جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Monday, 18 May 2015

Aqaid Maen Firqa Nam Nihad Salfia Ka Operation عقائد میں فرقہ نام نہاد سلفیہ کا آپریشن



مزید معلومات  یہاں ملاحظہ کیجئے

http://salafiexpose.blogspot.com/



اللہ کی ذات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف

تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ
وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته 
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.

امام الطحاوي الحنفي (وفات 321ھ) كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية جو کہ تمام اہلسنت والجماعت کہ ہاں مسلم ہے)  فرماتے ہیں
الله تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ہے۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)

اب ہر وہ عقیدہ جس سے اللہ کیلئے حدود ، جسم یا جھت ثابت ہوتی ہے اسے علماء دیوبند ترک کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی ہر جگہ ہے اس کا علماء دیوبند کے نزدیک کیا معنی ہے؟
علماء دیوبند کے نزدیک اللہ تعالٰی جگہ/مکان میں ہونے سے پاک ہے یعنی  اللہ موجود ہے مگر بلا مکان۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :  (اللہ تعالٰی کے) ہر جگہ ہونے کے اس عقیدہ ہی کی کوئی دلیل نہیں۔ جب وہ صرف جگہ میں ہونے سے پاک ہے کئی جگہوں میں اس کا ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
اگے لکھتے ہیں
اگر چہ اس محاورہ (اللہ ہر جگہ ہے) میں گنجائش زیادہ ہے کیونکہ اس سے مراد کسی جگہ میں ہونے کی قید کا نہ ہونا ہے۔
(تسھیل تربیت السالک ج 3 صفحہ 118)

یعنی کہ علماء دیوبند کے نزدیک اللہ ہر جگہ کہنے سے کسی جگہ میں اللہ کی قید کی نفی کرنا ہے۔ جیسے کوئی  کہے کہ اللہ یہاں ہے وہاں نہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے۔

علماء دیوبند کے نزدیک ایسا کہنا کہ اللہ عرش پر ہے یا آسمانوں پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے کہنا بھی درست ہے۔

بشرطیکہ اللہ کی ذات کی تخصیص یا اسکی ذات کیلئے کوئی جگہ مقرر کرنی نہ ہو۔ مقصود اِس نفی سے اُس  بات کی نفی کرنی ہو جو اللہ کی شان کے لائق نہ ہو اور اس سے کوئی لازم سمجھ سکتا ہو۔

ایسی ہی ایک جگہ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : میرے نزدیک جن حضرات نے احاطہ ذاتی کی نفی کی ہے غالباً مقصود ان کا نفی کرنا ہے تجسیم (جسم) کی۔ یعنی احاطہ ذاتی سے متبادر محیط و محاط کا اتصال حسی ہے جو کہ عامہ (عامی) کے نزدیک احاطہ ذاتی کی لوازم سے ہے پس اصل مقصود لازم کی نفی ہے اور اس کیلئے ملزوم کی نفی کر دی جاتی ہے۔ (امداد الفتاویٰ جلد 6 ص 63)

کیونکہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلاف نے باطل گروہوں کے عقائد کی نفی کیلئے یا کم فہموں کیلئے ان باتوں کا درجہ ظن میں اثبات کیا ہے جو کہ وہ پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔

علماء دیوبند کے عقائد کی کتاب المہند علی المفند جس پر علماء حرمین کے بھی دستخط موجود ہیں اس میں ایک جگہ علماء حرمین کی طرف سے یہ سوال ہوا ہے کہ

ماقولكم في امثال قوله تعالي الرحمن علي العرش استوي هل تجوزون اثبات جهة و مكان للباري تعالي ام كيف رايکم فيه
ترجمہ: کیا کہتے ہیں حق تعالٰی کے اس قسم کے قول میں  کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہوا، کیا جائز سمجھتے ہو باری تعالٰی کیلئے جہت و مکان کا ثابت کرنا یا کیا رائے ہے؟

الجواب
قولنا في امثال تلك الايات انا نؤمن بها و لا يقام كيف و لومن بالله وسبحانه و تعالٰي متعال و منزه عن صفات المخلوقين وعن سمات النقص والحدوث كما هو راي قد مائنا واما ما قال المتاخرون من ائمتنا في تلك الايات يا ولونها بتاویلات صحیحة سائغة في اللغة  و الشرع بانه يكمن المراد من الاستواء الاستيلاء و من اليد القدرة الي غير ذلك تقريباً الي  افهام القاصرين فحق ايضا عندنا و اما الجهة والمكان فلا نجوز اثباتهما له تعالٰي ونقول انهتعالي منزه و متعال عنهما وعن جميع سمات الحدوث

ترجمہ: اس قسم کی آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے یقین جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہے اور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں مثلا یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالٰی کیلئے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ  جہت و مکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ و عالی ہے۔
(المہند علی المفند ص 38۔39)

