مسئلہ تراویح غیرمقلدین کے دلائل کا تحقیقی جائزہ
موخذ:
رکعت تراویح ایک تحقیقی جائزہ
حصہ دوم
صفحہ ۱۸۳
حصہ اول میں احادیث رسول اللہﷺ آثار صحابہؓ و تابعینؒ و تبع تابعین، اجماع صحابہؓ تو اترامت
ائمہ اربعہ دیگر علمائے کرامؒ(بشمول علمائے غیرمقلدین) کے اقوال سے یہ بات ثابت ہو
گئی ہے کہ تراویح کا مسنون عدد بیس (20)
رکعات ہے اور بیس تراویح سسے کم تروایح پڑھنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ ان دلائل پر
غیرملدین کی طرف سے وارشدہ تقریباً تمام اعتراضات کے مسکت اور ٹھوس جوابات بھی
قارئین ملاحظہ کر چکے ہیں۔ حصہ دوئم میں
ہم غیرمقلدین حضرات کے دعویٰ کہ تراویح صرف آٹھ ، رکعات ہی مسنون ہیں کا جائزہ لیں
گے اور اس دعویٰ کے اثبات میں وہ جتنے دلائل پیش کرتے ہیں ان کی حقیقت بھی تفصیل
کے ساتھ قارئین کے سامنے واضح کریں گے ان شاء اللہ لیکن اس سے پہلے رکعات تراویح
سے متعلق غیرمقلدین کے چند مختلف نظریات ملاحظہ فرما لیں۔
غیرمقلدین کے تراویح
اور رکعات تراویح سے متعلق چند مختلف نظریات
۱۔ غیرمقلدین کے سنجیدہ حضرات جیسے نواب صدیق حسن خان صاحب
، ملانا میاں غلام رسول صاحب و غیرہ حضرات جمہور اممت کی طرح بیس تراویح کے مسنون
ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ آپ حصپہ اول میں ان کے اقوال ملاحظہ کر چکے ہیں۔
۲۔ غیرمقلدینن میں جو سخت متعصب قسم کے لوق ہیں وہ صرف
گیارہ رکعات کو ہی مسنون کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ صرف گیارہ رکعات ہی رسول
اللہﷺ اور حضرت عمرؓ سے ثبات ہیں اور
گیارہ کے علاوہ کوئی اور عدد تراویح نہ
رسول اللہﷺ سے ثبات ہے نہ ہی کسی خلیفہ راشد سے منقول ہے۔ چنانچہ مولانا عبدلرحمٰن
مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں وھو الثابت عن رسول اللہﷺ بالسند الصحیح وبھامر عمر بن
الخطاب ؓ واما الاقوال الباقیه فلم بثبت واحد منها عند رسول االلہﷺ سند صحیح ولا
یثبت الامربه من احد من الخلفاء الراشدین
بسند صحیح خال من الکلام ۔(تحفہ الاحوذی جلد۲ ص۷۳)
٭ص۱۸۴٭
ترجمہ:۔ گیارہ رکعات کا مسنون ہونا ہی نبیﷺ سے صحیح سند کے
ساتھ ثابت ہے اور اسی کا ھضرت عمرؓ نے حکم
فرمایا تھا اور گیارہ رکعات کے علاوہ باقی جتنے اقوال ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح
سند کے ساتھ جس میں کلام نہ ہو نہ رسول اللہﷺ سے ثبات ہے اور نہ خلفائے راشدین میں
سے ککسی ایک خلیفہ سے ثابت ہے۔
۳۔ غیرمقلدین میں بعض ایسے حضرات بھی ہیں جو گیارہ رکعات سے
زائد تراویح پڑھنے کو بدعت تک کہہ دیتے
ہیں العیاذ با اللہ ۔ چنانچہ مولوی محمد عثمان دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ مقلدین
کی ایک بڑی جماعت نے بیس رکعت مقرر کرکے
بدعت شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے۔(رفع
الاختلاف ص۵۴ بحوالہ تحقیق مسئلہ تراویح ص۸)
مولوی یونس قریشی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ البتہ بیس یا تیئس کی
تعداد معین اور خاص کرنا درست نہیں ککیونکہ اس عمل کے بدعت ہو جانے کا خوف ہے۔(دستور المتقی ص۱۴۲)
۴۔بعض حضرات غیرمقلدین جو سنت تو صرف آٹھ رکعات تراویح کہتے ہیں البتہ آٹھ سے
زائد کو وہ بدعت نہیں کہتے بلکہ مستحب کہتے ہیں۔ چنانچہ مشہور غیرمقلد مصنف مولانا
صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت پاک تو آٹھ رکعات تراویح ہی ہے
اور اس سے زائد پڑنا سنت نہیں بلکہ نافلہ عبادت ہے۔ (صلوۃ الرسول ص۳۸۵)
مولانا نذیر احمد رحمانی
صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: اہل حدیث بھی یہی کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے فعل سے
جو تعداد بسند صحیح ثابت ہے وہ سنت اور بہتر ہے۔ باقی نفلی نماز کی حیثیت
سے اس کی کوئی تحدیدو تعیین نہیں ہے جس سے جتنی ہو سکے پڑ ھے۔ (انور المصابیح ص۴۴)
مولانا داؤد غزنوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں امیر جماعت اہل
حدیث اعلان فرمایا کرتے تھے کہ اٹھ تراویح سنت رسول کی ہے اور باقی بارہ رکعت
مستحب ہیں۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد۶ ص۲۶۵)
۵۔ غیرمقلدین میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو نماز
تراویح کو جماعت سے ہی پڑھنے کے مخالف ہیں اور حضرت عمرؓ کے قائم کردہ اس طریقہ
جماعت کو نعوذ بااللہ بدعت عمری اور بدعت ضلالہ گر دانتے ہیں نانچہ جماعت
غیرمقلدین کے سرخیل اور ان کے مشہور محقق
علامہ امیر یمانی صاحب جماعت تراویح کے متعلق لکھتے ہیں۔ والمحافظه علیها ھوا لذی
نقول انه بدعه (سبل السلام جلد۲ ص۱۱)
تراویح کی جماعت کے ساتھ باقاعدگی سے ادائیگی کو ہم
بدعت کہتے ہیں۔ اس سے چند سطور قبل
٭ص۱۸۵٭
امیر یمانی صاحب لکھتے ہیں ان عمرؓ ھوالزی جعلھا جماعه علٰی
معین و سماھا بدمه وانا قوله نعم الدعه فلیس فی البدعه ما یمدح بل کل بدعه
ضلاله (سبل السلام جلد۲)
حضرت عمرؓ نے ہی تراویح کو ایک مقرر کردہ امام کے ساتھ
جماعت کی صورت دی اور اسس کا نام بدعت رکھا آپ کا یہ قول کہ اچھی بدعت ہے تو بدعت
کوئی بھی قابل تعریف نہیں بلکہ ہر بدعت ضلالۃ (گمراہی) ہے۔ نعوذبا للہ من ذالک
۶۔ جماعت غیرمقلدین کے بعض علماء تراویح کی جماعت کو
سنت نہیں سمجھتے لیکن یہ سابقہ جماعت کی نسبت تھوڑے نرمم ہیں
اور اس کو بدعت ضلالہ کی بجائے بدعت حسنہ کہتے ہیں چنانچہ مشہور غیرمقلد مولانا
عبدلقادر حصاروی صاحبل کھتے ہیں مسجد میں جماعت سے عشاء کے بعد ہمیشہ تراویح پڑھنا
بدعت حسہ ہے سنت موکدہ نہیں بلکہ سنت نبوی اور سنت خلفاء اربعہ بھی نہیں ہے۔
(صحیفہ اہل حدیث کراچی یکم رمضان ۱۳۹۲ھ بحوالہ
رسالہ تحقیق مسئلہ تراویح ص۴۲)
۷۔ بعض دوسرے غیرمقلدین سابقہ غیرمقلدین کے بالمقابل تروایح
کے لیئے جماعت کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری قرار دیتے ہیں ،۔چنانچہ غرممقلدین
کے فتاویٰ علماء حدیث میں تراویح کے لئے جماعت کو شرط قرار دیتے ہیں۔ (فتاویٰ
علماء حدیث جلد۶ص۲۴۳)
۸۔ قاضی شوکانی و غیرہ غیرمقلدین تراویح کو جماعت اور بلا
جماعت دونوں صورتوں میں ادا کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ (نیل الاوطار جلد۳ ص۵۳)
حضرات ! یہ ہیں غیرمقلدین کے اکابر کے تراویح اور رکعات تراویح سے متعلق تقریباً
آٹھ قسم کے مختلف نظریات ان میں سے ہر ایک نظریہ دوسرے سے بالکل جد اور مختلف ہے
ان ہم موجود ہ جماعت اہل حدیث (غیرمقلدین) کی خدمت میں بصدادب عرض کرتےہ یں کہ
قرآب و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ ان مذکورہ نظریات میں سے کون کون سانظریہ
درست اور کون کون سا غلط ہے؟ موجود ہ جماعت اہل حدیث یعنی غیرمقلدین کا اب کو ن سا
نظریہ ہے۔؟ یہ بھی بتائے جائے کہ آپ کے جن اکابر نے بدعت کو کو سنت اور مسٹحب یا سنت اور مستحب کو بدعت
کہا ہے قرآن و حدیچ کی رو سے ان کے بارے
میں آپ کا
٭ص۱۸۶٭
کیا فیصلہ ہے؟ جب تک جماعت یہ فیصلہ نہیں کر پاتی ہم ان کے جواب کے آنے تک یہی کہیں گے۔
