جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Tuesday 7 April 2015

مسئلہ طلاق ثلاثہ دلائل اور انکا تحقیقی جائزہ Masla Talaq e Salasa AhleSunnat WalJmamat Kay Dalil Aur un Ka Jaiza


مسئلہ طلاق ثلاثہ
بسم اللہ الر حمن الرحیم
مسئلہ طلاق ثلاثہ
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفطہ اللہ
مذہب اہل السنۃ و الجماعۃ:
 ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاق تین شمار ہوتی ہیں، بیو ی خاوند پر حرام ہو جاتی ہے اور یہ بغیر حلالہ شرعی کے شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
(الھدایہ ج 2ص 355 باب طلاق السنۃ، فتاویٰ عالمگیریہ ج1 ص 349کتاب الطلاق الباب الاول، الدرالمختار ج 3ص232)
مذہب غیر مقلدین:
ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے۔
1: غیر مقلد عا لم نواب صدیق حسن خان تین طلاقوں کے متعلق چا ر اقوال نقل کر تے ہوئے لکھتے ہیں:
الرا بع انہ یقع واحدۃ رجعیۃ من غیر فرق بین المدخو ل بھا وغیرھا…وھذا اصح الاقوال
(الروضۃ الندیہ :ج:۲:ص:۵۰)
 تر جمہ :چوتھا قول یہ ہے کہ( تین طلاق دینے سے )ایک طلاق رجعی واقع ہو تی ہے مدخو ل بھا اور غیر مد خول بھا  کے فر ق کئے بغیر اور یہی قول تمام اقوال سے صحیح ہے ۔
2:غیر مقلدین کے ’’ شیخ الاسلام ‘‘ ابو الوفاء ثنا ء اللہ امر تسری اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں :
                ’’محدثین کے نز دیک ایک مجلس میں دی ہو ئی تین طلا ق ایک طلاق رجعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘(فتاویٰ ثنائیہ:ج:۲:ص:۲۱۵)
فائدہ:
 شیعوں اور مرزائیوں کا مذہب بھی یہی ہے کہ تین طلاق ایک شمار ہوتی ہیں۔ حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
مذہب شیعہ :
 1: مشہور شیعی عا لم ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطو سی لکھتے ہیں :
والطلاق الثلاث بلفظ وا حد او فی طہر واحد متفرقاً لا یقع عندناالا وا حدۃ
(المبسوط فی فقہ الاما میہ :ج:5:ص:4)
تر جمہ: تین طلا قیں ایک لفظ سے دی گئی ہو ں یا ایک طہر میں علیحدہ علیحدہ دی  گئی ہو ں ہما رے نزدیک ان میں سے صرف ایک طلا ق وا قع ہو تی ہے ۔
2:۔محمد بن علی بن ابرا ہیم المعروف ابن ابی جمہور لکھتے ہیں :
 وروی جمیل بن دراج فی صحیحہ عن احدہما علیہما السلام قال: سألتہ عن الذی یطلق فی حا ل طہر فی مجلس واحد ثلاثاً؟قال: ھی واحد ۃ
(عوالی التا لی العزیزیہ :ج:3:ص:378)
تر جمہ:جمیل بن درا ج نے اپنی کتا ب صحیح میں امام باقر یا امام صا دق سے روا یت نقل کی ہے کہ میں نے ان سے اس شخص کے با رے میں پوچھا جو اپنی بیوی کو حا لت طہر میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہے تو انہو ں نے جوا ب دیا کہ ایک طلاق واقع ہو گی ۔
مذ ہب مرزائیت:
 1:مرزائیوں نے اپنی نام نہاد فقہ’’ فقہ احمدیہ ‘‘کے نا م سے شائع کی ہے جسے نو(9) اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی نے مرتب کیا ہے اس میں دفعہ :35: کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ :’’ لہذا فقہ احمدیہ کے نزدیک اگرتین طلاقیں ایک دفعہ ہی دے دی جائیں تو ایک رجعی طلاق متصور ہوگی‘۔
(فقہ احمد یہ :ص:80)
2: مشہور مرزائی محمد علی نے اپنی تفسیر بیا ن القر آ ن میں یو ں لکھا ہے:’’طلاق ایک ہی ہے خواہ سو دفعہ کہے یا تین دفعہ اور خواہ اسے ہر روز کہتا جا ئے یا ہر ما ہ میں ایک دفعہ کہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا ‘‘۔
(بیان القر آن از محمد علی مرزائی:ج: 1:ص: 136)
دلائل اہل السنۃ و الجماعۃ
قر آ ن مجید:
دلیل نمبر 1:
قال اللہ تعا لیٰ : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ‘‘۔(البقرہ :۲۲۹)
(۱):امام محمد بن اسما عیل البخا ری (م :۲۵۶؁ھ ) تین طلا ق کے وقوع پر اس آیت سے استدلال کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں ’’با ب من اجاز طلاق الثلا ث‘‘[وفی نسخۃ :باب من جوز طلاق الثلا ث ] لقولہ تعا لیٰ : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ .
(۲):امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م:۳۷۰؁ھ) لکھتے ہیں :
قولہ تعا لیٰ: الطلا ق مرتا ن فا مسا ک بمعروف اوتسریح باحسا ن ‘‘ یدل علیٰ وقوع الثلاث معاً کو نہ منہیا عنہا ۔
(احکام القر آ ن للجصا ص :ج:۱:ص:۵۲۷:ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً )
 (۳) : امام ابو عبد اللہ محمد ابن احمد الانصا ری القرطبی (م:۶۷۱؁ھ) اس آ یت کی تفسیر کر تے ہو ئے فر ماتے ہیں:
’’قال علما ئنا  واتفق ائمۃ الفتویٰ علیٰ لزوم ایقاع الطلا ق الثلا ث  فی کلمۃ واحدۃ‘‘
(الجا مع لاحکا م القر آن للقرطبی :ج:۱:ص:۶۹۲)
اعتراض:
 آیت میں لفظ ہے ’’مرتٰن‘‘ ہے۔ اس کا معنی ہے ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ اس کا معنی اب یوں بنے گا کہ ایک طلاق دی پھر کچھ عرصہ بعد دوسری طلاق بھی دے دی۔ تو یہ آیت متفرق مجالس میں دی گئی طلاق کے متعلق ہے۔ لہذا  اس سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال  درست نہیں۔
جواب:
یہاں ’’مرتٰن‘‘ بمعنی ’’اثنتان‘‘ ہے یعنی طلاق دوبار دینی ہے۔ علامہ سید محمود آلوسی بغدادی ؒ م1270 ھ فرماتے ہیں:
وهذا يدل على أن معنى مرتان إثنتان(روح المعانی ج2 ص135 )
قرآن و حدیث میں کئی ایسی مثالیں ہیں مثلاً….
