصہ کئی مہینے تک اس کا علاج معالجہ  کر کے تندرست ہونے کے بعد سرکاری کیمپ میں پہنچا دی”۔(اشاعت السنۃ صفحہ۲۶ شمارہ ۹ جلد ۸)
مولوی فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:۔
“ڈاکٹر حافظ مولوی نذیر احمد صاحب (جو کہ میاں صاحب کے قریبی رشتہ دور ہیں) فرماتے  تھے کہ زمانہ غدر میں مسزلیسنس زخمی میم کو جس وقت میاں (نذیر حسین صاحب) نے نیم جان دیکھا تو (زار وقطار) روئے اور اہنے مکان میں اٹھالائے، اپنی اہلیہ اور عورتوں کو ان کی خدمت کیلئے نہایت تا کید کی ۔ ۔ ۔ اس وقت اگر باغیوں (مسلمانوں) کو ذرا بھی خبر  لگ جاتی تو آپ کی بلکہ سارے خاندان کی جان بھی جاتی اور خانماں بربادی میں بھی کچھ دیر نہ لگتی۔۔۔ امن قائم ہونے کے بعد میم  کو انگریزی کیمپ میں پہنچا یا، جس کے نتیجہ میں آپ کو اور آپ کے متو سلین کو گونمنٹ انگریزی کی طرف سے امن و امان کی چھٹی ملی چنانچہ انگریزوں کے تسلط کے بعد جب سارا شہر غارت کیا جانے لگا تو صرف آپ کا محلہّ آپ کی (انگریزی خدمات) کی بدولت محفوظ رہا”۔
(الحیات بعد الممات ص۲۷۶-۲۷۵ سوانح میاں نذیر حسین دہلوی)
ناظرین کرام !
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ایک زخمی نیم جان میم کو دیکھ کر تو میاں صاحب کے دل میں ہمدردی، خیر خواہی اور غم خواری کا دریا موجزن ہوتا ہے، میاں صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگتا ہے اور میاں صاحب اس زخمی میم کو اٹھوا کر گھر لے جاتے ہیں، اس کا علاج معالجہ  کرتے ہیں اور اس پر خصوصی نوازشات کی بارش برساتے ہیں، اب تصویر لا دوسرا رخ ملاحظہ فرمایئے۔
میاں صاحب کے سامنے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاذ توڑے جاتے ہیں، وحشت و بربریت کے رکارڈ قائم کئے جاتے ہیں، عورتوں کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں، ان کے پستان کاٹے جا رہے ہیں، بوڑھوں اور بچوں  کو ٹھوکروں سے پامال کیا جاتا ہے  مسلمانوں کی لاشیں درختوں کی شخوں سے لٹکائی جا رہی ہیں اور میاں صاحب کئی دن تک نیم جان عورتوں،زخمی مردوں اور کٹے پھٹے اعضاء والے بچوں کو دیکھتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں سے ایک آنسو تک نہیں ٹپکتا، مسلمان عورتوں کے گھاؤ دیکھ کت ان کا دل ذرہ بھر پگھلتا اور بوڑوں کو نا گفتہ بہ حالت  میں دیکھ کر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک انگریز خاتون کے لئے تو میاں صاحب کے دل میں ہمدردی کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور خیر خواہی اور غم خواری کے سوتے بہنے لگتے ہیں مسلمانوں کے لئے چشمے خشک اور یہ سوتے بند ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے ایک آنسو بہانے کی تو فیق نہیں ہوتی، آخر کیوں؟ کس لئے؟ کس بناء پر؟
بسخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجییت
میاں صاحب کو انگریز سرکار نے اپنی وفاداری کے سلسلہ میں نمایاں خدمات انجام دینے اور مجاہدین  ۱۸۵۷ء سے غداری کے صلہ میں اپنی وفاداری اور خوشنودی کے سرٹفیکیٹ عطا کئے اور تیرہ صد روپے نقد انعام دیا اور شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا، اب احقر ذیل میں خوشنودی کے سرٹفیکیٹ کے تراجم پیش کرتا ہے۔ (ترجمہ سرٹیفکیٹ وفاداری  و خوشنودی از جناب جی ڈبلیو جی  وائر فیلڈ صاحب بہادر قائم مقام کمشنر سابق دہلی، سومولوی نذیر حسین اور اس کے پسر مولوی شریف حسین صاحب نے مع دیگر مرحوم خاندان کے مسٹر لیسنس کی میم کی غدر میں جان بچائی تھی، اس وقت  میں یہ اس کو اپنے گھر لے  گئے تھے جس وقت وہ زخمی پڑی تھیں، اپنے مکان میں ساڈھے تین مہینے تک رکھا آخر سرکاری کیمپ میں پہنچایا۔ ۔ ۔ ان کو دو سو روپیہ ایک مرتبہ اور چار صد روپیہ ایک مرتبہ انعام ملا اور سات صد روپیہ  بوجہ گرنے مکانات کے ملا پس یہ خاندان قابل لحاظ و مہربانی کے ہے۔)
(دستخط ڈبلیو جی وائر فیلڈ قائم مقام کمشنر  رسالہ اشاعت السنہ ص۲۹۳ شمارہ ۱۰ جلد ۸ الحیات بعد الممات ص۱۳۳-۱۳۲)
(ترجمہ) سرٹفکیٹ وفاداری ازجے ڈی ٹریملٹ بنگال سروس کمشنر دہلی کا سپر نٹنڈنٹ۔
“مولوی نذیر حسین دہلوی کے ایک بڑے مقتدر عالم ہیں جنہوں نے مشکل اور نازک وقتوں میں اپنی وفاداری اور نمک حلالی گونمنٹ برطانیہ پر ثابت کی ہے۔ اب وہ اپنے فرض زیارت کعبہ کے ادا کتنے کو جاتے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ جس کسی افسر برٹش گورنمنٹ کی وہ مدد چاہیں گے وہ ان کو مددے گا کیونکہ وہ کامل طور سے اس مدد کے مستحق ہیں۔ دسخط جی ڈی ٹریملٹ بنگال سروس کمشنر دہلی ۱۰ اگست  ۱۸۵۷ء اشاعت السنہ صفحہ ۲۹۴ شمارہ۱۰، ج۸، الحیات بعد الممات صفحہ ۱۴۰ مطبوعہ کراچی۔
میاں صاحب کا انگریز خدمات کے صلہ
میں شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز ہونا
میاں صاحب کے سوانح نگار مولوی فضل حسین بہاری لکھتے  ہیں “چنانچہ جب شمس العلماء کا خطاب گورنمنٹ انگلشیہ سے (نمک حلالی اور وفاداری  اور مسلمانوں سے غداری کے صلہ میں آپ کو ملا اور اس کا تذکرہکوئی آپ کے سامنے کرتا تو آپ فرتے کہ:
میاں ! خطاب سے کیا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ دنیاوی خطاب سلاطین سے ملا کرتا ہے یہ گو یا ان کی خوشنودی کا اظہار ہے۔ مجھے تو کوئی نذیر کہے تو کیا اور شمس العلماء کہے تو کیا میں نہایت خوش ہوں۔ (الحیات بعد المماۃ صفحہ٤)
اس سے ثابت ہوا کہ انگریز سرکار نے اپنی خوشنودی کے اظہار کی بناء پر میاں صاحب کوشمس العلماء کے خطاب سے نوازا تھا،اور میاں صاحب اس خطاب سے بہت خوش تھے اور اسکو اپنے لئے موجب فخر اور باعث سعادت تصور کرتے تھے۔
میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے
زمانہ میں عام غیرمقلدین کا گھناؤنا کردار
دلائل و براہین کی روشنی میں یہ حقیقت واضع اور آشکار ا ہو چکی ہے کہ غیرمقلدین نے انگریز کے تسلط کے بعد ہند میں جنم لیا۔انگریزی حکومت کے زیر سایہ پروان  چڑھے، اس کے ظل عاطفت میں نشو نما پائی اور انگریز کے اشارہ سے غیرمقلدین مسلمانوں میں اختلاف و افتراق کی خلیج کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں کوشاں ہوئے اور اس سلسلہ میں ہر ممکن مساعی بروئے کار لائے، معمولی فروعی مسائل کو اچھال کر مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا بالخصوص میاں صاحب کے زمانہ میں غیرمقلدین کے خلاف جو اشتہار بازی کرتے اس میں نہایت عامیانہ، سو قیانہ اور  بازاری زبان استعمال کی جاتی ،انہوں نے فقہی اختلافات کو کفر و اسلام کا معرکہ بنا دیا، غیرمقلدین کا احناف سے بغض و عناداس اس درجہ  بڑھ گیا کہ اس نے اخلاقی اور انسانی حدود کو بھی پامال اور مجروح کر دیا۔
حضرت مولانا سید عبدالحئی صاحب سابق ناظم ندوۃ العلماء نے آج سے تقریباً ۷۵ سال  پیشتر دہلی اور اس کے اطراف کا سفر کیا تھا، اپنے سفر نامہ میں انہوں نے ایک نہایت عبرت ناک بلکہ شرمناک واقعہ تحریر کیا ہے جس کو پڑھ کر غیرمقلدین کے اخلاقی زوال، ذہنی انتشار، روحانی خلفشار،مذہبی دیوالیہ پن، شعور کے فقدان اور شرم و حیا کے انعدام کی دردناک تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔
غیرمقلدین کے دلوں میں احناف کے خلاف تعصب کا جوزہر بھرا ہوا تھا اور  بھرا ہوا ہے اس واقعہ سے اس کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے، یہ واقعہ مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے لکھتے ہیں:۔
“یہ واقعہ مولوی عبدالعلی صاحب نے بیان کیا کہ سبزی منڈی یہاں سے بہت قریب ہے،اس محلہ میں ایک مولوی صاحب آکر رہا کرتے تھے وہ غیرمقلد تھے، میاں صاحب (مولانا سید نذیر حسین) کے مدرسعین رہتے تھے وہاں کرایہ کا ایک مکان تھا، اس میں ایک بیوی صاحبہ بھی تھیں، اس محلہ میں ایک کبیر سن (بوڑھے) میاں جی رہتے تھے وہ پابند اوقات تھے، محلہ کے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے۔ایک دن ایک بڑھیا نے اس سے آکر کہا کہ مولوی صاحب کی بیوی نے آپ کو بلایا ہے، ذری کی ذری سن جایئے۔
میاں جی صاحب گئے، پردہ کے پاس بیوی صاحبہ نے آ کر کہا کہ آپ با خدا آدمی ہیں  ۔ مجھ کو اللہ اس ظالم کے پنجہ سے چھڑا دیجئے۔ انہوں نے کہا خیر ہے؟ اس نے کہا خیر کہاں، شر ہے۔
“یہ میرا پیر ہے، میں اس کی مرید ، میرے خاوند موجود ہے دھوکہ سے مجھ کو نکال لایا ہے، میاں جی صاحب کو سن کر نہایت  ہی تعجب ہوا اور واقعی تعجب کی بات ہے میں نے یہاں تک جب قصہ سنا تو مجھ کو عجیب حیرت ہوئی۔
مولوی صاحب فرمانے لگے میاں جی نے اس کی تسلی و تشفی کی، اس کے بعد چلے آئے لیکن موقعہ کے منتظر رہے۔
ایک دن مولوی صاحب نے خلوت میں کہا کہ  مجھ کو تنہائی میں آپ سے ایک راز کہنا ہے۔ بشرطیکہ وہ کسی پر ظاہر نہ ہونے پائے۔ آپ تک رہے، انہوں نے کہا فرمایئے۔
میاں جی صاحب نے کہا کہ میں بھی آپ کا ہم مذہب ہوں مگر حضرت کیا کیجیئے اس محلہ کے لوگ ایسے سخت ہیں، آپ جانتے ہیں کہ لوگ آدمی مار ڈالتے ہیں اور کسی  کو کانوں کان  خبر نہیں ہوتی۔
اگر میں اظہار کروں تو خدا جانے میری کیا حالت ہو، مولوی صاحب  نے کہا خیر یہ بہت مناسب ہے،آپ  اپنا مطلب کہیے، انہوں نے کہا اصل یہ ہے کہ اس محلہ میں ایک عورت سے مجھ کو کمال درجہ الفت ہے لیکن اس کا خاوند موجود ہے، میں چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ وہ میرے قابو آجائے اور شریعت میں بھی جائز ہو۔
انہوں  نے کہا یہ کوئی دشوار امر نہیں۔
یہ لوگ یعنی حنفی المذہب مستحل الدم ہیں (ان کا خون بہانہ جائز ہے) ان کا مال غنیمت ہے۔ ان کی بیویاں ہمارے واسطے جائز ہیں۔ آپ قابو میں لا سکتے ہو تو شوق سے لایئے۔
انہوں نے کہا  بس مجھ کو یہی چاہیے تھا اور وہاں سے چلے آئے، دوسرے وقت محلہ کے عمائد سے یہ قصہ بیان کیا اور یہ شرط کر لی کہ ان کو جان سے نہ ماریں۔
ان لوگوں نے اس عورت کے خاوند کو بلا بھیجا۔ جب مولوی صاحب نماز کے  وسطے آگے بڑھے تو ایک شخص نے نہایت ورشتی کے ساتھ ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور نہایت ہی مرمت کی اور خاوند اپنی  جورہ کو لے کر چلا گیا۔(دہلی اور اس کے اطراف ص ٥٩-۶۰)
کوئی حد ہے؟ احناف سے بغض و عناد کی، اتنا تعصب و تشدد خدا کی پناہ، احناف کو مستحل الدم اور ان کی بیویوں کو اپنے لئے حلال قرار دینے والے  میاں صاحب کے خصوصی شاگرد تھے، اس زمانہ میں غیرمقلدین نے مسجدوں کو تکفیر و تفسیق کا اکھاڑہ بنا دیا۔ مقلدین پر گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی۔ ان کو سب و شتم کا ہدف بنایا جاتا۔آئمہ مجتہدین کو برے القاب سے یاد کیا جاتا۔
