جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Sunday, 5 April 2015

اللہ ھُو مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ Allah Kahan Ha

تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ
وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته 
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.

امام الطحاوي الحنفي (وفات 321ھ) كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية جو کہ تمام اہلسنت والجماعت کہ ہاں مسلم ہے)  فرماتے ہیں
الله تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ہے۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)

اب ہر وہ عقیدہ جس سے اللہ کیلئے حدود ، جسم یا جھت ثابت ہوتی ہے اسے علماء دیوبند ترک کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی ہر جگہ ہے اس کا علماء دیوبند کے نزدیک کیا معنی ہے؟
علماء دیوبند کے نزدیک اللہ تعالٰی جگہ/مکان میں ہونے سے پاک ہے یعنی  اللہ موجود ہے مگر بلا مکان۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :  (اللہ تعالٰی کے) ہر جگہ ہونے کے اس عقیدہ ہی کی کوئی دلیل نہیں۔ جب وہ صرف جگہ میں ہونے سے پاک ہے کئی جگہوں میں اس کا ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
اگے لکھتے ہیں
اگر چہ اس محاورہ (اللہ ہر جگہ ہے) میں گنجائش زیادہ ہے کیونکہ اس سے مراد کسی جگہ میں ہونے کی قید کا نہ ہونا ہے۔
(تسھیل تربیت السالک ج 3 صفحہ 118)

یعنی کہ علماء دیوبند کے نزدیک اللہ ہر جگہ کہنے سے کسی جگہ میں اللہ کی قید کی نفی کرنا ہے۔ جیسے کوئی  کہے کہ اللہ یہاں ہے وہاں نہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے۔

علماء دیوبند کے نزدیک ایسا کہنا کہ اللہ عرش پر ہے یا آسمانوں پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے کہنا بھی درست ہے۔

بشرطیکہ اللہ کی ذات کی تخصیص یا اسکی ذات کیلئے کوئی جگہ مقرر کرنی نہ ہو۔ مقصود اِس نفی سے اُس  بات کی نفی کرنی ہو جو اللہ کی شان کے لائق نہ ہو اور اس سے کوئی لازم سمجھ سکتا ہو۔

ایسی ہی ایک جگہ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : میرے نزدیک جن حضرات نے احاطہ ذاتی کی نفی کی ہے غالباً مقصود ان کا نفی کرنا ہے تجسیم (جسم) کی۔ یعنی احاطہ ذاتی سے متبادر محیط و محاط کا اتصال حسی ہے جو کہ عامہ (عامی) کے نزدیک احاطہ ذاتی کی لوازم سے ہے پس اصل مقصود لازم کی نفی ہے اور اس کیلئے ملزوم کی نفی کر دی جاتی ہے۔ (امداد الفتاویٰ جلد 6 ص 63)

کیونکہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلاف نے باطل گروہوں کے عقائد کی نفی کیلئے یا کم فہموں کیلئے ان باتوں کا درجہ ظن میں اثبات کیا ہے جو کہ وہ پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔

علماء دیوبند کے عقائد کی کتاب المہند علی المفند جس پر علماء حرمین کے بھی دستخط موجود ہیں اس میں ایک جگہ علماء حرمین کی طرف سے یہ سوال ہوا ہے کہ

ماقولكم في امثال قوله تعالي الرحمن علي العرش استوي هل تجوزون اثبات جهة و مكان للباري تعالي ام كيف رايکم فيه
ترجمہ: کیا کہتے ہیں حق تعالٰی کے اس قسم کے قول میں  کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہوا، کیا جائز سمجھتے ہو باری تعالٰی کیلئے جہت و مکان کا ثابت کرنا یا کیا رائے ہے؟

الجواب
قولنا في امثال تلك الايات انا نؤمن بها و لا يقام كيف و لومن بالله وسبحانه و تعالٰي متعال و منزه عن صفات المخلوقين وعن سمات النقص والحدوث كما هو راي قد مائنا واما ما قال المتاخرون من ائمتنا في تلك الايات يا ولونها بتاویلات صحیحة سائغة في اللغة  و الشرع بانه يكمن المراد من الاستواء الاستيلاء و من اليد القدرة الي غير ذلك تقريباً الي  افهام القاصرين فحق ايضا عندنا و اما الجهة والمكان فلا نجوز اثباتهما له تعالٰي ونقول انهتعالي منزه و متعال عنهما وعن جميع سمات الحدوث

ترجمہ: اس قسم کی آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے یقین جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہے اور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں مثلا یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالٰی کیلئے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ  جہت و مکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ و عالی ہے۔
(المہند علی المفند ص 38۔39)

بائن الخلۃ
مخلوق سے جدا
علماء دیوبند کے نزدیک اللہ تعالٰی  کی ذات قدیم ہے جیسا اللہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔
پھر اس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور کسی مخلوق میں یہ ہمت نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ خدا کی ذات کے ساتھ متحد ہو جائے۔
مولانا ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں:
حق تعالٰی کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرتا ہے۔(عقائد اسلام ص 59)

اللہ اپنی ذات کے ساتھ  متحد ہے کا عقیدہ دو طرح سے نکل سکتا ہے ایک یہ کہ اللہ کی ذات کو جسم و جھت سے پاک نہ مانا جائے اور دوسرا اس طرح کہ اللہ کی ذات کیلئے  کوئی جگہ مقرر کر دی جائے اور کہا جائے کہ اس کے بعد سے اللہ کی ذات نہیں پھر مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اب جہاں سے بھی اللہ کی ذات ختم قرار دی جائے گی  پھر اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ کی ذات اور اس کے بعد جو بھی مخلوقات ہیں وہ آپس میں متحد ہیں یا اگر اللہ  کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ مقرر کر دیتے ہیں  تو وہ فاصلہ بھی ٖغیر اللہ  یعنی کہ مخلوقات میں ہی شامل ہو گا۔ اسلئے اب کسی بھی طرح یہ 
عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔  




علامہ عبدالحلیم صاحب ویلوریؒ نے اپنے فتوے بنام توضیح الدلیل فی ابطال التشبیہ واتعطیل فی صفات الرب الجلیل میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور سلفیہ  کے عقائد کا ذکر کیا ہے۔
 جس کی تائید مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ،  مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور مفتی عزیز الرحمٰن دیوبندیؒ اور غیرمقلدین کے اکابر میاں نذیر حسن دہلوی، ابو سعید محمد حسین لاہوری اور محمد شمس الحق عظیم آبادی وغیرہ  نے  بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔

مولانا عبدالحلیم ویلوریؒ فرماتے ہیں
ترجمہ:
ایک فریق (یعنی اشاعرہ و ماتریدیہ پر مشتمل فریق) کہتا ہے کہ  آیات صفات اور وہ احادیث جن میں اللہ تعالٰی کے اوصاف مثلا اس کے استواء علی العرش اور عرش پر اس کی فوقیت اور اس کا آسمان دنیا کی طرف نزول اور عرفہ کی شام کو اس کا بندوں کے قریب ہونا وغیرہ جن کا  سلف صالحین نے اقرار کیا ہے کہ یہ اللہ تعالٰی کے اوصاف ہیں جن کو اللہ تعالٰی نے اپنے بارے میں خود ذکر کیا ہے یا ان کے رسول نے بیان کیا ہے ۔ ان سب پر ہمارا ایمان ہے، اور ان کی حقیقت جو صرف اللہ ہی جانتے ہیں ان کی معرفت کو ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور ان کی ماہیت جو اللہ تعالٰی کے شایان شان ہو اس کے علم کو ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور ہم ان میں تاویل ، تشبیہ اور تعطیل کچھ نہیں کرتے اور ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی  بعد ، حد ، اتصال ، انفصال ، مسافت ، حلول ، اتحاد کی کیفیات سے اور عین مخلوق ہونے سے اور ان کے لئے اعضا و جوراح اور ابعاض  و اجزاء ہونے سے اور حدوث کے تمام تعلقات سے اور جسم کے لوازم سے اور اعراض سے سب سے پاک ہیں اور کتاب و سنت میں اللہ تعالٰی کیلئے جو حقائق و اوصاف مذکور ہیں ہم ان پر اس طور  سے ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالٰی کی شایان شان ہیں اس طرح سے نہیں  جو ہماری عقل و خیال میں آتے ہیں۔
تو جیسے اللہ تعالٰی عرش پر اس استواء کے ساتھ مستوی ہیں جو ان کے لائق ہے اور ان کو اپنے عرش پر اس طرح فوقیت حاصل ہے جو ان کی شایان شان ہے نہ عرش کے ساتھ اتصال کی کیفیت کے ساتھ اور نہ اس سے انفصال کی کیفیت کے ساتھ اسی طرح اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایسا قرب رکھتے ہیں جو ان کی شایان شان ہے۔ نہ اس میں حلول و اتحاد ہے اور نہ جسموں کے اور اعراض کے قرب کے ساتھ تشبیہ ہے۔
یہ پہلا فرقہ کہتا ہے کہ استواء ، فوقیت اور دیگر اوصاف ان سب کا حکم ایک ہی ہے اس میں کچھ فرق نہیں ہے اور ان سب میں ہمارے لیے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ہم ان پر اس طرح سے ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالٰی کی شایان شان ہیں اور ان کی ذات جل و علا کی تنزیہ بر قرار رہتی ہے اور ہم کیفیت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں اور تشبیہ ، تاویل، تعطیل سب سے ہی بچتے ہیں“۔

اب دوسرا فریق ہے   اپنے آپ کو سلفی کہنے والا
ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
یہ فریق ثانی دعوی کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی کیلئے فوقیت ثابت ہے عرش سے انفصال کے ساتھ اور عدم تماس کے ساتھ بایں معنی کہ اللہ کی ذات عالم سے خارج ہے اور عرش کے اوپر ہے اور اس میں بھی وہ عرش کی اوپری سطح سے جدا ہے ملا ہوا نہیں ہے اور اپنے بندوں سے دور ہے  اور اللہ کے درمیان اور اس کی مخلوق کے درمیان بڑا فاصلہ ہے اور یہ دوسرا فرقہ فوقیت کو اللہ کے علم کے سپرد نہیں کرتا بلکہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ فوقیت کو جانتا ہے اور یہ محکمات میں سے ہے۔ رہا استواء اور ید ،  اور وجہ ، وغیرہ تو یہ بھی اسی قبیل سے ہیں۔۔۔۔۔ یہ فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہی سلف کا مذہب ہے“۔
ان دونوں فریقوں کے عقائد نقل کرنے کے بعد یہ سوال ہے  کہ
ترجمہ ہمیں بتایئے کہ ان دو گروہوں میں سے کس کا قول ثابت ہے اور کس اعتقاد درست ہے اور کون سلف صالح کے موافق ہے اور کون درست ہے اور کون خطا پر ہے“۔
الجواب
ترجمہ
جان لو کہ فریق اول کا قول ثابت ہے اور اس کا عقیدہ درست ہے اور وہی سلف صالح کے موافق ہے اور دوسرا فریق ہے اس کا عقیدہ درست نہیں کیونکہ وہ بدعتی اور خواہش پرست ہے۔۔۔۔ اور فریق ثانی کے عقائد پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ اس کے عقائد دو بدعتی جماعتوں کے عقائد سے مرکب ہیں۔ اللہ تعالٰی کیلئے فوقیت میں انفصال کی کیفیت کو اس نے بدعتی محمد بن ہیضم کرامی سے لیا اور فوقیت کے علاوہ دیگر عقائد یعنی استواء اور ہاتھ اور چہرے اور نزول وغیرہ وہ اوصاف جو سلف و خلف کے نزدیک قرآن و سنت سے ثابت ہیں ان میں اس نے جہمیہ اور معتزلہ کا طریقہ اختیار کیا ہے“۔

میاں نذیر حسن صاحب غیرمقلد اس کی تائید میں لکھتے ہیں:
فاضل اور فہیم محمد عبد الحلیم ویلوری کا جواب صحیح ہے اور ان کی رائے درست ہے اور یہی صحابہ تابعین مجتہدین اور متاخرو محقق علماء کا قول ہے اور دوسرے فریق کی تاویلات سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہیں جیسا کہ ظاہر ہے“۔
محمد حسین لاہوری غیرمقلد اشاعۃ السنہ النویہ میں لکھتے ہیں:
مصنف نے عمدہ بات کہی ہے اور ان کا جواب درست ہے“۔

(توضیح الدلیل ص 201)







عقائد اہل سنت والجماعت
کیا اللہ تعالٰی صرف عرش پر ہیں؟
الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه   

ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اورنہ وہ عرش پر ٹھہر  گیا ہے“
 (كتاب الوصية (ص ۸۷ :سند ص۲۵   :صحیح)، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري
في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف)

الإمام الأعظم أبو حنیفة ؒ(150ھ)فرماتے ہیں کہ
أَيْن الله تَعَالَى فَقَالَ يُقَال لَهُ كَانَ الله تَعَالَى وَلَا مَكَان قبل ان يخلق الْخلق وَكَانَ الله تَعَالَى وَلم يكن أَيْن وَلَا خلق كل شَيْء . [ الفقه الأكبر :باب الِاسْتِثْنَاء فِي الْإِيمَان (ص/161)،العالم والمتعالم (ص/57)]
جب تم سے کوئی پوچھے  کہ اللہ (کی ذات )کہاں ہے تو اسے کہو کہ اللہ وہیں ہے جہاں  مخلوق کی تخلیق سے پہلے جب کوئی مکان نہیں تھا صرف اللہ  موجود تھا۔ اوروہی  اس وقت موجود تھا جب  مکان مخلوق نا م کی کوئی شے ہی نہیں تھی۔
یعنی امام ابو حنیفہؒ فرما رہے ہیں کہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے صرف اللہ ہی کی ذات  تھی اور  اس کے  سوا کچھ بھی نہ تھا  جیسا اللہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا(یعنی موجود بلا مکان) اب بھی ویسا ہی ہے  اور یہی ہے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ۔

 جو لوگ کہتے ہیں اللہ تعالٰی  کی ذات صرف عرش پر ہے کیا ان لوگوں کے نزدیک جہاں اللہ   کی ذات اب  عرش استویٰ کے بعد ہے وہاں اللہ کی ذات عرش استویٰ سے پہلے موجود نہ تھی؟
                                                                                               
 وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته 
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رہے کہ
 ”الله تعالی ” مکان و جھت“ سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے“
 (متن العقيدة الطحاوية صفحہ ۱۵)
یاد رہے  اللہ تعالٰی کی ذات کا کہیں انکار کرنے سے اللہ تعالٰی کیلئے جسم و جھت کا عقیدہ لازم آتا ہے اللہ جسم جھت  مکان سے بلکل پاک ہےاور اللہ تعالٰی کو موجود بلامکان ماننے سے ہی اللہ کے لئے جسم ، جھت  ، مکان اور حدود کی نفی ہوتی ہے۔
امام بيهقي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ. (الأسماء والصفات للبيهقي ج۲ ص۲۸۷)
ہمارے بعض اصحاب اللہ کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اسکے نیچے کچھ نہیں تو اللہ مکان سے پاک ہے
فائدہ: اس سےمعلوم ہو گیا کہ اللہ کی ذات موجود بلامکان ، لامحدود    اور نہ ختم ہونے والی ہےجس سے نہ اس کے اوپر  کسی   اور شے کا تصور کیا جاسکتا ہے نہ اس کے نیچے کسی شے کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کہا جائے کہ یہاں سے اللہ کی ذات ختم ہو کر یہ چیز شروع ہوتی ہے۔اِس سے ان لوگوں کے عقیدے کی بھی نفی ہو گئی جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ صرف عرش پر ہے کیونکہ اگر کہا جائے کہ اللہ صرف عرش پر ہے تو پھر  کہنا پڑے گا کہ  اللہ کے اوپر تو کچھ نہیں لیکن نیچے عرش ہے۔
القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعريؒ (403ھ)فرماتے ہیں کہ
ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان. [ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65)]
ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا  ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبلامکان ) اب بھی ویسا  ہی ہے
فائدہ: اس سےمعلوم ہو گیا کہ اللہ کی ذات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی  جب اللہ تعالٰی نے کسی بھی مخلوق کو پیدا نہیں کیا تھا جب صرف اللہ ہی کی ذات موجود تھی اور اس کے سوا کوئی اور دوسری چیز موجود نہیں تھی نہ ہی کسی ایسی چیز کا تصور تھا جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ وہ اللہ کی ذات کے سوا  تھی تب بھی اللہ کی ذات ویسی ہی موجود تھی پھر جب اس نے مخلوقات پیدا کیں اب بھی اس کی ذات ویسی ہی موجود ہے۔مخلوقات کو پیدا کرنے سےاللہ کی ذات  میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
اس سے اُن لوگوں کا بھی رد ہو گیا جو کہتے ہیں اللہ تعالٰی  کی ذات صرف عرش پر ہے کیا اِن لوگوں کے نزدیک جہاں اللہ   کی ذات اب ہے وہ جگہ عرش استویٰ سے پہلے اللہ کی ذات سے خالی تھی؟

أبو القاسم، ابن جزيؒ (المتوفى: 741ھ) فرماتے ہیں کہ
وَهُوَ الْآن على مَا عَلَيْهِ كَانَ.
[القوانين الفقهية ج۱ ص۵۷ الْبَاب الثَّانِي فِي صِفَات الله تَعَالَى عز شَأْنه وبهر سُلْطَانه]
اللہ کی ذات جیسا (مخلوقات کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے

جو لوگ کہتے ہیں اللہ تعالٰی  کی ذات صرف عرش پر ہے کیا ان لوگوں کے نزدیک جہاں اللہ   کی ذات اب  عرش استویٰ کے بعد ہے وہاں اللہ کی ذات عرش استویٰ سے پہلے موجود نہ تھی؟


عبد القاهر بن طاهر البغدادي التميميؒ(المتوفى: 429ھ) فرماتے ہیں:
أواجمعوا على انه لَا يحويه مَكَان وَلَا يجرى عَلَيْهِ زمَان خلاف قَول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه.
[ الفرق بين الفرق(ص/321)]

”اس  پر اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی کو کسی مکان نے گھیرا نہیں نہ اس پر زمان یعنی وقت کا گذر ہوتا ہے
 بخلاف اس فرقہ   ہشامیہ اور کرامیہ  کے اس قول کے کہ اللہ (صرف)عرش پر ہے۔
إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 ھ)فرماتے ہیں:
" كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني۔۔.[تبيين كذب المفتري فيما نسب إلى الإمام أبي الحسن الأشعري(ص/150 )]
” الله تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان کا محتاج نہیں ہے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا “۔
مخلوق کی تخلیق سے پہلے صرف اللہ ہی کی ذات  تھی اور  اس کے  سوا کچھ بھی نہ تھا  جیسا اللہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا(یعنی موجود بلا مکان) اب بھی ویسا ہی ہے  اور یہی ہے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ۔

 اس سے ان  لوگوں کا بھی رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ  اللہ تعالٰی  کی ذات صرف عرش پر ہے کیا ان لوگوں کے نزدیک جہاں اللہ   کی ذات اب  عرش استویٰ کے بعد ہے وہاں اللہ کی ذات عرش استویٰ سے پہلے موجود نہ تھی؟

فرقہ جہمیہ



حماد  بن زیدؒ
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
[مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵/ص۵۶۷):صحیح]
سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن زیدؒ(محدث و فقیہ)نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے
یعنی  کہ فرقہ جہمیہ کے نزدیک اللہ آسمانوں  میں نہیں  فرقہ جہمیہ کا بھی یہی عقیدہ  ہے اور غیرمقلدین کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ آسمانوں میں کچھ نہیں۔ جبکہ اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
وَهُوَ اللہُ(اور وہ اللہ) فِي السَّمٰوٰتِ (آسمانوں میں ہے ) وَفِي الْاَرْضِ (اور زمینوں میں ہے) ]الانعام ۳[
نوٹ:
 آسمانوں میں اور زمینوں میں اللہ کی ذات ویسی ہی ہے جیسا  ان مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھی یعنی  موجود بلا مکان