1: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ
(صحیح البخاری ج1 ص27 باب بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ)
  کیا اس کا یہ معنی کیا جائے گا کہ آپ ﷺ نے ایک عضو ایک دن دھویا ، دوسرے دوسرا۔۔۔۔ نہیں بلکہ ایک ہی مجلس میں دھونا مراد ہے۔۔
2: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا نَصَحَ سَيِّدَهُ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ
 (صحیح بخاری ج1 ص346 بَاب الْعَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ)
نیز یہ اصول بھی قابل غور ہے کہ اگر’’ مرتان‘‘ سے افعال کا بیان ہوگا تو اس وقت تعداد زمانی یعنی یکے بعد دیگرے کے معنیٰ میں ہوگا۔کیونکہ دو کلاموں کا ایک وقت میں اجتماع ممکن نہیں ہے۔مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ’’اکلت مرتین‘‘تو اس کا لازمی طور پر معنیٰ یہ ہوگا کہ میں نے دوبار کھایا۔اس لئے کہ دو اکل یعنی کھانے کے دو عمل ایک وقت میں نہیں ہو سکتے اور جب ’’مرتین ‘‘سے اعیان یعنی ذات کا بیان ہوگا تو اس وقت یہ’’عددین‘‘دو چند اور ڈبل کے معنیٰ میں ہوگا۔کیونکہ دو ذاتوں کا ایک وقت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے۔
دلیل نمبر 2:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.(بقرۃ:۲۳۰)
۱:مشہور صحابی اور مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
 اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(السنن الکبری للبیہقی ج۷ص۳۷۶ باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
۲:اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مشہور فقیہ و محدث امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ’’وَالْقُرْآنُ یَدُلّ_وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔‘‘
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی ج۲ص۱۹۳۹)
فائدہ:
                حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے الفاظ ’’ثلاثاً‘‘ بیان فرمائےہیں کہ اگر خاوند نے تین طلاقیں  دی ہوں تو تینوں واقع ہوں گی، یاد رہے یہ لفظ’ثلاثا’‘‘ ہے نہ کہ ’’ثالثۃ‘‘۔
اعتراض:
’’فان طلقھا‘‘کے عموم سے اکٹھی تین طلاقیں خارج ہیں کیونکہ شریعت میں اس طرح مجموعی طلاق دینا منع ہے۔تو جو طلاق ممنوع ہے وہ واقع کیسے ہوگی؟اس سے شریعت کی ممانعت کا کوئی معنیٰ نہ رہے گا۔
جواب:
یہاں دو چیزِیں ہیں۔
1: جواز،                   2: نفاذ۔
 تین طلاقیں اکٹھی دینا جائز تو نہیں لیکن نافذ ہو جاتی ہیں۔ جواز اور ہے اور نفاذ اور۔ مثلاً  حیض  کی حالت میں طلاق دینا ممنوع  اور ناجائز ہے لیکن اگر کسی نے دے دی تو نافذ ہوجاتی ہے۔
دلیل نمبر 3:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ. (الطلاق:1)
اخرج الامام ابو بکرالبیہقی: وَأَمَّا الأَثَرُ الَّذِى أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِىٍّ الرُّوذْبَارِىُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ : إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحَمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ : يَا ابْنَ عَبَّاسٍ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ قَالَ (وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا) وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلاَ أَجِدُ لَكَ مَخْرَجًا عَصَيْتَ رَبَّكَ وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ ( يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ) فِى قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ هَكَذَا فِى هَذِهِ الرِّوَايَةِ ثَلاَثًا.
(السنن الکبری للبیھقی ج7ص331 باب الاِخْتِيَارُ لِلزَّوْجِ أَنْ لاَ يُطَلِّقَ إِلاَّ وَاحِدَةً)
احا دیث مبا رکہ
مرفوع احا دیث:
دلیل نمبر 1:
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ قَالَ لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ .
(صحیح بخاری ج۲ص۷۹۱باب من اجاز طلاق الثلاث،  صحیح مسلم ج1 ص463 باب لا تحل المطلقۃ ثلاثا لمطلقھا، السنن الکبری للبیہقی ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات)
استدلال:
1:امام بخاری ،امام مسلم اور امام بیہقی رحمہم اللہ کا باب
۲: حا فظ ابن حجر عسقلا نی ؒ (م:۸۵۲؁ھ) لکھتے ہیں:
’’فا لتمسک بظا ہرہ قولہ طلقہا ثلاثاً فا نہ ظا ہر فی کو نہا مجموعۃ ‘‘۔(فتح الباری لا بن حجر :ج:۹:ص:۴۵۵:باب من جوز الطلاق الثلاث)
 تر جمہ: اس روا یت کے الفا ظ فطلقہا ثلاثاً سے استدلال کیا گیا ہے کیو ں کہ یہ الفاظ اس پر دلالت کر تے ہیں کہ اس نے تین طلا قیں ایک ساتھ دی تھیں۔
دلیل نمبر 2:
 قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَامَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُرضی اللہ عنہ کَذَبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلماِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ    صلی اللہ علیہ و سلم
(وَفِیْ رِوَایَۃ ابی داؤد رحمہ اللہ): قَالَ فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم فَاَنْفَذَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم۔
(صحیح البخاری ج۲ص۷۹۱ باب من اجاز اطلاق الثلاث، سنن ابی داوٗد ج۱ص۳۲۴ باب فی اللعان – وقال الالبانی: صحیحرقم 2252،صحیح مسلم ج1 :ص:۴۸۸،۴۸۹: کتا ب اللعا ن ، سنن نسائی :ج:۲:ص:۱۰۷،۱۰۶: کتا ب الطلاق باب بدء اللعا ن  جا مع الترمذی :ج:۱:ص:۲۲۶،۲۲۷:ابواب الطلاق واللعا ن،باب ماجا ء فی اللعا ن)
استدلال:
1:امام بخاری رحمہ اللہ کا باب باندھنا
2:اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی واقع ہو سکتی ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ مُحَرَّمًا لَنَهَاهُ عَنْهُ. وَقَالَ : إِنَّ الطَّلاَقَ وَإِنْ لَزِمَكَ فَأَنْتَ عَاصٍ بِأَنْ تَجْمَعَ ثَلاَثًا.
 (السنن الکبری للبیہقی ج7 ص329 باب الاختیار للزوج ان لا یطلق الا واحدۃ)
3: امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی یہ روایت… فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم فَاَنْفَذَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم۔
دلیل نمبر3:
 قد روی الا م الحا فظ المحدث ابو عبد الرحمن  احمد بن شعیب  النسائی ؒقال اخبرنا سلیما ن بن دا ؤد عن وہب قال اخبرنا مخرمۃعن ابیہ قل سمعت محمود بن لبید  قال اخبر رسول اللہ  ﷺ  عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ثم قال أیلعب بکتا ب اللہ وانا بین ظہرکم حتیٰ قام رجل وقال یا رسول اللہ  ﷺ أاقتلہ ‘‘۔
(السنن النسا ئی :ج:۲:ص:۹۹،الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ  )
حیثیت السند :
1:قال ابن القیم: اسنادہ علی شرط مسلم۔(زاد المعاد ج5ص24 فصل فی حکمہ ﷺ فیمن طلق ثلاثا)
2:قال العلامۃ الماردینی رحمہ اللہ: وقد ورد في هذا الباب حديث صحيح صريح فاخرج النسائي في باب الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ بسند صحيح عن محمود بن لبيد. (الجوہر النقی علی البیہقی ج7 ص333 باب الاختیار للزوج ان لا یطلق الا واحدۃ)
3:قال ابن حجر رحمہ اللہ:رواتہ مؤثقون۔(بلوغ المرام ص442 )
4:قال ابن کثیر رحمہ اللہ: اسنادہ جید. (   بحوالہ نیل الاوطار ج 6ص240، باب ما جاء في طلاق البتة وجمع الثلاث واختيار تفريقها)
استدلال:
1: اس روا یت میں تین طلا قوں کا ذکر تو موجود ہے لیکن اس پر آپ  ﷺ کا رد موجود  نہیں ہے ۔اگر آپ علیہ السلام اس کو رد فر ماتے  تو حد یث میں ذکر ضرور موجود ہو تا ۔ دوسری با ت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ  کا غضنا ک ہو نا بھی وقوع طلاق کی مستقل دلیل ہے ۔
2:امام نسائی رحمہ اللہ کا ’’الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ‘‘ باندھنا ۔
دلیل نمبر 4:
 قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِالْحَافِظِ نَامُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْھَرِیُّ نَامُعَلّٰی بْنُ مَنْصُوْرٍ نَاشُعَیْبُ بْنُ رُزَیْقٍ أنَّ عَطَائَ الْخُرَاسَانِیَّ حَدَّثَھُمْ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا أنه طلق امرأته تطليقة وهي حائض ثم أراد أن يتبعها بتطليقتين أخراوين عند القرئين فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : يا بن عمر ما هكذا أمرك الله إنك قد أخطأت السنة والسنة أن تستقبل الطهر فيطلق لكل قروء قال فأمرني رسول الله صلى الله عليه و سلم فراجعتها ثم قال إذا هي طهرت فطلق عند ذلك أو أمسك فقلت يا رسول الله رأيت لو أني طلقتها ثلاثا أكان يحل لي أن أراجعها قال لا كانت تبين منك وتكون معصية.