غیرمقلدین رات کے وقت مقلدین کی مسجدوں میں غلاظتین اور گوشت کے سڑے ہوئے ٹکڑے اور دوسری ناپاک اشیاء پھینک جاتے اور اس کو اسلام کی خدمت ظاہر کرتے جو در حقیقت اسلام کی نہیں انگریز کی خدمت تھی۔
مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم اس سفرنامہ میں دہلی کی جامع مسجد میں ایک غیرمقلد مولوی صاحب کی بد زبانی اور دریدہ ذہنی کا حال بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔
“دوپہر کو کھانا کھانے کے بعد جامع مسجد نماز کے واسطے گیا نماز کے بعد جابجا وعظ ہونے لگا”
 منبر پر مولوی محمد اکبر و عظ کہتے ہیں، یہ بزرگ حنفیوں کا خوب خاکہ اڑاتے ہیں، دل کھول کر تبرا کرتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہدایہ پڑھنے سے توبہ کی ہے۔
فرماتے  تھے کہ آج کوئی ہے جس نے ہدایہ پڑھانے سے توبہ کرکے کلام مجید کی تعلیم شروع کی ہو۔
سب جہنم میں جائیں گے اور ہر ہر بات پر اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں، ہر آیت کو دہلی اور  اپنے اوپر اتارتے ہیں۔
اہل دہلی کو ظالمین و مشرکین سے ملاتے ہیں، (دہلی اور اس کے اطراف ص ۶۸ تا ۶۹)
نواب صدیق حسن  خان صاحب کے کارنامے
نواب صدیق حسن خان صاحب فرقہ غیرمقلدین کے بہت بڑے  پیشوا اور امام ہیں، غیرمقلدین میں ان کو مرکزی اور بنیادی شخصیت قرار یا جاتا ہے، غیرمقلدین ان کو امام السنہ خاتم المحدثین اور مجدد ہند کے لقب سے ملقب کرتے ہیں بعض لحاظ سے ان کو “شیخ الکل فی الکل” پر بھی  فقیت اور برتری حاصل ہے، نواب صاحب ۱۴ اکتوبر بروز یکشنبہ ۱۸۹۰ء کو بانس بریلی میں پیدا ہوئے اور ۲۹ جمادی الثانی ۱۳۰۷ھ مطابق ۲۰ فروری ۱۸۹۰ء کو فوت ہوئے۔ (مآثر صدیقی جلد ۳ ص۲۰۰)
نواب  صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد اور انگریز:
نواب صاحب نے انگریز کی خوشنودی اور  رضا  حاصل کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے، مجاہدین ۱۸۵۷ء کی طرف گالیوں کی توپ کا دھانہ موڑ دیا، ان پر  لعن طعن کی بو چھاڑ کی، ان کو ظالم، غاصب، فتنہ پرور، شریر، مفسد، نادان ، عہد شکن، جاہل، اتباع اسلام سے منحرف، گناہ گبیرہ کے مرتکب، بلکہ ایمان سے دور اور خسر الدنیا والآخرہ کا مصداق قرا دیا۔
مجاہدین ۱۸۵۷ء کے بارہ میں نواب صاحب کے خیالات و افکار تفصیلات نقل کرنے سے پیشتر انگریزی حکومت کے بارے میں نواب صاحب کی رائے عالیہ پیش کی جاتی ہے۔
انگریز کی اطاعت غیرمقلدین کے نزدیک سب واجبوں سے بڑا واجب ہے۔
نواب صاحب لکھتے ہیں :
“اور حاکموں کی اطارت اور رئیسوں کا انقیاد ان کی ملت میں( غیرمقلدوں کی مذہب میں) سب واجبوں سے بڑا واجب ہے”۔ (ترجمان وہابیہ ص۲۹)
ناظرین با تمکین !
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ نواب صاحب کیا لا جواب بات  فرماگئے ہیں کہ ظالم، کافر اور  دین اسلام کے سب سے بڑے دشمن انگریز کی حکومت کی اطاعت سب فرائض سے بڑھ کر واجب  اور ضروری ہے، گویا تو حید و رسالت کے معاد وغیرہ کے اقرار اور نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ فرائض سے بھی بڑھ کر یہ فرض ہے کہ انگریز ی حکومت کی اطاعت کی جائے تو جو لوگ انگریز کی اطاعت فرض نہیں گر دانتے وہ سب سے بڑے فرض کے منکر اور سب سے بڑے واجب سے انکاری ہونے کی وجہ سے دائرہ ایمان سے خارج ہیں۔ (فوااسفٰی)
انگریز کے خلاف جہاد کرنا سخت نادانی اور حماقت ہے:
نواب صاحب لکھتے ہیں:
“پس فکر کرنا ان لوگوں کا جواپنے حکم مذہبی سے جاہل ہیں اس امر میں کہ حکومت برٹش مٹ جائے اور یہ امن  و امان جو آج حاصل ہے فساد کے پردہ میں جہاد کا نام لے کر اٹھا دیا جائے سخت نادانی اور بےوقوفی  کی بات ہے”۔ ( ترجمان وہابیہ ص۷)
سرکار انگریز کی مخلفت قطعا نا جائز ہے
نواب صاحب رقمطراز ہیں:
“اور کسی شخص کو حیثیت موجودہ پر ہندستان کے دارالاسلام ہونے میں شک نہیں کرنا چاہیے”۔ (ترجمان وہابیہ ص۴۸)
کوئی فرقہ انگریز کی خیر خواہی اور
وفاداری میں غیرمقلدین سے بڑھ کر نہیں
کوئی فرقہ ہماری تحقیق میں زیادہ تر خیر خواہ اور طالب امن و امن و آسائش رعایا کا اور قدر شناس اس بندوبست گورنمنٹ کا اس گروہ (غیرمقلدین) سے  نہیں ہے۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۱۴)
 ۱۸۵۷ء میں جس وقت مقلدین احناف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اور انگریز مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم، جو رو جفا اور تشدد بربریت کا تخۃ مشق بنائے ہوئے تھے۔ ان  دنوں نواب صاحب کی فوجین ۴ سال تک انگریز کی چھاؤنی میں انگریزی افواج کے دوش بدوش مسلمانوں کے مقابلہ میں ڈٹی رہیں اور نواب صاحب نے اپنی اس وفاداری کے صلہ میں انگریز سے کافی روپیہ اور جائیداد حاصل کی، چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں۔
“حلانکہ جو  خیر خواہی ریاست بھوپال و غیرہ نے اس زمانہ میں کی ہے، وہ گورنمنٹ برطانیہ پر ظاہر ہے۔ ساگر و جھانسی تک سرکار انگریزی کو مددغلہ و فوج وغیرہ سے دی، جس کے عوض میں سرکار نے گنہ “بیرسیہ” جمع ایک لاکھ روپیہ عنایت فرمایا۔
چار برس ہوئے جب اشتہار جنگ کابل اجنٹی سے بھوپال میں آیا۔ اسی دن سے نواب شاہ جہان بیگم صاحبہ والی ریاست نے طرح طرح کے عمدہ  بندوبست کئے۔ اشتہار عام جاری کیا کہ کوئی مسافر ترکی ، عربی (جس پر انگریز کی مخالفت کا ذرہ بھی شبہ ہو) شہر میں ٹھہرنے نہ پائے چنانچہ اب تک یہی حکم جاری ہے (حد ہو گئی انگریز پرستی کی) اور اس کی تعمیل ہوتی ہے سرکار گورنمنٹ میں خط لکھا کہ فوج کنجنٹ اور فوج بھوپال واسطے مدد (انگریز کے مسلمانوں کے خلاف) حاضر ہے اور ریاست سپاہ و مال سے واسطے مدد ہی (انگریز کے) موجود ہے مدت تک فوج بھوپال اس چار سال میں اندر نوکری گورنمنٹ کی چھاؤنی سیور میں عرض کنجنٹ کے بجالائی اور خاص میں  نے اور بیگم صاحبہ نے واسطے جنگ کابل کے چندہ دیا۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۱۴-۱۱۳)
غیرمقلدین اور مجاہدین ۱۸۵۷ء:
ذیل میں احقر نواب صاحب کی مشہور کتاب ترجمان وہابیہ سے مجاہدین ۱۸۵۷ء کے  بارے میں نواب صاحب کے خیالات پیش کرتا ہے جن سے ناظرین بخوبی جان سکیں گے کہ نواب صاحب مجاہدین ۱۸۵۷ء کے بارہ میں کیا نظریات رکھتے تھے، ان کے دل میں مجاہدین کے خلاف بغض و عنا کی آگ کس قدر شعلہ زن تھی اور یہ مجاہدین کے حریت سے کس درجہ بیزار اور نفور اور انگریز کی محبت کے نشہ میں کس قدر مست اور چور تھے اور یہ سب کچھ انگریز کی خوشنودی اور دنیاوی مفادات و مراعات کے حصول کے لئے تھا مگر شومی قسمت کہ اتنے پاپڑ بیلنے کے باوجود نواب صاحب کی نوابی پھر بھی محفوظ  نہ رہ سکی۔
نواب صاحب کی نظر پر قہر میں مجاہدین ۱۸۵۷ء ایمان
سے دور عہد شکن بے وفا اور شیوہ ایمان سے دور تھے
غدر کے وقت جب لچکر سرکار انگلشیہ کا باغی ہوا اور ظلم و تعدی جو ان سے بنا سب کچھ کیا اس وقت رؤ سا ہند جن کو قپنے عہد و قرار کا خیال تھا وہ اپنے اقرار رہے اور عہد شکن اور بیوفائی سے بر سرکنار (رہے) اور جس نے ان کے خلاف کیا وہ صرف  حاکموں کے نزدیک ہی برا نہیں ٹھہرے بلکہ شیوہ ایمان اور طریقہ ایمان سے دور اور عہد شکن  اور بیوفا اپنے دین میں بھی اور مرتکب بڑے گناہ کا سمجھا گیا۔ غرض دونوں جہاں کے منقصان میں گرفتار ہوا۔ (ترجمان وہابیہ ص۵۴)
مجاہدین جنگ آزادی نادان ظالم اور غاصب تھے خلوص نیت وپا کی طینت
سے عاری تھے، اتباع اسلام سے منحرف اوور انصآف واجبی سے رو گرداں تھے
“چنانچہ غدر میں جو چند لوگ ناداں عوام فتنہ و فساد پر آمادہ ہو کر جہاد کا جھوٹ موٹ نام لینے لگے اور عورتوں اور بچوں کو ظالم و تعدی سے مارنے لگے اور لوٹ مار پر ہاتھ دراز کیا اور اموال رعایا اور پرایا پر غصباً قابض و متصرف ہوئے انہوں نے خطائے فاحش کی اور قصور ظاہر۔
ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی جماعت اور لشکر میں خلوص نیت اور انصاف واجبی اور تبعیت مذہب اسلام ہو”۔
(ترجمان وہابیہ ص ۲۴)
۱۸۵۷ء کا جہاد شرعی نہ تھا:
 جو لڑائیاں غدر میں واقع  ہوئیں وہ ہر گز شرعی جہاد نہ تھیں اوور کیونکہ وہ شرعی جہاد ہو سکتا ہے کہ جو امن و امان خلائق کا اور ر احت ورفاہ مخلوق کا حکومت انگلشیہ سے زمین ہند پر قائم تھا اس میں بڑا خلل واقع ہو گیا۔ یہاں تک کہ بوجہ بے اعتباری رعا یا نوکری کا ملنا محال ہو گیا اور  جان و مال و آبرو کا بچانا محال ہو گیا۔ (ترجمان وہابیہ ص۳۴)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:۔
“یہ بغاوت جو ہندستان میں بزمانہ غدر ہوئی اس کا نام جہاد رکھنا ان لوگوں کام ہے جو اصل  اصل دین سے آگاہ نہیں اور ملک میں فساد ڈالنا اور امن و امان اٹھانا چاہتے ہیں ”۔ (ترجمان وہابیہ ص۱۰۷)
مجاہدین جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سب کے سب مقلدانِ مذہب حنفی تھے:
نواب صاحب لکھتے ہیں کہ:
“کسی نے نہ سنا ہو گا کہ آج تک کوئی موحد، متبع سنت، حدیث و قرآن پر چلنے والا بیوفائی اور اقرار توڑنے کا مرتکب ہوا ہو۔ یا فتنہ انگیزی اور بغاوت پر آمادہ ہوا ہو اور جتنے لوگوں نے غد میں شروفساد کیا اور حکام انگلشیہ سے برسرعناد ہوئی وہ سب کے سب مقلدان مذہب حنفی تھے نہ متبعان سنت نبوی (غیرمقلد) (ترجمان وہابیہ ص۲۵)
نواب صاحب کی مذکورہ تحریر سے جہاں  مجاہدین ۱۸۵۷ء کے بارے میں نواب صاحب کے خیالات و نظریات معلوم ہوئے وہاں یہ حقیقت بھی پوری طرح کھل کر سامنے آگئی کہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں کسی غیرمقلد نے قطعا کوئی حصہ نہیں لیا، ان میں سے کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی، ان میں سے کسی کے پاؤں میں کانٹا تک نہیں چبھا۔
الحمدللہ ژم الحمدللہ یہ احناف کثر اللہ سوادھم ہی تھے جنہوں نے اپنی عظیم سابقہ روایات  اور قابل فخر کردار کے پیش نظر انگریز جیسے ظالم و جابر اور مکار و عیار حکمران سے نجات حاصل کرنے کے لئے جرات و بہادری کے حیرت انگیز، تعجب خیز اور محیر العقول کار نامے انجام دیئے، انگریز کے ظالمانہ پنجہ سے رستگاری کے لئے بے خطر جنگ کی آگ میں کود پڑے اور پروانہ وار اپنی جانیں نچھار کیں اور تاریخ کے اوراق پر شجاعت تہور کی ایسی درخشندہ تابندہ داستانیں رقم کیں جو تا قیامت جگمگاتی رہیں گی۔
این سعادت بزور باز و نیست                                                تانہ بخشد خدائے بخشذہ