سوال:
 اللہ تعالیٰ کی ذات کہاں ہے؟ عرش پہ یا ہر جگہ؟   
جواب:
 اگر کوئی شخص سوال کرے’’ اَیْنَ اللّٰہُ ؟‘‘ ( اللہ کہاں ہے ؟) تو اس کا جواب یہ دینا چاہیے  :’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘‘
 کہ اللہ تعالیٰ بغیر مکان کے موجود ہیں۔ یہ اہل السنت والجماعت کا موقف و نظریہ ہے جس پر دلائل ِ عقلیہ و نقلیہ موجود ہیں:
فائدہ:  ’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘‘ یہ تعبیراہل علم حضرات کی ہے، اسی لیے طلبہ کو سمجھانے کے لیے’’اللہ تعالی بلا مکان
موجو دہے‘‘کہہ دیا جاتا ہے۔ عوام الناس چونکہ ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے اس لیے اس عقیدہ کو عوامی ذہن کے پیش نظر ’’اللہ تعالیٰ حاضر ناظر ہے‘‘ یا’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے‘‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
آیاتِ قرآنیہ:
1: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورہ بقرہ؛ 115)
ترجمہ :   مشرق و مغرب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ،جس طرف پھر جاؤ ادھر اللہ تعالی کا رخ ہے ۔
2: وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ :  جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔
فائدہ : عرش بعید ہے کیونکہ ہمارے اوپر سات آسمان ہیں، ان پر کرسی ہے جو سمندر پر ہے اور اوپر عرش ہے۔
(کتاب الاسماء والصفات للامام البیہقی ج 2ص 145)
٭اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰاتٍ۔٭ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ۔٭ وَ کَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَآئِ۔
3: یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ۔(النساء:108)
ترجمہ: وہ شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اوروہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس سے اللہ راضی نہیں۔
4: اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(ہود:61)
ترجمہ: بے شک میرا رب قریب ہے قبول کرنے والاہے۔
5: وَاِنِ اھْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوْحٰی اِلَیَّ رَبِّیْ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ (سبا:50)
ترجمہ: اور اگر میں راہ پر ہوں تو یہ بدولت اس قرآن کے ہے جس کو میرا رب میرے پاس بھیج رہاہے وہ سب کچھ سنتا ہے ،بہت قریب ہے۔
6: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورہ ق؛16)
ترجمہ :  ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی عجیب توجیہ:
 حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی بڑی عجیب توجیہ فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تو ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ‘‘ ذات ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کے لیے مثال دیتاہوں کہ دو کاغذوں کو جب گوند کے ذریعے جوڑا جاتا ہے تو کاغذاول کاغذ ثانی کے قریب ہوجاتاہے لیکن ان کو جوڑنے والی گوند کاغذ اول کی بنسبت کاغذ ثانی سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔انسان کی شہ رگ انسان کے قریب ہے تو اللہ فرما رہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں۔ دو جڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک کاغذ دوسرے کے قریب ہے لیکن گوند دوسرے کاغذ کے زیادہ قریب ہے ،اسی طرح شہ رگ انسان کے قریب ہے لیکن اللہ اس سے زیادہ قریب ہے۔
7: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ (سورہ واقعہ؛85)
ترجمہ :  تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔
8: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (سورہ حدید؛4)
ترجمہ :   تم جہاں کہیں ہو، وہ (اللہ ) تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔
فائدہ: جب ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن میں معیت کا ذکر ہے تو غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اس سے’’ معیت علمیہ‘‘ مراد ہے مثلاً "وَہُوَ مَعَکُمْ ای عِلْمُہُ مَعَکُمْ"وغیرہ۔
جواب: اولاً ۔۔۔۔معیت علمیہ لازم ہے معیت ذاتیہ کو،جہاں ذات وہاں علم ،رہا غیرمقلدین کا’’اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ  الْاَرْضِ الآیۃ (الحج:70)‘‘ وغیرہ کی بناء پر یہ کہناکہ اس سے علم مراد ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس میں ذات کی نفی کہاں ہے؟بلکہ اثباتِ علم سے تو معیت ِذاتیہ ثابت ہوگی بوجہ تلازم کے۔
 ثانیاً۔۔۔غیرمقلدین سے ہم پوچھتے ہیں کہ جب ’’اِسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ‘‘یا ’’یَدُاللّٰہِ‘‘ جیسی آیات کو تم ظاہر پر رکھتے ہو،تاویل نہیں کرتے تو یہاں’’وَہُوَ مَعَکُمْ‘‘  [جس میں’’ہو‘‘ ضمیر برائے ذات ہے]جیسی ٓیات میں تاویل کیوں کرتے ہو؟
9: مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَیٰ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَرَابِعُھُمْ (سورہ مجادلہ؛7)
ترجمہ :   جو مشورہ تین آدمیوں میں ہوتا ہے تو اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے ۔
10: اَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ ( سورہ ملک :16)
ترجمہ :  کیا تم کو اس (اللہ تعالی )کا جو آسمان میں ہے، خوف نہیں رہا۔
احادیث مبارکہ :
1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضی اللہ عنہ  اَنَّہٗ قَالَ رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نُخَا مَۃً فِیْ قِبْلَۃِ الْمَسْجِدِ وَھُوَیُصَلِّیْ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ فَحَتَّھَا ثُمَّ قَالَ حِیْنَ انْصَرَفَ :اِنَّ اِحَدَکُمْ اِذَا کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ فَاِنَّ اللّٰہَ قِبَلَ وَجْھِہٖ فَلَا یَتَخَمَّنْ اَحَدٌ قِبَلَ وَجْھِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(صحیح البخاری ج1ص104باب ھل یلتفت لامر ینزل بہ الخ، صحیح مسلم ج1ص207باب النہی عن البصاق فی المسجد الخ)
ترجمہ: حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو چھیل ڈالا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘  لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔
2: عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیْ  رضی اللہ عنہ  یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْیَمَنِ بِذُھَیْبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْطٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا قَالَ فَقَسَمَھَا بَیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ وَاَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَیْدٍ الْخَیْلِ وَالرَّابِعِ اِمَّا عَلْقَمَۃَ وَاِمَّا عَامِرِ بْنِ الطُّفُیْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ کُنَّا نَحْنُ اَحَقُّ بِھٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ قَالَ فَبَلَغَ ذٰلکَ النبِِّیَّ  صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ :اَلَا تَاْمَنُوْنِیْ وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَائِ یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَاء ً الحدیث
(صحیح بخاری ج2ص624باب بعث علی بن ابی طالب الخ ، صحیح مسلم ج1ص341باب اعطاء المؤلفۃ و من یخاف الخ)
ترجمہ:  حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے یمن سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رنگے ہوئے چمڑے کے تھیلے میں تھوڑا سا سونا بھیجا‘ جس کی مٹی اس سونے سے جدا نہیں کی گئی تھی (کہ تازہ کان سے نکلاتھا)آپ  صلی اللہ علیہ وسلمنے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے کہا کہ ہم اس سونے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا:کیا تمہیں مجھ پر اطمینان نہیں ہے؟ حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔
فائدہ: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا آسمان میں ہونا بتلایا گیاہے غیرمقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے اس سے باطل ہوگیا۔
3: عَنِ ابْنِ عُمَر رضی اللہ عنہ  اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا اسْتَوَیٰ عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘ اَللّٰھُمَّ نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَیٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ‘ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَاہٰذَا وَاطْوِعَنَّا بَعْدَہٗ ‘اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ الحدیث
(صحیح مسلم ج۱ص۴۳۴ باب استجاب الذکر اذارکب دابۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں سفر پرجانے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے :پاک ہے وہ پروردگار جس نے اس جانور(سواری )کو ہمارے تابع کردیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ یااللہ!  ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی‘ پرہیز گاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ !  اس سفر کو ہم پر آسان کردے اور اس کی لمبان کو ہم پر تھوڑا کردے۔ یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میںاور خلیفہ ہے گھرمیں۔
4: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ‘لوگ زور کی آواز سے تکبیریں کہنے لگے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِرْبَعُوْاعَلٰی اَنْفُسِکُمْ‘اِنَّکُمْ لَیْسَ تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَہٗ سَمِیْعاً قَرِیْباً وَھُوَ مَعَکُمْ۔‘‘
(صحیح مسلم؛ ج2ص 346باب استحباب خفض الصوت بالذکر )
ترجمہ: ’’اپنی جانوں پر نرمی کرو! تم بہرے و غائب کو نہیں پکار رہے ، تم جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا، قریب اور تمہارے ساتھ ہے‘‘ ۔ 
5: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
’’ارْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ۔‘‘                                                                  (جامع الترمذی ج 2 ص 14 باب ما جاء فی رحمۃ  الناس )
ترجمہ: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، جو آسمان میں ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔ ‘‘
فائدہ:  اس حدیث میں اللہ تعالی کا آسمان میں ہونابتلایا گیا ہے ، غیر مقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے ،اس سے باطل ہوگیا۔
6۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘                                               (جامع الترمذی ج 2 ص 165تفسیر سورۃ حدید )
ترجمہ: اگر تم ایک رسی زمین کے نیچے ڈالو تو وہ اللہ تعالی پر اترے گی ۔
فائدہ :  رسی کا زمین کے نیچے اللہ تعالی پر اترنا دلیل ہے کہ ذات باری تعالی صرف عرش پر نہیں جیسا کہ غیر مقلدین کا عقیدہ ہے بلکہ ہر کسی کے ساتھ موجود ہے ۔
7: عَنْ اَبِی الدَّرْدَائ رضی اللہ عنہ  قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: مَنِ اشْتَکٰی مِنْکُمْ شَیْئًا اَوِ اشْتَکَاہُ اَخٌ لَّہٗ فَلْیَقُلْ :رَبُّنَا اللہّٰ ُ اَّلذِیْ فیْ السَّمَائِ، تَقَدَّسَ اسْمُکَ ‘اَمْرُکَ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِ کَمَارَحْمَتُکَ فِی السَّمَائِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِی الْاَرْضِ‘ اِغْفِرْلَنَا حُوْبَنَا وَخَطَایَا نَا‘اَنْتَ رَبُّ الطَّیِّبِیْنَ ‘اَنْزِلْ رَحْمَۃً مِّنْ رَحْمَتِکَ وَ شِفَائً مِنْ شِفَائِکَ عَٰلی ہٰذَا الْوَجْعِ فَیَبْرَاُ۔
(سنن ابی داؤد ج2ص187باب کیف الرقی)
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے : تم میں سے جو شخص بیمار ہویا کوئی دوسرابھائی اس سے اپنی بیماری بیان کرے تو یہ کہے کہ رب ہمارا وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے ۔اے اللہ! تیرا نام پاک ہے اورتیرا اختیار زمین وآسمان میں ہے‘ جیسے تیری رحمت آسمان میں ہے ویسے ہی زمین میں رحمت کر۔ ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو بخش دے۔ تو پاک لوگوں کا رب ہے ۔اپنی رحمتوں میں سے ایک رحمت اور اپنی شفاؤں میں سے ایک شفاء اس درد کے لیے نازل فرما کہ یہ درد جاتارہے۔
8: حضرت عبداللہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا:
’’فَمَا تَزْکِیَۃُ الْمَرْئِ نَفْسَہٗ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ قَالَ: اَنْ یَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَہٗ حَیْثُمَا کَانَ۔
(السنن الکبری للبیھقی ج4ص95،96 باب لایاخذالساعی‘شعب الایمان للبیھقی ج3ص187باب فی الزکوۃ)
ترجمہ: آدمی کے اپنے نفس کا’’تزکیہ‘‘ کرنے سے کیا مرادہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ انسان یہ نظریہ بنا لے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اللہ اس کے ساتھ ہے۔
9: عَنْ عُبَادَ ۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اَفْضَلَ الْاِیْمَانِ اَنْ تَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج6ص287رقم الحدیث8796)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ایمان یہ ہے کہ تو یہ نظریہ بنا لے کہ اللہ تیرے ساتھ ہے تو جہاں کہیں بھی ہو۔
10: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ   رضی اللہ عنہ  قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :یَاابْنَ آدَمَ !مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ ‘قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ :اَمَاعَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ؟ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہٗ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہٗ؟
(صحیح مسلم ج 2ص318باب فضل عیادۃ المریض،صحیح ابن حبان ص189،رقم الحدیث269)
ترجمہ:  حضرت ابوہریرۃ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ارشاد فرمائیں گے :اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا میں آپ کی بیمار پرسی عیادت کیسے کرتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں۔ تو اللہ فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ تو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی۔ تجھے پتا ہے کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔
عقلی دلائل :
1: اللہ تعالیٰ خالق ہے اور عرش مخلوق ہے ، خالق ازل سے ہے ۔اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ جب عرش نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کہاں تھے ؟
2: حقیقتاً مستوی علی العرش ہونے کی تین صورتیں ہیں:
الف: اللہ تعالیٰ عرش کے محاذات میں ہوں گے ۔
ب: عرش سے متجاوز ہوں گے ۔
ج: عرش سے کم ہوں گے ۔
اگر عرش کے محاذات میں مانیں تو عرش چونکہ محدود ہے لہذا اللہ تعالیٰ کا محدود ہونا لازم آئے گا ‘اور متجاوز مانیں تو اللہ تعالیٰ کی تجزی لازم آئے گی اور اگر عرش سے کم مانیں تو عرش  یعنی مخلوق کا اللہ تعالیٰ یعنی خالق سے بڑا ہونا لازم آئے گا ‘جبکہ یہ تینوں صورتیں محال اور ناممکن ہیں۔
3: اللہ تعالیٰ خالق ہیں جوکہ غیر محدود ہیں ، عرش مخلوق ہے جو کہ محدود ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا ’’ کیا غیر محدود ، محدود میں سما سکتا ہے ؟‘‘
4: اگر اللہ تعالیٰ کو عرش پر حقیقتاً مانیں تو حقیقی وجود کے ساتھ کسی چیز پر ہونا یہ خاصیت جسم کی ہے اور اللہ تعالی جسم سے پاک ہیں کیونکہ ہر جسم مرکب ہوتا ہے اور ہر مرکب حادث ہوتا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہیں ۔
5: اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانیں تو عرش اللہ تعالیٰ کے لئے مکان ہوگا اور اللہ تعالیٰ مکین ہوں گے اور ضابطہ ہے کہ مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے ، اس عقیدہ سے ’’ اللہ اکبر‘‘ والا  عقیدہ ٹوٹ جائے گا۔
6: اگر اللہ تعالیٰ کا فوق العرش ہونا مانیں تو جہتِ فوق لازم آئے گی اور جہت کو حد بندی لازم ہے اور حد بندی کو جسم لازم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے ۔

