بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ آمین بالسر
از افادات: متکلم اسلام
مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
جب کوئی شخص سورۃ فاتحہ پڑھنے سے
فارغ ہو جائے تو آمین کہے ۔آمین آہستہ کہنا سنت ہے، چاہے وہ شخص امام ہو
،مقتدی
ہو یامنفرد۔
(الدر المختار علی حامش
رد المحتار ج2ص237 ، فتاوی العالمگیریہ ج1ص82)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے
آمین تعلیم کے لیے کہی تھی اس پر دوام نہیں فرمایا تھا ۔ (بذل المجہود
ج2ص101 باب التامین وراء الامام وغیرہ)
مذہب غیر مقلدین:
آمین سورۃ فاتحہ کے تابع ہے۔ جب
فاتحہ آہستہ پڑھی جائے تو آمین بھی آہستہ کہی جائے اور جب فاتحہ بلند آواز سے پڑھی
جائے تو آمین بھی بلند آواز سے کہی جائے۔ امام اور مقتدی کا یہی حکم ہے ،البتہ
اکیلے نماز پڑھنے والا آمین آہستہ کہے گا۔ لہذا ظہر اور عصر میں آمین آہستہ
کہی جائے اور فجر، مغرب اور عشا ء میں بلند آواز سے۔ آہستہ آمین کہنے کی
کوئی صحیح صریح حدیث نہیں ۔
(صلاۃ الرسول از صادق
سیالکوٹی ص164،158 ، نبی کریم ﷺکی نماز ازابو حمزہ ص183، صلاۃ المصطفی
از محمد علی جانبازص169 وغیرہ)
فائدہ: بعض غیر مقلدین
نےاپنی کتب میں بلند آواز سے آمین کہنے کا اثبات کرتے ہوئے باقاعدہ
عنوان قائم کیے ہیں کہ ”یہودی آمین سے چڑتے ہیں۔“ (صلاۃ المصطفی از محمد علی
جانبازص169)
دلائل اہل السنۃ والجماعۃ:
قرآن کریم
دلیل : آمین دعا ہے اور اللہ
تعالی کا نام بھی، ہر دو صورت میں آہستہ کہنا چاہیے۔
آمین دعا ہے:
(1):قال عزوجل :
قَالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ
الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ)یونس:89)
تفسیر:اخرج ابو الشیخ عن
ابی ہریرۃ قال کان موسیٰ علیہ السلام اذا دعا امن ھارون علیہ السلام علیٰ دعائہ
یقول اٰمین۔
(تفسیر
الدرالمنثور للسیوطی ج3 ص 567)
(2):قال عطا٫ آمین دعا
(صحیح البخاری ج1ص 107 باب جہر الامام بالتامین)
دعا میں اصل یہ ہے کہ آہستہ کی جائے:
قال عزوجل : اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا
وَخُفْيَةً٫(الاعراف:۵۵)
آمین اللہ تعالی کا نام ہے :
عن ابی ہریرۃ
ومجاہد وحکیم ابن جعفر وھلال بن یساف قالوا اٰمین اسم من
اسما٫ اللہ تعالیٰ ٫
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص
316 رقم:18،17،16،15 ماذکروا فی آمین و من کان یقولھا،مصنف عبدالرزاق ج2ص
64رقم:2653،2652،باب آمین)
اللہ کا نام آہستہ لیا جائے :
قال عزوجل :وَاذْكُرْ
رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ
٫(الاعراف:205)
جو بات ہم نے بیان کی ہے یہی بات امام فخر الدین
الرازی الشافعی رحمہ اللہ م 606ھ نے فرمائی ہے:
قال الامام المفسر
فخرالدین الرازی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ: قال ابوحنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ اخفا٫
التأمین افضل ،وقال الشافعی رحمۃ اللہ علیہ اعلانہ افضل ،واحتج ابوحنیفۃ رحمۃ اللہ
علیہ علیٰ صحۃ قولہ قال فی قولہ اٰمین وجہان ؛احدھما: انہ دعا٫ ،والثانی: انہ من
اسما٫ اللہ تعالیٰ ،فان کان دعا٫ وجب اخفا٫ ہ لقولہ تعالیٰ اُدْعُوا رَبَّكُمْ
تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً الخ وان کان اسما من اسما٫ اللہ تعالیٰ وجب اخفا٫ہ لقولہ
تعالیٰ وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً الایۃفان لم یثبت
الوجوب فلا اقل من النَدبیۃ ونحن نقول بھذا القول
۔
(التفسیر الکبیر للرازی:ج14ص131 تحت قولہ:اُدْعُوا رَبَّكُمْ)
احادیث مبارکہ
احادیث مرفوعہ:
دلیل1:
قدروی الامام الحافظ
المحد ث ابوداؤد الطیالسیؒ م204 ھ قال : حدثنا شعبة ، قال : أخبرني سلمة بن
كهيل ، قال : سمعت حجرا أبا العنبس ، قال : سمعت علقمة بن وائل ، يحدث عن وائل ،
وقد سمعته من وائل ، أنه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم فلما قرأ (غَيْرِ
الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) قال : « آمين » خَفَضَ بها صوته۔
اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات۔
) مسند ابوداؤد الطیالسی
ج1ص577 رقم: 1117،مسند احمد ج14 ص285 رقم: 18756 (
وقال الحاکم: ھذا حدیث
صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔
قال الذهبي في التلخيص:
على شرط البخاري ومسلم (مستدرک علی الصحیحین ج2ص608رقم:2968باب
قرا٫ ۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم)
اعتراض:
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ ،امام ابوذرعہ
رازی ، امام دار قطنی ،امام بیہقی وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ کیونکہ
امام شعبہ اس حدیث میں غلطی کا شکار ہوئے ہیں کہ اس میں راوی حجر ابو السکن
ہے لیکن امام شعبہ رحمہ اللہ نے حجر ابو العنبس بیان کیا ہے۔ھکذا قال
الترمذی فی جامعہ(ج1 ص168باب ماجاء فی التامین)
جواب نمبر1:
امام شعبہؒ صحیحن اور سنن اربعہ کے ثقہ ،حافظ،متقن
،امیرالمؤمنین فی الحدیث اورثقہ بالاجماع راوی ہیں۔
(التقریب لابن حجر
ص301 رقم الترجمہ 2790 وغیرہ)
اور ثقہ راوی کی زیادتی فی السند والمتن
عندالجمہور فقہاء ومحدثین مقبول ہے۔
والزیادۃ مقبولۃ،(صحیح البخاری ج1ص201 باب العشر
فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری)
أن الزيادة من الثقة مقبولة(مستدرک علی الصحیحین
ج1ص307 کتاب العلم)
لہذا امام شعبہ رحمہ اللہ کا حجر ابو العنبس کہنا زیادتی
ثقہ ہونے کی وجہ سے مقبول ہے،غلطی نہیں ہے۔
جواب نمبر2:
امام حجر ابو العنبس الکوفی رحمہ اللہ کی دو
کنیتیں ہیں۔۱ :ابو العنبس ۲:ابوالسکن
(۱)قال الامام ابن ابی حاتم رازی ؒ م327 ھ:
حجر بن عنبس ابو السکن ویقال ابو العنبس شیخ کوفی مشہور ۔
(الجرح والتعدیل للرازی
ج3 ص 278رقم الترجمہ3483)
(۲)قال الامام ابن حبان م354ھ :حجر بن
العنبس ابوالسکن الکوفی وھوالذی یقال لہ حجر ابو العنبس یروی عن علی ووائل بن حجر
روی عنہ سلمۃ بن کہیل
(کتاب الثقات لابن حبان ج4ص177)
(۳)قال الامام ابن حجر العسقلانیؒ م852ھ :
حجر بن العنبس الحضرمی ابو العنبس ویقال ابو السکن الکوفی،
وقال ایضا:
قلت[ابن حجر]: وبھذا جزم ابن حبان فی الثقات ان کنیتہ کاسم ابیہ ولکن قال البخاری
ان کنیتہ ابوالسکن ،ولا مانع ان یکون لہ کنیتان
(تہذیب التہذیب ج1ص451،التلخیص الحبیر ج1 ص237)
لہذا امام شعبہ ؒپر وہم کا اعتراض باطل ہے۔
جواب نمبر3:
امام شعبہ ؒ حجر ابو العنبس کہنے میں
منفرد نہیں بلکہ امام سفیان ثوری بھی ان کی متابعت تامہ کررہے ہیں۔امام سفیان
الثوری بھی سلمۃ بن کھیل سے روایت کرتے ہوئے حجر ابو العنبس کہتے ہیں۔ امام
ابو داود رحمہ اللہ سند بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ حُجْرٍ أَبِى الْعَنْبَسِ
الْحَضْرَمِىِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ٫۔(ابوداؤد ج1ص142،141باب التامین )
امام بخاری ؒ نے امام داؤد والی سند سے اس حدیث کو
تخریج کیا ہے جو ایک طریق سے سفیان ثوری سے روایت ہے۔لیکن یہاں پر انہوں نے
تدلیساً ابوالعنبس کو گرادیاہے۔چنانچہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ كَثِيرٍ و قبیصۃ قالاحدثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ حُجْرٍ عَنْ
وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الخ
(جزء القراۃ للبخاری
مترجم از مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ص171رقم الحدیث235)
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔
دلیل2:
وقد روی الامام الحافظ
المحدث ابوداؤد السجستانی ؒم ۲۷۵ھ قال حدثنا مسدد قال
حدثنا یزید قال حدثنا سعید قال حدثنا قتادہ عن الحسن ان سمرۃ بن جندب ؓ وعمران بن
حصین ؓ تذاکرا فحد ث سمرۃ بن جند ب انہ حفظ عن رسول اللہ ﷺسکتتین سکتۃ اذا کبر
وسکتۃ اذا فرغ من قرأۃ غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین
اسنادہ صحیح علی شرط
الشیخین٫
(السنن لابی داؤد
ج1ص120باب السکتۃ عند الافتتاح،جامع الترمذی ج1 ص59 باب ماجا٫ فی السکتتین،سنن ابن
ماجہ ص61 باب ماجا٫ فی سکتتی الامام)
احادیث موقوفہ ومقطوعہ:
دلیل نمبر۱:
قد روی الامام الحافظ
المحدث الفقیہ ابوجعفر الطحاوی المصریؒ م321ھ: قال حدثنا سلیمان شعیب الکیسانی قال
حدثنا علی بن معبد قال حدثنا ابوبکر بن عیاش عن ابی سعد عن ابی وائل قال کان عمر
وعلی لایجہران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولابالتعوذ ولابالتأمین ،
اسنادہ حسن ورواتہ ثقات
(سنن الطحاوی ج2 ص150
باب قراۃ بسم اللہ فی الصلاۃ ،تہذیب الآثار لابن جریر بحوالہ الجوہر النقی علی
البیہقی ج2 ص58باب الجھر الامام بالتامین)
دلیل نمبر2:
عن ابی وائل (شقیق بن
سلمۃ)قال کان علیؓ وعبداللہ بن مسعود ؓ لایجہران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولا
بالتعوذ ولا بالتامین ،
اسنادہ حسن ورواتہ ثقات
(المعجم الکبیر
ج4ص567،566رقم9201، ،الجوہر النقی علی البیہقی ج2ص57باب جہر الامام
باالتامین،المحلی بالآثار ج2ص280مسئلہ نمبر363
دلیل3:
قد روی الامام الحافظ
المحدث الکبیر محمد بن حسن الشیبابی ؒ قال اخبرنا ابوحنیفہ عن حماد عن ابراہیم
النخعیؒ قال اربع یخافت بھن الامام سبحانک اللھم ،وتعوذمن الشیطان ،وبسم اللہ
واٰمین،
اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات
(کتاب الآثار بروایۃ
محمد ج1ص162 رقم83باب الجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم ،کتاب الآثار بروایہ ابی یوسف
ص22،21 رقم106باب افتتاح الصلوٰۃ ،مصنف عبدالرزاق ج2 ص 57رقم2599 باب ما یخفی
الامام(
اکثر صحابہ کا عمل:
قد قال الامام الحافظ
المحدث علاء الدین بن علی بن عثمان ابن ترکمانی م745ھ : والصواب ان الخبر بالجهر
بها والمخافة صحيحان وعمل بكل من فعليه جماعة من العلماء وان كنت مختارا خفض الصوت
بها إذ كان اكثر الصحابة والتابعين على ذلك۔
( الجوہر النقی علی
البیہقی ج2ص58 باب جہر الامام باالتامین)
ائمہ مجتہدین:
یہ حضرات مجتہدین رحمہم اللہ آمین بالسر کے قائل تھے۔
1: امام اعظم ابوحنیفہؒ 150ھ:
اربع یخافت بھن الامام
سبحانک اللھم ،وتعوذمن الشیطان ،وبسم اللہ واٰمین قال محمد: و بہ ناخذ و ھو قول
ابی حنیفہ رحمہ اللہ
)کتاب الآثار بروایۃ
محمد ج1ص162 رقم83باب الجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم (
2: امام سفیان الثوری م161ھ
:
قال الامام سفیان
الثوری رحمہ اللہ:ثم یقول اٰمین سرا سوا ء کان اماما اوماموما او منفرداً
(فقہ سفیان الثوری ص۵۶۱ باب افعال الصلوۃ)
3: امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ
م189ھ :
اربع یخافت بھن الامام
سبحانک اللھم ،وتعوذمن الشیطان ،وبسم اللہ واٰمین قال محمد: و بہ ناخذ
)کتاب الآثار بروایۃ
محمد ج1ص162 رقم83باب الجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم (
4: امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ
م204ھ :
قال الشافعیؒ فی الجدید
ان المنفرد والامام والمأموم کل منھم یسر باٰمین جہریۃ کانت الصلوۃ اوسریۃ
(السعایۃ بحوالہ اوجز
المسالک ج1 ص250 باب ماجاء فی التامین خلف الامام)
دلائل غیر مقلدین اور ان کا جواب:
دلیل1:
حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ حُجْرٍ أَبِي
الْعَنْبَسِ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَوَلَا الضَّالِّينَ قَالَ آمِينَ
وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ٫ ( ابودؤد ج1ص142،141باب التامین)
جواب 1:
اس حدیث کی سند میں ایک راوی سفیان ثوری ہے جو کہ
بقول زبیر علی زئی غضب کا مدلس ہے اور مدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے لئے مانع ہے۔اور
مدلس کا حکم یہ ہے کہ اس کی روایت بغیر تصریح سماع کے قابل عمل نہیں )نور العینین
ص۱۳۸،۱۳۹،۱۴۸(
لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب 2:
اس روایت کےراوی امام سفیان ثوری ہیں اور آپ
اخفاءِ اٰمین کے قائل تھے۔(فقہ سفیان ثوری ص۵۶۱)
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
عمل الراوی بخلاف روایتہ
بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا۔(المنار مع شرحہ ص190)
کہ راوی کا اپنی روایت کے خلاف عمل کرنا اس روایت
سے عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔ لہذا یہ روایت منسوخ ہے۔
جواب3:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل برائے
تعلیم تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دائمی عادت نہ تھی، جیسا کہ اس روایت سے
واضح ہوتا ہے:
وقد روی الامام الحافظ
المحدث ابو بشر الدولابی الحنفیؒ م310ھ: قال حدثنا الحسن بن علی بن عفان قال حدثنا
الحسن بن عطیۃ قال أنبأنا یحییٰ بن سلمۃ بن کہیل عن ابیہ عن ابی السکن حجر بن عنبس
الثقفی قال سمعت وائل بن حجر الحضرمی یقول رأیت رسول اللہ ﷺ حین فرغ من الصلوۃ حتی
رأیت خد ہ من ھذا لجانب ومن ھذاالجانب وقرأ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین فقال
اٰمین یمد بھا صوتہ،ما اراہ الا یعلمنا
اسنادہ حسن ورواتہ ثقاۃ
(الکنیٰ والاسماء
للدولابی ج1ص442،441رقم:1558)
جواب 3 پراعتراض:
اس کی سند میں یحییٰ بن سلمۃ بن کہیل ضعیف
راوی ہے ۔
جواب:
امام یحییٰ بن سلمۃ بن کہیل الکوفی ؒ م۱۷۲او۱۷۹ھ ترمذی اور صحیح ابن خزیمہ کا مختلف فیہ
راوی ہے اور بعض ائمہ نے ان کی توثیق وتعدیل بھی کی ہے۔
1، 2:
امام العجلی اور
امام ابن حبان رحمہما اللہ نے انھیں ثقات میں شمار کیا ہے۔
( تاریخ الثقات للعجلی
ص472قم الترجمہ 1808، کتاب الثقات لابن حبان ص655 رقم الترجمہ11630)
3:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” صحیح ابن
خزیمہ“ میں ان کے طریق سے مروی روایت سے وضع اليدين قبل الركبتينکے نسخ پر
احتجاج کیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ ج1 ص319 رقم628 باب ذكر الدليل على أن
الأمر بوضع اليدين قبل الركبتين عند السجود منسوخ)
معلوم ہوا کہ یہ راوی امام ابن خزیمہ
رحمہ اللہ کے ہاں بھی ثقہ ہے۔
دلیل 2:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ عَنْ شُعَيْبٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ
حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ
قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَرَأَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ{ غَيْرِ
الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَقَالَ آمِينَ فَقَالَ
النَّاسُ آمِينَ