کس کا یقین کیجئے
کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم دوست سے یئار خبر الگ الگ
آٹھ اور بیس تراویح کے دلائل میں موازنہ
حصہ اول میں بیس تراویح کے اثبات میں ٹھوس اور صریح دلائل
آپ نے ملاحظہ کرل یے ہیں اب صرف آٹھ
تراویح کے اثبات میں غیرمقلدین کے ذکر
کردہ دلائل مع جوابات ملاحہ کریں
تاکہ تصویر کے دونوں ررخ آپ پر واضح ہو جائیں اور آپ دونوں قسم کے دلائل
میں صحیح طور پر موازنہ کر کیں کیونکہ مشہور ہے کہ وبضد ھا نتبین الاشیاء
تنبیہ ضروی:۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہم حصہ دوئم میں بھی
یہی کوشش کریں گے کہ جوبات بھی کہے جاائے و ہمدلل اور باحوال ہو ۔ ان شاء اللہ العزیز یہاں بھی حصہ اول کی طرح
تمام حوالہ ججات غیرمقلدین کے مستند اور مسلمہ علماء کی تصریحات کی روشنی میں ہو
نگے ۔ و ما توفیقی الابا للہ علیہ توکلت والیہ انیب
آٹھ تراویح کے اثبات میں غیرمقلدین کے دلائل کا جائزہ
پہلی دلیل:۔
حدیث عائشہ ؓ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ
رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہﷺ گیارہ
رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے، آپﷺ چار رکعات پڑھنے ان کی خوبی اور درازی کے بارے
میں نہ پوچھو پھر آپﷺ چار رکعات پڑھن پس ان کی خوبی اور درازی کے بارے میں نہ
پوچھو پھر آپ تین رکعات (وتر) پڑھتے۔ الخ
(صحیح بخاری جلد۱ ص۲۶۹)
جبکہ صحیح مسلم میں
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ عشاء کی نماز کے فارغ ہونے کے بعد صبح تک
گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں
پر سلام پھیرتے تے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ (صحیح مسلم جلد۱ ص۲۵۴)
جواب:۔
اپنے دعویٰ میں
غیرمقلدین کی اس مرکزی دلیل کے متعد جوابات میں سے صرف دس جوابات
٭ص۱۸۷٭
ہدیہ ناظرین ہیں۔
۱۔ حضرت عائشہ ،ؓ کی بیان کردہ یہ دونوں حدیثیں (کیفیت کے
لحاظ سے ) ایک دوسرے سے معارض ہیں کیونکہ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ
ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے جب کہ بخاری کی روایت میں
ہے کہ آپ آٹھ رکعاتیں چار چار کرکے پڑھتے
تھے یعنی ہر چار رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے
تھے اور تین وتر (ایک سلام کے ساتھ) پڑھتے تھے۔ چنانچہ غیرمقلدین کے مشہور
محدث اور مصنف مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:۔
ظاہر یہی ہے کہ
پہلی چار چار رکعتیں ایک سلام سے اور پچھلی تین
رکعتیں (وتر کی) ایک سلام سے تھیں۔ (تحفہ الاحوذی جلد۱ص۳۳۱) علامہ امیر
یمانی صاحب غیرمقلد اس حدیث کے الفاظ
یصلی اربعاً کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں بحتمل انھا متصلات وھو الظاہر
ریحتمل انھا منفصلات وھو بعید ۔ (سبل السلام جلد۲ ص۱۳) احتمام ہے کہ یہ چار رکعتیں
علیحدہ علیحدہ یعن یدو سلاموں کے ساتھ ہوں لیکن
یہ (حقیقت سے ) بعید ہے۔
غیرمقلدین کے مجلد ہفت روزہ الاعتصام کے مفتی شیخ الحدیث
حافظ ثناء اللہ مدنی اس سوال کے جواب میں کہ یہ
کیا چار نوافل اکھٹے ایک سلام کے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں لکھتے ہیں :۔ صحیح بخاری وغیرہ میں تہجد کے بیان میں حضرت عائشہ ؓ
سے مروی ہے کان یصلی اربعا کہ نبیﷺ چار چار رکعات پڑھتے تھے اوور ظھر کے فرض سے
پہلے بھی بخاری میں چار چار رکعات کی تصریح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چار نوافل
اکھٹے پڑھنے کا جواز ہے۔ (الاعصام ص۵ ۱۲
تا ۱۸ فروری ۱۹۹۹ء) ۔
مولانا صادق سیالکوٹی صاحب غیرمقلد اپنی مشہور کتاب صلوۃ الرسول میں اس حدیث کے
ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: اس حدیث شریط سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی رات کی
نامز کا غالب معمول یہ تھا کہ آپ آٹھ رکعت تہجد چار چار رکعات کی نیت کو دو سلام میں پڑھتے تھے اور پھر تین وتر (صلوۃ الرسول ص۳۷۰) مولانا میاں غلام رسول صاحب
غیرمقلد نے بھی ان چار رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ قرار دیا ہے۔ (رسالہ تراویح
ص۵۸)
٭ص۱۸۸٭
یہ چار چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ تھیں۔ یعنی رسول اللہﷺ
ہر چار رکعارت کے بعد سلام پھیرتے تھے اور یہ صحیح مسلم کی روایت سے معارض ہے جس
میں تصریح ہے کہ آپﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے۔ اس ی طرح بخاری والی
روایت میں ہے کہ آپ تین وتر (ایک سلام کے
ساتھ) پڑھتے تھے جب کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ایک وتر پڑتے تھے۔ نیز یہ دونوں
روایتیں عدد کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں کیونکہ بخاری شریف کی روایت میں صرف ایک وتر (بقول غیرمقلدین)
اور دس رکاعت قیام اللیل کا ذکر ہے۔ اب یہ
دونوں روایتیں عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے معارض ہیں اور دو باہم
معارض رایتوں سے غیرمقلدین کا حجت پکڑنا باطل ہو گیا کیونکہ اذا تعارضا تسا قطا
اس تفصیل سے بعض غیرمقلدین کا یہ عذر لنگ بھی باطل ہو گیا
کہ صھیح مسلم کی روایت صحیح بخاری کی روایت کیلے مفسر ہے کیونکہ جب خود غیرمقلدین
کے مسلمات کی روشننی میں ثابت ہو گیا کہ
یہ دونوں حدیثیں عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف
اور معارض ہیں تو پھر ای کدوسرے کیلئے مفسر کیسے ہو گئیں؟
۲۔ اس حدیث سے رکعات تراویح پر استدلال ہی فضول ہے کیونکہ
حضرت عائشہ ؓ اس حدیث حدث میں جس نماز کا
تذکرہ فرما رہی ہیں وہ تہجد کی نماز ہے اس کا تراویح کی نماز سے کوئی تعلق ہی نہیں
چنانچہ روایت مسلم میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں لہذا یہ روایت تو موضوع
(رکعات تراویح) سے ہی خارج ہے اور بخاری کی روایت میں اگرچہ رمضان کا ذکر ہے لیکن
اس میں ساتھ غیررمضان کا لفظ بھی صریح ہے
جو کہ اس کے نماز تہجد ہونے پر دال ہے کیونکہ غیر رمضان میں تراویح نہیں ہوتیں
بلکہ جو نما پورا سال (رمضان و غیررمضان) میں پڑھی جاتی ہے وہ نماز تہجد کہلاتی
ہے۔ یہیی وجہ ہے کہ کئی بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کو تہجد سے متعلق قرار دیا ہے۔
مثلا علامہ الدین کرمانی شارح بخاری اس حدیث میں
فرماتے ہیں : اما ان امراد بھا صلوٰۃ الوتر والسوال والجواب واردان علیه۔
(الکوکب الدراری شرح بخاری جلد۱ ص۱۵۵)
٭ص۱۸۹٭
اس حدیث سے مراد
وتر (تہجد ) کی نماز ہے اور (حضرت عائشہؓ سے ) سولا اور (ان کا ) جواب تہجد
کے متعلق تھا۔
علامہ ابو بکر بن السربیؒ شارح ترمذی فرماتے ہیں:۔
فنا فان النبیﷺ
ادفی رممضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعه وھذه گی قیام الیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیھا
بالنبیﷺ ۔(عارضۃ الاخوذی شرح ترمذی جلد۴ص۱۹)
نبیﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں
پڑھتے تھے۔ یہ آپﷺ کی نماز قیام اللیل (تہجد) تھی۔ پس واجب ہے کہ آپ ﷺ کی اقتداء
کی جائے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ شارح بخاری اس روایت عائشہؓ کو تہجد
سے متعلق قرار دے کر گیارہ رکعات (تہجد مع
الوتر ) کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں۔ وظھر لی الحکمه ی عدم الزیاده علی احدی عشره
التہجد والو تر مختص بصلوۃ اللیل وفرائض النھاو الظھر وہی اربع، والعصر وہی اربع
والمغرب وھی ثلاث وتر النھار فتناسب ان تکون صلوۃ اللیل کصلٰوۃ النھار فی العدد
جمله و تفصیلاً۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد۳ ص۳۲۹،۳۲۸)
میرے لیے ظاہر ہوا کہ گیارہ رکعات سے زائد رکعت نہ ہونے کی
حکمت یہ ہے کہ تہجد اور وتر رات کی نماز کے ساتھ خاص ہیں اور دن کے فرائض
گیارہ ہیں ظھر کے چارفرض عصر کے چار فرض
اور مغرب کے تین فر جو دن کے وتر ہیں پس
مناسب ہوا کہ رات کی نماز بھی اجمال اور تفصیل دونوں میں دن کی نماز کے مشابہ ہو
جائے۔
قاضی عیاض مالکیؒ نے بھی حضرت عائشہؓ کی تمام روایات کو جن میں رسول اللہﷺ کی نماز کا
ذکر ہے تراویح کی بجائے صلٰوۃ اللیل (نماز تہجد) کے متعلق قرار دیا ہے۔ (شرح مسلم
للنوی جلد۱ص۲۵۳)
شیخ عبدلحق محدث دہلویؒ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں و صحیح آنست که آنجه انحضرت ﷺ گزار دو ہمه تہجد
بو دکه بازدو رکعت باشد
٭ص۱۹۰٭
صحیح یہ ہےک ہ آنحضرتﷺ جو گیارہ رکعات پڑھتے تھے وہ تہجد کی
نماز تھی۔
حضرت شاہ عبدلعزیز
صاحب محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: روایت محمول ہر بماز تہجد اسے که دررمضان و غیر
رمضان یکساں بود (فتاویٰ عزیزیہ ص۱۲۵)
حضرت عائشہؓ کی روایت تہجد پر محمول ہے کہ وہ رمضان و غیر
رمضان میں برابر تھی۔
قاضی محمد بن علی شوکانی غیرمقلد تحریر کرتے ہیں وقدورد عن
عائشه فی الاخبار عن صلوٰه باللیل روایات مختلفه ۔۔۔۔۔۔ ومنجا عند الشیخین انه
ماکان یزید ؓ فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشره
رکعه یصلی اربعا ً (نیل الاوطار جلد۳ص۳۹)
حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ
کی رات کی نماز (تہجد) کے متعلق مختلف روایات مروی ہے ان میں سے ایک بخاری
اور مسلم کی روایت بھی ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے
زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ مشہور غیرمقلد مولانا صادق سیالکوٹی صاحب کا یہ حوالہ حدیث
حضرت عائشہؓ کے تشریح میں ماقبل گزر چکا ہے کہ اس حیدث شریف سے معلوم ہواک ہ رسول
لالہﷺ کی رات کی نامز کا غالب معمول یہ تھا کہ آپﷺ آٹھ رکعات تہجد چار چار رکعات کی نیت سے دو سلام میں پڑھتے
تھے۔ (صلوۃ الرسول ص۳۷۰)
اسی طرح مولانا
ثناء اللہ صاحب غیرمقلد کا یہ حوالہ بھی
گزر چکا جس میں وہ اس حدیث کو تہجد سے
متعلق قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری
وغیرہ میں تہجد کے بیان میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کان یصلی اربعاً کہ
نبیﷺ چار چار رکعات پڑھتے تھے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۵ ،۱۲تا ۱۸ جنوری ۱۹۹۹ء)
پس جب محدثین کرام اور خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی اس حدیث کا تعلق نماز تہجد سے ہے اور مقدمہ
میں تفصیل سے یہ بحث گزر طکی ہے کہ تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں تتو
پھر غیرمقلدین کا اس تہجد ولای حدیث سے آٹھ تراویح پر استدلال کرنا خود بخود باطل
ہو گیا۔
۳۔ ہماری اس بات کی تائید کہ مذکورہ حدیث کا تعلق تراویح سے
نہیں بلکہ تہجد سے ہے اس سے بھی ہوتی ہے کہ ائمہ
حدیث نے ترایوح اور تہجد کے الگ الگ
باب باندھے ہیں اور اس حدیث کو تروایح کے باب میں ذکر
٭ص۱۹۱٭
کرنے کی بجائے تہجد کے باب میں ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً امام
مالکؒ نے اپنی موطا ص۴۳ پر
امام مسلم نے اپنی صحیح جلد۱ص۱۵۴ پر امام ترمذی نے جامع الترمذی جلد۱ص۵۸ پر
امام ابو داؤد نے سنن ابی داؤد جلد۱ص۱۹۶ پر امام نسائی نے سنن نسائی جلد۱ ص۱۵۴ پر
امام خطیب تبریزیؒ نے مشکٰوۃ المصابیح جلد۱ص۱۰۶ پر حافظ ابن القیمؒ نے زاد المعاد
جلد۱ ص۸۶ پر امام محمد بن نصر المروزی نے قیام اللیل ص۹۱ پر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بلوغ المرام
جلد۲ ص۱۳ مع سبل السلام میں اور دیگر
محدثین نے بھی اپنی اپنی کتب حدیث مین اس حدیث کو تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے اور
تراویح کے باب الگ قائم کیا ہے اور اس میں اس حدیچ کا ذکر کرنا تو کجا اس کی طرف
ادنٰی اشارہ بھی نہیں کیا۔ اسی طرح محمد صادق صاحب سیالکوٹی غیرمقلد نے اپنی کتاب
الصلٰوۃ الرسول ص۴۰۶ میں اس حدیث کو تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے معلوم ہوا کہ اس
حدیث کا تعلق تراویح کی بجائے تہجد سے ہے۔
غیرمقلدین حضرات اس حدیث
کو تراویح سے متعلق قرار ددینے کیلئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ امام بخاری ؒ
امام محمدؒ امام بیہقیؒ اور علامہ نیمویؒ نے اس حدیث پر تراویح کے ابواب باندھے
ہیں لہذا ان ائمہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے۔ نور المصابیح ص۱۳ وغیرہ
لیکن غیرملقدین کا یہ اشکال محض خایل اور وہم ہے۔
اولاً ۔ امام بخاری نے بخاری شریف میں اس حدیث کو کئی ابواب
میں ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً باب قیام النبیﷺ فی رمضان وغیرہ میں بھی اس کو ذکر کیا
ہے اب رمضان وغیرہ کے الفاظ صراحتاً اس پر دال ہیں کہ امام بخاری کی مراد یہاں
تہجد کی نماز کا بیان کرنا ہے کیونکہ غیررمضان میں تمام ترایوح نہیں پڑھی جاتی۔
اسی طرح امما بخاری نے اس حدیث کو باب فضل من قام رمضان کے تحر بھی ذکر فرمایا ہے۔
اس باب سے امام بخاری کا مقصدر صرف قیام رمضان کی فضیلت بیان کرنا ہے اس کی تعداد
اور رکعات بیان کرنا ان کا مقصود نہیں ہے جیسا کہ غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کیونکہ
اگر امام بخاری کا مقصد قیام رمضان کی تعداد بیان کرنا ہوتا تو وہ باب کا عنوان فضل من قام رمضان کی بجائے عدد قیام رمضان قائم کرتے ۔
اذلیس فلیس۔
نیز یہ کہنا بھی غلط ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر
تراویح کا باب باندھا ہے کیونکہ انہوں نے یہاں باب کا عنوان قیام رمضان (قام رمضان) قائم کیا اور غیرمقلدین کے مستند فتاویٰ فتاویٰ علمائے
حدیث میں ہے کہ قیام رمضان نماز تراویح سے اعم ہے نیز علامہ کرمانیؒ کا رد کرتے
ہوئے کہا ہے کہ قیام رمضان سے بالاتفاق نماز تراویح مراد ہے یہ انہوں نے انوکھی
بات کہی ہے۔ فتاویٰ علمائے حدیث جلد۶ ص۲۴۳ بحوالہ تحقیق التراویح ص۶۔
پس جب غیرمقلدین کے نزدیک قیام رمضان کا لفظ عام ہے جو
تراویح اور تہجد دونوں کو شامل ہے تو پھر
٭ص۱۹۲٭
امام بخاری نے قیام رمضان والے عمومی باب ممیں اس تہجد والی