7: اگر اللہ تعالیٰ کو فوق العرش مانیں تو عرش اس کے لئے مکان ہوگا اور مکان مکین کو محیط ہوتا ہے‘ جبکہ قرآن کریم میں ہے :’’وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطًا۔‘‘کہ اللہ تعالیٰ  ہر چیز کو محیط ہے۔
اقوال العلماء في نفي المكان والجهة والحد عن الله سبحانه وتعالي
بسم الله الرحمن الرحيم
وقال التابعي الجليل الإمام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم (94هـ) ما نصه (إتحاف السادة المتقين 4/ 380):"أنت الله الذي لا يَحويك مكان" اهـ.
امام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم كا قول
[انهوں نے فرمايا كه اے الله] تو وہي ہے جس پر کسي مکان نے احاطہ نہيں کيا
نوٹ: اللہ سبحانہ وتعالي کو کسي مکان ميں سمايا ہوا ماننا ہي اللہ تعالي پر اس مکان اور خلا کے احاطے کو مستلزم ہے، فقط يہ کہنا کہ ہم اللہ کو مکان ميں مانتے ہيں ليکن اس نے اللہ پر کوئي احاطہ نہيں کيا يہ کلام بلا معني ہے کيونکہ کوئي جگہ تب ہي کسي مکين کے ليے مکان بن سکتي ہے جب وہ پوري طرح اس خالي جگہ ميں سماجائے اور وہ ذات اس فضا کو گھير لے،،اور دوسري بات يہ ہے کہ غيرمقلد ين اللہ سبحانہ وتعالي کو حقيقتا محدود کہتے ہيں کچھ صراحتا اور کچھ دلالتا،، کيونکہ يہ لوگ صراحتا کہتے ہيں کہ اللہ کي ذات عرش تک ہے اور باقي جگہوں ميں نہيں ہے اور وہ اوپر کي جھت ميں ہے، تو کم از کم نيچھے کي جھت کي نسبت يہ لوگ اللہ تعالي کو محدود مانتے ہيں تو جھاں تک اللہ کي ذات کے ليے يہ لوگ اوپر نيچھے اور آگے پيچھے وغيرہ کے حصے بناتے ہيں اس ميں يہ لوگ صراحتا يا دلالتا نيچھے کے حصے کو محدود مانتے ہيں اور يہ واضح جسميت ہے کيونکہ اس معني ميں اللہ سبحانہ وتعالي ان کے ہاں مقداري ذات بن گئي مقدار ي کا مطلب لمبائي چوڑائي اور عمق قبول کرنے والي ذات کيونکہ ايک جگہ اللہ کو ناماننا اور دوسري جگہ ماننا واضح طور پر اللہ سبحانہ وتعالي کي ذات کي محدود پيمائش ہے،،اور محدود چيز لامحالہ مکان کے احاطے ميں ہوتا ہے چاہے کلا ہو يا بعضا، يہي وجہ ہے کہ ان کے امام ابن تيميہ رحمہ اللہ جو اس مسئلے ميں بہت خطا کا شکار ہوگئے ہيں وہ قاضي ابويعلي رحمہ اللہ سے جو کہ بہت سے تجسيمي اقوال کا قائل ہے اللہ کے بارے ميں يہ نقل کرتے ہيں ان سے، کہ اللہ سبحانہ وتعالي نيچھے والي جہت ميں محدود ہے جو عرش کے بالمقابل ہے جبکہ باقي جھات ميں وہ پھيلا ہوا ہے [والعياذباللہ]
(/)