(سنن الدارقطنی ص652حدیث نمبر۳۹۲۹ کتاب الطلاق و الخلع و الطلاق، السنن الکبریٰ للبیہقی :ج:۷ :ص:۳۳۴: کتاب الخلع والطلاق، باب ما جا ء فی امضا ء الطلاق الثلاث وان کن مجموعا ت،مجمع الزوائد ج 4ص 618 باب طلاق السنۃ وكيف الطلاق، نصب الرایہ ج3 ص220)
حیثیت السند:
1:قال العلامۃ الہیثمی رحمہ اللہ: رواه الطبراني وفيه علي بن سعيد الرازي قال الدارقطني : ليس بذاك وعظمه غيره وبقية رجاله ثقات.
(مجمع الزوائدج4 ص618 باب طلاق السنۃ وكيف الطلاق)،
قال ابن حجر رحمہ اللہ: علي بن سعيد بن بشير الرازي حافظ رحال جوال…….. قال بن يونس كان يفهم ويحفظ…………… وقال مسلمة بن قاسم.. وكان ثقة عالما بالحديث.
( لسان الميزان ج 4 ص231  رقم الترجمہ 615)
دلیل نمبر 5:
 قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ  نا أبو عبيد القاسم بن إسماعيل نا محمد بن عبد الملك بن زنجويه نا نعيم بن حماد عن بن المبارك عن محمد بن راشد نا سلمة بن أبي سلمة عن أبيه : أنه ذكر عنده أن الطلاق الثلاث بمرة مكروه فقال طلق حفص بن عمرو بن المغيرة فاطمة بنت قيس بكلمة واحدة ثلاثا فلم يبلغنا أن النبي صلى الله عليه و سلم عاب ذلك عليه وطلق عبد الرحمن بن عوف امرأته ثلاثا فلم يعب ذلك عليه أحد ۔
(سنن الدارقطنی ص 644حدیث نمبر۳۸۷۷ کتاب الطلاق و الخلع و الطلاق)
حیثیت السند:
 اسنادہ صحیح و رواتہ ثقات۔
دلیل نمبر6:
 قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ  نا أحمد بن محمد بن سعيد نا يحيى بن إسماعيل الجريري نا حسين بن إسماعيل الجريري نا يونس بن بكير نا عمرو بن شمر عن عمران بن مسلم وإبراهيم بن عبد الأعلى عن سويد بن غفلة قال : لما مات علي رضي الله عنه جاءت عائشة بنت خليفة الخثعمية امرأة الحسن بن علي فقالت له لتَهْنِك الإمارة فقال لها تُهَنِّيني بموت أمير المؤمنين انطلقي فأنت طالق فتقنعت بثوبها وقالت اللهم إني لم أرد إلا خيرا فبعث إليها بمتعة عشرة آلاف وبقية صداقها فلما وضع بين يديها بكت وقالت متاع قليل من حبيب مفارق فأخبره الرسول فبكى وقال لولا أني أبنت الطلاق لها لراجعتها ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول أيما رجل طلق امرأته ثلاثا عند كل طهر تطليقة أو عند رأس كل شهر تطليقة أو طلقها ثلاثا جميعا لم تحل حتى تنكح زوجا غيره ۔
(سنن الدارقطنی ص651،652 حدیث نمبر3927 کتاب الطلاق و الخلع و الطلاق)
حیثیت السند:
قال الحافظ ابن رجب الحنبلی : اسنادہ صحیح۔(الاشفاق للکوثری ص38)
و قال الھیثمی: و فی رجالہ ضعف و قد وثقوا۔( مجمع الزوائد ج4ص624 باب متعۃ الطلاق)
 لہذا اس کی سند حسن  درجہ سے کم نہیں۔
دلیل نمبر7:
 قال الامام مسلم رحمہ اللہ: وحدثني زهير بن حرب حدثنا إسماعيل عن أيوب عن نافع * أن بن عمر طلق امرأته وهى حائض فسأل عمر النبي صلى الله عليه وسلم فأمره أن يرجعها ثم يمهلها حتى تحيض حيضة أخرى ثم يمهلها حتى تطهر ثم يطلقها قبل أن يمسها فتلك العدة التي أمر الله أن يطلق لها النساء قال فكان بن عمر إذا سئل عن الرجل يطلق امرأته وهى حائض يقول أما أنت طلقتها واحدة أو اثنتين إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يرجعها ثم يمهلها حتى تحيض حيضة أخرى ثم يمهلها حتى تطهر ثم يطلقها قبل أن يمسها وأما أنت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك وبانت منك.
(صحیح مسلم ج1ص476 باب تحریم طلاق الحائض)
دلیل نمبر 8:
 قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا یَحْیَ بْنُ الْعَلاَئِ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْوَلِیْدِ الْعَجَلِیِّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ دَاوٗدَ عَنْ عُبَادَۃَ (بن) الصَامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّیْ اِمْرَأۃً لَہُ أَلْفَ تَطْلِیْقَۃً فَانْطَلَقَ أبِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم فَذَکَرَلَہُ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ و سلمأمَااِتَّقٰی اللّٰہَ جَدُّکَ أمَّا ثَلاَثٌ فَلَہُ وأمَّا تِسْعُ مِائَۃٍ وَسَبْعٌ وَّتِسْعُوْنَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَذّبَہُ وَاِنْ شَائَ غَفَرَلَہُ۔
(مصنف عبدالرزاق ج۶ص۳۰۵،حدیث نمبر۱۱۳۸۳باب المطلق ثلاثا)
تحقیق السند:
اس کی سند میں ایک راوی’’ عبيد الله بن الوليد‘‘  ہے جو کہ ضعیف ہے۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وفيه عبيد الله بن الوليد وهو ضعيف ‘‘
 (مجمع الزوائد ج 1ص273)
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: يكتب حديثه للمعرفة.