) نسائی ج۱ ص۱۴۴ قِرَاءَةُ بِسْمِ
اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (
جواب 1:
اس کی سند میں محمد بن عبد اللہ بن
عبد الحکم ہے، امام ربعی بن سلیما ن الشافعی نے اسے” کذاب“ کہا ہے ۔(تہذیب
لابن حجر :ج:5:ص:169و170)
جواب 2:
اس روایت میں جہر کے الفا ظ نہیں اور ”قال“ ،”قیل“
اور ”قول“ وغیرہ سے جہر ثا بت نہیں ہوتا۔اگر ان الفا ظ سے جہر ثا بت ہو تا
تو کیا۔۔۔
قَالَ[رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ]:إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ
فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ
فَارْفَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا
لَكَ الْحَمْدُ
)صحیح البخاری
:ج:1:ص:101بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ(
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ
كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلَاةٍ مِنْ الْمَكْتُوبَةِ وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ
وَغَيْرِهِ فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ
يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ يَقُولُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ
(صحیح البخاری
:ج:1:ص:110 بَاب يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ)
ان روایات سےجہر ثا بت ہوتا ہے، کیا غیر مقلدین
’’ربنا لک الحمد ‘‘ میں جہر کرتے ہیں؟ لہذا یہ روایت مقتدی کے آمین با لجہر
پر حجت نہیں ۔
دلیل 3:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
قَالَ تَرَكَ النَّاسُ التَّأْمِينَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ{ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا
الضَّالِّينَ }قَالَ آمِينَ حَتَّى يَسْمَعَهَا أَهْلُ الصَّفِّ الْأَوَّلِ
فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ ‘‘۔(سنن ابن ماجہ :ج:1:ص: 16 باب الجہر بآمین )
جواب 1:
اس کی سند میں ایک راوی بشیر بن را فع ہے ،اسے ائمہ
حد یث ضعیف ومجرو ح قرار دیا ہے۔مثلاً:
یحدث بالمنا کیر ، لیس
بشئی ،ضعیف فی الحد یث ،لا یتا بع فی حد یثہ ،یضعف فی الحد یث ،منکر الحد
یث، لا نریٰ لہ حدیثا ً قائماً، اتفقوا علیٰ انکا ر حد یثہ، طرح ما رواہ ،
ترک الاحتجاج بہ ، لا یختلف علماء الحد یث فی ذلک۔۔۔
اور بتصریح ابن حبان ان سے موضو ع حدیث بھی آ ئی
ہے ۔(تہذیب لابن حجر :ج:1:ص:283رقم الترجمہ 823)
لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے ۔
جواب 2:
اس روا یت میں”تر ک الناس التا مین“ کے جملے موجو
د ہیں کہ صحابہ و تابعین بلند آواز سے آمین کہنا چھوڑ چکے تھے، اس میں جو آ مین
جہرا ً کا ذکر ہے وہ بطور تعلیم کے ہے۔
جواب 3:
مسجد نبوی کی چھت چھڑیو ں کی تھی اور
ایسی مسجد میں آواز گو نجا نہیں کرتی ۔ تو یہ الفاظ بھی اس کے ضعف پر دلالت کرتے
ہیں۔
دلیل 4:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَهُوَ ابْنُ الْعَلاَءِ
الزُّبَيْدِيُّ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ
سَالِمٍ ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي
سَلَمَةَ ، وَسَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ رَفَعَ
صَوْتَهُ ، قَالَ : آمِينَ. ‘‘۔(صحیح ابن خزیمہ :ج:1:ص:287 باب الجهر بآمين
عند انقضاء فاتحة الكتاب)
جواب۱ :
اس روایت میں ایک راوی اسحا ق بن ابرا ہیم الزبیدی
ہے ۔ ائمہ نے اس پر جرح کی ہے۔ مثلاً:
لیس بثقہ ، یکذب ، لیس
بشئی ، کذبہ محد ث حمص محمد بن عوف الطا ئی ۔
(تہذیب لابن حجر