اس بات پر امام ابن تيميہ عفا اللہ عنہ صرف اتنا فرماتے ہيں کہ يہ جو حد بتائي گئي اللہ سبحانہ وےتعالي کي يہ صرف نيچھے کي جہت کے ساتھ مخصوص نہيں ہے اس سے معلوم ہوا کہ ابن تيميہ رحمہ اللہ کے ہاں اللہ تعالي تمام چھ جہات ميں محدود ہيں اور آج کے غيرمقلدين وسلفي حضرات انہي کے عقائد پر عمل پيرا ہيں اسي طرح ايک اور صاحب شيخ عثمان بن سعيد الدارمي جن کي يہ حضرات عقائد ميں اتباع کرتے ہين وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالي مخلوق سے بائن [جدا] ہے وہ ايک شگاف اور دراڑ سے جدا ہے گويا عرش اور اللہ کے مابين ان جناب کے ہاں ايک کھلي فضا ہے اور يہي وہ مکان ہے جو اللہ پر اس سائي ميں ان جناب کے قول ميں احاطہ کيے ہوئے ہے تو شيخ عثمان بن سعيد کا قول واضح ہے اس بات ميں کہ اللہ پر معاذاللہ مکان نے احاطہ کيا ہے اگرچہ ايک سائي ميں ہو،، ليکن يہ سب باتيں اللہ کي شان ميں بنا حجت کوئي بات کہنا ہے اور ام تقولون علي اللہ ما لا تعلمون کے مصداق بننے کے محتمل ہيں،انقذنا اللہ من ذلک
(/)


امام زين العابدين رحمہ اللہ کا دوسرا قول
وقال أيضًا (إتحاف السادة المتقين 4/ 380):"أنت الله الذي لا تُحَدُّ فتكونَ محدودًا" اهـ.
کہ اللہ تو وہي ہے جس کي حدبندي نہيں کي جاسکتي تاکہ آپ محدود ہوسکيں (إتحاف السادة المتقين 4/ 380)
امام اعظم ابوحنيفہ رحمہ اللہ، اللہ تعالي سے مسافت کي نفي کرتے ہوئے،، چونکہ اللہ کو صرف عرش پر محدود ماننے سے يقينا اللہ تعالي اور مخلوق کے مابين حسي مسافت اور فاصلے لازم آ تے ہيں اور يہ معني سلف ميں سے مجتھد مطلق امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے نفي کيا ہے
قال الإمام المجتهد أبو حنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه (150هـ) أحد مشاهير علماء السلف إمام المذهب الحنفي ما نصه (ذكره في الفقه الأكبر، انظر شرح الفقه الأكبر لملا علي القاري ص 136 - 137):"والله تعالى يُرى في الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة" اهـ.
االلہ تعالي کو آخرت ميں ديکھا جائے گا اور مومنين اس کو اپني آنکھوں سے ديکھيں گے جبکہ وہ جنت ميں ہونگے، بنا کسي تشبيہ اور کميت کے اور اللہ اور اس کے مخلوق کے مابين کوئي مسافت (فاصلہ) بھي نہيں ہوگي [شرح الفقه الأكبر لملا علي القاري ص 136 - 137
کتاب الوصيہ ميں امام اعظم فرماتے ہيں
(ص4 ونقله ملا علي القاريّ في شرح الفقه الأكبر ص 138):"ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهةٍ حقٌّ" اهـ.
اللہ تعالي کي ملاقت اہل جنت سے بنا کسي کيفيت،تشبيہ اور جھت کے حق ہے [اس کو ملا علي قاري رحمہ اللہ نے شرح الفقہ الاکبر ميں نقل کيا
اسي طرح امام عليہ الرحمت الفقہ الابسط ميں فرماتے ہيں جو کہ ابومطيع بلخي کي روايت سے ہے
"قلتُ: أرأيتَ لو قيل أين الله تعالى؟ فقال ـ أي أبو حنيفة ـ: يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل أن يخلق الخلق، وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خَلْق ولا شىء، وهو خالق كل شىء" اهـ.
ابومطيع کہتا ہے ميں نے امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ کيا فرماتے ہيں اس بارے کہ اگر پوچھا جائے کہ اللہ کہاں ہے تو انہوں نے يعني امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے فرمايا اس [سائل] کو يہ کہا جائے گا کہ اللہ تعالي مخلوق کے پيدا کرنے سے پہلے جب کوئي مکان ہي سرے سے موجود نہيں تھا اس وقت بھي موجود تھا اور اللہ اس وقت بھي تھا جب نہ کوئي مکان تھا نہ کوئي مخلوق تھا نہ کوئي چيز تھي اور وہ ہر چيز کا خالق ہے [الفقه الأبسط ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري ص20]
اگر اين اللہ سے سوال اللہ تعالي کے مکان کے سوال کے ليے ہو تو يہ سوال ہي سرے سے غلط ہے کيونکہ اللہ مکان کا محتاج نہيں ہے، اللہ اس وقت بھي تھا جب کوئي مکان سرے موجود ہي نہيں تھا،، تو اس وقت اللہ کہاں تھا اگر مخلوق کي طرح اللہ کے ليے بھي يہ سوال ذہن ميں کسي کے آئے کہ جس طرح مخلوق اگر موجود ہوگا تو يقينا کسي نہ کسي جگہ ميں ضرور ہوگا اور اس جگہ کے علاوہ باقي جگہيں اس سے خالي ہونگي تو يقينا ايسا شخص بہت گہري گمراہي ميں ہے جو اللہ سبحانہ وتعالي کے وجود کو مخلوق پر قياس کررہا ہے اگر آج کوئي شخص اس بات کا جواب يہ دے رہا ہے کہ وہ ٹھکانہ اور مکان عرش ہے تو عرش سے پہلے اللہ کہاں تھا يہي خلاصہ ہے امام ابوحنيفہ رضي اللہ عنہ کے کلام جو بے حد واضح ہے، اللہ ان پر کروڑوں رحمتيں نازل فرمائے
(/)