(میزان الاعتدال ج3ص17 رقم الترجمہ5405)
لہذا ہم یہ روایت محض تقویت کے لیے پیش کر رہےہیں۔
موقوف احادیث
دلیل نمبر1:
 قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ أبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍقَالَ نَاعَلِیُّ بْنُ مُسْھِرٍ عَنْ شَقِیْقِ بْنِ أَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کاَنَ عُمَرُ  رضی اللہ عنہ  اِذَااَتیٰ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج۴ص۱۱ باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا)
حیثیت السند:
اسنادہ حسن ورواتہ ثقات.
دلیل نمبر2:
روی الامام الحا فظ المحد ث ابو بکر  عبداللہ بن محمد ابن ابی شیبہ ؒ (م:۲۳۵؁ھ)قال نا وکیع والفضل بن دکین عن جعفر بن البرقا ن عن معاو یہ ابن ابی یحی قال جا ء رجل الیٰ عثمان فقال انی طلقت امرأ تی مائۃ قال ثلاث تحرمھا علیک وسبعۃ وتسعون عدوان ‘‘۔
اسنادہ صحیح و رجالہ ثقات.
(مصنف ابن ابی شیبہ :ج:۴:ص:۱۳باب ما جا ء یطلق امرأتہ مائۃ او الف فی قول وا حد،
مثلہ  فی مصنف عبد الرزاق :ج:۶:ص:۳۰۶ باب المطلق ثلاثاً، رقم الحدیث :۱۱۳۸۵حیثیت السند: اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم )
دلیل نمبر3:
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِیْ نَمْرٍقَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلٰی عَلِیٍّ  رضی اللہ عنہ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِیْ عَدَدَ الْعَرْفَجِ۔ قَالَ تَاْخُذْ مِنَ الْعَرْفَجِ ثَلاَثاً وَتَدْعُ سَائِرَہُ۔
حیثیت السند:
 اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم
 (مصنف عبدالرزاق ج۶ص۳۰۶ حدیث نمبر۱۱۳۸۵باب المطلق ثلاثا، و مثلہ فی مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص12 فی الرجل یطلق امراتہ ماۃ او الفا فی قول واحد حیثیت السند: اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم)
دلیل نمبر4:
عبد الرزاق عن معمر عن الأعمش عن إبراهيم عن علقمة قال جاء رجل إلى بن مسعود فقال إني طلقت امرأتي تسعة وتسعين وإني سألت فقيل لي قد بانت مني فقال بن مسعود لقد أحبوا أن يفرقوا بينك وبينها قال فما تقول رحمك الله – فظن أنه سيرخص له – فقال ثلاث تبينها منك وسائرها عدوان.
 اسنادہ صحیح علی شرط  البخاری و مسلم
    (مصنف عبدالرزاق ج :۶ ص:۳۰۷ رقم ۱۱۳۸۷  باب المطلق ثلاثا ،سنن سعید بن منصور  ج:۱  ص:۲۶۱ کتاب الطلاق باب التعدی فی الطلاق رقم ۱۰۶۳،مصنف ابن ابی شیبہ  ج :۴  ص: ۱۲ کتاب الطلاق  باب فی الرجل یطلق امراتہ مائۃ رقم 1 )
دلیل نمبر5:
عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن سالم عن بن عمر قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصى ربه
اسنادہ صحیح ھذا علی شرط الشیخین
 (مصنف عبدالرزاق  ج: ۶ ص : ۳۰۷ رقم ۱۱۳۸۸   باب المطلق ثلاثاً)
 (فی روایۃ) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا ، فَقَدْ عَصَى رَبَّهُ ، وَبَانَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ
(مصنف ابن ابی شیبہ ج: ۴ ص : ۱۱ رقم  :۵ باب من کرہ  ان یطلق الر جل امراتہ ثلاثاًفی مقعد واحد)
دلیل نمبر6:
حدثنا  سعید [بن منصور بن شعبۃ الخراسانی المکی رحمہ اللہ] نا ابو عوانۃ عن شقیق  عن انس بن مالک فیمن طلق امراتہ ثلاثاً قبل ان یدخل بھا قال لا تحل لہ حتیٰ تنکح غیرہو فی روایۃ ھی ثلاث،
اسنادہ  صحیح علی شر ط البخاری و مسلم
  (سنن سعید بن منصور :ج ۱ : ص ۲۶۴  رقم الحدیث ۱۰۷۴، ۱۰۷۳ کتا ب الطلاق باب التعدی فی الطلاق ،مصنف عبدالرزاق  ج : ۶  ص: ۲۶۱ ،۲۶۰  رقم الحدیث ۱۱۱۰۹ باب طلاق البکر ، مصنف ابن ابی شیبہ  ج :۴ ص: ۱۱  رقم الحدیث ۳ باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأۃ  ثلاثا)
دلیل نمبر7:
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ قَالَ : سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فِي مَجْلِسٍ ؟ قَالَ : أَثِمَ بِرَبِّهِ ، وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ.
  ’’مصنف ابن ابی شیبہ  ج :۴ ص : ۱۰  رقم الحدیث ۱ سنن الکبری بیھقی  ج: ۷ ص : ۳۳۲  باب الاختیار  للزوج ان لا یطلق الا واحدۃ‘‘
دلیل نمبر8:
عبد الرزاق عن مالك عن يحيى بن سعيد عن بكير عن نعمان بن أبي عياش قال سأل رجل عطاء بن يسار عن الرجل يطلق البكر ثلاثا فقال إنما طلاق البكر واحدة فقال له عبد الله بن عمرو بن العاص أنت قاص الواحدة تبينها والثلاث تحرمها حتى تنكح زوجا غيره
اسنادہ صحیح علی شرط  البخاری و مسلم ۔
 (مصنف عبدالرزاق ج: ۶  ص :۲۶۲رقم الحدیث11118 باب الطلاق البکر ،مؤطا امام مالک ص؛۵۲۱ باب الطلاق البکر ، سنن سعید بن منصور ج:۱ ص: ۲۶۴ رقم الحدیث ۱۰۷۵  باب التعدی فی الطلاق)
دلیل نمبر9:
مالک عن یحیی بن سعید عن بکیر بن عبد اللہ بن الاشجع انہ اخبرہ  عن معاویۃ بن ابی عیاش الانصاری انہ کان جالسا مع عبد اللہ بن الزبیر و عاصم بن عمرقال فجاءھما محمد بن ایاس بن البکیر فقال ان رجلا من اھل البادیۃ طلق امراتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا فما ذا تریان فقال عبد اللہ بن الزبیر  ان حذا الامر ما بلغ لنا فیہ قول فاذہب الی ابن عباس و ابی ہریرۃفانی ترکتہما عند عائشۃفسلمہما ثم ائتنا فذہب فسئلھما فقال ابن عباس لا بی ھریرۃ افتہ یا ابا ھریرۃ فقد جآ ء تک معضلۃ  فقال ابو ھریرۃ الواحدہ تبینھا والثلاث تحرمھا حتی تنکح زوجاًغیرہ وقال ابن عباس مثل ذلک
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ۔
(مؤطا امام مالک  ص:۵۲۱ باب  طلاق البکر،ومؤطا امام محمد  ص: ۲۶۳  باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً قبل ان یدخل بھا ،مصنف ابن عبد الرزاق ج: ۶ ص؛ ۲۶۲ رقم الحدیث ۱۱۱۱۵ باب الطلاق البکر )
دلیل نمبر10:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي تِحْيَى قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عُثْمَانَ فَقَالَ : إنِّي طَلَّقْت امْرَأَتِي مِئَةً ، قَالَ : ثَلاَثٌ يُحَرِّمْنَهَا عَلَيْك ، وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ عُدْوَانٌ. ‘‘
اسنادہ  صحیح علی شرط  البخاری و مسلم ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ  ج: ۴ ص: ۱۳ رقم الحدیث ۹ باب الرجل یطلق امرأتہ مائۃ او الفاً فی قول واحد ، سنن کبرٰی بیہقی ج؛۷ ص: ۳۳۶ باب ما جآ ء فی امضاء الطلاق الثلاث  الخ)
دلیل نمبر11:
عبد الرزاق عن أبي سليمان عن الحسن بن صالح عن مطرف عن الحكم أن عليا وبن مسعود وزيد بن ثابت قالوا إذا طلق البكر ثلاثا فجمعها لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره فإن فرقها بانت بالأولى ولم تكن الأخريين شيئا
 اسنادہ صحیح علی الشرط البخاری و مسلم ۔
(مصنف عبد الرزاق ج: ۶ ص: ۲۶۴ رقم الحدیث ۱۱۱۲۷ باب طلاق البکر ، سنن سعید بن منصور ج: ۱ ص: ۲۶۶ باب التعدی فی الطلاق رقم الحدیث ۱۰۸۰، المحلیٰ بالآثار لاب حزم ج: ۹ ص؛۴۰۸ ،۴۰۷ کتاب الطلاق )
دلیل نمبر12:
حدثنا ابو بکر قال نا ابو اسامۃ قال نا عبید اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمرو عن محمد بن ایاس بن بکیر عن ابی ھریرہ و ابن عباس و عا ئشہ رضی اللہ عنھم فی الرجل یطلق امرأ تہ قبل ان ید خل بھا  قالوا لا تحل لہ حتی تنکح زوجاغیر ہ .
