محمد بن اسحاق بن یسار
احکام میں ضعیف ترین راوی ہے۔
نوٹ:۔ یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف
الامام میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر
غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔
1۔امام مالک ؒ :۔
وقال مالك دجال من الدجاجلة
امام مالکؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔
(تہذیب التہذیب
ج۹ص۴۱،تذکرہ الحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
امام مالکؒ فرماتے ہیں:۔
محمد بن إسحاق كذاب.(تاریخ بغداد ج۲ص۱۹)
محمد بن اسحاق کذاب ہے۔
2۔ علی ن المدینی، سعید قطانؒ
علي يعني ابن المدينى قال سمعت يحيى يعيى ابن سعيد القطان يقول قلت لهشام بن عروة
ان ابن اسحاق يحدث عن فاطمة بنت المنذر فقال أهو كان يصل إليها؟ فقلت ليحيى كان محمد بن اسحاق بالكوفة وانت بها؟ قال نعم، قلت تركته متعمدا؟ قال نعم تركته متعمدا ولم أكتب عنه
حديثا قط.(لجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں
میں نے سعید بن قطانؒ سے پوچھا محمد بن اسحاق اور آپ کو کوفہ میں رہتے ہیں؟ انھوں
نے جواب دیا جی ہاں ہم دونوں کوفہ میں ہوتے ہیں
میں نے کہا آپ نے اس کو جان
بوجھ کر چھوڑ رکھا ہے یحیی بن سعید
نے کہا جی ہاں میں نے اس کو قصدا چھوڑ ا ہوا ہے اور میں نے اس سے کبھی بھی حدیث نہیں لکھی۔
3۔ابو حفص فلاسؒ، سعید بن قطانؒ
ابو حفص فلاس ؒکہتے ہیں کہ ہم وہب بن جریر ؒ کے پاس تھے اور جب لوٹے تو یحییٰ بن سعید ؒ
کے پاس سے گذرے یحیی بن سعید ؒ نے پوچھا تم کہاں تھے۔
۔قلنا كنا عند وهب بن جرير يعنى يقرأ علينا كتاب المغازى عن أبيه
عن ابن إسحاق، قال تنصرفون من عنده بكذب كثير (الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۳)
ہم وہب بن جریرؒ کے پاس تھے
اور وہ ہمارے سامنے محمد بن اسحاق کی مغارزی کتاب پڑھ رہے تھے یحیی بن سیعد قطانؒ
نے کہا کہ تم اس سے بہت سا جھوٹ لے
کر لوٹے ہو۔
4۔یحیی بن معینؒ
یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں۔ يزل الناس يتقون حديث محمد بن اسحاق (الجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۴)
لوگ ہمیشہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے بچتے رہے ہیں اور کبھی یو یوں فرمایا
بذاك هو ضعيف
محمد بن اسحاق قوی
نہیں ضعیف ہے۔
5۔عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ
عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ نے
اپنے باپ ابو حاتمؒ سے سنا انھوں نے فرمایا
محمد بن اسحاق ليس عندي في الحديث بالقوى ضعيف الحديث (الجرح
والتعدیل ج۷ ص۱۹۴)
اسحاق میرے نزدیک باب حدیث میں قوی نہیں بلکہ ضعیف الحدیث ہے۔
6۔ امام نسائی ؒ
امام نسائی ؒ فرماتے ہیں لیس بالقوی محمد بن اسحاق قوی نہیں ہے۔ (ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)
7۔ امام دارقطنیؒ
وقال الدارقطني: لا يحتج به.
امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں
لایحتج بہ اس کی حدیث کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔
(تذکرہالحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
8۔سلیمان ےتیمیؒ
وقال سليمان التيمي: كذاب
سلیمان تیمیؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ ص۴۶۹)
9۔ ہشام بن عروۃؒ
وقال وهيب: سمعت هشام بن عروة يقول: كذاب.