یہ چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ خوں دینے والے نہیں یہ شرف ان کی قسمت میں کہاں
اسرار محبت راہر دل نبود قابل                          درنیست بہر دریا زر نیست بہر  کانے
غیرمقلدین اور مجاہدین ہزارہ:
نواب صاحب نے جس طرح انگریز  کی خوشنودی حاصل کرنے، اس کا حق نمک ادا کرنے اور اس سے مراعات کے حصول کی غرض سے مجاہدین ۱۸۵۷ء پر سب و شتم کی بو چھاڑ کی، ان کو ظالم، غاصب فتنہ پر داز، عہد شکن، جاہل اور ایمان سے دور اور خسر الدنیا والاٍٍ خرہ کا مصداق قرار دیا ہے وہاں مجاہدینِ بالاکوٹ کو بھی نہیں بخشا، انگریز کی وفاداری اور نمک حلالی نے نواب صاحب کو مجبور کیا کہ وہ مجاہدین ہزارہ کو بھی اپنے ظلم و ستم کا ہدف بنائیں۔ ان کو فسادی، شریر و غیرہ قرار دیں اور لوگوں کو ان سے متنفر اور بیزار کرنے کے لئے ان پر خود ساختہ الزامات اور جھوٹے بہتانات عائد کریں۔
مجاہدین بالاکوٹ کون تھے:
مجاہدین ہزارہ جو حضرت الامام السید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمھم اللہ کی زیر قیادت اعلاء کلمۃ اللہ، قرآن و حدیث کی تبلیغ و اشاعت سنن، کے احیاء بدعات کے استیصال، جاہلانہ رسوم کے مٹانے اور کمزوروں کی امدادو اعانت کے سلسلہ میں سر بکف میدان میں اترے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلہ میں ایسی عظیم الشان اور فقید المثال خدمات انجام دیں جو تاریخ اسلام کے اوراق پر آفتاب نصف النہار کی طرح درخشاں و تاباں ہیں۔
یہ کون لوگ تھے؟ بدعات و محدثات سے دور، شرک سے کنارہ کش اور نفور، جذبہ جہاد سے سرشار ، متقی و عبادت گزار، باعمل و با کردار، مخلص و جاں سپار، سرفروش و پا کباز پر جوش، فدا کار سراپا للّٰہیت اور دیانت دار افراد کا ایک ایسا کارواں جو صحابہ کرام سے بچھڑا ہوا قافلہ معلوم ہوتاتھا، حضرت سید احمد شہید کی زیر قیادت اس مخلص و پاکباز اور  باعمل اور  با کردار جماعت نے اپنے اوطان کو خیر باد کہا، اہ و عیال کو چھوڑا۔ گھر سے بے گھر ہوئے، سفر جہاد کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے اور میدان جہاد کے روح فرسا مصائب اور جانگداز  تکالیف کشادہ جبینی سے سہتے  ہوئے اسلام کی آن پر قربان ہو گئے۔
مجاہدین بالاکوٹ کی ان عظیم الشان، گر انقدر اور لا فانی ملی، مذہبی و قومی خدمات کی وجہ سے ان کو ہر ذی شعور مسلمان نے خراج عقیدت پیش کیا ہے، ہر ذی فہم اور دردمند مسلمان کے قلب میں ان کے لئے جذبات محبت کا  دریا مو جزن ہے۔
لیکن اس کے برعکس ان پاکباز و متقی نفوس کے بارے میں غیرمقلدین کے خیالات و جذبات ملاحظہ فرما کر بحر حیرت میں غوطہ زن ہوں۔
مجاہدین بالاکوٹ شریر اور فسادی تھے:
نواب صاحب ترجمان وہابیہ میں لکھتے ہیں:
“گورنمنٹ ہند کے دیگر فریق اسلام نے یہ دل نشین کر دیا ہے کہ فرقہ موحدین ہند (غیرمقلدین ) مثل وہابیان ملک ہزارہ ایک بد خواہ فرقہ ہے اور  نیز یہ لوگ ویسے ہی دشمن و فسادی ملک گورنمنٹ برٹش ہند کے ہیں جیسے کہ دیگر شریر اقوام سرحدی بمقابلہ حکومت ہند شرارت سوچا کرتے ہیں۔
(ترجمان وہابیہ ص۶۱)
مجاہدین بالاکوٹ سے نفرت تقاضائے ایمانی ہے:
سی کتاب میں دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
“چنانچہ لیفٹنینٹ گورنر صاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کو منظور کیا اور پھر ایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدین ہند (غیرمقلدین) پر شوبہ بد خواہی گورنمنٹ ہند کے خیر خواہ ہوں ایسے موحدین مخاطب یہ وہابی نہ ہوں۔ (ترجمان وہابیہ ص۶۲)
نا ظرین کرام ! نواب صاحب کے کارنامے ملاحظہ فرمانے کے بعد اب آپ غیرمقلدین کے ایک بہت بڑے عالم اور وکیل اعظم مولانا بٹالوی کی انگریز سرکار کی خدمت کی تفصیلات پڑھ کر محو حیرت ہوں۔
مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی
بٹالوی صاحب قبیلہ غیرمقلدین کی ایک نہایت نمایاں، اہم اور عظیم شخصیت ہیں، انہوں نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ کے ذریعہ غیرمقلدین اور انگریز کی بے حد خدمت کی، انگریز کی وفاداری اور نمک حلالی میں نواب صاحب اور میاں صاحب سے بھی ایک گونا سبقت لے گئے بلکہ بٹالوی صاحب انگریز کی خوشنودی حاصل کرنے میں مرزا غلام احمد قادیانی سے بھی بڑھ گئے  جو انگریز کا خود کا شتہ پودا تھا، درج ذیل سطور سے یہ حقیقت بخوبی آشکارا ہو گی۔
غیرمقلدین اور منسوخی جہاد:
مشہور محقق و مؤرخ جناب پروفیسر محمد ایوب صاحب قادری اپنی محققانہ تاریخی کتاب جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے ص ۶۴ پر رقم طراز ہیں۔
“مولوی محمد حسین بٹالوی نے سرکار بر طانیہ کی وفاداری میں جہاد کی منسوخی پر ایک مستقل رسالہ“الا قتصادفی مسائل الجہاد” لکھا۔ انگریزی اور عربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، یہ رسالہ، سر چار لس ایچی سن اور سر جمیس لائل  گورنر ان پنجاب کے نام معنون کیا گیا، مولوی محمد حسین نے اپنی جماعت کے علماء سے رائے لینے کے بع ۱۲۹۶ھ میں یہ رسالہ اشاعت السنہ کی جلد دوم شمارہ گیارہ میں بطور صمیہ شائع کیا۔ پھر  مزید مشورہ و تحقیق کے بعد ۱۳۰۶ھ میں باضابطہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔
جہاد کی منسوخی پر رسا لہ لکھنے کی تفصیل بٹالوی صاحب کی زبانی:
جناب بٹالوی صاحب نے اس داستان کی بڑی تفصیل سے مزے لےلے کر بیان کیا ہے، بٹالوی صاحب اپنے اس کارنامہ پر فخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اس قوم (غیرمقدین) کا وکیل سرکار رسالہ اشاعۃ عرصہ ساتھ سال سے اپنے متعدد پر چوں میں گورنمنٹ کی خیر خواہی کے مضامین شائع کر رہا ہے جن میں اصول مذہب اسلام سے وہ ثابت  کرتا ہے کہ برٹش گورنمنٹ سے  مسلمانان ہند کو لڑنا اور اس کے  مخالفوں کو مدد ینا جائز نہیں۔
ان مضامین  ہفت سالہ کی فہررست جرنل انجمن پنجاب کا اعزاز نامہ متضمن شکریہ بھی ایڈیٹر کے نام صادر ہو چکا ہے۔
اس قوم کے خادم (محمد حسین بٹالوی) نے اس مضمون میں کہ “ برٹش گورنمنٹ سے کسی مسلمان ہند کو جہاد جائز نہیں” (چہ جائے کہ فساد) ایک خاص “ رسالہ الاقتصادفی مسائل الجہاد” تالیف کیا ہے جس کو ایک یورپ کے جینٹل مین فاضل جی۔ ڈبلیو ڈاکڑ لیز ر بہادر بانی مبانی یونیورسٹی پنجاب اور پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ (اشاعت السنہ ص ۲۶۱ شمارہ ۹ جلد ۸)
بٹالوی صاحب کا اپنے  اس رسالہ کو مرزا  غلام احمد
قادیانی کے رسالہ (دربارہ منسوخی جہاد) پر ترجیح دینا
بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
“اگر چہ اس مضمون منسوخی جہاد کے رسائل گورنمنٹ اور ملک کے اور خیر خوہوں (مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ) نے بھی لکھے ہیں۔ لیکن جو ایک خصوصیت اس رسالہ میں  ہے وہ آج تک کسی تالیف میں نہیں پائی جاتی۔
تنسیخ جہاد اور نواب صاحب کی تائید:
مشہور غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحب، بٹالوی صاحب ک اس رسالہ کی پرزور تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“چنانچہ ۱۸۵۷ء میں مولوی محمد حسین سرگودہ موحدین لاہور (غیرمقلدین کے لیڈر اور سردار ) نے بجواب سوال مسئلہ اور اس فتویٰ کے آیا بمقابلہ  گورنمنٹ ہند مسلمانان ہند کو جہاد  کرنا اور اپنی مذہبی تقلید میں ہتھیار اٹھانا چاہئے یا نہیں، یہ جواب دیا ہے اور بیان کیا ہے کہ جہاد جنگ مذہبی بمقابلہ برٹش گورنمنٹ  ہند  یا بمقابلہ اس حاکم کے  کہ جس نے آزادی مذہبی دے رکھی ہے ازروئے شریعت اسلام عموماً خلاف و ممنوع ہے۔
اور وہ لوگ جو بمقابلہ برٹش گورنمنٹ ہند یا کسی ایک بادشاہ کے جس نے آزادی مذہب دی ہے ہتھیار اٹھاتے ہیں اور مذہبی جہاد کرنا چاہتے ہیں کل ایسے لوگ باغی ہیں اور مستحق سزا کے مثل باغیوں کے شمار ہوتے ہیں۔ (ترجمان وہابیہ ص۱۲۰)
“الا قتصاد فی مسائل الجہاد” تمام غیرمقلدین
کی متفقہ اور مصدقہ کتاب ہے
چنانچہ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
“اگرچہ اس مضمون منسوخی جہاد کے رسائل گورنمنٹ اور ملک کے اور خیر خواہوں (مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ) نے بھی لکھے ہیں لیکن جو ایک خصوصیت اس رسالہ میں  ہے   وہ آج تک کی کسی تالیف میں پائی نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ یہ رسالہ صرف مؤلف کا خیال نہیں رہا اس گروہ کے عوام و خواص  نے اس کو پسند کیا اور اس سے آراء کا توفیق ظاہر کیا۔
اس توفیق رائے کو حاصل کرنے کے لئے مؤلف (محمد حسین بٹالوی) نے عظیم آباد سے پٹنہ تک ایک سفر کیا تھا، جس میں لوگوں کو یہ رسالہ سنا کر اتفاق حاصل کیا  اور جہاں  خود نہیں پہنچا وہاں اس رسالہ کی متعد کا پیاں ارسال کرکے توفیق حاصل کیا اور  ۱۸۵۷ء میں بذریعہ ضمیمہ اشاعۃ السنہ اس رسالہ کے اصل مسائل کو مشتہر کر کے لوگوں کو اس پر متفق کیا۔(اشاعۃ السنہ ص۶۲،۲۶۱ شمارہ ۹ جلد ۸)
نواب صاحب اس کی تائید و تشریح میں رقمطراز ہیں
“پھر  مولوی محمد حسین نے اپنے اس دعویٰ اور جواب کی تصدیق میں کل علماءملک پنجاب و اطراف ہند کے پاس اپے فتویٰ جوابی کو بھیج دیا اور اچھی طرح سے مشتہر کیا اور کل علماء ہند و ملک پنجاب سے اس بات کی تصدیق میں اقرار مہری اور دسخطی کر الیا کہ عموماً مسلمانان ہند کو ہتھیار اٹھانا اور جہاد بمقابلہ برٹش گورنمنٹ ہند کرنا خلاف مسئلہ سنت و ایمان موحدین ہے۔
اور نیز کل علماء ملک پنجاب و ہند نے تائید قول مولوی  محمد حسین کو اس فتویٰ میں سچا اور پکا کہا ہے اور سب نے اپنی اپنی رضائے اسلامی ویمانی سے اس فتویٰ کو قبول کیا ہے اور جانا اور مانا ہے کہ:
“بمقابلہ گورنمنٹ ہند فرقہ موحدین (غیرمقلدین)  کو ہتھیار اٹھانا خلاف ایمان و اسلام ہے” (ترجمان وہابیہ ص۱۲۱)
چند قابل غور نکات:
(۱)۔۔۔ بٹالوی صاحب، نواب صاحب اور ان کے ہم عصر تمام اکابرو اصاغر علماء غیرمقلدین نے اسلام کے ایک اہم ترین بنیادی اور اساسی فریضہ (جس کی فرضیت قرآن کریم کے قطعی نصوص اور صحیح صریح مرفوع اور غیر مجروح احادیث سے ثابت ہے) کو محض انگریز کی خوشنودی اور رضاء کے لئے اور اپنے دنیاوی اغراض و مقاصد اور سیاسی مفاد ومراعات حاصل کرنے کے لئے اور انگریز سرکار سے اپنی وفاداری کے سرٹفکیٹ کے حصول کی غرض سے منسوخ قرار دیا حلانکہ قرآن کریم کے صریح اور شریعت مقدسہ کے کسی واضح حکم کو منسوخ کرنے بکہ اس میں ادنی ترمیم کا حق بھی کسی شخص کو حاصل نہیں خواہ وہ کتنے بڑے منصب اور مرتبہ پر فائز ہو۔
شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ غیرمقلدین کے اکابر نے محض انگریز کو خوش کرنے اور اپنے دنیاوی مقاصد کی تحصیل کی غرض سے شریعت مقدسہ کے ایک اہم فریضہ کو منسوخ قرار دینے کی ناپاک جسارت کی۔
(۲)۔۔۔ بٹالوی صاحب نے اپنے اس فتویٰ کو خوب مشتہر کیا اور پنجاب اور اطراف ہند کے غیرمقلد علماء کے  پاس تائید و تصویب اور تصدیق کے لئے بھیجا، اس فرقہ کے سب  علماء بجائے اس کے کہ بٹالوی صاحب کو لعن طعن کرتے اور ان کے اس فعل شنیع پر ان کو ملامت لرتے اور ان کی اس  بیجا جسارت اور مذموم حرکت پر تین حرف بھیجتے اس کے برعکس انہوں نے نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے اس ناپاک فتویٰ کی تائید میں اس پر دستخط کئے، اس پر اپنی مہریں چسپا کیں اور ان کو اس فتویٰ میں سچا اور پکا  اور صادق و صائب قرار دیا اور انگریز کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والوں کو ایمان و اسلام سے خارج بتایا۔
(۳)۔۔۔گویا یہ فتویٰ بٹالوی صاحب کی انفرادی رائے نہیں بلکہ اس دور کے ہندستان کے تمام غیرمقلد علماء کی اجتماعی سوچ کا نتیجہ ہے اور اس یہ رسالہ من حیث الجماعت اس فرقہ کے نظریات  و افکار اور عقائد و خیالات کا آئینہ دار ہے۔
اب ناظرین کرم غیرمقلدین کے ایک اور بڑے عالم کردار کی ہلکی سی جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
مولوی عبدالوہاب ملتانی  کا انگریز کے اشارہ پر امامت کا دعویٰ کرنا
مولوی عبدالوہاب صاحب ملتانی امام جماعت غرباء اہلحدیث غیرمقلدین کے ممتاز عالم دین ہیں، سید نذیر  حسین دہلوی کے شاگردوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں انہوں نے ۱۹۱۱ء میں امامت کا دعوی کیا، اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے اس ادعاء میں کونسا بھید مضمر اور کونسا از پہناں تھا، غیرمقلدین کے مشہور عالم موی محمد مبارک استاد اسلامیات بنی باغ ضیاء الدین میموریل گورنمنٹ کالج کراچی (شاگرد رشید مولوی عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی) اس راز سے نقاب سرکاتے ہیں، مولانا موصوف   مولانا عبدالوہاب صاحب ملتانی کی امامت کے دعویٰ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
امامت کے دعویٰ کے مقاصد مندجہ ذیل تھے۔
۱۔۔۔تحریک مجاہدین کو نقصان  پہنچاؤ جس سے انگریز خوش ہو۔
۲۔۔۔جماعت میں انتشار۔
۳۔۔۔ خود کو نمایاں حثیت سے پیش کرنا۔
کیونکہ شیخ الکل کے دوسرے تلامذہ کے مقابلہ میں بالکل صفر  تھے اور دوسرے تلامذہ میں جو صلاحتین پائی جاتی تھیں ان سے یہ عاری تھے۔ لہذا  امامت کا دعویٰ کیا
 (علماء احناف اور تحریک مجاہدین ملخصاص ۵۱،۵۲)
ایں خانہ ہمہ آفتاب است
مسلمانوں میں انتشارو خلفشار، افتراق و اختلاف اور تشتت ولا مرکزیت پیدا کرکے ان کی قوتوں کو مضحمل کرنا، ان کو آپس میں لڑا کر انگریز کی حکومت کو مستحکم و مضبوط کرنا چونکہ فرقہ غیرمقلدین کا بنیادی مقصد تھا اس لئے اس مقصد کی تکمیل کے لئے ان کے اکابر نے ایک دوسرے سے گوئے سبقت لے جانے کی کوشش کی، عبدالوہاب ملتانی کا ادعائے امامت بھی اس سلسلہ  کی ایک کڑی ہے۔
غیرمقلدین کی انگریز سے وفاداری و خیر خواہی
اور اسلامی حکومت پر ترجیح کی ایک قوی اور روشن دلیل
بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
“اس گروہ اہل حدیث کے خیر خواہ و فادار رعایا برٹش گورنمنٹ ہونے پر ایک بڑی روشن اور قوی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ برٹش گورنمنٹ کے زیر حمایت رہنے  کو اسلامی سلطنتوں کے زیر سایہ رہنے سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس امر کو اپنے قومی وکیل اشاعت السنہ کے ذریعہ سے (جس کے نمبر ۱۰ جلد ۶ میں اس کا بیان ہوا ہے اور وہ نمبر ہر ایک لوکل گورنمنٹ اور گورنمنٹ آف اندیا میں پہنچ چکا ہے) گورنمنٹ پر بخوبی ظاہر اور مدلل کر چکے ہیں جو آج تک کسی اسلامی فرقہ رعایا گورنمنٹ نے ظاہر نہیں کیا  اور نہ آئندہ کسی سے اس کے ظاہر ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔”
(اشاعت اسنہ ۲۶۲ شمارہ ۹ جلد ۸)
ناظرین کرام ! ملاحظہ فرمایا آپ نے غیرمقلدانہ ذہنیت کہ ایک کافر و مشرک و ظالم و جابر اور فاسق و فاجر حکومت کو اسلامی حکومتیوں پر ترجیح دی جارہی ہے، وہ شخص جس کے دل میں ایمانی احساسات کا معمولی سا حصہ بھی ہو وہ قطعا غیرمسلم اور کافر و ظالم حکومت کو مسلمان حکومتوں پر ترجیح دینے کی سوچ بھی نہین سکتا لیکن غیرمقلدین کی جسارت ملاحظہ فرمایئے کہ انگریز کی چاپلوسی اور خوشامد کرتے ہوئے کن پستیوں میں جا گرے ہیں، ذہن کی کجی اور ایمان کی کمزوری کی اس سے بڑھ کر کوئی مثال پیش  کی جا سکتی ہے؟
مسلمانوں کی تاریخ کے تمام ادوار شاہد عدل ہیں کہ مسلمانوں نے کافر و مشرک اور ظالم و جابرر حکومتوں سے گلو خلاصی کے لئے اور ا  ن کے پنجہ استبداد سے رہائی حآصل کرنے کے لئے ہمیشہ عظیم قربانیاں دی ہیں، ان سے جہاد کئے ہیں، ان کی حکومتوں کے زیر سایہ رہنے کو کبھی بھی  اسلامی حکومتوں پر تر جیح نہیں دی سوائے منافقوں اور  غداروں کے کہ ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ مسلمان حکومتیں مٹ جائیں اور ان کی بجائے غیرمسلم ظالم حکومتوں کا مسلمانوں پر تسلط ہو۔
ناظرین کرام !آپ خود ہی فرمائیں کہ غیرمقلدین آپکو کس صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
غیرمقلدین کے لئے اہل حدیث کے نام کی
الاٹمنٹ کی تفصیل بٹالوی صاحب کی زبانی
مولوی محمد حسین صاحب نے جو غیرمقلدین کے وکیل اعظم تھے، لفظ وہابی کی منسوخی اور اہلحدیث کے نام کی الاٹمنٹ کے لئے انگریز بہادر کے حضور ایک درخواست پیش کی، جس میں انگریز سرکار کے لئے غیرمقلدین کی من حیث الجماعت وفاداری، خیر خواہی اور نمک حلالی کے سلسلہ میں اپنی جماعت کی نمایاں خدمات کا ذکر کیا اور متعدد نازک موقع میں اپنی بہی خواہی کی نشاندہی کی اور اس درخواست کے آخر میں التجا کی کہ لفظ وہابی (جو باغی اور نمک حرام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے) کو منسوخ کر کے ہمارے فرقہ کے لئے اہلحدیث کا نام الاٹ کیا جاوے۔ ذیل میں اس درخوست کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کرام ! اس کے مضمرات کا بغور مطالعہ ملاحظہ فرماویں۔
ترجمہ درخواست برائے الاٹمنٹ نام اہلحدیث و منسوخی لفظ وہابی
اشاعۃ السنہ انس لاہور
ازجانب ابو سعید  محمد حسین لاہوری، ایڈیٹر اشاعۃ السنہ و وکیل اہل حدیث ہند
بخدمت جناب سیکرٹری گورنمنٹ
میں آپ کی خدمت میں بطور ذیل پیش کرنے کی اجازت اور معافی کا خواست گار ہوں، ۱۸۵۶ء میں  میں نے  ایک مضمون اپنے ماہواعی رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کیا تھا جس میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ لفظ وہابی جس کو عموماً باغی و نمک حرام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، لہذا اس لفظ کا استعمال مسلمانان ہندستان کے اس گروہ کے حق میں جو اہل حدیث کہلاتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے سرکار انگریز کے نمک حلال و خیر خواہ رہے ہیں اور یہ بات (سرکار کی وفاداری و نمک حلالی) بار ہا ثابت ہو چکی ہے اور سرکاری خط و کتابت میں تسلیم کی جا چکی ہے، مناسب نہیں (خط کشیدہ جملے خاص طور پر قابل غور ہیں۔)
بناء بریں اس فرقہ کے لوگ اپنے حق میں اس لفظ کے استعمال پر سخت اعتراض کرتے ہیں اور کمال ادب و انکساری کے ساتھ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ  وہ (ہماری وفاداری، جانثاری اور نمک حلالی کے پیش نظر)  سرکاری طور پر اس لفظ وہابی کو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال  سے ممانعت کا حکم نافذ کرے ، اور ان کا اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاوے، اس مضمون کی ایک کاپی بذریعہ عرضداشت میں (محمد حسین بٹاولی) نے پنجاب گورنمنٹ میں پیش کی اور اس میں یہ درخواست  کی کہ گورنمنٹ اس مضمون کی طرف توجہ فرما دے، اور گورنمنٹ ہند کوبھی اس پر متوجہ فرما دے اور اس فرقہ کے حق میں استعمال لفظ وہابی سرکاری خط و کتابت میں موقوق کیا جاوے اور اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاوے۔ اس درخواست کی تائید کے لئے اور اس امر کی درخواست کیسے مسترد کر سکتا تھا تو اس نے نہایت خوشی اور مسرت  سے اپنی چہیتوں کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ اس بارے میں  غیرمقلدین کے مشہور عالم مولوی عبدالمجید سو ہد روی لکھتے ہیں:
“مولوی  محمد حسین بٹالوی نے اشاعت السنہ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوشش سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور  جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا، (سیرت ثنائی ص۳۷۲)
غیرمقلدین کی انگریزی خدمات کے عوض اہلحدیث نام کی الاٹمنٹ:
مزدور جب نہایت محنت و  مشقت کوشش و کاوش اور لگن و دل جمعی سے اپنے کارِ مفوضہ کو انجام دے چکتا ہے اور اس بارے میں  وہ کسی قسم کی سستی و غفلت اور نکاسل کا روادار نہیں ہوتا تو شام کے وقت اس کا مالک اس جہاں اپنے حسن انتخاب پر مسرور ہوتا ہے وہاں وہ مزدور کی درخواست پر مزدوری کے علاوہ اسے مزید انعام و اکرام سے بھی نوازتا ہے، علی ہذاالقیاس جب  غیرمقدین نے اپنے آقا اور سر پرست انگریز بہادر کی طرف سے تضویض کئے گئے فرائض کو نہایت محنت و جانفشانی اور عرقریزی و جانکا ہی سے انجام دیا اور مسلمانوں میں اختلاف  و افتراق کا بیچ بونے اور انتشار ر و خلفشار کی خلیج کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں انگریز سرکار کی توقعات سے بڑھ کر حسن کا ر کردگی کا مظاہرہ کیا اور انگریز کی وفاداری، جانثاری، خیر خواہی اور نمک حلالی اور ان سے متعد نازک موقع میں ظاہر ہوئی تو انہوں نے انگریز سرکار سے اپنے لئے اہلحدیث نام کی الاٹمنٹ کی درخواست کی۔
انگریز بہادر اپنے وفاداروں جانثاروں اور بہی خواہوں کی تصدیق کے لئے یہ درخواست کل ممبران اہل حدیث پنجاب و ہندستان کی طرف سے ہے (پنجاب و ہندستان کے تمام غیرمقد علماء یہ درخواست پیش کرنے میں برابر کے شریک ہیں) اور ایڈیٹر اشاعت السنہ ان سب کی طرف سے وکیل ہے، میں (محمد حسین بٹالوی) نے چند قطعات محضر نامہ گورنمنٹ پنجاب  میں پیش کئے جن پر فرقہ اہل حدیث تمام صوبہ جات ہندوستان کے دستخط ثبت ہیں اور ان میں اس درخواست کی بڑے زور سے تائید پائی جاتی ہے۔