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم
(مصنف ابن ابی شیبہ :ج:۴ :ص:۱۹۔ رقم  الحدیث ۹باب فی الرجل یتزوج المرأۃ ثم یطلقھا :ج:۴:ص:۶۰ رقم  :۲ باب ماقالوا فی الرجل یقول لامرأتہ انت طا لق واحدۃ کألف الخ )
احادیث مقطوعہ
دلیل نمبر1:
عن ابرا ہیم فی الرجل یقول لامرأتہ انت طالق ثلاث قبل ان یدخل بھا  قال ان اخرجھن جمیعاً لم تحل لہ فاذا اخرجہن تتری بانت باولیٰ والثنتان لیستا بشئی ‘‘۔
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم ،
(سنن سعید بن منصور :ج:۱:ص:۲۶۶،رقم ۱۰۸۱ باب التعدی فی الطلاق، مصنف عبد الرزاق :ج:۶:ص:۲۶۱ رقم الحد یث ۱۱۱۱۲،۱۱۱۱۳)
دلیل نمبر2:
عن ابن المسیب اذا طلق الرجل البکر ثلاثاً فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجا ً غیرہ
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم .
( مصنف عبد الرزاق:ج:۶:ص:۲۶۱رقم الحدیث۱۱۱۱۰باب طلاق البکر )
دلیل نمبر3:
عن الزہری فی الرجل طلق امرأتہ ثلاثا ً جمیعا ً قال ان من فعل فقد عصیٰ وبانت منہ امرأتہ
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم
(مصنف ابن ابی شیبہ :ج:۴:ص:۱۱ باب منکرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاث)
دلیل نمبر4:
عن الحسن انہ قال فی من طلق امرأتہ ثلا ثاً قبل ان ید خل بھا قال رغم انفہ بلغ حدہ حتیٰ تنکح زوجا ً غیرہ
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم ۔
(سنن سعید بن منصور :ج:۱:ص:۲۶۷ رقم الحدیث ۱۰۸۸باب التعدی فی الطلاق )
دلیل نمبر5:
عن الشعبی قال فی الرجل یطلق البکر ثلا ثاً  جمیعا ً فلم ید خل بھا قال لا تحل لہ حتیٰ تجکح زوجا ً غیرہ فا ن (قال) انت طا لق ، انت طالق،  فقد بانت بالاولیٰ  لیخطبھا
اسنادہ صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم ۔
(مصنف عبد الرزاق :ج:۶:ص:۲۶۴ باب طلاق البکر)
اجماع امت
(1):       قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَ ثًا
أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَاجَائَ بِہٖ حَدِیْثُ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ و سلم ثُمَّ قَالَ : أَوْاَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّاثَلاَثاً اَنَّھَااُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص۹۲)
 (2):      قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ :مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّفِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُبِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ  دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم جَمِیْعاً فِعْلاًیَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ۔
(سنن الطحاوی ج۲ص۳۴باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج۱ ص۴۷۷ )
اعتراض:
 حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اس فیصلے پر نادم تھے، معلوم ہوا کہ ان کا یہ فیصلہ صحیح نہ تھا۔ چنانچہ محدث ابو بکر اسماعیلی مسند عمر میں ایک روایت نقل کرتے ہیں:
 قال الحافظ أبو بكر الاسماعيلي في مسند عمر : أخبرنا أبو يعلى : حدثنا صالح بن مالك : حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه قال : قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : ما ندمت على شيء ندامتي على ثلاث : أن لا أكون حرمت الطلاق
(إغاثة اللهفان من مصائد الشيطان لأبی عبد الله محمد بن أبي بكر أيوب الزرعي ج1 ص 336)
جواب1:
 اس روایت میں دو راوی سخت مجروح ہیں:
1: یزید بن عبد الرحمن الدمشقی: یہ لین الحدیث (حدیث کے بارے میں سست) اور مدلس ہے۔ ان لوگوں سے روایت کرتا ہے جن سے ملاقات بھی ثابت نہیں۔ نیز یہ وہم کا شکار بھی تھا۔
(کتاب المعرفۃ للفسوی ج1 ص354، میزان الاعتدال للذہبی ج4 ص 401، المغنی فی الضعفاء ج2 ص 543، التقریب لابن حجر ج2 ص674)
2: خالد بن یزید: سخت مجروح، ضعیف، متروک الحدیث اور کذاب تھا۔
(میزان الاعتدال للذہبی ج1 ص628، التہذیب لابن حجر ج2 ص78،77، الضعفاء و المتروکین لابن الجوزی ج1 ص25 )
جواب2:
 یزید بن عبد الرحمن الدمشقی 60ھ میں پیدا ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ 24ھ میں شہید ہوئے۔ یزید کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات  ثابت نہیں۔ لہذاروایت منقطع ہونے کی وجہ سے باطل  او مردود  ہے۔
جواب3:
پر لطف بات یہ ہے کہ یہ منقطع روایت  لین الحدیث، مجروح، ضعیف، متروک الحدیث اور کذاب راویوں سے مروی ہونے کے ساتھ ساتھ مجمل بھی ہے، طلاق کی کسی قسم (ایک یا تین) کی تفصیل نہیں۔
 (3):قالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ  فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{ أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}  اَجْمَعُوْاعَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ ِباْلاِجْمَاعِ۔
(التفسیر المظہری ج۲ص۳۰۰)
اعتراض:
محمد رئیس ندوی مؤلف تنویر الآفاق لکھتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تمام مجتہدین کسی مسئلہ پر متفق ہوں لیکن ایک مجتہد کی رائے کچھ اور ہو تو اجماع منعقد ہی نہیں ہوتا اور نہ یہ حجت شرعیہ ہے،یہ جمہور کا مذہب ہےاور مسئلہ طلاق میں تو حضرت ابن عباسؓ،طاؤس اور ابن تیمیہ،ابن قیم،داؤد ظاہری وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ تین طلاق ایک واقع ہوتی ہے۔تو پھر یہ اجماع کیسے ہوا اور کیونکر حجت ہوا؟
(تنویر الآفاق ص۲۰۷تا۲۱۵ ملخصاً)
جواب:
 اولاً ….تین طلاق کے تین ہونے پر اجماع حضرت عمر ؓ کے دور میں ہوا،اس وقت حضرات صحابہؓ میں سے ایک شخص  بھی اس کا  مخالف نہیں تھا۔لہذا یہ حجت ہوا۔
ثانیاً…….:اجماع کی تعریف یہ ہے :اتفاق المجتھدین من امۃ محمدیۃ علیہ السلام فی عصر علیٰ حکم شرعی۔(توضیح تلویح ج۲ ص۵۲۲)
۲:اتفاق المجتھدین من امۃ محمد ﷺ فی عصر علی امر دینی۔(مجموعۃ قواعد الفقہ ص۱۶۰ لمحمد عمیم الاحسان)
تقریباً یہی تعریف ہر کتاب میں ملتی ہے۔ اجماع کی اس  تعریف میں حضرات صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر  ساتویں صدی تک کے اہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع شامل  ہے ۔علامہ ابن تیمیہ،ابن القیم جیسے افراد کی رائے شاذ ہے،اجماع میں مخل نہیں۔