حدیث کو بھی ذکر کر دیا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے نزدیک بھی اس حدیث
کا تعلق ترایح سے ہے۔
ثانیاً:۔ امام بیہقیؒ نے اپنی کتاب السنن الکبریٰ للبیہقی
میں اس حدیث پر باب ماروی فی عدد رکعات الیام فی شہر رمضان کا عنوان قائم کیا ہے
لیکن امام بیہقیؒ کے اس عنوان ممیں اجمال ہے کہ قیام سے یہاں مراد قیام اللیل ہے
یا قیام رمضان ؟ عین ممکن ہے کہ ان کی مراد یہاں قیام سے عام ہو جو قیام اللیل اور قیام رمضان دونوں کو شامل ہے۔ پھر اس عام
عنوان کے تحر انہوں نے قیام اللیل اور قیام رمضان دونوں قسم کی احادیث کو ذکر فرما
دیا ۔ بالفرض اگر یہاں قیام سے صرف قیام رمضان ہی مراد ہے تو پھر بھی امام بیہقیؒ
کے نزدیک اس حدیث کو تعلق تروایح سے ہونا
لازم نہیں آتا یونکہ ابھی فتاویٰ علمائے حدیث کے حوالہ سے گزر ا ہے کہ قیام رمضان
تراویح سے اعم ہے جو تراویح اور تہجد دونوں کو شامل ہے۔ فلا اشکال۔
ثالثاً:۔ امام محمدؒ اس حدیث عائشہؓ کو اپنی کتاب موطا
میں باب قیام شہر رمضان و مافیہ من الفضل
کے تحت فرمایا ہے اس با سے امام محمدؒ دوچیزوں پر استدالل کرنا چاہتے ہیں۔ اول :
قیام شہر رمضان کا اثبات بلا عدد رکعات اس
کے لئے انہوں نے قیام شہر رمضان کا عنوان قائم کیا ۔ ثانی :۔ رمضان المبارک میں
عبادت (تہجد وغیرہ) کرنے کی فضیلت کا بیان اس کیلئے اننہوں نے وما فیه من الفضل
(یعنی رمضان المبارک میں جو فضیلت ہے اس کا بیان ) کا عنوان قائم کیا ہے۔ اب
اس باب کے تحت انہوں نے پہلے نمبر پر حضرت
عائشہؓ کی وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں نبیﷺ
کا رمضان المبارک میں تین دن نماز پڑھنے کا ذخر ہے اور تعداد رکعات کا اس
میں کوئی تعین نہیں ہے اور دوسرے نمبر پر حضرت عائشہؓ کو مذکروہ روایت نقل کی جس
میں رسول اللہﷺ کا نماز تہجد کی گیارہ رکعات پڑھنا مذکور ہے۔ اب باب کی پہلی حدیث
کا تعلق تعنوان کے پہلے حصے قیام شہر رمضان سے ہے اور دوسری حدیث کو تعلق عنوان کے
دوسرے حصہ و مافیہ من الفضل سے ہے کیونکہ رمضان المبارک میں نماز تہجد پڑھنے کی
بہت زیاہد فضیلت ہے اس لئے امام موصوف نے اس تہجد والی حدیث کو باب کے دوسرے عنوان
و ما فیہ الفضل کے تحت ذکر فرما دیا لہذا اس سے ہر گز یہ لازم نہیں آتاکہ ان کے
نزدیک اس حدیث کا تعلق نماز تراوویح سے ہے۔
رابعاً:۔ علامہ نیمویؒ نے اگرچہ اس حدیث پر التراویح ثمان
رکعات کا باب باندھا ہے لیکن ان کی اس تبویب سے یہ استدلال کرنا کہ ان کے نزدیک اس
حدیث کا تعلق تراویح سے ہے غلط ہے کیونکہ ان کی کتاب آچار السنن کا مطالعہ کرنے
والے پر مخفی نہیں کہ ان کی پوری کتاب کی ترتیب یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے مخالف مسلک
کے مطابق باب قائم کرتے ہیں اور اس کے تحت وہ دلائل ذکر کرتے ہیں جن سے مخالف نے
استدال کیا ہے خواہ ان مستدلات کا تعلق انکے نزدیک مذکورہ باب
٭ص۱۹۳٭
سے ہو یا نہیں اسکے
بعد وہ اپنے مسلک کے مطابق باب قائم
کرکے اپنے مستدلات ذکر فرماتے ہیں۔ صرف ابواب الوتر میں ان کی بیان کرردہ
ترتیب دیکھ لیں کہ رکعات وتر کی تعداد بیان کرتے وقت انہوں نے پہلے باب الوتر بخس
اواکثر من ذلک کا عنوان قائم کرکے اس قسم
کی احادیث کو جمع کیا ۔ پھر باب الوتر برکعه قائم کرکے اس کے تحت اپنی مندل احادیث
کو جمع فرمایا حالانکہ ان کے نزدیک صرف تین رکعات وتر پڑھنا ہی جائز ہے بعینہ
اس طرح انہوں نے رکعات تراویح بیان کرتے
وقت پہلے غیرمقلدین کے مسلک کے مطابق باب التروایح ثمان رکعات قائم کرکے ان کے
مسند لات کو ذکر کیا اور اس میں حضرت عائشہؓ کی
، مذکورہ حدیث کو بھی ذکر کیا پھر آخر میں اپنے مسلک کے مطابق باب فی
التراویح بعشین رکعات قائم کرکے اپنے مستدلات ذکر کئے اگر انہوں نے غیرمقلدین کے
مسلک کے مطابق حدیث عائشہؓ کو ترایوح کے باب میں ذکر کیا ہے تو اس ے یہ لازم نہیں
آتا کہ خود علامہ نیمونی کے نزدیک بھی اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے۔ پس غیرملقدین
کا یہ کہنا غلط ثابت ہو گیا کہ امام بخاری
، امم بیہقیؒ امام محمدؒ اور علامہ نیمویؒ نے نزدیک حدیث حضرت عائشہؓ کا تعلق
تراویح کے باب سے ہے۔
۴۔ اگر اس صحیح السند حدیث کا تعلق تراویح سے ہوتا جیسا کہ غیرمقلدین کا
دعویٰ ہے تو پھر بڑے بڑے محدیث اور فقہاء کرام ؒ کبھی بھی یہ نہ فرماتے کہ رسول اللہﷺ سے رکعات
تراویح کی بابت کوئی بھی عدد کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں حالانکہ بخاری شریگ کی
یہ روایت ان کے زیر نظر اور زیر مطالعہ تھی ہو حضڑات آج کل کے غیرمقلدین کے احایدث کے جاننے اور سمجھنے میں
زیادہ ماہر تھے اور عصر حاضر کا کوئی غیرمقلد عالم ان کے علم کے برابر بھی نہیں
ہوسکتا۔ اس کے باوجود یہ جبال علم صاف صاف اقرار کرتے ہیں کہ کسی بھی صحیح رویات میں نبی ﷺ کی نماز تراویح ککی تعدا منقول نہیں
۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں ان العماء اختلفو افی عدد ھلٰو لوثبت
من فعل النبیﷺ لم یختلف فیھا۔ (المصابیح
ص۷۴، الحاوی للفتاویٰ جلد۱ ص۴۱۵) علمائے کرام نے تراویح کے عدد میں اختلاف کیا ہے
اور اگر تتراویح کا کوئی خاص عدد نبیﷺ سے ثابت ہوتا تو وہ اس میں اختلاف نہ کرتے ۔
نز سیوطیؒ فرماتے ہیں وانما صلی لیالی
صلوۃ لم یذکر عدد ھا (المصابیح ، الحاوی ص۴۱۳) نبیﷺ نے صرف چند راتیں تراویوح کی
نماز پڑھی جس کا کوئی عدد (صحیح احادیث میں) مذکورہ نہیں۔
٭ص۱۹۴٭
نیز تراویح کی تعداد کے بارے میں علمائے کرام کے مختلف
اقوال ذکر کرنے کے بعد فرامتے ہیں: ولو ثبت عدد ھا بالنص لم یجزز یادۃ علیه
(الحاوی جلد۱ ص۴۲۵) اگر تراویح کا کوئی عدد کسی (صحیح) نص سے ثابت ہوتا تو اس پر
زیادتی جائز نہ ہوتی ۔ امام سیوطیؒ کی ان عبارات سے جہاں غیرمقلدین کے اس دعویٰ کی
تردید ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ سے صرف آٹھ رکعات تراویح کا عدد ثابت ہے وہیں ان کا
سیوطیؒ کی ان عبارات کی یہ تاویل کرنا بھی باطل ہو جاتا ہے کہ امام سیوطیؒ کی مراد
ان عبارات سے بیس تراویح کی نفی کرنا ہے۔
اس لئے کہ وہ تو مطلق عدد کی نفی فرما رہے ہیں جو آٹھ بیس وغیرہ سنب کو شامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسئلہ رکعات تراویح میں غیرمقلدین کے سب سے بڑے وکیل مولانا نذیر
احمد رحمانی صاحب بھی نہ مانتے مانتے یہ حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اگر کسی
کو یہ شبہ ہو کہ امام سیوطیؒ کے نزدیک بجائے بیس کے اگر آٹھ رکعات بلا وتر ثابت
ہیں جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح ابن حبان
وغیرہ کے حوالے سے انہوں نے بیان کیا ہے
تو اس پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ (انہوں نے یہ بھی فرمایا ) لو ثبت ذالک من فعل
النبیﷺ لم یختلگ فیه تو اس شبہ کا جواب ہ ہے کہ معارضہ اس وقت صحیح ہوتا جب امام سیوطیؒ اس عدد کو تحدید تضییق کے ساتھ
ثابت مانتے۔ (انور المصابیح ص۵۰)
معلوم ہوا کہ امما