ہشام بن عروۃ ؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہے۔(میزان الاعتدال ج۳ ص۴۶۹)
10۔یحیی بن سعید قطان
یحییٰ بن سعید قطان ؒ فرماتے ہیں قال يحيى القطان: أشهد أن محمد بن إسحاق كذاب
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحاق بہت بڑا جھوٹا ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ص۴۷۱)
علامہ نوویؒ لکھتے ہیں وإذا قالوا: متروك الحديث، أو
ذاهبه، أو كذاب، فهو ساقط لا يكتب حديثه
قاعدہ یہ ہے کہ جب محدثین کسی راوی کے متعلق یہ الفاظ کہہ دیں کہ وہ متروک الحدیث ہے یا باب حدیث میں گیا گذرا ہے یا جمہور اس کو کذاب کہہ دیں تو
ایسا راوی ساقط الاعتبار ہوتا ہے اور اس
کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔(التقریب والتیسیر للنووی ج۱ ص۵۳)
اور یہ بات واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک کذاب اور تہمت کذاب ایسی جرح
ہے کہ جس کا ردارک نہیں ہو سکتا اس لیے
محمد بن اسحاق جس کو دجال کذاب مکار کہا گیا ہے اس کی وجہ سے اس کی حدیث انتہائی ضعیف ہے اس لیے اس کی حدیث حجت نہیں بن سکتی۔
البتہ جن بعض محدثین نے اس کو ثقہ کہا ہے اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ
محمد بن اسسحاق ان کے نزدیک مغارزی اور تاریخ میں معتبر ہے ۔ لیکن شرعی احکام اور
حلال و حرام میں حجت نہیں ۔
11۔ حافظ ابن حجرؒ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں وَابْن إِسْحَاق لَا يحْتَج بِمَا ينْفَرد بِهِ من الْأَحْكَام
اس کی روایت احکام
میں حجت نہیں خصوصاً جب یہ روایت کرنے میں منفرد ہو۔ اور زیر بحث اس کی جتنی بھی
احادیث ہیں ان میں یہ منفرد ہے کوئی بھی ثقہ راوی اس کا متابع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ
فی تخریج احادیث الہدایہ جلد۲ ص۱۹)
12۔ابو داؤد ؒ
ابو داؤد ابن اسحاق کے متعلق ؒ فرماتے ہیں وقال أبو داود: قدري معتزلي.
ابن سحاو ق قدری اور
معتزلی ہے۔(میزان الاعتدال
جلد۳ص۴۶۹)
13۔علامہ ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں والذي تقرر عليه العمل أن ابن إسحاق إليه المرجع في المغازي
والأيام النبوية مع أنه يشذ بأشياء وأنه ليس بحجة في الحلال
والحرام
اور عملاً جو چیز پختہ طور
پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کی طرف
مغارزی اور سیر نبویہ میں رجوع کیا جاہے لیکن اس میں بھی وہ شاذ چیزیں بیان کرتا
ہے لیکن حلال حرام میں حجت نہیں۔ (تذکرۃ
الحفاظ ج۱ ص۱۶۳)
14۔امام احمد بن حنبلؒ
أما مُحَمَّد بن إِسْحَاق
فَيكْتب عَنهُ هَذِه الْأَحَادِيث يعْنى الْمَغَازِي وَنَحْوهَا فَإِذا جَاءَ الْحَلَال وَالْحرَام أردنَا قوما هَكَذَا
قَالَ أَحْمد بن حَنْبَل بِيَدِهِ وصم يَدَيْهِ
وَأقَام أَصَابِعه الإبهامين
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے مغارزی وغیرہ کی احادیث لکھی جاتی ہیں لیکن جب حلال حرام کے مسئلہ آتے ہیں تو ہم محمد بن اسحاق سے اعراض کرکے ثقہ لوگوں کا ارادہ کرتے ہیں امام احمد بن حنبلؒ نے اس مفہوم
کو اس طرح بیان ادا کیا کہ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بند کی اور دونوں انگوٹھے