چنانچہ آنریبل سرچارلس ایچی سن صاحب بہادر جو اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے، گورنمنٹ ہند کو اس درخواست کی طرف توجہ دلا کر اس درخواست کو با جازت گورنمنٹ ہند منظور فرپایا جائے اور اس استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہل حدیث کا حکم پنجاب میں نافذ فرمایا جائے۔
میں ہوں آپ کا نہایت کی فرمانبردار خام
ابو سعید محمد حسین
ایڈیٹر “اشاعت السنہ” (اشاعۃ السنہ ص۲۴تا ،۲۶ شمارہ ۲ جلد نمبر ۱۱)
٭………… ٭………… ٭………… ٭………… ٭………… ٭……… ٭
برٹش گورنمنٹ کی طرف سے بٹالوی صاحب
کو اہلحدیث کے نام کی الاٹمنٹ کی اطلاع
مولوی بٹالوی صاحب نے جماعت اہلحدیث کے وکیل اعظم کی حیثیت سے حکومت ہند اور مختلف صوبہ جات کے گورنروں کو لفظ وہابی کی منسوخی اور اہلحدیث نام کی الاٹمنٹ کی جو درخواست دی تھی کہ ان کی جماعت کو آئندہ وہابی کے بجائے اہل حدیث کے نام سے پکارا جائے اور سرکاری کاغذات اور خطوط و مراسلات میں وہابی کے بجائے  اہلحدیث لکھا جائے، انگریز سرکار کی طرف سے ان کی سابقہ عظیم الشان خدمات اور جلیل القدر کارناموں کے پیش نظر اس درخواست کو گورنمنٹ برطانیہ نے باقاعدہ منظور کرکے لفظ وہابی کی منسوخی اور اہل حدیث نام کی الاٹمنٹ کی باضابطہ تحریر اطلاع بٹالوی صاحب کو دی، سب سے پہلے حکومت پنجاب نے اس درخواست کو منظور کیا۔
لیفٹینٹ گورنر پنجاب نے بذریعہ سیکرٹری حکومت پنجاب مسٹر ڈبلیو، ایم، ینگ صاحب بہادر نے بذریعہ چھٹی نمبری ۱۷۸۷ مجریہ ۳ دسمبر ۱۸۸۶ء اس کی منظوری کی اطلاع بٹالوی صاحب کو دی، اسی طرح گورنمنٹ سی  پی کی طرف سے ۱۴ جولائی ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری ۴۰۷، گورنمنٹ یو پی کی طرف سے ۲۰ جولائی ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری  ۳۸۶ گورنمنٹ بمبئی کی طرف سے ۱۴ اگست ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری ۷۳۲، گورنمنٹ مدراس کی طرف سے ۱۵ اگست ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری  ۱۲۷، گورنمنٹ بنگال کی طرف سے  ۴ مارچ ۱۸۹۰ء بذریعہ خط نمبری ۱۵۶۔ اس درخواست کی منظوری کی اطلاعات مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو فراہم کی گئیں (اشاعت السنہ شمارہ ۲ جلد ۱۱  صفحہ ۳۲ تا صٖحہ ۳۹، جنگ آزادی از جناب پروفیسر محمد ایوب صاحب قادری صفحہ ۶۶)
غیرمقلدین کے اکابر اور بانیوں کا ملکہ وکٹوریہ
کے جشن جوبلی پر سپا سنامہ کرنا
ملکہ وکٹوریہ کے جشن جوبلی پر، ملکہ کے حضور، غیرمقلدین کے اکابر نے ایک سپاسنامہ پیش کیا، اس میں غیرمقلدین کے سربرہوں اور بزرگوں نے جس گھٹیا انداز میں اپنے جذباتِ عقیدت کا اظہار کیا، خوشامد اور چاپلوسی کے لئے جو گھاؤنا طریق اپنایا، کاسہ لیسی اور رملق کا جو ریکارڈ قائم کیا اس میں ہر با ضمیر شخص کی آنکھیں فرطِ ندامت سے جھک جاتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ غیرمقلد حضرات اپنے اکابر کے اس گھٹیا کردار پر نادم و شرمسار ہونے کے بجائے فخر کرتے اور اتراتے ہیں، اس کی تفصیل آپ بٹالوی صاحب کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔
بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
جشن جوبلی ملکہ وکٹوریہ
اس دعوت کے مقام (مولوی الہی بخش کی کوٹھی) کے عین دروازے کھے سامنے رات کے وقت ملاحظہ  روشنی کے لئے نواب لیفٹنینٹ گورنر بہادر کا گزر کرنا مقرر تھا، اس جگہ اہلحدیث نے ایک بلند اور وسیع دروازہ بنایا، جس پر سنہرے حروف میں  ایک انگریزی میں کلمات دعائیہ مرقوم تھے۔ دوسری طرف لا جوردی رنگ سے یہ بیت اردو تحریر تھا: دل سے یہ دعائے اہلحدیث ۔ ۔ ۔ جشن جوبلی مبارک ہو۔
(رسالہ اشاعۃ السنہ صفحہ ۲۰۴ شمارہ ۷ جلد ۹)
اس موقعہ پر بذریعہ ڈیپٹوٹیشن اہل حدیث کا مندجہ ذہل ایڈریس ملکہ وکٹوریہ  کو پیش ہوا۔
ملکہ وکٹوریہ کے حضور نذرانہ عقیدت بصورت سپاسنامہ
ایڈریس منجانب گروہ مسلمانان اہلحدیث برمقعہ جشن جوبلی ملکہ وکٹوریہ
بحضور فیض گنجور کوئن وکٹوریہ گریٹ و قیصرہ ہند بارک اللہ فی سلطنتھا
(۱)۔۔۔ہم ممبران گروہ اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضور والا خدمت عالی میں جشن جوبلی کی دلی مسرت سے مبارک بادعرض کرتے ہیں۔
(۲)۔۔۔ برٹش رعایائے ہند میں سے کوئی فرقہ ایسا نہ ہوگا جس کے دل میں مبارک تقریب کی مسرک جوش زن نہ ہوگی اور اس کے بال بال سے صدائے مبارک باد نہ اٹھتی ہو گی مگر خاص کر فرقہ اہل اسلام جس کو سلطنت کی اطاعت اور فرمان روائے وقت کی عقیدت اس کا مقدس مذہب سکھاتا اور اس کو ایک فرض مذہبی قرار دیتا ہے، اس اظہار مسر ت اور ادائے مبارک باد میںں دیگر مذہب کی رعایا سے پیش قدم ہے، علی الخصوص گروہ اہلحدیث من جملہ اہل اسلام اس اظہار مسرت و عقیدت اور دعاء برکت میں چند قدم اور بھی رکھتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جن برکتوں اور نعمتوں کی وجہ سے یہ ملک تاج برطانیہ کا حلقہ بگوش ہورہا ہے ازاں جملہ ایک  بے بہانعمت مذہبی آزادی سے یہ گروہ ایک خصوصیت کے ساتھ اپنا نصیبہ اٹھا رہا ہے۔
(۳)۔۔۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص اس سلطنت میں حاصل ہے، بخلاد دوسرے اسلامی فرقوں کے کہ ان کو اور اسلامی سلطنتوں میں بھی  یہ آزادی حاصل ہے۔اس خصواصیت سے یہ یقین ہو سکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سئ مبارک باد کی صدائیں زیادہ  زور کے  ساتھ نعرہ زن ہیں۔
ہم بڑے جوش سے دعا مانگتے ہیں کہ خدا و ند تعالٰی حضور والا کی حکومت کو اور بڑھائے اور تادیر حضور والا کا نگہبان رہے تاکہ حضور والا کی رعایا کے تمام لوگ حضور کی وسیع حکومت میں امن  اور تہذیب کی برکتوں  سے فائدہ اٹھائیں۔
(رسالہ اشاعت السنہ صفحہ ۲۰۶۔۲۰۵ ( حاشیہ) شمارہ ۷ جلد ۹ مطبوعہ وکٹوریہ پریس لاہور)
لیفٹنینٹ  گورنر پنجاب سر چارلس ایچیسن کو وطن روانگی کے وقت جماعت اہلحدیث کی طرف سے جو ایڈریس پیش کیا گیا
ایڈریس
منجانب فرقہ اہل حدیث وممران وغیرہ
بحضور سر چالس ایچیبہادر کے سی، ایس، آئی،سی،آئی ، ای، ایل، ایل،ڈی
گورنر پنجاب
(۱)۔۔۔ ہم ممبران فرقہ اہل حدیث وغیرہ حضؤر والا کی عالی خدمت میں اس موقعہ پر (جبکہ جناب والا اس صوبہ  سے رخصت ہورہے) کمال ادب و اخلاص کے ساتھ حضؤر والا کے خسروانہ احسانات و مربیانہ عنایات کا شکریہ ادا کرنے اور حضور کی مفارقت (جدائی) پر (تہہ) دل سے افسوس ظاہر کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔
(۲)۔۔۔حضور والا کے شاہانہ عنایات  و مربیانہ تو جہات ابتداء رونق افروزی ہندستان سے عہد گورنری تک اس ملک ہندستان پر اس کثرت و تواتر سے مبذول رہی ہیں کہ اگر ان کو متواتر باران رحمت یا موجزن دریائے موہبت کہا جائے تو بیجانہ ہوگا۔
(۳)۔۔۔ملک پنجاب پر حضور والا کا یہ احسان تمام آئندہ نسلوں تک یاد رہے گا کہ حضور نے یونیورسٹی کا وہ علمی پودہ جو مبارک ہاتھوں سے لگایا تھا۔ ایسا سرسبز و شاداب کیا کہ آج اس کے فوائد سے تمام اہل پنجاب مستفیدو مستفیض ہو رہے ہیں اور  آئندہ ان کو فائدہ پہنچنے کی اور بہت زیادہ امیدیں ہیں۔
(۴)۔۔۔ حضور والا نے پنجاب میں معزز جوڈیشنل عہدوں پر دیسیوں (مقامی لوگوں) کو مامور فرمایا،جن کے حصول کی سہولت اس سے پہلے اس صوبہ میں کبھی دیسیوں کو حاصل نہ ہوتی تھی۔
(۵)۔۔۔ پنجاب میں لوکل سیف گورنمنٹ کا اجراء بھی حضور کی معانت و مشاورت سے ہوا ہے۔
(۶)۔۔۔ پنجاب میں چیفز کالج کے قیام و استحکام کا قرعہ بھی حضور ہی کے نام نامی پر روز ازل میں ڈالا گیا تھا۔
(۷)۔۔۔ پنجاب میں علمی فری لائبریری کو حضور نے قائم کیا، جس  کے فیض سے غریب نادار بھی (جو مال نہیں خرچ کر سکتے) ویسے ہی کامیاب ہوئے ہیں جیسے کہ امیر مالدار ۔
(۸)۔۔۔حضور نے دیسیوں کو اپنی  بارگاہ میں اس فیاضی سے دخل دیا کہ وضیع و شریف سب کو فیض یاب ہونے اور اپنی عرض حاجات کرنے کا یکساں موقع ملتا رہا۔
(۹)۔۔۔ یہ وہ برکات خسروانہ و عنایت شاہانہ حضور ہیں جن سے اس ملک کے تمام باشندے فیض یاب ہو رہے ہیں اور  خاص کر اہل اسلام پر حضور نے یہ شاہانہ احسان کیا کہ ان کی نازک اور ضعیف حالت پر رحم فرمایا اور ان کو ترقی کے دور میں اپنی ہمعصر اقوام سے بہت پیچھے رہی ہوئی دیکھ کر ہمسری اقران کا سامان بہم پینچایا یعنی غریب مسلمان طالب علموں کے لئے اٹھاون و ظائف کا حکم اس صوبہ پنجاب میں نافذ کیا ہے، یہ احسان اہل اسلام پر ایسا ہوا ہے جو حضور کے کارناموں میں ہمیشہ کے لئے  صفحہ ہستی پر ہمیشہ یاد رہے گا۔
(۱۰)۔۔۔ یہ احسان حضور بھی کچھ کم لائق ذکر و قابل فخر نہیں ہے بلکہ اس ایڈریس میں خصوصیت کے ساتھ واجب الذکر ہے جو حضور نے مسلمانوں کے ایک گروہ اہلحدیث پر مبذول فرمایا ہے کہ ان کی نسبت ایک ایسے دل آزار “لفظ وہابی” کے استعمال کو جس سے  ان کی وفاداری و جانثاری میں (جو نازک وقتوں میں ظاہر ہو چکی  اور گورنمنٹ ہند مسرود فرمایا اور سرکاری کاغذات میں اس کے استعمال سے مخالفت کا (اور اہل  حدیث نام کے اجراء کا) حکم فرمایا۔
(۱۱)۔۔۔ ہم اہل اسلام عموماً اور فرقہ اہل حدیث خصوصاً حضور کے ان احسانات مربیانہ و عنایات خسر و انہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے اپنی پرحسرت دل سے افسوس کرتے ہیں کہ ہم بہت جلد حضور کے آئندہ مربیانہ عنایات سے محروم ہونے والے ہیں۔
(۱۲)۔۔۔ ہم باشندگان پنجاب خصوصاً اہل اسلام علی الخصوص اہل حدیث  کو جس قدر حضور کی مفارقت کا افسوس ہے، اس کے پورے اور سچے طور پر اظہار کے لئے ہم نے کافی لفظ نہیں پائے۔ لہذا بجائے افسوس کے کہ ہم اس ایڈریس کے خاتمہ میں ان کلمات دعائیہ کی عرض پر اکتفا کرتے ہیں کہ خداوند عالم حضور فیض گنجو کو صحت و سلامتی کے ساتھ وطن مالوف  پہنچائے اور  پھر بہت جلد حضور کو عہدہ گورنر جنرل پر مومور معزز فرما کر ہندستان میں لاوے  اور ہماری آنکھوں کو حضور کے دیدار  فیض آثار سے منور کرے۔ آمین ثم آمین۔
بوطن رفتنت مبارک باد۔ بسلامت روی باز آئی
(اشاعۃ السنہ ص۲۵۳ تا  ۲۵۶ شمارہ نمبر ۸ جلد نمبر ۹)
لارڈڈفرن کو اہلحدیث نے جو ایڈریس پیش کیا
نقل ایڈریس
سپاسنامہ اہلحدیث پنجاب و ہندستان و دیگر ارکان و غیرہ بحضور ہنر اہکسیلنسی دی رائٹ آنریبل سر فریڈک ٹمپل ہملٹن و ڈمارکوئیس آف ڈفرن ارل آف آوہ کے ۔بی۔جی۔ایم۔ایس۔آئی۔جی۔سی۔بی۔جی۔سی۔ایم۔جی۔ پی۔سی ڈی۔او۔ایل وائسرئے اینڈ گورنر جنرل آف انڈیا۔
حضور والہ !