سیوطیؒ رسول اللہﷺ کی کسی حدیث کو رکعات
تراویح کی تحدید میں ثابت نہیں مانتے۔ والفضل ماشھدت به الاعداء
اسی طرح امام تاج الدین سبکیؒ شرح منھاج میں لکھتے ہیں اعلم
انه کم ینقل کم صلی رسول اللہﷺ فی تلک اللیلی ھل ھو عشرون اواقل و مذھبہا انھا
عشرون رکعۃ (مصابیح ص۱۴۴ ، الحاوی جلد۱ ص۴۱۷) جان لو کہ یہ منقول نہیں کہ رسو
اللہﷺ نے جن راتوں میں نماز تراویح پڑھی وہ بیس رکعات تھیں یا اس سے کم (آٹھ
وغیرہ) اور ہمارا مذھب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں۔
بعض غیرمقلدین (مولانا نذیر رحمانی صاحب وغیرہ نے امام
سبکیؒ کی مذکروہ بالا عبارت کی یہ توجیہ کی ہے کہ اعلم انہ لم ینقل الخ تو ان کا
مقصد یہ ہے کہ صحیح یا سنن کی جن راتوں میں تین راتوں کی تفصیلات مذکور ہیں ان
روایتوں میں کوئی عدد منقول نہیں ہےک ہ رکعات کی تعداد بیس ہے یا اس سے کم یہ منشا
نہیں کہ مطلقا فعل نبی سے تراویح کا کوئی عدد منقول ہی نہیں ۔
٭ص۱۹۵٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ص ۱۹۵سے حاشیہ کی پہلی تین لائن غائب
ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی رکعات کی تعداد کسی بھی صحیح روایت میں منقول نہیں ہے
نہ صحیحین و سنن کی روایات میں اور ہ ہی صحیح ابن حبان یاقیام اللیل وغیرہ کی کسی
روایت میں لہذا غیرمقلدین کا مطلق کسی عدد کی
نفی سے اپنے مطلب کیلئے صرف خاص مدد کی نفی مراد لینا بلا دلیل اور محض
ہوائی دعویٰ ہے۔
اسی طرح مولانا رحمانی صاحب کای ہ کہنا بھی غلط ہے کہ علامہ
سبکیؒ نے جوری کے حوالہ سے امما مالک کا یہ قول بلا رد و
انکار نقل کیا ہےک ہ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جس عدد تروایح پر جمع کیا وہ مجھے
پسندیدہ ہے اور وہ گیار ہ رکعات ہیں اوور یہی رسول اللہﷺ کی نماز ہے ۔ اس سے معلوم
ہوا کہ گیارہ رکعات کی بابت ان کو ماما مالک کا یہ قول تسلیم ہے کہ
ھی صلوۃ رسول اللہﷺ فصلہ انورا المصابیح (ص ۴۵) لیکن اول تو رحمانی صاحب کا یہ کہنا ہی غلط ہے کہ اس قول کو علامہ سبکیؒ
نے نقل کیا ہے کیونکہ اس ضعیف قول کو نقل کرنے ولاے ماما سیوطیؒ ہیں نہ کہ امام
سبکیؒ جیسا کہ سیوطیؒ کے کلام سے واضح ہے اور خود رحمانی صاحب کے ہم سلک غیرملقدین
کو بھی یہ بات تسلیم ہے ۔ چنانچہ غیرمقلد مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں
سیوطیؒ اپنے اصحاب میں سے امام جوزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام مالک نے فرمایا کہ جس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں کو
جمع کیا وہ گیارہ رکعات تھیں۔۔۔۔ الخ (النصابیح ص ۲۴) بحوالہ التوضیح عن رکعت
التراویح (ص۱۲۰) حافظ زبر علی زئی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں امام سیوطیؒ نے امام
مالکؒ سے نقل کیا ہے کہ ھضرت عمرؓ نے
لوگوں کو گیارہ رکعاتوں پر جمع کیا وہی رسول اللہﷺ کی نماز ہے صلوۃ التراویح ص۱۳ ناشر اصحاب
الحدیث اٹک شہر پس جب علامہ سبکیؒ نے اس قول کو نقل ہی نہیں کیا تو پھر رحمانی صاحب
یہ کیسے کہہ سکتےہ یں انہوں نے اس قول کو
تسلیم بھی کر لیا ہے۔ ع بسوقت عقل زحیرت ابن حہ بو انتجست
ثانیاً:۔ اگر باالفرض مان بھی لیا جائے کہ امام سبکیؒ نے ہی
اس قول کو نقلک کیا ہے تو پھر بھی یہ کہنا غلط ہے کہ انہوں نے اس قول کی صحت کو
بھی تسلیم کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے تو اس ضعیف اور منکر قول کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ ؛ ومذھبنا انھا عشرون رکعه (ہمارا مذھب یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں) کیا رحمانی صاحب یا کوئی بھی
غیرمقلد امام سبکیؒ جیسے متبع سنتت اورعاشق صادق عالم کے بارے میں یہ رصور کر سکتا
ہےکہ وہ یہ کہیں کہ رسول اللہﷺ اور حضرت عمرؓ کی نماز تروایح تو گیارہ رکعت تھیں
لیکن میر مذھب بیس رکعت کا ہے۔ اذالیس
ففیس ۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمہؒ فرماتےہ یں ومن ظن ان قیام
رمضان فیه عدد معین موقت عن ل۔۔۔۔۔۔ بربدو
ولا بہ من فقد ا خطاً (مجموعہ الفتویٰ
جلد۱۱ ص۵۲۰)
٭ص۱۹۶٭
جو شخص یہ گمان کرتا ہے
کہ تراویح میں کوئی عدد معین ہے جس کو رسول اللہﷺ نے مقرر فرمایا ہے کہ جسے نہ زیادہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کم تو وہ
شخص غلطی پر ہے۔ نیز فرماتے ہیں : انه لایتوقت فی قیام رمضان فان النبیﷺ لم یتوقت فیها عدداً (الفتاویٰ الکبریٰ جلد۱ص۲۲۷)
تراویح میں کوئی
عدد مقرر نہیں کیونکہ رسو ل اللہﷺ نے اس میں کوئی عدد مقرر نہیں فرمایا ۔
غیرمقلدین حرت نے اپنی عادت مستمرہ کے موافق حافظ ابن تیمیہؒ کی ان واضح اور صریح
عبارتوں سے جان چھڑانے کیلئے وہی روش اختیار کیا ہے جو امام سبکیؒ وغیرہ علماء کی
عبارتوں کے ساتھ انجام دے چکے ہیں۔ چنانچہ مولانا نذیر رحمانی صاحب حافظ موصوفؒ کی مذکورہ بالا عبارت
کی یوں توجیہ بیان کرتے ہیں:۔ حافظ ابن
تیمیہؒ کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کے فعل سے اگرچہ گیارہ یا تیرہ
رکعات ثابت ہیں لیکن ان کی تحدید کسی حدیث میں نہیں ہے۔ گویا انہوں نے نبیﷺ کے فعل
سے گیارہ رکعات کی نفی نہیں کی بلکہ اس کی
تحدید و تعیین کی نگی کی ہے یعنی نبیﷺ کی
کسی قول یا فعلی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس بارے میں آپﷺ نے تکعات کی کوئی
حد مقرر فرمائی ہو کہ اس میں نہ کوئی کمی ہو سکے
اور نہ زیادتی اور یہی بات ہم اہل حدیث بھی کہتے ہیں کہ گیارہ رکعات نبیﷺ کے ففعل سے ثابت ہے اور یہی سنت اور
بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ اگر کوئی شخص اس سے کم و
بیش بطور نوافل پڑھنا چاہے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ (انوار المصابیح
ص۴۴)
للیکن رحمانی صاحب کی یہ ساری رو جیہ محض حافظ ابن تیمیہ ؒ
کے موقف میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ غیرمقلدین حضرت عائشہؓ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے صرف گیارہ رکعات کو مسنون
کہتے ہیں نہ گیارہ سے کم اور نہ ہی گیارہ
سے زائد کو وہ سنت سمجھتے ہیں اور یہی تحدید اور تطبیق ہے جس کو حافظ ابن تیمیہؒ
غلطی اور خطا بتلا رہے ہیں تو پھر
غیرمقلدین اور حافظ ابن تیمیہؒ کا موقف
ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے کیا عصر حاضر کے غیرمقلدین جو صرف گیارہ رکعات کے
قائل ہیں ہو گیارہ رکعات سے کم یا س سے
زائد رکعات پڑھنے کو سنت کہنے کیلئے تیار ہیں ہر گز نہیں بلکہ ان میں سے بعض تو گییارہ رکعات سے زائد تراویح
پڑھنے کو بدعت اور حرام تک کہہ دیتے ہیں العیاذ با اللہ۔
اگر یہ تحدید اور تطبیق نہیں جس کا ابن تیمیہؒ سختی سے رد
کر رہے ہیں تو نہ جانے یہ تحدید کسی چیز کا نام ہے۔ رہا یہ کہنا کہ حافظ ابن تیمیہؒ یہ تسلیم کر لیا کہ رسول
اللہﷺ گیار ہ یا تیرہ رکعات سے زائد نہیں
پڑھتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(صفحہ ۱۹۷ سے حاشیہ کی تین لائنیں