کھڑے رکھے۔ (تاریخ ابن معین برویۃ الدوری
ج۳ص۲۴۷، الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۳ ، طبقات الحنابلہ ج۱ ص۲۳۷، المقصد الارشد ج۲ ص۲۷۹،
النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح ج۲ ص۳۰۹۔ فتح المغیث ج۱ ص۳۵۰)
15۔محمد بن ہارون فلاسؒ
محمد بن ہارون فلاسؒ فرماتے ہیں سألت يحيى بن معين عن محمد بن اسحاق فقال ما احب ان احتج به في
الفرائض
میں نے یحییٰ بن معین ؒ سے محمد بن اسحاق کے متعلق پوچھا تو یحییٰ بن
معین ؒ نے فرمایا کہ میں فرائض میں اس
کی حدیث حجت نہیں پکڑنا پسند کرتا۔(الجرح والتعدیل جلد۷ص۱۹۴)
16۔غیرمقلد علامہ البانی صاحب
غیرمقلد البانی صاحب لکھتے ہیں
وابن إسحاق
حجة في المغازي، لا في الأحكام إذا خالف
محمد بن اسحاق مغارزی
میں حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصا جب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے۔(ضعیف ابی داود ج۲ص۱۶۵)
17۔غیرمقلد نواب صدیق حسن خان صاحب
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”درسندش نیز ہماں محمد بن اسحاق است ومحمد بن اسحاق حجت نیست ۔(دلیل الطالب ص۲۳۹)
نیز اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور محمد بن اسحاق حجت نہیں۔
علامہ ابن رجب ؒ لکھتے ہیں ”واما من روی عن ضعیگ فاسقطہ من الاسناد بالکلیۃ فھو نوع تدلیس ومنہ
مایسممی التسویۃ وھو ان یروی عن شیخ لہ ثقۃ عن رجل ضعیف عن ثقۃ فیسقط الضعیف من
الواسط“
جو راوی ضعیف سے روایت کرتا ہو
اور وہ سند سے ضعیف راوی کو گرادے تو یہ ردلیس ہے اس کی ایک قسم کا نام
تدلیس التسویہ ہے وہ یہ کہ راوی کا شیخ
ثقہ ہو لیکن شیخ الشیخ ضعیف ہو اور شیخ الشیخ ثقہ راوی سے روایت کرے پس یہ ضعیف دو ثقہ راویوں کے درمیان
میں ہے جس کو راوی حدیث حذد کر دیتا ہے۔(شرح علل الترمذی لابن رجب ج۲ ص۸۲۵)
محدثین کرامؒ نے محمد بن اسحاق کو مدلس لکھا ہے۔
18۔ امام احمد بن حنبلؒ
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے
ہیں ابن اسحاق یدلس
محمد بن اسحاق تدلیس کرتا ہے۔ (تہذیب التہذیب ج۹ص۴۳)
اثرم کہتے
ہیں میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا ما تقول في محمد
بن إسحاق؟ قال
هو كثير التدليس جدا
هو كثير التدليس جدا
آپ محمد بن اسحاق ے بارے میں
کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا ہے۔ (الجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
قيل له: فإذا
قال أخبرني وحدثني فهو ثقة؟ قال: هو يقول أخبرني ويخالف.
نیز امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا وہ بھت زیادہ تدلیس کرتا ہے ان سے
پوچھا گیا کہ جب وہ اخبرنی اور حدثنی کے
ساتھ روای کرے اس کی روایت معتبر ہے ؟امام احمد بن حنبلؒ نے فرمیا کہ وہ اخبرنی
کہتا ہے پھر اس کے خلاف بھی کہہ دیتا
ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ص۴۷۰)
19۔علامہ نوویؒ
علامہ نوویؒ لکھتے ہیں فَإِن ابْن إِسْحَاق مُدَلّس مَشْهُور بذلك،
والمدلس إِذا قَالَ: عَن، لَا يحْتَج بِهِ بالِاتِّفَاقِ.