:ج:1:ص:139رقم التر جمہ 406،المیزان لذہبی :ج:1:ص:205رقم الترجمہ 877 المغنی فی
الضعفأ لذھبی :ج؛ 1 ص:106 رقم الترجمہ540)
لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔
جواب 2:
صحیح ابن خزیمہ کے حاشیہ پر مشہورغیر
مقلد ناصر الدین البانی کے حوالہ سے لکھا ہے :اسنادہ ضعیف ۔
(صحیح ابن خزیمہ
:ج:1:ص:287 باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحۃ الكتاب)
جواب 3:
اس روایت کی سند میں دوسرا راوی امام
زھری ہے جو کہ بقول زبیر علی زئی کے مدلس ہے۔( نور
العینین : ص ؛118، الحدیث شمارہ نمبر 32 ،ص: 23)
اور مدلس بھی طبقہ ثالثہ کاہے ۔ ( طبقات
المدلس لابن حجر :ص: 109)
اور زبیر علی زئی نے تصریح کی ہے کہ مدلس کا عنعنہ
صحت حدیث کے منافی ہوتا ہے۔ (نور العنین :ص:168)
لہذا یہ روایت ضعیف ہے و قابل حجت نہیں ۔
دلیل نمبر 5:
أخبرنا أبو طاهر نا أبو
بكر نا محمد بن يحيى نا أبو سعيد الجعفي حدثني ابن وهب أخبرني أسامة – وهو ابن زيد
– عن نافع عن ابن عمر كان : إذا كان مع الإمام يقرأ بأم القرآن فأمن الناس أمن ابن
عمر ورأى تلك السنة
)صحیح ابن خزیمہ :ج:1
:ص:287 رقم الحدیث 572 )
جواب 1:
اس روایت کی سند میں راوی ابو سعید
یحیی بن سلیمان الجعفی ہے .اس پر ائمہ نے جر ح کی ہے ۔
قال النسائی: لیس بثقۃ ،و
قال ابن حبان: ربما اغرب ، و قال ابن حجر :صدوق یخطی ولہ احادیث
مناکیر
(تہذیب لابن حجر
:ج:6:ص:144 ،145 رقم الترجمہ 8734 ، تقریب لابن حجر :ص:660 رقم التر جمہ 7843 ،
المغنی فی الضعفأ :ج:2 ص:518 : رقم الترجمہ 6984)
اور دوسرا راوی اسامہ بن زید اللیثی ہے۔ یہ
بھی مجروح ہے۔
قال الامام احمد بن حنبل:
لیس بشی ،احادیثہ مناکیر ، وقال یحیی بن معین : ضعیف ،وقال ابو حاتم:
لا یحتج بہ، وقال النسائی: لیس بقوی ، وقال ابن حبان :یخطی
ٔ ،وترکہ ابن القطان ۔( تھذیب لابن حجر :1: ص:135 رقم الترجمہ 392 )
لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔
جواب2:
مشہور غیر مقلدناصر الدین البانی نے حاشیہ
ابن خزیمہ پر تصریح کی ہے:
قال الألباني : إسناده
ضعيف أبو سعيد الجعفي اسمه يحيى بن سليمان صدوق يخطئ وأسامة بن زيد إن كان العدوي
فضعيف وإن كان الليثي فهو صدوق يهم وكلاهما يروي عن نافع وعنهما ابن وهب (حاشیہ
ابن خزیمہ :ج:2 :ص:287 )
خلاصہ یہ کہ روایت ضعیف ہے ۔
جواب 3:
یہ روایت موقوف بھی ہے اور موقوفات صحابہ
غیر مقلدین کے نزدیک حجت نہیں ۔
1:و قول صحابی حجت نباشد(عرف الجادی :ص38،
فتاوی نذیریہ:ج:1 :ص:340 ،622)
2: و فعل الصحابی لا یصلح للحجۃ(التاج
المکللل از نواب صدیق حسن خان :ص:207)
3: افعال الصحابۃ رضی
اللہ عنہم لا تنتہض للاحتجاج بھا۔ (فتاوی نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی: ص 58)
4: صحابہ کا قول حجت نہیں۔ (عرف الجادی: ص
101)
5: صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ
صحیح طور پر ثابت ہوں۔ (بدور الاہلہ: ج 1 ص 28)
6:آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں
ہوتی۔ (عرف الجادی: ص 80)
7: خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں میں
سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غلام نہیں بنایاہے۔ (عرف الجادی: ص 80)
8: موقوفات صحابہ حجت نہیں۔ (بدورا لاہلہ:
ص 129)
دلیل نمبر 6:
حدثنا العباس بن
الوليد الخلال الدمشقي . حدثنا مروان بن محمد وأبو مهر قالا حدثنا خالد بن يزيد بن
صبيح المرمي حدثنا طلحة بن عمرو عن عطاء عن ابن عباس قال : – قال رسول
الله صلى الله عليه و سلم ( ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدتكم على آمين .