غائب ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا غیرمقلدین حافظ ابن تیمیہؒ کی ان باتوں کو تسلیم کرت
ہیں؟
الغرض غیرمقلدین حافظ ابن تیمیہؒ کی عبارات کو جو بھی تاویل
کرنا چاہیں کر لیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ وہ ایے شخص کو خطا کار کہتے
ہیں جو حضرت عائشہؓ کی حدیث سے استدلال
کرتے ہوئے صرف گیارہ رکعات کو مسنون سمجھتا ہے۔
خود غیرمقلدین کے اپنے بڑے بڑے عہنما بھی یہ حقیقت کھلے دل
سے تسلیم کرتے ہیں کہ رکعات تراویح کی بابت رسول لالہﷺ سے کوئی عدد صحیح روایت سے
مروی نہیں ہے۔ علمائے غیرمقلدین کی یہ عبارات مقدمہ میں گزر چکی ہیں ۔ یاد ہانی کے
لیے دو بار ہ نذر قارئیں ہیں۔
٭ص۱۹۷٭
قاضی محمد بن علی شوکانی حضرت عائشہؓ کی مذکورہ روایت سمیت
اس موضوع سے متعلق متعد روایات کے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔
ترجمہ:۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس باب میں ذکر کردہ احادیث
اور ان جیسی دوسری احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف رمضان المبارک میں قیام
اور اس کو اکیلئے اکیلے یا جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی مشروعیت ہے ۔ پس ا س نماز کو
جس کا نام تروایح ہے کسی عدد معین پر بند کر دینا (جیسا کہ آج کل کے غیرمقلدین جو
صرف آٹھ کو سنت نبوی کہتے ہیں) اور کسی مخصوص قرأت کے ساتھ خاص کر دینا رسول اللہﷺ کی
سنت میں وار د نہیں ہوا۔ (نیل الاوطار جلد۳ص۵۳)
گویا شوکانی صاحب
کے نزدیک رکعات تراویح کی بابت جتنی بھی احادیث ذکر کی جاتی ہیں یا تو ضعیف
ہیں یا وہ تروایح کے غیر متعلق ہیں نیز شوکانی نے یہ مطلق سنت کی نفی کی ہے جو سنت قولی ، سنت فعلی اور سنت
تقریری تینوں کو شام لہے لہذا اس سے غیرمقلدین کی تینوں دلیلوں (سنت فعلی، براوایت
عائشہؓ بروایت جابرؓ اور سنت تقریری
بروایت ابی بن کعبؓ) کی نفی اور ان کے دعویٰ کا باطل ہونا ثابت ہو گیا ۔
٭ص۱۹۸٭
اس طرح علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب (جن کو غیرمقلدین
چوھوین صدی کے مجدد اور محقق اعظم کے لقب سے پکارتے ہیں) فرماتے ہیں :۔ ولم یات تعیین العدد فی الروایات الصحیحۃ المرفوعه
(الانتقاد الرجیع ص۶۱)
اور تراویح کے
عدد کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں
آئی ۔
نواب صاحب کے صاحبزادے اور مشہور غیرمقلد عالم نواب نور
الحسن خان صاحب فرماتے ہیں: وبا لجمله عددے معین در مرفوع نیامدہ (عرف الجادی ص۸۴)
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سے کسی مرفوع روایت میں تراویح کا کوئی معین عدد مذکور
نہیں ۔
غیرمقلدین کے معبر عالم علامہ وحید الزمان غیرمقلد مترجم
صحاح ستہ (جن کے بارے میں مشہور غیرمقلد مولانا بدیع الدین شاہ راشدی یہ القاب
بیان کرتے ہیں، نواب عالی جناب ، عالم باعمل فقیہ وقت صحب السنۃ وحید الزمان بن مسیح الزمان الدکنی (ہدایہ المستفید جلد۱ ص۱۰۴) )
بھی اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں: ولا یتعین لصولۃ لیالی رمضان یعنی
تراویح عدد معین (نزل الابرار جلد۱ ص۱۲۶)
ترجمہ:۔ اور رمضان
البارک کی رات کی نماز یعنی تراویح کے لیے (احادیث میں) کوئی عدد معین نہیں ہے۔
مولانا میاں غلام رسول
صاحب غیرمقلد (جو غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیر حسن دھولی کے خصوصی
تلامذہ میں سے ہیں (تاریخ اہل حدیث ص۴۳۳))
نے حضرت مولا علی قاریؒ کا یہ قول بلا رد
و انکار نقل کیا ہے۔ اعلم انه لم یوقت رسو ل اللہﷺ فی التراویح عددا معینا (رسالہ
تراویح مع ترجمہ ینابیع ص۴۹،۵۰) جان لو کہ رسول اللہﷺ نے تراویح میں کوئی تعدد
مقرر نہیں فرمائی۔
قارئین :۔ محدثین کترام اور علامئے غیرمقلدین کے ان مذکورہ
بالابیانات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ سے رکعات تراویح کی بابت کوئی
معین عدد منقول نہیں۔ لہذا عصر حاضر کے غیرمقلدین کا حضرت عائشہؓ کی رویات سے جو
در اصل نماز تہجد سے متعلق ہے رکعات تراویح پر استدلال کرنا باطل غلط ہے اور اپنے
ہی کابر کی تصریحات کی خلاف ورزی ہے۔
٭ص۱۹۹٭
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ
گئی گھر کے چراغ سے
جواب نمبر۵۔
حضرت عائشہؓ کی اس حدیث
میں جس نماز کا تذکرہ فرما رہیں وہ آپﷺ آخر شب میں پڑھتے تھے۔ چنانچہ اس
نماز کے وقت کی بابت جب ان سے پوچھا گیا
تو جناب صدیقہؓ نے فرمایا : ۔ آپﷺ رات کے پہلے حصہ میں آرام فرماتے تھے اور آخری
حصہ میں اٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ (بخاری جلد۱ ص۱۵۴) اسی طرح ایک اور ایک سوال کے جواب میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں
کہ فان یقوم اذا سمع السارخ (بخاری جلد۱
ص۱۵۳) رسول اللہﷺ نماز کے لئے اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب (آخر شب ) مرغ کی آواز سنتے تھے۔ مولانا میاں غلام رسول صاحب
غیرمقلد لکھتے ہیں کہہ:۔ آنحضرتﷺ سونے کے
بعد (آخری شب) یہ نماز پڑھتے تھے۔ (رسالہ تراویح ص۵۹) اور آخر شب میں جو نماز پڑھی
جاتی ہے وہ تہجد کی نماز ہے نہ کہ ترایوح کی ۔ چنانچہ غیرمقلدین کے شیخ الاسلام
مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اپنے
فتاویٰ میں لکھتے ہیں تہجد کا وقت ہی صبح سے پہلے کا ہے اول شب میں تہجد نہیں
ہوتی۔ (فتاویٰ ثنایہ جلد۱ ص۲۵)
مولانا صلاح الدین یوسف غیرمقلد ( سابق ایڈ یٹر الاعتصام ) لکھتے ہیں بہرحال
تہجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا ہے ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبیﷺ رات کے پہلے حصے میں
سوتے اور پچھلے حصہ میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ (تفسیر حواشی ص۷۸۹)
غیرمقلدین کا رسول اللہﷺ کی آخر شب کی نماز (تہجد) سے اول شب کی نماز (تراویح)
پر استدلال کرنا خود اپنے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں باطل ہو گیا۔
جواب نمبر۶۔ بالفرض غیرمقلدین کا دعویٰ مان ہی لیا جائے کہ
اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے اور تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو پھر بھی ان
کا اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے صرف اٹھ رکعت پر اکتفا کرنا اور اسی عدد کو سنت
کہنا غلط ہے۔ کیونکہ جس طرح نبی کریمﷺ کا اٹھ رکعات پڑھنا ثابت ہے۔
٭ص۲۰۰٭
اسی طرح آپﷺ سے آتھ رکعات سے کم اور آٹھ رکعات سے زائد پڑھنا بھی ثابت ہے۔ صرف حضرت
عائشہؓ سے ہی رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کی متعد صورتیں منقول ہیں جن کی صحت خود
غیرمقلدین کے علماء کو بھی اقرار ہے۔ چنانچہ علامہ شوکانی
صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: وقد ور دعن عائشہؓ فی الاخبار عن صلاته ﷺ باللیل
روایا ت مختلفه (نیل الاوطار جلد۳ ص۳۹)
حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ سے رات کی نماز سے متعلق مختلف