ثالثاً……..:جن شخصیات کا نام اعتراض میں درج ہے ان میں حضرت عباس ؓ کا اپنا فتویٰ ہے کہ تین طلاقیں تین ہیں۔
(مصنف عبدالرزاق ج۶ ص308رقم۱۱۳۹۷)
 اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
 عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا۔
(المنار مع شرحہ ص190)
کہ راوی کا اپنی روایت کے خلاف عمل کرنا اس روایت سے عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔ لہذا یہ روایت منسوخ ہے۔
حضرت طاؤس کا قول حسین ابن علی الکرابیسی نے ’’ادب القضاۃ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ وہ بھی تین طلاق کے تین ہونے کے قائل ہیں۔رہے ابن تیمیہ ،ابن قیم ،داؤد ظاہری تو اولاً وہ مجتہد نہیں تھے،پھر یہ ان کا تفرد تھا جس کا اس وقت کے علماء نے رد کردیا ۔لہذا ان کے اختلاف سے اجماع پر زد نہیں پڑتی۔
رابعاً……….:امت کے اکثر مجتہدین کسی بات پر متفق ہوجائیں تو اس پر بھی اجماع کا اطلاق کیاجاتاہے۔علامہ  بدر الدین محمود بن احمد العینی ؒ  فرماتے ہیں:
فمن هذا قال صاحب ( الهداية ) من أصحابنا وعلى ترك القراءة خلف الإمام إجماع الصحابة فسماه إجماعا باعتبار اتفاق الأكثر ومثل هذا يسمى
إجماعا عندنا.
(عمدۃ القاری ج 4ص449 باب وجوب القراءۃ )
حضرات فقہا ء کرا م رحمہم اللہ تعا لیٰ
 امت مسلمہ کے جید فقہا ء کرا م خصوصاً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم اللہ تعا لیٰ کے نزدیک بھی تین طلا قیں تین ہی شما ر ہو تی ہیں :
۱:۔ امام اعظم ابو حنیفہ نعما ن بن ثا بت (م ۱۵۰ھ):
 امام محمد بن الحسن الشیبا نی فر ما تے ہیں کہ :
’’وبھذا نا خذ وھو قول ابی حنیفۃ والعا مۃ من فقہائنا لانہ طلقہا ثلاثاً جمیعاً فوقعن علیہا جمیعاً معاً‘۔
(مؤطا امام محمد :ص:۲۶۳، سنن الطحا و ی :ج:۲:ص:۳۴۔۳۵،شرح مسلم :ج:۱:ص:۴۷۸)
۲:۔امام مالک بن انس المدنی ؒ  (م ۱۸۹ھ):
آپ فر ما تے ہیں :
’’فا ن طلقہا فی کل طہر تطلیقۃ او طلقہا ثلاثاً مجتمعات فی طہر لم یمس فیہ ، فقد لزمہ ‘‘۔
(التمہید لابن عبد البر :ج:۶:ص:۵۸،المدونۃ الکبریٰ:ج:۲:ص:۲۷۳، شرح مسلم للنووی :ج:۱:ص:۴۷۸)
۳:۔ امام محمد بن ادریس الشا فعی ؒ (م ۲۰۴ھ):
آپ فرماتے ہیں:
 ’’وَالْقُرْآنُ یَدُلّ _وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔‘‘
(کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی ج۲ص۱۹۳۹)
۴:۔امام احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) :
آپ کے صا حبزادے امام عبد اللہ فر ما تے ہیں:
’’قلت لابی رجل طلق ثلا ثاً وھو ینوی وا حد ۃ قال ھی ثلاث ‘‘ ۔
(مسائل احمد  بروایت ابنہ :ص:۳۷۳،کتا ب الصلوٰۃ :ص:۴۷،شرح مسلم:ج:۱:ص:۴۷۸)
غیر مقلدین کے دلائل کا جواب
دلیل نمبر1:
 عن ا بن طاوس عن أبيه عن  ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم  فأمضاه عليهم۔
 (صحیح مسلم ج1 ص477،ص478، مصنف عبد الرزاق ج6ص305)
و من طریق آخر ففیہ ابن جریج۔
جواب نمبر1:
 امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے:
فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيدا ولا استئنافا يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد فلما كان في زمن عمر رضي الله عنه وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستئناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق إلى الفهم منها في ذلك العصر۔
( شرح مسلم للنووی: ج1ص478)
ترجمہ: حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہہ کر طلاق دیتا اور دوسری اور تیسری طلاق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ استیناف کی، تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔
فائدہ: یہ اس صورت میں ہے کہ جب ”انت طالق“کو تین بار کہے ۔اگر  ”انت طالق ثلاثاً“کہے تو پھر تین ہی واقع ہو جائیں گی۔
 جواب نمبر2:
اس حدیث میں طلاق کی تاریخ بیان کی جارہی ہے کہ عہد نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام سے لے کر ابتدائے عہد فاروقی تک لوگ یکجا تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دیا کرتے تھے، خلافت فاروقی کے تیسرے سال سے لوگوں نے جلد بازی شروع کردی کہ ایک طلاق  دینے کے بجائے تین طلاقیں اکٹھی دینے لگےتو وہ تینوں طلاقیں نافذ کردی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس پر واضح قرینہ ہیں، آپ فرماتے ہیں:
إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة
لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہے۔
                اگر ابتداء سے تین طلاق کا رواج ہوتاتو پھر استعجال اور اناۃ کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ لہذا اس حدیث میں ”۔۔۔طلاق الثلاث واحدة“ کا مطلب ”تین طلاقوں  کے بجائے ایک طلاق دینا“ ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آ کر مسئلہ بدل گیا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے کے معاملے میں لوگوں کی عادت بدل گئی تھی۔ اگر یہ مراد لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلے کو منسوخ فرما کر تین طلاقوں کو تین شمار کیا ہے تو یہ مطلب انتہائی غلط ہے، کیونکہ اگر یہی معاملہ ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر اجماع نہ فرماتے بلکہ اس فیصلہ کا انکار کرتے حالانکہ کسی سے بھی انکار منقول نہیں۔ یہی مطلب محدثین نے بیان کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره
( شرح مسلم للنووی: ج2ص478)
ترجمہ: مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔  امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا،  -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے۔
                علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں:
ای کان الناس یطلقون واحدۃ بدل الثلاث  و یکتفون بواحدۃ للتطلیق، وکانوا لا یطلقون ثلاثاً خلاف السنۃ، وہم کانوا علی ذلک الیٰ خلافۃ عمر حتیّٰ صاروا فی عہدہ یطلقون ثلاثاً دفعۃ خلاف السنۃ، فامضاہ عمر علیہم و ہذا احد معنی الحدیث ذکرہ النووی فی شرح مسلم.