کتاب الوصية ميں سيدنا امام اعظم ابوحنيفہ رحمہ اللہ کا ايک اور ارشاد مبارک
ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجًا لَمَا قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجًا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوًّا كبيرًا
[يعني] ہم يہ اقرا ر کرتے ہيں کہ اللہ سبحانہ وتعالي نے اپنے عرش پر استوي کيا ہے [ليکن] بغير اس کي طرف کسي حاجت کے اور بغير اس پر استقرار کيے ہوئے [يعني اللہ نے عرش پر قرار نہيں پکڑا جس طرح بعض جھلاء استواء سے استقرار کا مفھوم ليتے ہيں] اور اللہ عرش اور غيرعرش سب کا حافظ ہے بنا [ان کي طرف] کسي احتياج کے، کيونکہ اگر وہ محتاج ہوتا تو ہرگز عالم کے پيدا کرنے اور اس کي تدبير کرنے پر قادر نہ ہوتا،اگر وہ اللہ بيٹھنے اور قرار پکڑنے کا محتاج ہوتا تو عرش کے پيدا کرنے سے پہلے اللہ کہاں تھا؟، اللہ [کي شان] ايسي باتوں سے بہت بلند ہے [كتاب الوصية، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري ص2،]
يہ قول بھي بے حد روشن اور واضح ہے کہ امام اعظم عليہ الرحمت کے ہاں استوائ استقرار کے معني ميں نہيں ہے،،نہ جلوس اور بيٹھنے کے معني ميں ہے
امام اعظم کے ان اقوال ميں ہميں صراحت کے ساتھ مکان مسافت اور جہت کي نفي ملتي ہے جبکہ امام اعظم رحمت اللہ عليہ جسم کے نفي کے بھي قائل ہيں چنانچہ الفقہ الاکبر ميں ان سے يہ بھي منقول ہے کہ
الفقه الأكبر (ص: 26)
وَهُوَ شَيْء لَا كالأشياء وَمعنى الشَّيْء الثَّابِت بِلَا جسم وَلَا جَوْهَر وَلَا عرض وَلَا حد لَهُ وَلَا ضد لَهُ وَلَا ند لَهُ وَلَا مثل لَهُ
يعني اللہ کو شے کہا جاسکتا ہے [ليکن] نہ کہ [دوسري] اشيائ کي طرح، اور [اللہ کي نسبت] شے کا معني يہ ہوگا کہ وہ ثابت ہے [موجودہے] بلا جسم [يعني وہ جو حجم رکھتا ہو] اور بنا جوھر [ہونے کے، يعني وہ ذرہ جو کوئي کميت ہي نہيں رکھتا ہو، جيسا کہ آج کل ايٹم کہا جاتا ہے] اور نہ عرض ہونے سے، [يعني وہ جو خود بالذات قائم نہ ہوسکے بلکہ کسي اور کا محتاج ہو جيسا کہ گورا يا کالا ہونا جو کہ کسي گورے يا کالے جسم کا محتاج ہے] اور نہ اس کے ليے حد ہے نہ کوئي ضد ہے نہ شريک ہے نہ مثل ہے
يہاں سےان خناسوں کا بھي رد ہوگيا جو امام ابومنصور ماتريدي کے مسلک کي طرف انتساب کرکے احناف اہل سنت کا خود ماتريديہ کہنے پر ان کا مسلک امام اعظم سے الگ ہونے کا پروپيگن ا کرتے ہيں جو کہ واضح جھوٹ ہے امام ا امام الھدي امام ابومنصور ماتريدي رحمہ اللہ کا وہي مسلک ہے جوامام اعظم ابوحنيفہ رحمہ اللہ کا ہے، فرق يہ ہے کہ امام ماتريدي نے فرق باطلہ پر رد کو اور تفصيل سے بيان کيا جبکہ امام اعظم کے اقوال اپني جامعيت کے ساتھ ساتھ مختصر ہيں کيونکہ ان کے زمانے ميں يہي قدر ہي کافي تھا اور امام ماتريدي نے بسط کے ساتھ مسلک بيان کيا فرضي اللہ عنھم جميعا
(/)


امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ سے اللہ کے مکان ثابت کرنے والے کي تکفير کا قول
قَالَ ابو حنيفَة من قَالَ لَا اعرف رَبِّي فِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض فقد كفر وَكَذَا من قَالَ إِنَّه على الْعَرْش وَلَا ادري الْعَرْش أَفِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض [الفقه الأكبر (ص: 135)] [1]
ابومطيع بلخي کہتا ہے کہ امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا، اسي طرح جو کہتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے ليکن مجھے پتہ نہيں ہے کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر [تو يہ بھي کافر ہے]
__________
[1] ملاحظہ ابومطيع کي کتاب کے يہ الفاظ امام بياضي الحنفي رحمہ اللہ کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ ابوالليث سمرقندي کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں، اللہ تعالي کا ارشاد ہے الرحمن علي العرش استوي، پھر اگر وہ شخص کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين تو اس بات سے بھي اس نے کفر کيا،، اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں کافر ہے،تو امام بياضي اور فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمھم اللہ دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسري بات کا مرجع بھي پہلي بات کي طرف ہے کيونکہ جب وہ اللہ کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس کا بھي وہي مطلب ہوا جو پہلي عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پر تب ايسے شخص نے اللہ کے ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور اللہ کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا،،،،، [انتہي]
،اور ايسا کہنے والا اللہ کو اگر آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفي کرتا ہے اور زمين پر مانتا ہے تو آسمان پر نفي کرتا ہے اور يہ بات اللہ کے ليے حد کو بھي مستلزم ہے [،مترجم]
اور اسي طرح فقيہ ابوالليث سمرقندي اور بحوالہ ملا علي قاري رحمہ اللہ حل الرموز ميں ملک العلماءشيخ عزالدين بن عبدالسلام الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ يہ قول اللہ جل جلالہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديتا ہے تو اس بات سے يہ شخص مشرک ہوگيا
يعني اللہ سبحانہ وتعالي تو ازل سے ہے اگر اللہ کے وجود کے ليےمکان لازم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑيں گے جو کہ اللہ کے ساتھ شرک ہے [مترجم]
اور امام صاحب کے بات کي يہ تشريح کوئي بعيد نہيں ہے کيونکہ پہلے امام صاحب کا ايک قول گزر چکا جو واضح طور پر مکان کي نفي کررہا ہے ساتھ امام طحاوي رحمہ اللہ نے جو ائمہ ثلاثہ امام اعظم، قاضي ابويوسف اور امام محمد کے عقيدے پر بالخصوص اور تمام اہل سنت کے عقيدے پر بالعموم جو تاليف کيا ہے اور وہ تمام عالم ميں مقبول ہے، اس ميں بھي جو عبارات ہيں وہ اس تشريح کے عين مطابق ہے جس کا بيان انشاءاللہ العزيز آگے تفصيل کے ساتھ آئے گا
لہذا آج کل جو غيرمقلدين امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے ملاوٹ کے ساتھ معني ميں بھي تحريف کرکے اس کا مطلب اپني طرف موڑتے ہيں وہ بالکل غلط اور امام صاحب کي اپني تصريحات کے خلاف ہےاور جس ملاوٹ اور لفظي تحريف کي بات ہم نے کي اس کي تفصيل يہاں ذکر کرتے ہيں
اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کي روايت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے ساتھ مروي ہے اور اس کي تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالسلام کے ارشادات کے مطابق بلا غبار واضح نظر آتي ہے ليکن غيرمقلدين ميں ايک شخص
(/)