روایتیں روایت کی گئی ہیں۔ اس کے بعد شوکانی صاحب نے رسول اللہﷺ کی نماز کی مختلف
صورتیں (دس رکعات ، آٹھ رکعات نو رکعات مع الوتر ، سات رکعات مع الوتر وغیرہ) بلا
رد انکار نقل فرمائیں۔، اسی طرح غیرمقلدین
کے ایک دوسرے بڑے عالم علامہ امر یمانی صاحب لکھتے ہیں: اعلم انه قد اختلفت
الروایات عن عائشهؓ فی کیفیه صلاته ﷺ فی
اللیل وعددھا فقدروی عنھا سبع وتسع واحدی عشرۃ سوی رکعتی الفجرو منھا ھذہ
الروایه کان یصلی من اللیل عشرر کعات ویوتر سجدۃ ای رکعه ویرکع رکعتی الفجر فتلک ثلاث عشرۃ رکعه
(سبل السلام جلد۲ ص۱۳)
جان لو کہ حضرت عائشہرؓ سے رسول اللہﷺ کی رات کی نمز کی کیفیت اور تعداد میں روایات
مختلف ہیں چنانچہ آپﷺ سے سات ، نو رکعات گیارہ رکعات (مع الوتر ) علاوہ دو رکعات
سنت فجر کے مروی ہیں اوور ان روایات میں ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ رات کی نماز
دس رکعات پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر اور دو رکعات فجر پڑھتے تھے ۔یہ کل تیرہ
رکعات ہو ئیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ صبح کی دو سنتوں سمیت پندہ رکعات
پڑھتے تھے۔
مولانا میاں غلام
محمد رسول صاحب لکھتے ہیں:۔ امام قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی روایت
میں ہے جو حضرت سعد بن ہشام ؒ کی سند سے آتی ہے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ گیارہ رکعت
پڑھتے تھے جن میں وتر بھی ہوتے تھے جن کی ہر دو رکعت کے بعد سلام کہتے تھے اور جب آپ کے پاس مؤذن آچکتا تو آپﷺ صبح
٭ص۲۰۱٭
کی دو سنتیں پڑھتے تھے اور حضرت ہشامؓ ن عروہ ؓ کی رویت ہے
جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے یہ آتا ہے کہ آپﷺ تیرہ رکعت ادا کرتے جن میں صبح کی دو
سنتیں بھی ہوتی تھیں اور حضرت عاشہؓ سے یہ روایت بھی آتی ہے آپ رمضان اور غیررمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں
پڑھتے تھے اور ان سے یہبھی روایت ہے کہ آپﷺ تیرہ رکعت پڑھتے تھے آٹھ اورپھر تین
وتر اور پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے تے۔ اور ان سے
ان کے علاوہ بخاری میں یہ ہے ب ھی ہے کہ آپ کی رات کی نماز سات اور نو رکعت
ہوتی تھیں (مع الوتر) (رسالہ تراویح مع ترجمہ بنایع ص۴۸،۵۰)
نیز میاں صاحب فرماتے ہیں کہ مصنف سفر سعادت نے (رسول
اللہﷺ) کی رات کی نماز کے باب میں آٹھ
صورتیں لکھی ہیں جو سب کی سب صحیح ہیں۔ پس جو کچھ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ
آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے یہ خبر دینا بھی ان
کا اپنی باری کے دنوں کا ہے جو سال کے
چتھیں دن ان کی باری ہوتے تھے۔ خود حضرت عائشہؓ اور اس طر ح دوسرے حضرات سے گیارہ
سے کم اور زیادہ کی روایت گزر طکی ہیں۔ (رسالہ تراویح مع ترجمہ بنابیع ص۴۸،۴۹)
غیرمقلدین کے محدث اعظم مولانا عبدلرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں انہ ثم ان
رسول اللہﷺ فان قد یصلی ثلاث عشرۃ رکعت سوی رکعت العلم (تحفۃ الاحوذی جلد۲ ص۷۳)
یہ ہے رسول اللہﷺ نے کبھی فجر کی دو رکعات کے علاوہ بھی
تیرہ رکعات پڑھی ہیں۔
مولانا عبداللہ غازیپوی نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ حق یہ
ہےکہ آپﷺ نے کبھی کبھی سنت فجر کے علاوہ
بھی تیرہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ (رکعات التراویح ص۵) مولانا صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ
حضرت عائشہؓ سے رسول خدا کی نماز سے متعلق پوچھا
گیا تو جناب صدیقہؓ فرمایا کہ کبھ یسات رکعتیں کبھی نو اور کبھی گیارہ
رکعتیں مع وتر پڑھتے (صلوۃ الرسول ص۳۶۹)
نیز سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں :۔ سات رکعت تہجد میں اگر وتر
ایک رعکت پڑھیں تو تہجد چھ رکعت ہوئی ۔ اور اگر وتر تین رکعت پڑھیں تو نما ز تہجد
چار رکعت ہوئی۔ (صلوۃ رسول ص۳۶۹)
محمد قاسم خوج
لکھتے ہیں ۔ عائشہؓ قیام نبوی کے بارے میں
فرماتے ہیں کہ یہ سات یا نو یا گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں علاوہ فجر کی دو سنتوں کے
(حی علی الصلوۃ ص۳۰)
٭ص۲۰۲٭
اس طرح مولانا نذیر احمد صصاحب تحریر کرتے ہیں حضرت عائشہؓ
کا خود بخاری شریف میں جلد۱ ص۱۵۳ میں بیان ہے کہ رسول اللہﷺ سات بھی پڑڑھتے تھے نو
بھی اور گیارہ بھی ۔(انوار المصابیح)
پس جب صرف حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کی رات کی نماز کی تعداد
سے متعلق مختلف روایات مروی ہیں اور آپﷺ
کا آٹھ سے کم اور آتھ سے زائد رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے اور ان سب روایات کی صحت خود غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہے
تو پھر غیرمقلدین حضرات یہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ صرف آٹھ رکعات تراویح پڑھنا
ہی رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔
؏ بسوخت عقل زحیرت این چه بوالعجیست
جواب نمبر۷:۔
حضرت عائشہؓ کی اس حدیث میں اس قدر اختلافات (جن کا ہکلا سا نمونہ آپ نے علمائے
غیرمقلدین کے مذکورہ بالا بیانات میں دیکھ لیا ہے) کو دیکھتے ہوئے بعض محدثین نے
اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے۔
علامہ محمد شوکانی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ ولا جل ھذا الا ختلاف نسب
بعضھم حدیثھا الی الاضرب (نیل الاوطار جلد۳ص۳۹)
حضرت عائشہؓ کی
حدیث میں ان اختلافات کی وجہ سے بعض علمائے محدثین نے ان کی حدیث کو اضطراب کی طرف منسوب کیا ہے۔
علامہ امیر یمانی غیرمقلد تحریر کرتے ہیں ولما اختلافت الفاظ
حدیث زعم البعض انه حدیث مضطرب (سبل السلام جلد۲ ص۱۳)
جب حضرت عائشہؓ کے الفاظ میں اختلاف ہوا تو بعض بعض محدثین نے اس کو مضطرب خیال کیا ہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمہؒ فرماتے ہیں:۔ واضطرب فی
ھذاالاصل (الفتاویٰ الکبریٰ جلد۱ ص۱۲۷)
اس اصل (حدیث
عائشہؓ) میں اضطراب ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں قال القرطبی اشکل روایات عائشہؓؓ علی
٭ص۲۰۳٭
کثیر من اھل العلم نسب بعضھم حدیثھا االٰی الا ضطرب (فتح
الباری جلد۳ ص۳۳۹)
علامہ قرطبیؒ جن کے
بارے میں مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں علامہ قرطبیؒ فقہ مالکی
کے مسلمہ امام ہیں ان کے کلام کو بلا دلیل رد کرنا بھی بہت بڑی جسارت ہے ۔ توضیح
الکلام جلد۱ ص۶۵) فرماتے ہیں کہ بہت سے اہل علم پر حضرت عائشہؓ کی روایات مشکل
ہوئی ہیں یہاں تک کہ بعض اہل علم نے ان کی اس حدیث کو ہی اضطراب کی طرف منسوب کیا
ہے۔
اب جن محدثین نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے ان کی تحقیق
کی رو سے تو یہ حدیث ہی ناقابل حجت ہے۔ کیونکہ مولانا عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب
غیرمقلد نے تصریح کی ہے کہ حدیث مضطراب
قابل احتجاج نہیں ہو سکتی۔ (تحقیق الکلام جلد۲ ص۷)
جواب نمبر۸:۔
