جہمی
علماء اہلحدیث
نوٹ : یہاں
اہلحدیث انگریز کے دور میں انگریز کا پیدا
کردہ لامذہب فرقہ مراد ہے جس نے انگریز سے اپنا نام اہل حدیث الارٹ کروایا۔
یہ ان کے بڑے بڑے
بزرگ جو کہ اللہ کی ذات کے متعلق وہ عقیدہ رکھتے تھے جو کہ آج کے اہلحدیث کے نزدیک
جہمیہ کا عقیدہ کہلاتا ہے۔
خود فیصلہ کیجئے یا
تو ان کے یہ بڑے بڑے اہلحدیث نہیں تھے یا آج کہ یہ وکٹورین اہلحدیث نہیں۔
1
فرقہ اہل
حدیث کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی الجہمی
لکھتے ہیں
”ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت
خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لاشریک لہ باری تعالٰی کے واسطے ہے“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص
6)
2
فرقہ
اہلحدیث کے شیخ السلام ثناء اللہ امرتسری
الجہمی
لکھتے ہیں
” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام
پر حاضر ہے“۔
(تفسیر ثنائی ص
347 )
3
محقق
اہلحدیث قاضی شوکانی الجہمی
لکھتے ہیں
وكما نقول هذا
الاستواء والكون في تلك الجهة فكنا نقول في مثل قوله تعالي وهو معكم اينما كنتم ۔۔۔۔۔ ولا
نتكلف بتاويل ذالك كما يتكلف غيرنا بان المراد بهذا الكون المعنيت هوكن العلم و
عليتهفان هزا شعبة من شعب التاويل تخالف مذاهب السلف و تبائن ماكان عليهه
الصحابة و تابعوهم رضوان اللہ عليهم اجمعين
ترجمہ
”جیسا ہم استواء اور
جہت فوق کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں ویسا ہی ان اقوال خدا وندی هو معكم وغيرہ ”وہ
تمہارے ساتھ“ ہے کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں۔۔ ہم اس کی تاویل علم کے ساتھ یا نصرت
کے ساتھ کرنے میں تکلف نہیں کرتے جیسا کہ اور لوگ تکلف کرتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں
کہ ساتھ ہونے سے اس کا علم مراد ہے کیونکہ یہ بھی تاویل کی ایک شاخ ہے جو مذہب
صحابہ ؓ و تابعین وغیرہ سلف کے خلاف ہے “
(التحف ص 16 بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 202)
4
فرقہ
اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان الجہمی
لکھتے ہیں
”ہمارے نزدیک راجح
بات یہ ہے کہ استویٰ علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا
اور اس کا قرب اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کے
ساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جاری ہیں کیونکہ تاویل کرنے کی کوئی دلیل شرعی
وارد نہیں ہوئی“۔
(کتاب الجوائز
والصلات ص 262)
اس عبات کو نقل
کرنے کے بعد فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام
ثناء اللہ امرتسری الجہمی لکھتے ہیں
” میں کہتا ہوں کہ
یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے مطلب اس کا وہی ہے کہ خدا تعالٰی
جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے رہا یہ امر کہ کیسے ہے سو یہ سوال کیفیت سے
ہے جو حوالہ بخدا ہے“۔
(مظالم روپڑی ص
13)
5
فرقہ
اہلحدیث کے وکیل اعظم محمد حسین بٹالوی الجہمی
جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ کروایا
جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ کروایا
لکھتے ہیں
” میں خدا کی صفت قرب معیت اور اللہ تعالٰی کا
آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں“۔
(مظالم روپڑی ص
11)
6
حکیم
محمد صاق سیالکوٹی الجہمی
لکھتے ہیں
” یقین کریں کہ اللہ تعالٰی حاضر ناظر اور موجود
ہے“۔
(انوار التوحید ص
39)
ایک اور جگہ لکھتے
ہیں
”اللہ کی اس صفت
حاضر و ناظر اور ہر جگہ موجود ہونے میں ہے
کوئی اس کا شریک ؟ ہر گز نہیں !“
(انوار التوحید ص
75)
7
فرقہ
اہلحدیث کے محدث عبد الرحمٰن
مبارکپوری الجہمی