محمد بن اسحاق تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور جب مدلس عن کے ساتھ
روایت کرے تو اس کی حدیث بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔(خلاصۃ الاحکام ج۲ ص۷۱۶)
20۔ علامہ بصریؒ
علامہ بصریؒ فرماتے ہیں سَنَده ابْن إِسْحَاق وَهُوَ مُدَلّس
اس کی سند میں محمد
بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے۔
(مصباح الزجاجۃ ج۳ ص۸۲)
21۔علامہ ابن رجبؒ
علامہ ابن رجب ؒ لکھتے ہیں ”وابن اسحاق مدلس “ (فتح الباری لابن رجب ج۹ص۴۹۳)
22۔علامہ عراقیؒ
علامہ عراقیؒ فرماتے ہیں ”فی اسناد محمد بن اسحاق وقد
رواہ بالعنعنہ وھو مدلس“
اس کی سند میں محمد بن
اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے عن کے ساتھ
روایت کی ہے۔ (طرح التہذیب ج۲ ص۷۰)
23۔حافظ ابن حجرؒ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں ”محمد بن اسحاق بن یسار امام المغارزی صدوق یدلس“
محمد
بن اسحاق بن یسار غزوات کے نقل کرنے میں امام ہے سچا ہے لیکمن تدلیس کرتا ہے۔ (تقریب التہذیب ص ۲۹۰)
بن اسحاق بن یسار غزوات کے نقل کرنے میں امام ہے سچا ہے لیکمن تدلیس کرتا ہے۔ (تقریب التہذیب ص ۲۹۰)
24۔ علامہ نور الدین الہیثمیؒ
علامہ نور الدین الہیثمیؒ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ ثقات الابن اسحاق مدلس
اس حدیث کو کو طبرانی ؒ نے
معجم اوسط میں روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن محمد بن اسحاق مدلس ہے۔(مجمع الزوائد ج۹ص۱۵۵)
25۔غیرمقلد علامہ البانی صاحب
البانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں
ورجالہ ثقات الاان ابن اسحاق
مدلس (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ
ج۶ص۱۰۸۷)
اس کے راوی ثقہ ہیں مگر محمد بن اسحاق مدلس ہے۔
26۔ غیرمقلد علامہ شوکانی صاحب
علامہ شوکانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”وفی اسنادہ محمد بن اسحاق
وھو مدلس وقد عنعن“
اس کی سند میں محمد
بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے اوراس نے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔
27۔ غیرمقلد محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب
عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب ایک سند کا ضعف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں فان فی سندہ محمد بن اسحاق وھو مدلس ورواہ عن فاطمۃ بنت المنذر
بالعنعنۃ ومع ھذا قد تفرد ھو االلفظ ولم یقلہ غیرہ
اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے جو مدلس ہے اور اس حدیث کو فاطمہ بن منذر سے عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور وہ
حدیث کے ان لفظوں کے نقل کرنے میں منفرد ہے یہ لفظ کسی اور نے نقل نہیں کیے اسلیے
یہ ضعیف ہے۔(ابکار المنن ص۵۳)
محمد بن اسحاق شیعہ مذہب رکھتا تھا
28۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ محمد ابن إسحاق ابن يسار۔۔۔۔ورمي بالتشيع والقدر
محمد بن اسحاق شیعہ
مذہب کے ساتھ قدری بھی ہے یعنی تقدیر کا منکر ۔(تقریب التہذیب جلد۱ ص۴۶۷)
29۔علامہ خطیب بغدادیؒ