(معارف السنن: ج5 ص471)
ترجمہ: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دینے پر اکتفاء کرتے تھے، تین طلاقیں جو کہ خلاف سنت ہیں نہیں دیتے تھے۔ یہ معاملہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کی خلافت تک چلتا رہا یہاں تک کہ لوگ خلافِ سنت تین طلاقیں اکٹھی دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا۔ حدیث کا ایک یہی مطلب امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
فائدہ:
حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا یہ مطلب لینے پر(کہ لوگ تین طلاقوں کی بجائے ایک طلاق دیتے تھے) قرآن و سنت سے دو نظیریں بھی پیش کی ہیں:
1: اللہ تعالیٰ کا  فرمان ہے:  ﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا﴾(سورۃ ص:5 )
ترجمہ: (کافر یہ کہتے ہیں:) کیا اس (پیغمبر)  نے سارے معبودوں کو ایک معبود میں تبدیل کر دیا ہے؟
                علامہ کشمیری فرماتے ہیں:
فہم لم یریدوا بقولہم ہذا انہ صلی اللہ علیہ و سلم آمن بآلہۃ ثم جعلہم واحدا، و انما یریدون انہ جعل الہاً واحدا بدل آلہۃ۔
(معارف السنن: ج5 ص472)
ترجمہ: کفار کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پہلے تمام آلہہ پر ایمان لائے پھر ان کو ایک کر دیا، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے تمام آلہہ کو چھوڑ کر ایک کو اپنا لیا ہے۔
2: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
من جعل الهموم هما واحدا هم آخرته كفاه الله هم دنياه الخ
(سنن ابن ماجۃ: ص باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ-  عن عبد اللہ بن مسعود)
ترجمہ: جو شخص اپنی تمام فکروں کو ایک فکر یعنی آخرت کی فکر بنا لے اللہ تعالیٰ دنیوی پریشانیوں
اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں الخ
                علامہ کشمیری فرماتے ہیں:
فلیس المراد اختیار الہموم ثم جعلہا واحدۃ، و انما المراد انہ اختار ہماً واحداً بدل ہموم کثیرۃ
(معارف السنن: ج5 ص472)
ترجمہ: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان پہلے تمام غموں کا روگ لگا لے پھر ان سب کو ایک غم میں تبدیل کر دے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غموں کے انبار کو چھوڑ کر ایک آخرت کی فکر کو اپنا لے۔
جواب  نمبر3:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فر مایا  : الحدیث اذا لم تجمع طر قہ لم تفہمہ والحدیث یفسر بعضہا بعضا ً
 (الجا مع لاخلاق الرا وی للخطیب البغدادی: ص370 رقم1651)
ترجمہ:  جب تک آپ حدیث کے تمام طرق جمع نہ کر لیں اس وقت تک حدیث کا معنی نہیں سمجھ سکتے اس لیے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے۔
                چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنن ابی داود میں ہے، جس میں راوی سے سوال کرنے والا شخص ایک ہی ہے یعنی ابو الصَّہباء،   اور دونوں روایتوں کے الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ روایت یہ ہے:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ
(سنن ابی داؤد: ج ص باب نسخ المراجعۃ بعد التطليقات الثلاث)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہاں! جب خاوند اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دیتا رو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اسے ایک شمار کیا جاتا تھا۔
اس روایت کی اسناد صحیح ہے۔ (زاد المعاد لابن القیم: ج4 ص1019-فصل: فى حكمہ صلى الله علیہ وسلم فیمن طلق ثلاثا بكلمۃ واحدۃ، عمدۃ الاثاث: ص94)
                اسی طرح صحیح مسلم کے راوی طاؤوس یمانی کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا کی قید موجود ہے۔ علامہ علاء الدین الماردینی (م745ھ) لکھتے ہیں:
ذكر ابن أبى شيبة بسند رجاله ثقات عن طاوس وعطاء وجابر بن زيد  انهم قالوا إذا طلقها ثلاثا قبل ان يدخل بها فهى واحدة
(الجوہر النقی: ج 7ص331)
ترجمہ: محدث ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نےسند کے ساتھ جس کے تمام راوی ثقہ ہیں، طاوس، عطاء اور جابر بن زید سے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک ہی ہو گی۔
ان دونوں روایات میں ”قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا“ (غیر مدخول بہا) کی تصریح ہے ۔ معلوم ہوا کہ حدیث مسلم مطلق نہیں بلکہ ”غیر مدخول بہا“ کی قید کے ساتھ  مقید ہے۔ ایسی عورت کو خاوند الگ الگ الفاظ (أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے طلاق دے  تو پہلی طلاق سے ہی وہ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری تیسری طلاق لغو ہوجائے گی، اس لیے کہ وہ طلاق کا محل ہی نہیں رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے دور، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں غیر مدخول بہا کو طلاق دینے کا یہی طریقہ رائج تھا اس لیے ان حضرات کے دور میں غیر مدخول بہا کو دی گئی ان تین طلاقوں کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں لوگ ایک ہی جملہ میں اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے(یعنی انت طالق ثلاثا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تین ہی شمار ہوں گی، کیونکہ غیر مدخول بہا کو ایک ہی لفظ سے اکٹھی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔
جواب نمبر4:
 یہ روایت متناً مضطرب ہے۔(فتح الباری ج9 ص451) اور  قاعدہ ہے:
والاضطراب يوجب ضعف الحديث۔(تقریب النووی مع شرحہ التدریب ص234)
کہ اضطراب فی المتن وجہ ضعف ہوتا ہے۔
اور اضطراب کی وجہ یہ ہے حضرت ابن عباس ؒکے جملہ شاگرد ان سے تین طلاق کا تین ہونا ہی روایت کرتے ہیں، صرف طاؤس ایسے ہیں جو تین کا ایک ہونا روایت کرتے ہیں۔ مثلاً
(1): قال الامام احمد بن حنبلؒ: كل أصحاب ابن عباس رووا عنه خلاف ما قال طاوس.