ہم فرقہ اہلحدیث اور پنجاب و ہندستان کے دوسرے اسلامی فرقوں کے ارکان میں سے چند افراد اپنی طرف سے اصالتا اور اپنے تمام ہم مسلک وہم مشرب افراد کی طرف سے وکالتہ جناب والا کی ذات ستودہ صفامت کی مفارقت افسوس کی نیت سے حاضی ہوئے ہیں اور کمال عجزہ انکسار کے ساتھ جو  جانثار خیز اندیشوں کا شیعوہ ہے عرض مدعا کی اجازت کے خواستگار ہیں۔
(۱)۔۔۔آنجناب کی کرم گستر اور عدل پر ورشخصیت کے عہد سعادت  مہد کے احسانات و برکات جو کہ عظیم البرکت باران رحمت کی طرح سب لوگوں اور ان دیار کی اطاعت شعار اقوام پر برسے ہیں (جیسے مملک میں امن و امان کا قیام اور سلطنت میں وسعت و استحکام اور پبلک سروس کمیشن کا تقرر او ر لیڈی ڈفرن کی تجویز اور ان جیسے دیگر امور) ہندستان کے مسلمانوں نے دوسری اقوام  کی طرح ا ن سے حظ و افر اور حصہ کامل حاصل کیا ہے اور حضور پر نور کی خصوصی نوازشیں اس طرح ظہور میں آئی ہیں کہ ان سے نفع اٹھانے میں اہل اسلام عموماً اور اہلحدیث خصوصاً دوسروں سے گوئے سبقت لے گئے ہیں اور اس بارہ میں قسم کی خصوصیت پیدا کی ہے۔
(۲)۔۔۔ایک بڑا انعام اور عظیم ا حسان جس کے ساتھ آنجناب نے تمام اہل اسلام کو امخصوص کیا ہے، یہ ہے کہ جناب والا خطاب نے انجمن اسلامیہ عمومیہ کلکتہ کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے یہ فرمان نافذ فرمایا ہے کہ مملکت ہندستان کے تمام صوبوں میں سے ہر صوبہ  کی سالانہ رپورٹ کے سلسلہ میں ایک کالم اہل اسلام کے حالات اور تعلیمی کوائف کے لئے مخصوص کیا جائے۔
(۴)۔۔۔ایک بڑا کرم اور عظیم احسان جو خاص طور پر فرقہ اہلحدیث پر مبذول ہوا ہے یہ ہے کہ ان کے حق میں لفظ وہابی کا استعمال (جو ان کی دلازادی کا باعث تھا، جس سے ان کی جانثاری اور وفاداری جو نازک اوقات میں ظاہر ہو چکی تھی اور جو گورنمنٹ کے نزدیک مسلم ہے ناوقفوں کے لئے مشکوک ہوتی تھی) سرکاری دفاتر سے منسوخ و مسدود فرمایا گیا، جس سے بے خبروں کی بدگمانی مٹ گئی ہیں، جناب والا کے اس فرمان واجب الاذعان کو ہندستان کے مختلف صوبہ جات کے گورنروں نے واجب العمل قرار دیتے ہوئے اس گروہ  (غیرمقلدین) کے حق میں اس دلخراش لفظ کا استعمال موقوف  فرمادیا ہے اور ان کو اہلحدیث کے خطاب سے مخاطب اور معزز فرمایا ہے اور اس  کے مطابق احکام نافذ کئے ہیں۔
(۵)۔۔۔ آنجناب کے ان احسانات عامہ و خاصہ کے پیش نظر جو اہل اسلام پر عموماً اور اہلحدیث پر خصوصاً مبذول ہوئے ہیں ہم ہزار زبان کے ساتھ ان احسانات کا دل کی گہراہیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور آن جناب کی ذات والا صفات جو کہ مظہر جو دو احسان ہے کی مفارقت پر جوکہ قبل از وقت (مقررہ میعاد سے پیشتر) وقوع پذیر ہو رہی ہے حسر کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے اندرونی غم و اندوہ اور قلبی رنج و ملال کو اس تمنا کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ کاش آپ کا سایہ جو ہما پایہ ہے مقررہ میعار تک ہم (غیرمقلدوں) کے سروں پر سایہ افگن  رہتا اور کاش کہ آپ کی حکومت کی مدت دو گنی ہو جاتی تاکہ آپ سے مزید فوائد و منافع اور احسانات و انعمات ہمارے حصہ میں آتے اور ہم آپ کے مزید فوائد و منافع اور احسانات و انعامات ہمارے حصہ میں آتے اور ہم آپ کے مزید احسان منداور ممنون ہوتے۔
(۶)۔۔۔حضور پر نور کی ناگزیر مفارقت ( جدائی) پر یہ ہجر کے ستائے ہوئے غم کے مارے ہوئے (غیرمقلدین) صبر و شکیبانی کے دامن پر ہاتھ مارتے ہیں اور اس دعائے خیر کے ساتھ اپنے آپ کو تسلی و تسکین دیتے ہیں کہ خدا وند عالم جناب کی ذات بابرکت کو بخیر و عافیت وطن مالوف پہچائے۔
(۷)۔۔۔ نیز اس جگہ راز افزوں ترقی  واقبال پر فائز ہو کر اہل اسلام کے لئے بہبود اور نفع کا سر چشمہ بنیں اور برطانیہ کے تاج و تخت  کو (جس کی نیابت سے جناب والا بہرہ مند  ہیں) ترقی واستحکام عطا ر فرما کر ملک کے لئے امن و برکت اور اہل اسلام کے لئے حمایت و حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوں۔
ہم ہیں حضور کے وفادار جانثار حضور کی رعایا۔
مولوی سید نذیر حسین دہلوی (شیخ الکل فی الکل شمس العلماء وآیۃ من آیات اللہ)
ابو سعید محمد حسین بٹالوی وکیل اہلحدیث ہند۔
مولوی احمد اللہ و اعظ میونسپل کمشنر امرتسر۔
مولوی قطب الدین پیشوائے اہلحدیث روپڑ۔
مولوی حافظ عبداللہ غازی پوری۔ مولوی محمد سعید بنارس۔
مولوی محمد ابرہیم آرہ۔ مولوی سید نظام الدین پیشوائے اہلحدیث مدارس۔
(اشاعت السنہ صفحہ ۴۰۔۴۲ شمارہ نمبر ۲ جلد ۱۱)
غیر مقلدین کے اکابرو اسلاف اور اس فرقہ کے ممتاز اور جید علماء کرام، بلکہ ان کے مجددین کی طرف سے ملکہ وکٹوریہ، سرچارلس ایچسن اور لارڈ فرن کے حضور جو سپا سنامے اور ایڈریس پیش کئے گئے وہ ناظرین کرام کی نظروں سے  گزر چکے ہیں، ان سپاسناموں میں  غیرمقلدین کے مجدد اور اس طائفہ کے اسلاف و اعاظم نے شرم و حیا کی جس طرح مٹی پلید کی ہے، غیرت دینی کا جس طرح قتل عام کیا ہے،اسلامی جمیت کو جس طرح کند چھری سے ذبح کیا ہے، دنیاوی اغراض و مقاصد اور جماتی فوائد و منافع اور مراعات کے حصول کے لئے اپنے علم و فضل اور وقار کو جس طرح مجروح کیا ہے اسلامی تقاضوں کی پامالی کا  ایک جانگداز منظر ہے، دیکھئے کس عیاری اور کس فنکاری سے انگریز کی خوشامد اور چاپلوسی کی گئی ہے ، واقعی غیرمقلدین کے اکابرواسلاف اس فن میں اتار وتھے ۔ اس بارہ میں ان  کی ذہانت وفطانت اور حذاقت و مہارت کی دانہ دینا یقیناً ظلم کے قبیل سے ہے۔ کسی شاع نے کیا خوب کہا ہے۔
ہر کسے رابہر کارے ساختند دیں میل اواندردلش انداختند
ظالم و  کافر اور فاسق و فاجر حکومت کی مدح و ثناء اور تعریف و توصیف میں حد سے بڑھ جانا اور غلو کرنا،اس کی ترقی و استحکام اور بقاء کے لئے دل کی گہراہیوں میں ڈوب ڈوب کر دعائیں کرنا، اس کی مفارقت پر اندرونی دردو کرب، باطنی غم و اندوہ اور قلبی رنج وملال کے ہاتھوں مجبور ہو کر اشک حسرت کی ندیاں بہانا ایمانی جذبوں  کی جانکنی کا ایک روح فرسا نظارہ ہے، انگریز کے فراق کے صدمہ سے نڈھال ہو کر اشک حسرت بہانے والے انگریز کی سلطنت کی ترقی و استحکام اور اس کی بلند اقبالی کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں کرنے والے اور اس کے ظل عاطفت اور سایہ شفقت کو اسلامی حکومت پر ترجیح دینے والے یہ حضرات کون تھے؟ یہ تھے غیرمقلدین کے ائمہ  کرام اور ان کے عظیم و جلیل اکابراسلاف جن کی شخصیتوں پر غیرمقلدین بڑا فخر کرتے اور اتراتے ہیں اور جن کو غیرمقلدین علم و فضل کا کوہ ہمالیہ، تقویٰ و تدین اور خلوص و للّہیت کا پیکر مجسم قرار دیتے ہیں اور  جن کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ فرقہ غیرمقلدین میں ان حضرات کے بعد ان کے علم و فضل اور مرتبہ و مقام کے حامل افراد اشخاص پھر نہیں پیدا ہوئے، جب غیرمقلدین کے مجددین کرام اور ائمہ عظام کے علم اور کردار اخلاق کا یہ عالم ہے تو ان کے اصاغر کے کردار و اخلاق کا کیا حال ہو گا۔
قیاس کن زگستان من بہار مرا
غیرمقلدین کے مجموعی کردار  و عمل کی جھلکیاں پیش کرنے کے بعد احقر بٹالوی صاحب کے  کردار و عمل کی مزید ایک دو خصوصیات ناظرین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
بٹالوی صاحب کا انگریز سرکار  کی خدمت
کے صلہ میں جاگیر سے سر فراز ہونا
میاں  نذیر حسین دہلوی انگریز سرکار کی خدمات کے صلہ میں شمس العلماء کے خطاب سے نوازے گئے اور نواب صدیق حسن خان صاحب کو انگریز نے انکی وفاداری کے عوض پر گنہ “بیرسیہ” عطا کیا اور جماعت اہلحدیث ہند کے وکیل اعظم بٹالوی صاحب کو ان کی جانثار اور نمک حلالی کی بناء پر جا گیر عطا کی گئی۔
چنانچہ مشہور غیرمقلد عالم مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں۔
“معتبر  اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس کے معاوضہ میں (جہاد کی منسوخی پر رسالہ لکھنے کے عوض) سرکار انگریزی سے انہیں جاگیر ملی تھی اور رسالہ کا پہلا حصہ پیش نظر ہے پوری کتاب تحریف و تدلیس کا عجیب و غریب نمونہ ہے۔( پہلی اسلامی تحریک ص۲۹)
ایک دوسرے غیرمقلد عالم مولوی عبدالمجید سوہدری لکھتے ہیں“ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اشاعت السنہ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی اور لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا، آپ نے حکومت کی خدمت بھی کی اور انعام میں جاگیر بھی پائی ” (سیرت ثنائی ص۳۷۲از مولوی عبدالمجید سوہدری)
بٹالوی صاحب اور مرزا غلام احمد قادیانی:
بٹالوی صاحب کو مرزا صاحب کے ساتھ بہت سی وجوہ سے مماثلت و مشابہت حاصل ہے، مرزا صاحب بھی گور داس پور کے رہنے والے تھے۔ بٹالوی صاحب بھی اسی ضلع کے باسی تھے، پھر یہ دونوں ہم ضلع ہونے کے ساتھ ساتھ ہم تحصیل بھی تھے، اس پر مستز کو دونوں ہم مکتب اور ہم استاد بھی تھے۔ مدت تک ہم مکتب رہے اور مدتوں ان کے درمیان خط وکتابت اور ملاقات و مراسلات کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں۔
