پہلے تو یہ سمجھے
کہ کرامات اور معجزات کی کوئی حدود نہیں
ہوتیں کہ کوئی بندہ اٹھ کر کہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اسلاف امت کی بہت سی کرامات
موجود ہیں
معجزات اور کرامت
کو جب اہل توحید دیکھتے ہیں تو وه یہ کہتے ہیں کہ یہ الله کی قدرت ہے اس میں اس کو
توحید نظر آتا ہے لیکن جب انہی معجزات اور کرامات کو عیسائی ذہن والے دیکھتے هیں
تو وه کہتے ہیں یہ اس انسان نے کیاہے اور ان کو اس میں شرک نظر آتا.
مثال: عیسی علیه
السلام کے ہاتھ پر مرده زنده ہوئے مسلمان اس کو دیکھ کر الله کے توحید کی گواہی
دیتا ہے کہ یہالله کی طرف سے ہے.
جبکہ عیسائی کہتے ہیں
کہ یہ عیسی علیه السلام کی طرف سے ہے تو ان کو خدا مان کر مشرک ہوگئے.
لہذا معجزات اور
کرامات کو مسلمانوں کی نظر سے دیکھیں ۔
ایک جاہل اور جدید
فرقہ نام نہاد اہل حدیث جو کہ عقائد کی
کتب سے ایک اعتراض نہیں اٹھا سکتا تصوت
اور کرامات کو تلاش کر کرکے پہلے انہیں عقائد کہتا ہے پھر اپنی طرف سے کوئی
فتویٰ لگا دیتا ہے۔
امداد المشتاق کی کی اس حکایت میں شرک کیا ہے
ایک جولاہا مرید جو کہ کوئی عالم بھی نہیں
ہے اپنا واقعہ بیان کر رہا ہے اور وہ کہہ
رہا ہے کہ اسکے ساتھ یہ واقعہ پیش آگیا تو اس میں نا ممکن ہونے والی تو کوئی بات
ہے نہیں۔ جب امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے جب
محدث تھانویؒ کو اس مرید کا واقعہ سنایا
تو انہوں نے بھی اس کا انکار نہیں کیا کہ
ایسا ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اسے کرامت کہا ہے کہ کرامت سے ایسا ممکن ہے۔ اور کرامت کا
ظہور تو اللہ والوں پر ہی ہوتا ہے
اور ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ ولی کچھ کر رہا ہے اور ان کا مذاق
اڑانا تو اللہ کی قدرت کا مذاق اڑانا ہے۔ ایک جولاہا مرید کے واقعہ کو لے کر پورے مسلک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک مرید کے واقعے سے پورے مسلک پر کیسے اعتراض
بن سکتا ہے ؟ فرقہ اہل حدیث کے ایک عالم لکھتے ہیں ”اہل حدیث (یعنی غیرمقلد لایجتہد ولایقلد) کا مزاج کچھ ایسا
ہوتا ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک عام و عظون کی باتیں زیادہ مرغوب ہوتی
ہیں علمی اور گہری باتیں ان کے لئے بسا اوقات پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں“۔(قافلہ
حدیث صفحہ ۸۰)
یہاں پر نا سمجھنے
والی یا کوئی اتنی گہری اور علمی بات بھی نہیں مگر پھر بھی ہم تھوڑاآسان کرکے
لکھتےہیں ؛
محتاجی کے وقت ضروت کے وقت جو انسان کام آتا تھا اور اب موجود نہیں ہے تو اسے یاد کرکے فریاد تو کر ہی دیتا ہے مردہ ہی کیوں نہ ہو کچھ نہ کچھ زبان سے نکل ہی جاتا ہے جو اسے مخاطب کرکے کہہ دیتا ہے، کتنے لوگ میت کو مخاطب کرکے اس کے اگے فریاد کر رہے ہوتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جواب تو نہیں دے گا پر پھر بھی ایسا کر جاتے ہیں، ان کے دل میں ایک بات ہوتی جو وہ ان سے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہو جاتا