(نیل  الاوطار للشوکانی  ج6ص245 باب ما جاء فی طلاق البتۃ)
(2):قال الامام محمد ابن رشد المالکی: بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث منهم سعيد بن جبير ومجاهد وعطاء وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم.
(بدایۃ المجتھد ج2ص61 کتاب الطلاق، الباب الاول)
(3):قال الامام البیھقی رحمہ اللہ: فَهٰذِهِ رِوَايَةُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَطَاءِ بْنِ أَبِى رَبَاحٍ وَمُجَاهِدٍ وَعِكْرِمَةَ وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَمَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ وَمُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ وَرُوِّينَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِى عَيَّاشٍ الأَنْصَارِىِّ كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَجَازَ الطَّلاَقَ الثَّلاَثَ وَأَمْضَاهُنَّ
 (السنن الکبری للبیھقی ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی صحیح میں تخریج نہیں کیا۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَتَرَكَهُ الْبُخَارِىُّ وَأَظُنُّهُ إِنَّمَا تَرَكَهُ لِمُخَالَفَتِهِ سَائِرَ الرِّوَايَاتِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
( السنن الکبری للبیھقی ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً)
جواب نمبر5:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتوی اس روایت کے خلاف ہے۔(جامع المسانید ج  2ص148، السنن الکبری للبیھقی ج7 ص338)
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
 عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا۔
(المنار مع شرحہ ص190)
کہ راوی کا اپنی روایت کے خلاف عمل کرنا یا فتوی دینا اس روایت سے عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔(قواعد فی علوم  الحدیث للعثمانی ص 202)
جواب نمبر6:
 اس روایت کی ایک سند میں ایک راوی’’طاؤس یمانی‘‘ ہے۔ امام سفیان ثوری ، امام ابن قتیبہ،اور امام ذہبی  نے اسے شیعہ قرار دیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء ج5 ص26،27، المعارف لابن قتیبہ ص267،268)
دوسرا راوی ’’ابن جریج‘‘ ہے۔ یہ شیعہ اور متعہ باز ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص128، سیر اعلام النبلاءج5ص497،میزان الاعتدال للذہبی ج2ص509)
مذکورہ دونوں راویوں کو کتب شیعہ میں بھی شیعہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ’’ طاؤس ‘‘ کو رجال کشی لابی جعفر طوسی ص55، ص101، رجال طوسی لابی جعفر طوسی ص94 میں اور ’’ابن جریج‘‘کو رجال کشی ص395، رجال طوسی ص233 اور اصحاب صادق رقم 162 میں شیعہ کہا گیا ہے۔ اصول حدیث کا قاعدہ ہے :
قال الامام الحافظ المحدث العسقلانی: الا ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی المختار.
(شرح نخبۃ الفکر مع شرح ملا علی القاری ص159، مقدمہ فی اصول الحدیث لعبد الحق الدہلوی ص67)
کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔
جواب نمبر7:
خود غیر مقلدین کے فتاوی میں ہے :’’ یہ کہ مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں‘‘ (فتاوی ثنائیہ ج2 ص219)
جواب نمبر8:
صحیح مسلم میں روایت موجود ہے :
قال عطاء  قدم جابر بن عبد الله معتمرا فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء ثم ذكروا المتعة فقال نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر. و فی روایۃ اخری: حتى نهى عنه عمر ۔
(صحیح مسلم ج 1ص451 باب نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ ثم أبيح ثم نسخ واستقر تحريمه إلى يوم القيامة )
 پس جو جواب اس جابر رضی اللہ عنہ کی متعۃ النساء کے جواز و عدم کا جواب ہے وہی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اگر اس کو بھی جائز مانتے ہو تو کیا متعۃ النساء کو بھی جائز مانو گے؟!
دلیل نمبر 2:
 أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِى بَعْضُ بَنِى أَبِى رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ – أَبُو رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ – أُمَّ رُكَانَةَ وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ فَجَاءَتِ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ مَا يُغْنِى عَنِّى إِلاَّ كَمَا تُغْنِى هَذِهِ الشَّعْرَةُ. لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا فَفَرِّقْ بَيْنِى وَبَيْنَهُ فَأَخَذَتِ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- حَمِيَّةٌ فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ « أَتَرَوْنَ فُلاَنًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ وَفُلاَنًا يُشْبِهُ مِنْهُ – كَذَا وَكَذَا ». قَالُوا نَعَمْ. قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- لِعَبْدِ يَزِيدَ « طَلِّقْهَا ». فَفَعَلَ ثُمَّ قَالَ « رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ ». فَقَالَ إِنِّى طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْهَا ». وَتَلاَ (يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ).
(سنن ابی داؤد ج1 ص305،306 باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ)
جواب نمبر1:
 اس کی سند میں بَعْضُ بَنِى أَبِى رَافِعٍ ہے اور یہ مجہول ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں:
 وأما الرواية التي رواها المخالفون أن ركانه طلق ثلاثا فجعلها واحدة فرواية ضعيفة عن قوم مجهولين۔
(شرح مسلم نووی ج 1ص 478)
علامہ ابن حزم الظاہری فرماتے ہیں:
ما نعلم لہم شیئا احتجوا بہ غیر ہذا و ہذا لا یصح لانہ عن غیر مسمی من بنی ابی رافع و لا حجۃ فی مجھول۔
(المحلی لابن حزم ج9ص391)
جواب نمبر 2:
 امام ابو داؤد اس حدیث کو نقل کر کے فرماتے ہیں:
 وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِىِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- أَصَحُّ لأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ أَنَّ رُكَانَةَ إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَجَعَلَهَا النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَاحِدَةً.
(سنن ابی داؤد ج1 ص306 باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ)
آگے امام ابو داؤد نے حدیث نقل کی جس میں ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ دی تھی، اس کے بعد فرماتے ہیں:
 وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا لأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِى أَبِى رَافِعٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
( سنن ابی داؤد ج1 ص307، 308)
جواب نمبر3:
 اس میں ایک راوی’’ابن جریج‘‘ ہے۔ یہ شیعہ راوی ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص128، سیر اعلام النبلاءج5ص497،میزان الاعتدال للذہبی ج2ص509)
اس کو کتب شیعہ میں بھی شیعہ کہا گیا ہے۔( رجال کشی ص395، رجال طوسی ص233 ، اصحاب صادق رقم)
دلیل نمبر 3:
 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا قَالَ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ طَلَّقْتَهَا قَالَ طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا قَالَ فَقَالَ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ قَالَ فَرَجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَرَى أَنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ۔
(مسند احمد ج1ص347 رقم2391)
جواب:
 اس کی سند میں ایک راوی’’محمد بن اسحاق بن یسار‘‘ ہے جو کہ شیعہ ہے۔ امام ابو بکر خطیب البغدادی، امام ذہبی اور امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے شیعہ قرار دیا ہے۔(تاریخ بغداد ج 1ص17، سیر اعلام النبلا ج 7ص23 ، تقریب ج2 ص502)
اس کو کتب شیعہ میں بھی شیعہ کہا گیا ہے۔( رجال کشی ج5 ص390، رجال طوسی ص281)