“مولوف برائے احمدیہ” کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین میں سے ایسے کم واقف نکلیں گے۔ مؤلف ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل  عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب تھے۔ اس زما نہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری و ساری ہے۔ (اشاعت السنہ جلد۷ بحوالہ مجدد اعظم ص۲۱ تا ۲۲ ج۱)
دونوں کے حالات و خیالات اور  افکارو نظریات میں کافی حد تک اشتراک تھا، دونوں کے مضامین ومقالات پڑھنے سے یوں لگتا ہے جیسے دونوں کی ذہنی ساخت اور دماغی  بناوٹ ایک جیسی ہو اسی لئے یہ دونوں ایک دوسرے کے  بے حد مداح اور معتقد تھے بالخصوص بٹالوی صاحب ، مرزا صاحب کے ابتداء میں بہت ہی زیادہ معتقد تھے۔
چنانچہ بٹالوی صاحب برہین احمدیہ پر دیویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
“اس  کا مؤلف (مرزا غلام احمد قادیانی) اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے”۔ (مجدد اعظم ص۲۲ج۱)
دیکھئے بٹالوی صاحب نے کس قدر  مرزا صاحب کو بانس پر چڑھایا اور سلف صالحین سے بڑھایا ہے اور بٹالوی صاحب مرزا صاحب کے اس قدر معتقد تھے کہ ان کے جوتے سیدھے کر نا اور ان کو اپنے ہاتھ سے وضو کرانا عین سعادت تصؤر کرتے تھے۔
“خود مولوی محمد حسین بٹالوی  باوجود اس قدر بڑا عالم  اور محدث ہونے کے اس قدر آپ (مرزا قادیانی) کی عزت و احترام کرتا تھا کہ آپ کا جوتا اٹھا کر آپ کے سامنے سیدھا کرکے رکھ دیتا اور اپنے ہاتھ سے آپ کو وضو کرانا اپنی سعادت سمجھتا تھا”۔
(مجدد اعظم ص۲۲)
دو بچھڑے ہوئے دوستوں کا ملاپ:
مرزا صاحب اور بٹالوی صاحب ہم ضلع ہم تحصیل ہم مکتب اور ہم استاد تھے، ذہناًو  دماغاً ایک دوسرے سے قریب تھے، دور طالب علمی میں ایک دوسرے کے جانثار اور فدا کار تھے ، طبائع میں کافی  مناسبت تھی، خصوصیت میں کافی حد تک اشتراک تھا، متو سطات کی تعلیم کے بعد مرزا صاحب سیالکوٹ میں ملازم ہوگئے اور بٹالوی صاحب  علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے شیخ الکل فی الکل شمس العلماء مولانا نذیر حسین  صاحب دہلوی کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے، علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد لاہور  چلے آئے اور چینیاں والی مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دینے لگےاسی دوران ایک مرتبہ بٹالہ گئے تو مرزا صاحب نے بٹالہ آکر اپنے رفیق قدیم اور حبیب صمیم سے ملاقات کی، مدت کے بچھڑے ہوئے اور فراق کے صدمات کے ستائے ہوئے دو دوست ہم آغوش ہوئے۔ گلے شکوے ہوئے اور آپس میں ان عاشقانہ فقرات کا تبادلہ ہوا۔
مرزا صاحب: مدت سے آپ کی ملاقات کا اشتیاق تھا، جب سنا کہ آپ بٹالہ آتے ہیں تو جی چاہتا  تھا کہ پر لگا کر آجاؤں اور آپ سے ملوں۔
بٹالوی صاحب: میری آنکھیں بھی ہر وقت آپ کو ڈھونڈ رہی تھیں اور دل ملاقات کے لئے بے قرار تھا۔
اس کے بعد مشور  ہوتے ہیں اور آئندہ کے لئے پروگرام سوچے جا رہے ہیں مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ قادیاں چھوڑ کر کسی شہر میں قیام کروں،
بٹالوی صاحب جواب میں کہتے ہیں کہ میرے رائے میں بھی یہی قرین مصلحت ہے، جب اور جہاں کا قصد ہو مجھے اطلاح دینا۔
مرزا صاحب کا چینیا نوالی مسجد میں قیام:
کچھ عرصہ بعد مرزا صاحب لاہور کا قصد کرتے ہیں، مرزا صاحب کے پرانے دوست ساتھی اور ہم سبق بٹالوی صاحب چینیاں والی مسجد کے خطیب ہیں، مرزا صاحب ان سے ملتے ہیں اور انہی کے پاس مسجد چینیاں والی اور اقامت اختیار کرتے ہیں، دونوں مل کر ایک پروگرام بناتے ہیں جس سے مقصد مرزا صاحب کی تشہیر ہے۔ چنانچہ بٹالوی صاحب کی صلاح اور صوابد ید کے بموجب مرزا جی نے اپنے مشاغل سے دست بردار ہو کر اپنے مستقبل کے متعلق جو سلسلہ عمل تجویز کیا اس کی پہلی کڑی غیرمسلموں سے الجھ کر شہرت و نمود کی دنیا میں قدم  رکھنا تھا۔
بٹالوی صاحب کا مرزا صاحب کو بام عروج پر پہنچانا:
اب مرزا صاحب کا لاہور میں قیام  ہے اور مولانا بٹالوی  ان کے مشیر خاص بلکہ مرید بالاختصاص ہیں (نورالدین بھیری والا کردار ادا کر رہے ہیں)۔
شب و روز مرزا صاحب کی لیاقت و قابلیت اور بزرگی کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، منشی الہی بخش اکاؤنٹنٹ، بابو عبدالحق اکاؤنٹنٹ، حافظ محمد یوسف اور لاہور کے تمام دوسرے اہلحدیث (غیرمقلد) اکابرو معززین، معاونین کے زمرہ میں ہیں، مشورے ہوتے ہیں طرح طرح کی تدبیرین جن سے مرزا صاحب آسمان شہرت پر آفتاب بن کر چمکیں زیرغور ہیں، چند روز بعد آریوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی گئی ہے اور کبھی عیسائیوں کے مقابلہ میں “اہل من مبارز” کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
لاہور میں ہر طرف مرزا غلام احمد کا چرچا ہے، کہیں مناظرہ کا تذکرہ ، کہیں حمایت اسلام کا اظہار ، کہیں زہد و تقویٰ کا افسانہ، غرض ہر جگہ مرزا صاحب ہی کا ذکر خیر ہے، بٹالوی صاحب اور دوسرے غیرمقلد معززین جہاں جاتے ہیں ان کی مدح و توصیف کے پھول برساتے ہیں۔(رئیس قادیان ص۳۹)
بٹالوی صاحب نے مرزا صاحب میں نہ جا نے کیا اوصاف و کمالات دیکھے کہ ان کے اس قدر شفتہ و فریفتہ، مجنون و مفتون اور دیوانے و پروانے بنے کہ ان کی جوتیاں سیدھی کرنا اپنے لئے باعث سعادت اور موجب افتخار تصور کرتے اور دن رات ، شب و روز ان کے فضائل و مناقب کے گیت گاتے، ان کی قابلیت و لیاقت کے نغمے الاپتے، ان کی ذہانت  و فطانت کی قصیدہ خوانی کرتے، ان کی عبادت و ریاضت کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے، ان کے زاہد و تقویٰ کی خود ساختہ کہانیاں نشر کرتے اور ان  پر اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ، ان کی مدح و ثنا میں زمزمہ سرارہتے۔
حلانکہ مرزا صاحب کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی، انہیں کسی بھی فن میں کامل دستگاہ حاصل نہ تھی خصوصاً علم تفسیر و حدیث اور علم فقہ و کلام میں بہت تھوڑا درک تھا، دوسرے  انہوں نے جتنا کچھ پڑھا وہ بھی بالاہتمام  کی مستند اسلامی درسگاہ میں نہ پڑھا تھا، اس لئے مرزا صاحب صحیح اسالمی تعلیمات سے محروم اور مذہبی معلومات سے بے بہرہ تھے۔
نیم ملا  ہونے کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب مخبوط الحواس اور مجذوب صفت بھی تھے جیسا کہ ان کی زندگی کے بعض و اقعات (کھانڈ کے بجائے نمک کا پھانکنا، جیبوں میں گڑ  کی بجائے استنجے کے ڈھیلے بھر لینا، راکھ کے ساتھ روٹی کھانا وغیرہ وغیرہ) اس پر شاہد عدل ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ مرزا صاحب بحث و مباحثہ کے مرد میدا ن نہیں تھے، خیالی گھوڑے تو وہ بہت دوڑا لیتے تھے، لیکن تقریری مناظرہ میں بہت جلد دم توڑ دیتے تھے وہ کسی مناظرہ  سے فاتحانہ باہر  نہیں نکلے، پھر بحث و مباحثہ سے مرزا صاحب کی حقیقی غرض نام و نمود اور ش ہر طلبی تھی، اس لئے آریوں کی ہر شرط و مطالبہ کو بطائف الحیل ٹال جاتے اور اپنی طرف سے ایسی ناقابل قبول شرطیں پیش کر دیتے تھے کہ مناظرہ کی نوبت ہی نہ آتی  تھی۔
بٹالوی صاحب ، مرزا صاحب کے بچپن کے ساتھی اور ہم درس تھے، اس لئے وہ مرزا صاحب کے حالات و خیلات، افکارو نظریات، سیرت و کردار ، ذہانت و فطانت، لیاقت و قابلیت اور مناظرانہ استعد اد   اور علم و عقل کی خامیوں سے بخوبی واقف تھے، مرزا  صاحب کی لیاقت  و قابلیت، حالات و خیلات اور ان کی علمی و عقلی خامیوں سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود ا ور خود  کامل الاستعدا دو سیع النظر  عالم اور  غیرمقلدین کے وکیل اعظم ہونے کے باصوف، بٹالوی صاحب کو مرزا صاحب کی جوتیوں میں نہ جانے کیا ملتا تھا، ان  کی مدح و ثنا سے نہ معلوم  ان کو کیا حاصل ہوتا تھا کہ رات دن ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے۔
جس طرح ان لوگوں کی پست فطرتی اور بیمار ذہنیت قابل صد تعجب ہے جنہوں نے ایسے ماؤد الدماغ اور مضبوط الحواس شخص کو اپنا مجدد اور نبی مانا اسی طرح بٹالوی صاحب کی ذہانیت و فطانت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، جنہوں نے ایسے فاتر العقل اور مجذوب صفت شخص کو مسلمانوں کی طرف سے عیسائیوں اور آریوں سے مناظرے اور مباحثے کے لئے چنا اور منتخب کیا اور مسلمانوں کے مناظر اعظم کی حیثیت سے اس کی تشہیر میں کوئی دقیقہ فروگذشت نہ کیا، زبان و دہان اور قلم و بیان کو ان کی تعریف کے لئے وقف کر دیا، ان کی علمیت و لیاقت اور ریاضت و عبادت کا ڈھول اس قدر پیٹا کہ بہت سے مسلمان مرزا صاحب کے دام تزویز میں پھنس گئے، مرزا صاحب کی عقیدت کے دریا میں غوطہ زن  ہو کر ان کو نبی مانتے گئے اور ساری عمر ارتداد کے خارزاروں میں بھٹکتے رہے اور اسی حالت میں جہنم واصل ہوئے، بٹالوی صاحب نے ایک دفعہ اپنے احباب  کے سامنے عالم برافرد ختگی میں کہا کہ میں نے ہی اس شخص کو بلند کیا تھا اور اب میں ہی گراؤں گا۔ (تحفہ گولڑویہ ص۹)