بائن الخلۃ
مخلوق سے جدا
علماء دیوبند کے نزدیک اللہ تعالٰی  کی ذات قدیم ہے جیسا اللہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔
پھر اس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور کسی مخلوق میں یہ ہمت نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ خدا کی ذات کے ساتھ متحد ہو جائے۔
مولانا ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں:
حق تعالٰی کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرتا ہے۔(عقائد اسلام ص 59)

اللہ اپنی ذات کے ساتھ  متحد ہے کا عقیدہ دو طرح سے نکل سکتا ہے ایک یہ کہ اللہ کی ذات کو جسم و جھت سے پاک نہ مانا جائے اور دوسرا اس طرح کہ اللہ کی ذات کیلئے  کوئی جگہ مقرر کر دی جائے اور کہا جائے کہ اس کے بعد سے اللہ کی ذات نہیں پھر مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اب جہاں سے بھی اللہ کی ذات ختم قرار دی جائے گی  پھر اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ کی ذات اور اس کے بعد جو بھی مخلوقات ہیں وہ آپس میں متحد ہیں یا اگر اللہ  کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ مقرر کر دیتے ہیں  تو وہ فاصلہ بھی ٖغیر اللہ  یعنی کہ مخلوقات میں ہی شامل ہو گا۔ اسلئے اب کسی بھی طرح یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ 






                                        

عقائد میں فرقہ نام نہاد سلفیہ کا آپریشن
حافظ ابن تیمیہ کے بارے میں کچھ وضاحت ابن تیمیہؒ  اپنی اول زندگی میں ٹھیک تھے  شیعوں پر ان کا کافی سارا رد تھا بعد میں شیعوں سے متاثر ہو کر انہوں نے  اجماعی مسائل جن میں سے طلاق ثلاثہ مشہور ہے کا انکار کیا۔
سعودی علماء  کی راۓ
مجموعہ رسائل و مسائل شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ (امام أبوحنیفہ، امام شافعی، امام أحمد بن حنبل، امام مالک) کی پیروی کرتے ہیں، (یعنی ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک هے.[الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠
حافظ ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں کو تین طلاق کو ایک قرار دینے پر سخت ترین سزئیں بھی ہوئیں۔
اس کے بعد انہوں نے  عقائد میں بھی مخالفت شروع کر دی  بحوالہ دلائل کے ساتھ ملاحظہ کیجئے ایک جھلک 
اس کی ہمیں ضرورت نہیں تھی لیکن جب لوگ اس معاملے میں ان کے طریقے پر چلنے لگے اور ان سے دلیل پکڑنے لگے تو اس کی  ضرورت پیش آئی تاکہ اسے واضح کیا جاسکے 


حافظ ابن تیمیہ سلفی کا موقف
لکھتے ہیں: ”اگراللہ چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی ٹھہر سکتاہے اوراس پر اپنی قدرت اورلطف ربویت سے بلند ورفیع ہوسکتاہےتوعرش عظیم جو ساتوں زمین اورآسمان سے بھی زیادہ بڑاہے تواس پر اللہ ٹھہرکیوں نہیں کرسکتاتوبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو اللہ کاعرش اس کے ٹھہرنے کیلئے کافی نہیں ہے“۔

سلف کا موقف
استویٰ کا اگریہ لفظی ترجمہ استقرار یعنی ٹھہرنا ہوتا ہے نام نہاد سلفیوں نے اسی کا اثبا ت کیا ہے لیکن سلف نے اللہ کیلئے استویٰ سے ٹھہر نا مراد لینے کا رد کیا اور ٹھہرنے کا یہی معنی ہوتا ہے کہ وہیں پر ہونا اور کہیں نہ ہونا۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ (وفات 150ھ)
ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه
هم یہ اقرار کرتے هیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اورنہ وہ عرش پر ٹھہرا ہوا ہے۔ [شرح الوصية(ص87)]
حضرت امام ابو بکر الباقلانیؒ (وفات 403ھ)
"ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اه
ـ
[ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65)].
هم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا قرار ( ٹھہرنا ) ہے یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے
الشیخ ابو اسحاق الشیرازی ؒ (وفات476ھ)
. وان استواءه ليس باستقرار ما عليه كان ۔۔۔۔ أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان
ـ
[أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101)]
الله تعالی کا استواء استقرار (ٹھہرنا) نہیں ہے ۔۔۔۔الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
نوٹ: فرقہ سلفیہ نے اس عقیدہ (اللہ جیسا تھا اب بھی ویسا ہے )کو بھی استوی کاانکار کہا ہے۔ سلفیوں کے اکابر صالح العثیمین لکھتے ہیں
وهو الآن علي ما كان علیه وهو يريد ان ينكر استواء الله
اللہ جیسا مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہے کا مقصد استوی کا انکار کرنا ہے(شرح عقیدہ وسطیہ ص 208)