علامہ خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں وقد أمسك عن الاحتجاج بروايات ابن إسحاق غير واحد من
العلماء لأسباب منها أنه كان يتشيع
محمد بن اسحاق کی روایت کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف
اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب
یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(تاریخ بغداد ج۱ ص۲۲۴)
30۔علامہ ابن عساکرؒ
علامہ ابن عساکرؒ فرماتے ہیں محمد بن إسحاق وسلمة بن الفضل يتشيعان
محمد بن اسحاق اور سلمہ بن فضل دونوں شیعہ المذہب رکھتے تھے۔(تاریخ ابن عساکر ج۵۹ص۲۰۵)
31۔علامہ ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ لکھتے ہیں وَقَدْ أَمْسَكَ عَنِ الاحْتِجَاجِ بِرِوَايَاتِ ابْنِ إِسْحَاقَ
غَيْرُ، وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ, لأَشْيَاءَ مِنْهَا: تَشَيُّعُه۔
محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف
اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(سیراعلام النبلا ج۷ ص۳۹)
32۔علامہ ابن رجب الحنبلیؒ
علامہ ابن رجب الحنبلیؒ لکھتے ہیں ولا ريب أنه كان يتهم بأنواع من البدع، ومن التشيع والقدر وغيرهما
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن اسحاق مختلف قسم کی بدعات کے ساتھ
متہم تھا جیسے شیعہ اور قدری
یعنی تقدیر کا منکر وغیرہ۔(شرح علل
الترمذی لابنرجب ج۱ ص۴۱۹)
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں بدعتی کی حدیث کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے
کہ جس حدیث سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی ہو اس کی وہ حدیث قبول نہیں کی
جاتی ۔(شرح مسلم للنوی ص۲ شرح نختبہ الفکر ص۱۱۸)
33۔ابو حاتمؒ
ابو حاتم ؒ محمد بن اسحاق کو
ضعیف کہتے ہیں۔ (کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)
34۔وہیب بن خالدؒ
الا روايته عن أهل الكتاب وكذبه سليمان التيمي ويحيى القطان ووهيب بن
خالد
وہب بن خالدؒ محمد بن اسحاق
کو کاذب اور جھوٹا کہتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۵)
35۔جریر بن عبدلحمیدؒ
جریر بن عبدلحمیدؒ فرماتے ہیں وقال جرير بن عبد الحميد ما ظننت أني أعيش إلى دهر يحدث فيه عن محمد بن إسحاق ويسكت فيه
میرا یہ خیال نہ تھا کہ میں اس
زمانہ تک زندہ رہوں گا جس میں لوگ محمد بن اسحاق سے احادیث کی سماعت کریں گے۔(تہذیب التہذیب جلد۲ ص۳۰۶)
36۔امام بیہقیؒ
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں
محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔ (سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی جلد ۱
ص۱۵۵)
ص۱۵۵)
37۔علامہ ماردینیؒ
علامہ ماردینیؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق پر محدیثین کے نزدیک مشہور کلام ہے۔(الجوھر
النقی ج۱ ص۱۵۵)
38۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ
عبداللہؒ فرماتے ہیں لم یکن يحتج به في السنن
میرے باپ احمد بن حنبلؒ ابن اسحاق کو سنن اور احکام میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۰،تہذیب
التہذیب جلد۹ص۴۴)
حنبل بن اسحاق کا بیان ہے کہ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق لیس