فأكثروا من قول آمين )(سنن ابن ماجہ :ص:61 باب الجهر بآمين )
جواب 1:
اس حدیث کی سند میں ایک راوی طلحہ بن
عمرو المکی جو عندالجمہور سخت ضعیف ہے ائمہ نے اسے: لا شی ، مترک الحدیث،
لیس بشی، ضعیف ، لیس بالقوی عند ھم، لیس بالحافظ، وعامۃ ما
یرویہ لا یتابعہ علیہ، وکان ممن روی عن الثقات ما لیس من
حدیثھم لا یحل کتب حدیثھم من روایتہ عنہ الا علی جہتہ التعجب
:
(تہذیب لابن
حجر:ج1ص18،19،میزان الاعتدال لذھبی:ج2 ص261 ، 262،المغنی فی الضعفأ
لذھبی :ج1ص502)
لہذایہ روایت ضعیف ومردود ہے۔
جواب2:
سیدہ عا ئشہ صدیقہ ؓ سے مرفوعاًصحیح
سند کے ساتھ یو ں الفا ظ بھی آئے ہیں:
ان الیہود قَوْم حَسَدٍ
وہم لا یحسدو ن علیٰ شئی کما یحسدو ن علی السلام وعلیٰ آ مین
(صحیح ابن خزیمہ
:ج:1:ص:288رقم الحد یث:574 باب الجهر بآمين عند انقضاء فاتحۃ الكتاب في الصلاة)
اور ایک روایت میں ’’ اللہم ربنا لک الحمد ‘‘ پر
حسد کے جملے بھی آئے ہیں ، مثلاً:
عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ
عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: لَمْ
يَحْسُدُونَا الْيَهُودُ بِشَىْءٍ مَا حَسَدُونَا بِثَلاَثٍ : التَّسْلِيمِ ،
وَالتَّأْمِينِ ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ .
(السنن الکبریٰ للبیہقی
:ج:2:ص:56 باب التَّأْمِينِ.)
تو کیا غیر مقلدین مخا لفت یہود میں نماز میں
سب مل کر”ربنا لک الحمد“اور ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ“جہرا ً کہتے ہیں ؟
دلیل7:
أَمَّنَ ابْنُ
الزُّبَيْرِ وَمَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً(صحیح البخا ری
:ج1ص107بَاب جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ)
جواب 1:
امام بخا ری نے اس کی سند بیا ن نہیں
کی بلکہ تر جمۃ الباب میں لا ئے ہیں اور بقول زبیر علی زئی کے بے سند بات قابل حجت
نہیں ۔
(الحدیث شمارہ 59:ص:33)
جواب 2:
یہ روایت عن ابن جریج عن عطا ء کے طریق سےمصنف عبد
الرزاق(ج2،ص،63رقم الحدیث 2642 ،باب آمین )میں بھی موجود ہے ۔
اس کی سند کا پہلا راوی عبد الرزا ق طبقہ ثا
لثہ کا مدلس ہے۔
(طبقات المدلسین
لابن حجر :ص69، الفتح المبین از زبیر علی زئی :ص45 ،جزء منظوم لبدیع الدین راشدی
:ص89، الحدیث شمارہ 32:ص13)
اور غیر مقلدین کے نزدیک طبقہ
ثا لثہ کے مدلس کی حد یث بغیر تصریح سماع کے قابل حجت نہیں ۔لہذا یہ حد یث ضعیف ،
اورنا قابل حجت ہے ۔
اس سند میں دوسرا راوی ابن جر یج طبقہ ثا لثہ کا
مدلس ہے ۔ (طبقات المدلسین لابن حجر
:ص:95، الفتح المبین از زبیر علی زئی :ص:55)
اور خود علی زئی نے ایک مقام پر تصریح کی ہے
:ابن جریج مشہور مدلس ہےاور آ گے لکھا ہے : ابن جر یج کی یہ روایت ’’عن ‘‘سے ہے او
ر عا م طا لب علمو ں کو بھی معلوم ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت
ضعیف ہو تی ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔ (الحدیث شمارہ 32:ص:15)
جواب 3:
سیدناحضرت ابن زبیر اور دیگر لو گ سب امتی
ہیں اور غیر مقلدین ان کے افعا ل واقوال حجت نہیں ۔ (حوالہ جات گزر چکے)
جواب4:
اس اثر میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ کے
بعد والی آمین ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آمین قنوت نازلہ فی الفجر والی ہو۔
چنانچہ خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:
و لعلہ حین کان
یقنت فی الفجر علی عبد الملک وکان ہو یقنت علی ابن زبیر و فی مثل ھذ ہ
الایام تجری المبالغات
(فیض الباری ج2ص290 باب