محتاجی کے وقت ضروت کے وقت جو انسان کام آتا تھا اور اب موجود نہیں ہے تو اسے یاد کرکے فریاد تو کر ہی دیتا ہے مردہ ہی کیوں نہ ہو کچھ نہ کچھ زبان سے نکل ہی جاتا ہے جو اسے مخاطب کرکے کہہ دیتا ہے، کتنے لوگ میت کو مخاطب کرکے اس کے اگے فریاد کر رہے ہوتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جواب تو نہیں دے گا پر پھر بھی ایسا کر جاتے ہیں، ان کے دل میں ایک بات ہوتی جو وہ ان سے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہو جاتا
جیسے یہاں ابن
تیمیہؒ کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے۔
یہ اس وقت جب حالتِ غیر میں بندے کے منہ سے ایسی کوئی بات نکل جائے ورنہ کسی باطل نظریے کے ساتھ ایسا کرنا
بلکل بھی جائز نہیں جیسا کہ اہل حدیث کے
مجدد نواب صدیق حسن خان نے اس کی
روٹین بنا رکھی تھی۔
اور یہاں ایک
مولوی صاحب جو غیرمقلدین کے بڑے ہیں ذرہ زیادہ کھل کر شوکانی صاحب اور ابن قیمؒ کو
مخاطب کرکے ان سے مدد طلب کر رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جب بھی مشکل پیش آتی ہے میں ان سے مدد مانگتا ہوں (معاذ اللہ)
اور یہاں پر
نبی کو مخاطب کرکے کچھ ان سے مانگا جا رہا
ہے ۔
یہ اگر انصاف کے
ساتھ دیکھا جائے تو صرف اپنے دل کی آرزو پیش کی جارہی ہے نہ کہ اس سے ان کا کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے جیسا غیرمقلدین کے جہلا کرتے ہیں۔
(سوائے نواب صدیق حسن خان اہل حدیث کی عبارت کے وہ قابل گرفت ہے)۔
(سوائے نواب صدیق حسن خان اہل حدیث کی عبارت کے وہ قابل گرفت ہے)۔
حاجی امداد اللہ
مہاجر مکیؒ نے اس پر ایک بہترین علمی گفتگو کی ہے ایک جگہ فرماتے ہیں:
مخلوق غائب کو پکارنا اگر محض واسطے تذکرہ اور شوق وصال اور
حسرت فراق کے ہے جیسے عاشق اپنے محبوب کا نام لیا کرتے ہیں اور اپنے دل کو تسلی
دیا کرتےہیں اس میں کوئی گنا نہیں ۔(کلیات امدادیہ ص83)
جیسا ابن تیمیہؒ کے مرید نے کیا ، جیسا اس مرید نے کیا ۔
جیسا ابن تیمیہؒ کے مرید نے کیا ، جیسا اس مرید نے کیا ۔
اب یہاں بھی اس
مرید کے ساتھ ایسا ہی ہوا اور اسے غیب سے آواز اگی جسے کرامت کہہ کر اپنے آپ کو بری کر دیا گیا
ہے کہ یہ قدرت خدا تعالٰی کی ہے جس میں
ہمارا کوئی دخل نہیں
ہمارا کوئی دخل نہیں
کیا غیب سے آؤاز اسکتی ہے؟
1)
2)
3)
اور بھی بہت ہیں
اسلاف سےایسی بہت سے شہادتیں مل جاتی ہیں۔
یہاں دیکھئے اسلاف
سے ایک حوالہ جو کہ ابو الخیرؒ نبیﷺ کی
قبر پر جا کر سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں
کہ میں آج آپ کا مہمان ہوں اور وہاں کہیں سو جاتے ہیں اور خواب میں انہیں رسول
اللہﷺ روٹی دیتے ہیں جب آنکھ کھلتی ہے تو سیدھی ان کے ہاتھ میں وہ روٹی ہوتی ہے۔