بحجۃ یعنی ابن اسحاق حجۃ نہیں ہے۔(بغدادی
جلد۱ ص۲۳۰، تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا
کہ ابن اسحاق جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس
کی حدیث حجت ہو گی؟ قال لا واللہ (بغدادی جلد۱ ص۲۳۰) بخدا ہرگز نہیں۔
39۔ابن معینؒ
ابن ابی خیثمہؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو لیس بذالك ،ضعیف ، اور لیس بالقوی کہا ۔ میمونی ؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے
۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۱ تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
40۔علی بن المدینیؒ
علی بن المدینیؒ کا بیان ہے لم یضعفه عندي الا روایته،
عن اھل الکتاب (تہذیب
التہذیب جلد۹ص۴۵)
میرے نزدیک ابن اسحاق کو صرف اس بات نے ضعیف کر دیا ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایتیں لے لے کر بیا ن کرتا ہے۔
41۔علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق بن ندیمؒ
علامہ ابو الفرج محمد بن
اسحاق بن ندیمؒ اپنی کتاب الفہرست میں محمد بن اسحاق کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
مطعون علیه غیر مرضی الطریقه الی ان قال وکان یحمل عن الیھود
والنصاري ولیمیھم فی کتبه اھل العلم الاول و اصحاب الحدیث یضعفونه ویتھمونه
ترجمہ:۔ اس پر طعن کیا گیا ہے اور اس کا طریقہ ناپسند یدہ تھا ۔(پھر
اگے فرمایا) کیونکہ وہ یہود اور نصاریٰ
سے روایات لیتا تھا اور پنی
کتابوں میں ان کو پہلے علم والے کہا کرتا تھا اور اہل حدیث اس کو ضعیف کہتے ہیں اور اس کو متہم قرار دیتے ہیں۔ (الفھرست لابن الندیم ص۱۴۲ طبع مصر)
حضر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں
اقول الرویه عن اھل الکتاب تججویذ فیما سبیله سبیل الاعتبار و حیث
یکون الامن عن الاختلاط فی شرائع الدین ولا یجوز فیما سوٰی ذالك (حجۃ اللہ البالغۃ جلد۱ص۱۷۱)
ترجمہ:۔میں کہتا ہوں کہ اہل کتاب سے روایت ایسے معاملات میں جہاں
عبرت مقصود ہو اور جہاں دین کے احکام میں اختلاط واقع نہ ہوتا ہو درست ہے، اور اس
کے علامہ ان سے روایت جائز نہیں ہے۔
42۔امام ترمذیؒ
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ
بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی
کی وجہ سے اس میں کلام کیا ہے۔
(کتاب العلل جلد۲ص۲۳۷)
43۔امام نوویؒ
امام نوویؒ فرماتے ہیں جو راوی صحیح کی شرطوں کے مطابق
نہیں ہیں ان میں ایک محمد بن اسحاق بھی ہے۔(مقدمئہ نووی ص
۱۶)
۱۶)
44۔امام ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق کی روایت درجئہ صحت سے گری
ہوئی ہے اور حلال و حرام میں اس سے
احتجاج درست نہیں۔ (تذکرہ
جلد۱ ص۱۶۳)
45۔علامہ منذری اور حافظ سخاویؒ
علامہ منذری اور حافظ سخاویؒ فرماتے ہیں کہ امام احمدؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق کی روایات مغارزی میں تو لی جاسکتی ہے لیکن جب حلال حرام
کا مسئلہ ہو تو اس میں ایسے ایسے راوی
درکار ہیں (یعنی ثقہ اور ثبت)۔
(التغریب والترھیب جلد۴ ص۲۹۰ و فتح المغیث ص۱۲۰)
46۔اہل سنت میں سے بہت ساروں نے اسے شیعہ لکھا ہی ہے
مگر خود شیعہ نے بھی اسے اپنا تسلیم کیا ہے۔