جہر الامام بالتامین)
جواب 5:
صحیح بخاری کے اس اثر میں أَمَّنَ ابْنُ
الزُّبَيْرِ (فعل ماضی) کا ذکر ہے ، اس سے دوام اور تکرار ثابت نہیں ہوتا۔
جواب6:
حضرت ابن زبیر صغار صحابہ میں سے ہیں۔ ہجرت کے بعد
اول مولود فی المدینۃ کہلائے۔ آپ نے آمین بالجہر کا عمل کیا جبکہ کبار صحابہ
مثلاً حضرت عمر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت علی کے ہاں اس طرح کی
آمین کا ثبوت نہیں ملتا۔اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان تمام حضرات کے خلاف
یہ عمل اختیار کرنے میں ضرور کوئی مصلحت ہے اور وہ تعلیم ہی ہو سکتی ہے۔
مثلاً حضرت عبد اللہ بن زبیر ہی سے بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً
پڑھنے کا اثر منقول ہے۔ علامہ زیلعی نے اس کی مصلحت یہ بیان فرمائی ہے:
قَالَ ابْنُ عَبْدِ
الْهَادِي: إسْنَادُهُ صَحِيحٌ، لَكِنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْإِعْلَامِ بِأَنَّ
قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ، فَإِنَّ الْخُلَفَاءَ الرَّاشِدِينَ كَانُوا يُسِرُّونَ
بِهَا، فَظَنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ أَنَّ قِرَاءَتَهَا بِدْعَةٌ، فَجَهَرَ
بِهَا مَنْ جَهَرَ مِنْ الصَّحَابَةِ لِيُعْلِمُوا النَّاسَ أَنَّ قِرَاءَتَهَا
سُنَّةٌ، لَا أَنَّهُ فِعْلُهُ دَائِمًا
( نصب الرایۃ ج 1ص357
باب صفۃ الصلاۃ)
یہی بات ہم آمین بالسر میں کہتے ہیں کہ عبد اللہ
بن زبیر نے آمین جہراً کہ کر لوگوں کو تعلیم دی کہ اس مقام پر آمین کہنا سنت
ہے۔
دلیل نمبر8:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَمَّنَ
الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ
الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ
وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ آمِينَ۔ (صحیح
البخا ری: بَاب جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ)
غیر مقلد کہتے ہیں کہ مقتدی کو پابند کیا گیا ہے
کہ جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو۔ ظاہر ہے مقتدی کو آمین کا پتا اس وقت چلے گا
جب امام زور سے آمین کہے۔
جواب1:
یہ بات طے شدہ ہے کہ غَيْرِ
الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پر آمین کہنا ہے۔ اس لیے جب مقتدی
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ سنتا ہے تو اس کو علم ہو
جاتا ہے کہ امام اب آمین کہے گا، لہذا اس سے جہر ثابت نہیں ہوتا۔ مولانا خلیل احمد
سہارنپوری فرماتے ہیں:
موضعہ معلوم فلا یستلزم
الجہربہ ۔ ( بذل المجہود ج2ص101 باب التامین وراء الامام )
جواب 2:
دیگر روایات (مثلاً:عَنْ أَبِي
هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا
قَالَ الْإِمَامُ{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}فَقُولُوا
آمِينَ۔صحیح البخاری ج1ص 108)
میں مقتدی کے آمین کہنے کو امام کے غَيْرِ
الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہنے پر معلق کیا گیا ہے جو کہ دلیل
ہے کہ آمین آہستہ کہی جائے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا فرماتے ہیں:
بل ہو یدل علی الاسرار و
الا فلا یحتاج الی التقدیر ولا الضالین۔ (حاشیۃ بذل المجہود ج2ص104 باب التامین
وراء الامام)
جواب3:
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے آمین کہتے
ہیں لیکن ان کی آمین ہمیں سنائی نہیں دیتی۔لہذا ان کی موافقت اسی صورت
میں ہے کہ جب آمین آہستہ کہی جائے۔