لکھتے ہیں: ” ينز
الله تبارك و تعالي كل ليلة قد اختلف في معني النزول علي اقوال فمنهم من حمله عليظاهر و
حقيقة وهم المشبهة “
ترجمہ
”نزول کے بارے میں
کئی اقوال کا اختلاف ہے بعض نے اسے اپنے
ظاہر اور حقیقت پر حمل کیا ہے اور یہی لوگ مشبہہ (یعنی گمراہ فرقہ مجیسمہ) ہیں“۔
(تحفة
الاحوذی ص 324)
فرقہ اہلحدیث اسے
ظاہر اور حقیقت پر حمل کرتے ہیں اور ایسا
ہی عقیدہ رکھتے ہیں جیسا مشبہہ فرقہ کا ہے اور ایسا نہ کرنے والے کو وہ جہمیہ کہتے
ہیں۔
8
ڈاکٹر عبد
الكبیر محسن الجہمی صاحب
بھی یہی لکھتے ہیں
”اللہ تعالٰی کے لئے
جہت علو کے قائلین اس سے استدلال کرتے ہیں نزول سے مراد میں اختلاف ہے بعض نے اسے
ظاہر پر محمول کیا ہے اور اسے حقیقی نزول قرار دیا ہے یہی مشبہہ (گمراہ فرقہ) کا
قول ہے“۔
(توفیق الباری ج 2 ص
56)
9
فرقہ
اہلحدیث کے علامہ رئیس ندوی الجہمی
لکھتے ہیں
” عالم الغیب اور
حاضر و ناظر ہونا اللہ کی ایک صفت ہے
ابھی جو شرک کی
تعریف کی گئی اس کے مطابق اللہ کی کسی صفت میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو قولاً و
عملاً و اعتقاداً شریک ماننا ، جاننا اور کہنا بھی شرک ہے اور بہت سارے نصوص شرعیہ
سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہونا اللہ کی صفات میں سے ایک صفت
ہے۔۔۔۔۔۔ صرف اللہ تعالٰی ہی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہے“۔
(تصحیح العقائد ص
33)
نبیﷺ کو حاضر و
ناظر سمجھنے والے نبیﷺ کی ذات کو حاضر و ناظر کہتے ہیں اوایسا ر رب تعالٰی
کے ساتھ شرک اسی صورت ہو سکتا ہے جب اللہ کی ذات کو بھی حاضر و ناظر مانا
جائے۔
10
سلطاں
جہاں بیگم زوجہ نواب صدیق حسن خان الجہمی
لکھتی ہیں
” اور نہ اسکا
کوئی مکان ہے اور نہ اس کی کوئی سمت ہے لیکن ہر جگہ ہے یا ہماری رگ جان سے زیادہ
قریب ہے اور جس طرف ہم منہ پھیریں گے اس کو موجود پائیں گے“۔
(سبیل الجنان ص
35)
11
فرقہ
اہلحدیث مجتہد العصر عبد اللہ روپڑی الجہمی
لکھتے ہیں
” توحید حالی وحدۃ
الشہود ہے اور توحید الہی وحدۃ الوجود ہے یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیا (ابن
عربی وغیرہ) کی کتب میں پائی جاتی ہیں متقدمین کی کتب میں نہیں ہاں مراد ان کی
صحیح ہے“۔
(فتاویٰ
اہلحدیث ج 1 ص 153)
فرقہ اہل حدیث کے ایک عالم ڈاکٹر محمد بہاولدین صاحب
ایک ایسی بات لکھتے ہیں جو کہ ان سمیت
فرقہ اہلحدیث کے ہر بندے پر فٹ آتی ہے
چنانچہ لکھتے ہیں:
” بعض (اب سارے ہی ایسے ہو چکے ہیں)عوام کا لانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے
بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب ، بدمذہب ، ضال مضل جوکچھ
کہو، زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتےہیں نہ اپنے گروہ کے
اہل علم کا اتباع کرتے ہیں ۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ
کر نہ صرف اس کے ظاہر ی معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں
اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں ۔جس میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرے کو بھی
گمراہ کرتے ہیں“۔(تاریح اہل حدیث صفحہ ۱۶۴)
عقائدمیں تو اجتہاد کی بھی گنجائش نہیں یا تو آج کے غیرمقلد گمراہ ہیں یا پھر کل کے ان کے یہ تمام بڑے بڑے بزرگ
ان میں سے اہل حدیث کون ہے کل والے یا آج والے؟
کتنے وکٹورینوں نے ان پر کفر کا یا کم از گمراہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے؟
آج یہ تمام بزرگ زندہ ہوتے تو اپنے وکٹورین ٹولے پر ضرور گمراہی کا فتویٰ دے دیتے ۔
کیا یہ قرآن و حدیث سمجھنے سے محروم تھے کیا آج کے غیرمقلدوں کو ان سے زیادہ قرآن و حدیث آتا ہے؟