(رجال کشی جلد نمبر ۵ ص۳۹۰)
(رجال کشی جلد نمبر ۵ ص۳۹۰)
(رجال
الطوسی ص۲۸۱)
محمد بن اسحاق کو شیعوں نے اپنا تسلیم کیا ہے۔
47۔غیرمقلد
فیض عالم صدیقی نے اپنی کتاب صدیقہ کائنات ص114 پر محمد بن اسحاق کے بارے میں لکھا
ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ ضعیف تھا۔
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں۔
وکان مالك بن انس لایرضاہ و یحیی بن سعید
القطان لایروی عنه و یحیی بن معین یقول لیس ھو بحجۃ واحمد بن حنبل یقول یکتب عنه
ھذا الاحادیث اعني المغازی فاذا جأ الحلال الحرام اردنا قوما ھکذا یرید اقوای منه
فاذا کان لا یحتج به فی صفات اللہ سبحان تعالٰی وانما نقموا علیه فی رويته عن اھل
الکتاب ثم فاذا روی عن ثقه وبین سماعه منه
فجماعه من الائمه لم یروابه بأسا ۔(کتاب الاسماء والصفات ص۲۹۷)
ترجمہ:۔امام مالکؒ اس کو پسند نہیں کرتے تھے یحییٰ بن سعید بن القطانؒ
اس سے روایت نہیں لیتے تھے اور ابن معین فرماتے
ہیں کہ وہ حجت نہیں اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مغارذی کی حدیثیں تو لکھی جاسکتی ہیں لیکن حلال و حرام کی روایتوں میں ہم قوی راویوں کو تلاش کریں گے پس جب حلال و حرام میں ابن اسحاق کی روایت حجت نہیں تو صفات باری تعالٰی میں بطریق اولٰی اس کی روایت حجت نہیں ہو سکتی اور محدثین نے اس پر جو عیب لگایا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اہل کتاب سے روایت کرتا ہے اور ضعیف قسم کے لوگوں سے بھی روایت کرتا ہے اور ان کے ناموں میں تدلیس سے کام لیتا ہے پس جب ثقہ سے روایت کرے اور سماع کی تصریح بھی کرے تو ائمہ کی ایک جماعت اس میں مضائقہ نہیں سمجھتی۔
ہیں کہ وہ حجت نہیں اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مغارذی کی حدیثیں تو لکھی جاسکتی ہیں لیکن حلال و حرام کی روایتوں میں ہم قوی راویوں کو تلاش کریں گے پس جب حلال و حرام میں ابن اسحاق کی روایت حجت نہیں تو صفات باری تعالٰی میں بطریق اولٰی اس کی روایت حجت نہیں ہو سکتی اور محدثین نے اس پر جو عیب لگایا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اہل کتاب سے روایت کرتا ہے اور ضعیف قسم کے لوگوں سے بھی روایت کرتا ہے اور ان کے ناموں میں تدلیس سے کام لیتا ہے پس جب ثقہ سے روایت کرے اور سماع کی تصریح بھی کرے تو ائمہ کی ایک جماعت اس میں مضائقہ نہیں سمجھتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے ابن
اسحاق کو جو حسن الحدیث کہا یا جو
غیرمقلدین اس کی توثیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف مغاذی تاریخ وغیرہ میں نہ کہ احکام اور حلال حرام میں۔ علامہ ذھبیؒ نے سفیانؒ بن
حسینؒ کے ترجمہ منقل کیا ہے کہ لایحتج به کنحو محمد بن اسحاق یعنی محمد بن
اسحاق کی طرح اس سے بھی احتجاج درست نہیں۔
چونکہ اس راوی پرہم نے بحوالہ جمہور محدثین کا
کلام نقل کر دیا ہے جس میں اس راوی کو کذاب اور دجال تک قرار دیا گیا ہے اس لئے اس
راوی کو اگر کسی نے ثقہ بھی کہا ہو تو
بھی حلال حرام کے مسئلہ میں اس سے احتجاج کیلئے کافی نہیں ہو سکتا کیونکہ عین ممکن ہے جس نے کذاب اور دجال راوی