__________
جن کو يہ لوگ شيخ الاسلام ابواسماعيل الھروي الانصار ي صاحب الفاروق کے نام سے جانتے ہيں اور ان کي کتابوں ميں الفاروق في الصفات اور ذم الکلام شامل ہيں جن ميں يہ جناب اشاعرہ کومسلم بلکہ اہل کتاب بھي نہيں سمجھتے اور ان کے ذبيحے حرام اور ان سے نکاح بھي حرام کہلاتے ہيں اور يہ فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمہ اللہ کے وفات سنہ 373ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسي روايت ميں اپني طرف جو الفاظ چاہے اپني طرف سے بڑھاديئے حتي کہ ساري بات کا مفہوم ہي بگاڑديا اور کلام کا رخ اپني مطلب کي طرف پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا
قَالَ سَأَلت أَبَا حنيفَة عَمَّن يَقُول لَا أعرف رَبِّي فِي السَّمَاء أَوفِي الأَرْض
فَقَالَ قد كفر لِأَن الله تَعَالَى يَقُول {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} وعرشه فَوق سمواته
فَقلت إِنَّه يَقُول أَقُول على الْعَرْش اسْتَوَى وَلَكِن قَالَ لَا يدْرِي الْعَرْش فِي السَّمَاء أَو فِي الأَرْض
قَالَ إِذا أنكر أَنه فِي السَّمَاء فقد كفر
کيا،،، اس عبارت ميں انہوں نے لان اللہ يقول الرحمن علي العرش استوي وعرشہ فوق سموتہ کي تعليل [عني چونکہ اللہ تعالي فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا، اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الفاظ فاذا انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعني جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ دونوں باتوں انہوں نے اس عبارت ميں اپني طرف سے بڑھاديں جس کي وجہ سے مفھوم بظاہر تجسيمي معني کي طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حالانکہ اصلي عبارت اور امام صاحب کي ديگر تصريحات سے امام صاحب کا مسلک اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے، تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے،،بلکہ يہ الفاظ تو الھروي نے اپني طرف سے بڑھاديے اور ان الفاظ کا کوئي وجود ہي نہيں ہے اصل عبارت ميں، اور کفر کي وجہ وہي ہے جو امام ابوالليث نے الھروي سے سو سال پہلے بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسلام نے بھي بيان کيا کہ دراصل يہ بات اللہ کے ليے مکان ثابت کررہا ہے اس ليے يہ کفر ہے
اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروي ان حضرات کے ہاں بہت بڑے پايے کے ہيں جبکہ ان کے اپنے ہي شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوي ميں کلام الہي کے بارے ميں يہ نقل کرتے ہيں کہ ان کے ہاں اللہ کا کلام نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباللہ اور ساتھ ميں جناب کي يہ عجيب منطق بھي نقل فرمائي ہے کہ يہ وہ والي حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے، مجموع الفتاوى (12/ 294)
وَطَائِفَةٌ أَطْلَقَتْ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ حَالٌّ فِي الْمُصْحَفِ كَأَبِي إسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيِّ الهروي - الْمُلَقَّبِ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ - وَغَيْرِهِ وَقَالُوا: لَيْسَ هَذَا هُوَ الْحُلُولُ الْمَحْذُورُ الَّذِي نَفَيْنَاهُ. بَلْ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّحِيفَةِ وَلَا يُقَالُ بِأَنَّ اللَّهَ فِي الصَّحِيفَةِ أَوْ فِي صَدْرِ الْإِنْسَانِ كَذَلِكَ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَهُ حَالٌّ فِي ذَلِكَ دُونَ حُلُولِ ذَاتِهِ،
امام ابن تيميہ کہتے ہيں کہ ايک گروہ نے يہ بات بھي کہي ہے کہ اللہ کا کلام مصحف ميں حلول ہوگيا ہے جيسا کہ ابواسماعيل الھروي جو کہ شيخ الاسلام کے لقب سے جانے جاتے ہيں وغيرہ، يہ لوگ کہتے ہيں کہ يہ وہ حلول نہيں ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفي کيا ہے بلکہ ہم يہ کہتے ہيں کہ اللہ کا کلام اللہ صحيفہ ميں ہے اور يہ نہيں کہا جائے گا کہ اللہ صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسي طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کلام اس ميں [يعني مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن اللہ کي ذات حلول نہيں ہوئي
سبحان اللہ اگر يہي کلام کوئي بھي اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ ديتا تو کيا اس کو کوئي شيخ الاسلام کے لقب سے ملقب کرتا؟ تو خلاصہ کلام يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام صاحب کي اس بات کي روايت کو اگر ابواسماعيل الھروي کي من گھڑت زيادتي کے بنا نقل کيا جائے تو اس ميں کوئي خرابي نہيں اور کلام کا مفھوم مکان کي نفي ميں واضح ہے خصوصاجب امام صاحب کے باقي ارشادات کي روشني ميں اس کو قوي قرائن مل جاتے ہيں اور امام طحاوي رحمہ اللہ کے نقل سے بھي اسي معني کو دعم ملتا ہے
اور اسي کلام کو شيخ ابن قيم رحمہ اللہ نے ان الفاظ کي زيادتي سے نقل کيا ہے،لانہ انکر ان يکون في السماء لانہ تعالي في اعلي عليين، يعني يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا، کيونکہ اللہ اعلي عليين ميں ہے حالانکہ قران وسنت ميں کہيں بھي اللہ کو اعلي عليين ميں نہيں کہا گيا تو يہ سب تصرفات جناب ابواسماعيل الھروي کي ہيں اور ان کي تقليد ميں امام ذہبي رحمہ اللہ نے العلو ميں اور امام ابن قيم رحمہ اللہ نے اجتماع الجيوش الاسلاميہ ميں ان کو اسي طرح نقل کيا واللہ اعلم