اس میں  شک نہیں کہ بٹالوی صاحب کے پروپیگنڈپ نے ہی مرزا صاحب کو آسمان شہرت پر بٹھایا تھا لیکن (بقول مولانا دلاوری) مولانا بٹالوی کی یہ توقع بے جاتھی کہ وہ اس کو سرنگوں بھی کر سکیں گے کیونکہ جن لوگوں کے مرزائی ہوجانے سے مرزا صاحب کو دنیاوی و جاہت حاصل ہوئی  وہ مولوی صاحب ہی کی زبانِ قلم سے مرزا صاحب کی تعریف سن کر مرزا صاحب کے حلقہ بگوش ہوئے تھے اور قاعدہ کی بات ہے کہ مرید پیر سے انتہا درجہ کی شفیتگی اور حسن اعتقاد رکھتا ہے پس یہ  موہوم امر تھا کہ مرزائی ہو جانے کے بعد یہ لوگ قادیانی کے دام تزویز سے نکل جاتے۔(رئیس قادیان ص۳۱)
ایک اہم خصوصیت میں اشتراک:
مرزا صاحب اور بٹالوی صاحب میں دوسرے  بہت سے مشترکہ اوصاف و خصوصیات کے علاوہ ایک بڑی اور اہم مشترکہ خصوصیت  یہتھی کہ دونوں  نے انگریز کی وفاداری، نمک حلالی اور جانثاری کے سلسلہ میں فقید المثال اور عدیم النظیر خدمات انجام دیں اور اس بارے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کی، اس سلسلہ میں بٹالوی صاحب اپنے اعتراض و اقرار کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی سے گوئے سبقت لے گئے۔
مرزا صاحب نے سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت، اس کی اطاعت و وفاداری اور ممانعت جہاد پر جو لٹریچر لکھا، اس کی تفصیل مرزا صاحب کے قلم سے ملاحظہ فرمایئے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
(۱)۔۔۔ بعض احمق اور ناداں سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال کرنا ان کی نہایت حماقت ہے کیونکہ جس کے احسانات کا  شکر کرنا عین واجب اور فرض ہے اس سے جہاد کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔(شہادت القرآن ص۳)
(۲)۔۔۔ ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ  کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے  اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے،  میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ کہ  اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔ (ضمیمہ رسالہ جہاد ص۱۴/۷)
(۳)۔۔۔میں سولہ برس سے برابر اپنی تالیفات میں زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند  ہر اطاعت گورنمنٹ فرض اور جہاد حرام ہے۔(تبلیغی رسالت ۱۹۷ ج۳)
(۴)۔۔۔ آج سے دین کے لئے لڑنا حرام  کیا گیا، اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا  اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔(تبلیغی  رسالت ۳۶ ج۹)
(۵)۔۔۔ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے۔(تریاقی القلوب ص۳۳۲)
(۶)۔۔۔میں یقین  رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے، کیونکہ مجھے مہدی اور مسیح مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا  انکار کرنا ہے۔ (تبلیغی رسالت ص۱۷ج۹)
(۷)۔۔۔ میری عمر کا اکثر حصہ سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا  ہے، میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے  بھر سکی ہیں۔(تریاق القلوب ص۲۵)
مرزا صاحب کی مذکورہ بالا عبارات سے ثابت ہوا کہ (۱) مرزا صآحب کی عمر کا اکثر حصہ سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا (۲) مرزا صاحب کے نزدیک انگریز سے جہاد کرنا ایک حرامی اور بدکار  آدمی کا کام ہے(۳) انگریز سے جہاد کرنے والا خدا  اور  رسول کا نافرمان ہے(۴) مرزا صاحب نے ممانعت جہا اور انگریزی حکومت کی اطاعت و وفاداری کے سلسلہ میں اس قدر کتابیں لکھیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ ان سے پچاس الماریاں پھر سکتی ہیں۔
لیکن ناظرین کرام ! آپ محو حیرت اور غرق اسعجاب ہوں گ جب ( ملاحظہ فرمائیں گے) کہ مرزا صاحب  پچاس الماریاں لکھنے  کے باوجود بٹالوی صاحب سے سبقت نہیں لے جا سکے، بٹالوی صاحب نے انگریز کی  اطاعت اور جہاد کی منسوخی پر جو رسالہ سپرد قلم کیا ہے وہ ان کے اپنے اعتراف   و اقرار کے بموجب اس قدر زور دار اور وزنی ہے اور ایسی امتیازی خصوصیات کا حامل ہے کہ اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے اس کو مرزا صاحب کی پچاس الماریوں پر تفوق و برتری حاصل ہے۔
چنانچہ بٹالوی صاحب    لکھتے ہیں:
“اگرچ اس مضمون منسوخی جہاد کے رسائل گورنمنٹ کے اور بہی خواہوں (مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ) نے بھی لکھے ہیں  لیکن جو ایک خصوصیت اس رسالہ میں ہے وہ آج تک کسی اور  تالیف  میں نہیں پائی گئی”۔(اشاعت السنہ۲۶۲۔۲۶۱ شمارہ ۹ جلد۸)
یعنی انگریز سے وفاداری  و جانثاری کے اظہار اور اس کی خواہشات کی تکمیل کے سلسلہ میں مرزا  صاحب اور بٹالوی صاحب میں مسابقت جاری تھی، یہ دونوں اس بارے میں ایک دوسرے سے بازی لے  جانا چاہتے تھے، ان میں ہر ایک کی قلبی تمنا اور دلی  خواہش تھی کہ وہ اس سلسلہ میں انگریز کی زیادہ سے زیادہ خدمات سرانجام دے کر اس کی زیادہ سے زیادہ عنایات  و نوازشات اور مراحم خسر وانہ کا مستحق قرار پائے۔
بٹالوی  صاحب چونکہ اس فن میں زیادہ ماہر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ نہایت شاطر اور گھا گھ بھی تھے اور اس بارے میں خاص قسم  کی ذہانت و فطانت کے مالک تھے، بناء برس  انہوں نے انگریز کی خوشامد و چاپلوسی، تملق و کا سہ لیسی اور اظہار و فاداری و نمک حلالی کے سلسلہ میں ایسی فقید المثال خدمات سرانجام دیں جہاد کی منسوخی پر ایسے دلکش برہین اور دلربا دلائل  تراشے اور اپنے دور کے اکابر غیرمقلد علماء سے توفیق آراء حاصل کرنے کے لئے ایسی کوششیں اور کاوشیں بروئے کار لائے اور ایسی سرگرمی عرق ریزی اور جانکا ہی سے کام لیا کہ مرزا صآحب ان کی بلند پروازی اور برق رفتاری میں ان کا ساتھ نہ دے سکے۔
اور مرزا صاحب  اپنی کتابوں  کی کثرت، رسائل کی فراوانی اور اشتہارات کی بہتات کے باوجود ان سے نہ بڑھ سکے، بلکہ اس میدان میں ان کی گرپا کو بھی نہ پہنچ سکے ان سے شکست فاش کھا گئے۔
غیرمقلدین کے وکیل اعظم کا مقابلہ کرنا  کوئی آسان کام تو نہ تھا، بٹالوی صاحب اس میدان  کے بانکے شاہ سوار تھے اور ایسے داؤ پیچ جانتے تھے کہ وہ مرزا صاحب کے تصور سے بھی بالاتر تھے۔
لنگڑ ابیل، برق رفتار گھوڑے کا  کیسے اور کیونکر مقابلہ کر سکتا ہے۔
ناظرین کرام!
آپ اس کتاب میں غیرمقلدین کے نو مولود نو خیز ہونے کے دلائل و براہین پڑھ چلے، نیز درج ذیل حقائق و واقعات کی تفاصیل و جزئیات معلوم کر چکے ہیں۔ اب ان کا اجمالی خاکہ ایک دفعہ پھر پڑھیئے۔
(۱)۔۔۔جنگ آزادی ۱۸۵۷ٰء میں غیرمقلدین کا حصہ نہ لینا، اس کو ہلڑ سے تعبیر کرنا، ایک زخمی میم کو عین جنگ سے اٹھوا کر لانا ، اس کا علاج معالجہ کرانا، پھر اس کو انگریزی کیمپ میں پینچا کر تیرہ صد روپیہ نقد وفاداری کے سرٹیفکیٹ  اور شمس  العلماء کا خطاب حاصل کرنا۔
(۲)۔۔۔میاں صاحب کے زمانہ میں غیرمقلدین کے گھناؤنے کردار کے  چند شرم ناک ور حیا سوز واقعات۔
(۳)۔۔۔ نواب صاحب کا  انگریز کی اطاعت کو سب فرائض و واجبات سے بڑا اور اہم فرض قرار دینا۔ مجاہدین ۱۸۵۷ء کو غدار، شریر، فتنہ پرور، ظالم اور غاصب جیسے برے القاب سے یاد کرنا، مجاہدین ہزارہ پر سب و شتم کی پوچھاڑ کرنا۔
(۴)۔۔۔ بٹالوی صاحب کا جہاد کی منسوخی پر رسالہ لکھنا اور اس دور کے اکابر غیرمقلد علماء کا اور نواب صاحب کا اس کی پرزور تائید کرنا۔
(۵)۔۔۔ غیرمقلدین کے اکابرو اسلاف کا متعد و نازک مقامات و موقع میں انگریز سے اپنی وفاداری، جانثاری اور نمک حلالی کا ثبوت دینا۔
(۶)۔۔۔ ان خدمات کے صلہ میں اپنے لئے اہلحدیث کے نام کی الاٹمنٹ کی درخواست کرنا اور انگریز سرکار  اس درخواست کو  نہایت خوشی سے قبول کرکے غیرمقلدین کی قلبی خواہش کو پورا کرنا۔
(۷)۔۔۔ ملکہ وکٹوریہ کے جشن جوبلی کے موقعہ پر اکابر غیرمقلدین کا ملکہ کہ حضور تملق و چاپلوسی کا مرقع سپاسنامہ پیش کرنا۔
(۸)۔۔۔ بٹالوی صاحب کا انگریز سرکار کی عظیم الشان خدمات کے صلہ میں جاگیر سے سرفراز ہونا۔
(۹)۔۔۔ بٹالوی اور مرزا صاحب کا ایک دوسرے سے انگریز کی خؤشنودی حاصل کرنے کے لئے مسابقت کرنا۔
(۱۰)۔۔۔مرزا صاحب اور بٹالوی صاحب  کا اہم خصوصیات میں ا شتراک اور ان کے ذوق کا ہم رنگ  و ہم آہنگ ہونا۔
ناظرین کرام !
ان حقائق و واقعات کی تفصیلات آپ سابقہ اور اق و صفحات  میں پڑھ چکے ہیں۔ ان کی تفصیلات کی طرف اورپر اجمالی اشارات کر دیئے گئے ہیں آپ سابقہ اور اق میں ان تفصیلات و جزئیات کو  ایک بار پھر پڑھ کر ذہن میں مستحضر کیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے اور خدا لگتی کہیے   کہ کیا وہ جماعت، جس کے بانی اور مؤسس ایسے گھناؤنے کردار اور گھٹیا ذہن کے مالک ہوں کہ  جن کی ساری زندگی انگریز پرستی اور اسلام دشمنی میں گزری ہو، جن کی زندگی کا مشن اور نصب العین ہی انگریز کی وفاداری اور جانثآری ہو جو انگریز سرکار کے مقاصد کی تکمیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہوں، محبّ وطن اور ملک و ملت کی غم خوار وار بہی خواہ ہو سکتی ہے؟ کیا ایسی جماعت صحیح اسلام کی علم بردار ہو سکتی ہے؟ نہیں اور یقیناً نہیں۔
غیرمقلدوں کے بانیوں، مؤسسوں ، مجددوں اور اکابر و اسلاف کے کردار کے آئنہ میں ان کے اخلاف کے کردار کی جھلکیاں  دیکھی جا سکتی ہیں، جب ان کے اکابر کے کردار کایہ حال ہے تو ان کے اصاغر کے کردار کا اندازہ ناظرین کرام بخوبی لگا سکتے ہیں۔
“قیاس کن زگلستان من بہار مرا”

٭……٭……٭……٭……٭