کو ثقہ کہا ہے وہ اس کے کذب اور دجل سے نہ واقف ہو۔
اعتراض:۔
۱۔ غیرمقلدین دلیل پیش کرتے ہیں کہ امام
بخاریؒ اسے ثقه کہتے ہیں۔
جواب
:۔
ایسے کذاب اور دجال راوی کے بارے میں امام
بخاری کی رائے کیا وقعت رکھتی ہے؟ خصوصاً جب کہ امام بخاری نے ابن اسحاق کا زمانہ
نہیں پایا اور ہشام بن عروہ امام مالک اور
یحییٰ بن قطانؒ وغیرہ اس کا زمانہ پانے والے انتہائی سنگین الزامات اس پر عائد
کرتے ہیں اور یہ بڑے محتاط اور عارف باسباب الجرح بھی ہیں۔ علامہ بریں اگر واقعی
محمد بن اسحاق احادیث روایت کرنے والا راوی
ثقہ ہے تو امام بخاریؒ نے باوجود
اشد ضرورت کے صحیح بخاری میں اس سے احتجاج کیوں نہیں کیا؟
یہ امام بخاری کی ذاتی رائے ہے حق وہی جو جمہور
نے کہا ہے چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک مقام پر لکھتے ہیں جمہور اہل
اسلام کے نزدیک ایسی حدیث سے و حسن ہو احتجاج صحیح ہے لیکن امام بخاری حدیث حسن س
احتجاج کے قائل ننہیں ہیں آگے لکھتے ہیں والحق ماقاله الجمھور (دلیل الطالب ص۸۸۲)
حق بات وہی ہے جو جمہور نے کہی ہے۔ قاضی شوکانی غیرمقلد نے بھی امام بخاریؒ اور
ابن العربیؒ کا یہ مسلک نقل کرکے اگے لکھا ہے والحق ماقاله الجمھور (نیل
الاوطار جلد ۱ ص۲۲) کہ حق وہی ہے جو جمہور
نے کہا ہے۔
۲۔غیرمقلدین
کہتے ہیں امام شعبہؒ نے ابن اسحاق
کو امیر المحدثین لکھا ہے۔
جواب :۔ اول ،غیرمقلدین کے نزدیک اس طرح کہنے
سے توثیق ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ غیرمقلد مبارک پوری صاحب ایک جگہ ایک راوی ابو
طاہر فقیہ کے متعلق جس کو علامہ تاج الدین سبکیؒ نے ادیب عارف اور امام المحدثین
والفقھاء لکھا ہے ۔ قلت لا دلاله فی ھذا اعلٰی کو نه ثقه قابلاً للاحتجاج (تحفۃ
الاحوذی جلد۲ص۷۵) یعنی، میں کہتا ہوں کہ
امام المحدثین والفقھاء کہنے سے یہ کیسے
لازم آیا کہ وہ ثقہ اور قابل احتجاج بھی تھے۔
محقق نیمویؒ نے ابو عبداللہ فخجویہ دینوریؒ کو
کبتا ر محدثین لکھا ہے لیکن غیرمقلد مبارک پوری صاحب ان پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
فان
مجود کونه من کبتا المحدثین لایستلزم کونه ثقه (تحفه الاحوذی جلد۲ ص۷۵)۔ ان
کے صرف کبار محدیثین ہونے سے یہ کیسے لازم
آیا کہ وہ ثقہ بھی تھے؟'
قارئین کرام! ذرہ انصاف سے بتائیں جن کے بارے
میں جرح کا ایک لفظ بھی موجود نہو ہو اور علامہ تاجدین سبکیؒ وغیرہ جیسے اما ماور
ثقہ عالم ان کو امام المحدثین اور کبار المحدثین لکھیں مگر معہذا ان کی ثقاہت ثابت
نہ ہو سکے تو غیرمقلدین کے نزدیک ثقہ نہیں اور محمد بن اسحاق جس کو ائمہ جرح و تعدیل کذاب اور دجال تک کہتے ہوں تو اس سے امام شعبہؒ کا ابن اسحاق کو امی
المحدثین کہنے سے ان کی توثیق ثابت ہو سکتی ہے؟
اس کے علامہ ہم نے باحولہ نقل کر دیا ہے کہ
محمد بن اسحاق غیر متعبر اور ضعیف راوی ہے
اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ، اور جنہوں نے اس کی توثقیق کی ہے وہ مغازی
اور تاریخ وغیرہ میں کی ہے نہ کہ احکام اور سنن وغیرہ میں۔
نوٹ:۔ غیرمقلدین حضرات اپنے بنیادی مسائل اس غیر معتبر راوی سے پیش کرتے ہیں جیسے طلاق
ثلاثہ اور قرأت خلف الامام میں اس کے بغیر غیرمقلدین کا مذھب ادھرہ رہ جاتا ہے۔