------------------------------------ تحریر دوم 
تیسری صدی پہلے پہلے تک تو ایک بڑا فتنہ تھا جہمیہ اور اسکا رد ہی عروج پر تھا اور اس کے بعد جب کچھ نے دھوکہ کھا کر یہ سمجھ لیا کہ اسلاف کے ان جہمیہ کے رد میں قول کا یہ مطلب ہے کہ اللہ صرف عرش پر ہی ٹھہرا ہوا ہے تو پھر ان پر رد شروع ہوا کہ اللہ عرش پر ٹھہرا ہوا نہیں۔
اور اسی قول سے انہوں نے دھوکہ کھایا وہ یہ تھا ” اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے“۔ یہ ایسا ہی عقیدہ ہے کہ جب اللہ کو دن میں اوپر کی طرف سے پکارا جاتا ہے حالانکہ وہ طرف رات کے وقت نیچے کی طرف ہو جاتی ہے معلوم ہوا اللہ وہاں بھی ہے لیکن پکارنا اوپر کی طرف کرکے ہی ہے۔ اور نیچے بھی ہے لیکن کوئی کہتا نہیں نیچے کی طرف ہاتھ کرکے پکارو۔ یا کوئی یہ کہے کہ جہاں صبح اللہ کو پکارا تھا اس طرف اب اللہ نہیں رہا۔ اور پھر اللہ کا علم بھی قدیم ہے اور جگہ کے وجود سے پہلے بھی تھا اسے ہر جگہ مان لیا اور اللہ کی ذات وہ بھی تو قدیم ہے اس کا پھر کھلا انکار کر دیا ؟ اسلاف کے نزدیک تو یہ قول کہنے کا مقصد صرف احتیاط تھا تاکہ ایسی بات کہیں جس سے جہمیہ کے عین مخالف رد جائے۔ اور کوئی گنجائش باقی نہ رہے جہمیہ کیلئے کہ وہ اپنا استدلال پکڑ سکیں اور جہمیہ کا عقیدہ گمراہ کن کیوں ہے صرف اسی وجہ سے کہ وہ اللہ کی ذات کیلئے تخصیص کرتے تھے اللہ کیلئے ایسا عقیدہ رکھتے جس سے حدود جھت مکان لازم آتا جبکہ اللہ جیسا مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا ویسا ہے اور مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد بھی ہے۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور سلفیہ اس کے منکر ہیں۔ نام اچھے اچھے رکھ لینے سے عقیدہ صحیح نہیں ہوتا جیسے منکرین حدیث نے اپنا نام اہلقرآن رکھ لیا ہے اور روافض نے اپنا نام شیعہ رکھ لیا حالانکہ دونوں گمراہ ہیں۔
اگر اہلسنت کے اقوال اختلافی لگیں تو وہ ایک دوسرے کے تابع جاتے ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف اور فرقہ سلفیہ خلاف کرتا ہے اور اس پر زندیق وغیرہ تک کے فتوے لگتا ہے۔ اگر ایسا کہتے ہوئے ہچکچاتا ہو تو وہ ان کی طرف یہ بات منسوب کر دیتا ہے کہ وہ انہوں نے اپنے اس گمراہ عقیدے سے رجوع کر لیا ہے العیاذ باللہ کیا اتنے بڑے بڑے امام ایسے احمق تھے کہ انہیں عقائد وغیرہ کا علم ہی نہیں تھا اور عقیدے سے ادھر اھر ہٹتے پھرتے رہتے تھے۔ میرے مطابق مسائل میں تو ٹھیک مگر عقائد میں یہ بڑی جرات ہے ایسا کہنا۔
سلفیوں کا عقیدہ یہ نہیں کہ ”اللہ عرش پر ہے“ بلکہ یہ ہے کہ ” اللہ عرش پر ٹھہرا ہوا ہے“ اور اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ وہیں ہے اور کہیں نہیں۔ جیسا سلفیوں کے معتبر عالم ابن تیمیہ کا تھا۔ جسے نہ ماننے والے کو وہ ہانکنے والا کہتے تھے۔ اس پر اہلسنت سلف کے بڑے بڑوں نے رد کیا کچھ نے پہلا ہی تو کچھ نے بعد میں
دیکھئے :
https://goo.gl/LNTFao

امام بخاریؒ سے دیکھئے :
https://goo.gl/RPFvHd

دیکھئے ایک اور:
https://goo.gl/YHH45u

تین عقیدے ثابت کیجئے سلف سے
(1) اللہ عرش پر ہی ٹھہرا ہوا ہے۔
(2) اللہ جہاں اور جیسا مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب نہیں ہے۔
(3) اللہ کی ذات کے اوپر تو کچھ نہیں مگر نیچھے ہے۔


کہنے کو سلفی اور جب امتحان لو تو دعوی سلفیت غائب ؟؟؟