حدیث عائشہؓ کی روایات میں اختلاف کی وجہ سے جن علمائے نے
اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے ان کے بالمقابل دیگر علمائے جنہوں نے اس کو
مضطرب کہنے کی بجائے ان سب روایات ممیں
تطبیق کا راستہ اختیار کیا ہے ان کی تحقیق کی رو سے بھی اس حدیث سے صرف آٹھ رکعات
تراویح پر استدلال کرنا غلط ہے۔ ککیونکہ
علماء کے نزدیک یا تو اس روایات میں اکثر راتوں کا ذکر ہے اور یا یہ تمام
روایات آپﷺ کے متعدد اوقات اور مختلف حالتوں سے متعلق ہیں۔ چنانچہ امام نوویؒ قاضی
عیاض مالکیؒ سے حضرت عائشہؓ کی روایات میں تطبیق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ واما لا ختلاف فی حدیث عائشہؓ فقبل ھو منھا
وقبل من الرواۃ عنھا فیحتمل ان اخبار ھا باحدی عشرۃ ھوا الا غلب وباقی روایایتھا اخبار منھا بما
کان یفع نادر ا فی بعض الاوقات فاکثرہ خمس عشرۃ برکعتی الفجرواقلہ سبع وذلک یحسب
ماکان یحصل من انساع الوقت اوضیفه بطول قراءۃ کما جاء فی حدیث حذیفہؓ وابن مسعودؓ
اولنوم اوعذر مرض اوغیرہ اوفی بعض الاوات عند کبراسن کما قالب فلما انﷺ صلی سبع
رکعات (شرح مسلم للنووی جلد۱ ص۲۵۳)
٭ص۲۰۴٭
حضرت عائشہؓ کی حدیث میں جو اختلاف ہے تو اس کے متعلق یہ
بھی کہا گیا ہے کہ یہ اختلاف ان ہی سے منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ
اختلاف ان سے نقل کرنے والے راویوں کی طرف
سے ہے چنانچہ احتمام ہے کہ حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات کے بارے میں جو خبر دی ہے
وہ رسول اللہﷺ کی اکثر عادت ہو اور انہوں نے اپنی فیگر روایات میں جو خبر دی ہے وہ
ان صورتوں پر محموم ہوں جو آپﷺ سے بعض اوقات میں صادر ہوئیں۔ پس یہ دو رکعات سنت
فجر ملا کر زیادہ سے زیادہ پندرہ رکعات
اور کم سے کم سات رکعات ہیں یا یہ وقت کی فراخی اور تنگی اور طول قرأت کی وجہ سے
ہوتا تھا جیسا کہ حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت
ابن مسعودؓ کی حدیث میں آتا ہے یا نیند یا بیماری وغیرہ کے عذر یا پڑھاپے کی وجہ
سے بعض اوقات ایسا ہوتا رہا جیسا کہحضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ (آخر
عمر) میں بوڑے ہو گئے تو سات رکعتیں پڑھتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی زندگی کا آخری معمول
رات کہی نماز میں تین وتر سمیت سات رکعتیں
پڑھنے کا تھا۔ اب غیرمقلدین جو اپنے آپ کو قرآن و حدیث کا بلا شرکت غیرے عامل
سمجھتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ گیارہ رکعات سنت کہنےکی بجائے سات رکعات کو سنت کہیں
کیونکہ امما بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں احادیث نبویہ پر عمل پیرا ہونے کے لیے یہ
ضابطہ بیان کیا ہے کہ انما یوخذ من فعل النبیﷺ الاخر فالا خر ۔ (صحیح بخاری جلد۱
ص۹۶) کہ نبیﷺ کا جو آخری عمل ہو گا وہ لیا جائے گیا۔ اس ضابطہ کی رو سے رسول اللہﷺ
کی سنت تین وتر سمیت سات رکعات بنتی ہے لیکن غیرمقلدین اس کے برخلاف صرف گیارہ رکعات
کو سنت کہتے ہیں نہ گیارہ سے کم اور نہ
گیار ہ سے زائد کو۔ معلوم طہوا کہ غیرمقلدین نہ تو قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے
کے دعویٰ میں سچے ہیں اوور ننہ وہ (امام بخاری وغیرہ) محدثین کرام کی تصریحات کو مانتے ہیں۔ ہم اس
موقع پر غیرمقلدین حضرات کو ان کے ہی ایک
بہت بڑے عالم مولانا محمد جونا گڑھی کا ایک شعر یاد دلاتے ہیں۔
بنتے ہو وفادار تو وفا کرکے دکھاؤ
کہنے کی وفا اور ہے
کرنے کی وفا اور
قاضی عیاض ؒ فرمات ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہرات کی
نماز میں (رسول اللہﷺ کی طرف سے) کوئی ایسی حد مقرر نہیں کہ جس میں کمی یا زیادتی
نہ کی جاسکے اور رات کی نماز ان ننیکیوں
میں سے ہیں کہ وہ جتنی بھی زیادہ کی جائے ثواب بڑھتا جائے گا۔ اختلاف تو صرف اس بات میں ہے کہ نبیﷺ کا عمل کیا تھا اور انہوںن ے اپنے
لیے کیا پسند فرمایا واللہ اعلم۔
٭ص۲۰۵٭
حافرض ابن حجر عسقلاننیؒ نے حضرت عائشہؓ کی ان مختلف
روایات میں یو تطبیق بیان فرمائی ہے۔
والصواب ان۔۔۔۔۔ من ذلک محمول علٰی اوقات متعددۃ واحوال مختلفه (فتح الباری
جلد۳ص۳۳۱)
درست بات یہ ہےکہ حضرت عائشہؓ نے آنحضرتﷺ کی نماز سے متعلق جتنی روایات بیان فرمائی ہیں یہ متعدد اوقات اور
مختلف حالتوں پر محمول ہیں۔ اسی طرح قاضی شوکانی غیرمقلد اور علامہ امیر یمانی
غیرمقلد نے اپنے رسالہ تراویح میں ان روایات میں
یہی تطبیقا دی ہے کہ یہ سب روایتیں رسول اللہﷺ کی متعدد اوقات اوور مختلف
احوال سے متعلق ہیں اور یہ سب صورتیں جائز ہیں۔ (نیل الاوطار جلد۳ص۳۹)، (سبل السلام جلد۲ ص۱۳)
مولانا میاں غلام رسول صاحب غیرمقلد نے اپنے رسالہ تراویح
میں ان روایات میں مختلف تطبیقات نقل فرمائی ہیں اور اس دعوے کو غلط ثابت کیا ہے
کہ حضرت عائشہؓ کی گیارہ رکعات والی روایت
میں رسول اللہﷺ کا دائمی عمل مذکور ہے۔ (رسالہ تراویح مع ینابیع ص۴۶ تا۵۶)
ان جن علمائے کرام نے حضرت عائشہؓ کی روایات میں بجائے مضطرب
کہنے کے ان سب روایات میں یہ تطبیقات ذکر کی ہیں ناک ے نزدیک بھی آٹھ رکعات (یا
گیارہ مع الوتر) نبی کریمﷺ کا دائمہ عمل نہیں تھا بلکہ ان کے ہاں بھی مختلف موقوں
پر آپﷺ سے آٹھ سے زائد اور آٹھ سے کم رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے۔ اور مولانا نذیر احمد
رحمانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ جس عدد کا پڑھنا ایک دعہ بھی ثابت ہو وہ بے شک
سنت ہے۔(انوار المصابیح ص۶۴) چہ جائکہ اس عدد کا متعدد بار پڑھنا ثابت ہو۔ لہذا ان
علمائے کرام کی تحقیق میں بھی صرف آٹھ رکعات پڑھنا ہی سنت نہیں بلکہ کبھی آٹھ سے
کم اور کبھی آٹھ سے زائد رکعات پڑھنا اور آٹھ پڑھنے کی ہیئے کو بدلنا بھی سنت ہونا
چاہئے اور یہ بات صرف ہم نہیں ہتے بلکہ یہ بات خود غیرملقدین کے بہت بڑے عالم
مولانا میاں غلام رسلو صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چناچہ میاں صاحب فرماتے ہیں پس جو
کچھ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے
پڑھتے تھے اور خؤد حضرت عائشہؓ نے فرمایا
کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات پڑھنے تھے یہ خبر دینا بھی ان کا
اپنی باری کے دنوں کا ہے جو سال میں چھتیس دن ان کی باری کے ہوتے تھے اور خود حضرت
عائشہؓ اور اس طرح دوسرے حضرات (صحابہ کرامؓ ) سے (گیارہ رکعات سے) کم و بیس کی
روایات پہلے گزر چکی ہیں۔ لہذا گیارہ رکعات کی ہیت کو بدلنا اور اس
٭ص۲۰۶٭
کا تغیر کرنا بھی سنت ہوا۔ (رسالہ تراویح مع ینابیع
ص۵۴،۵۵)۔ بنابریں موجود غیرمقلدین کا حدیث عائشہؓ سے استدلال کرتے ہوئے صرف آٹھ
رکعات پر اقتصار کرنا اور اسی عدد کوسنت
کہنا خود بخود باطل ہو گیا۔
جواب نمبر۹۔ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ صرف آٹھ رکعات کا
پڑھنا ہی رسول اللہﷺ کی سنت ہے لیکن جب حضرت عمرؓ نے بحثیت خلیفہ راشدان میں اضافہ
فرما دیا اور تراویح کی بیس رکعات مقرر کر دیں تو اب صرف آٹھ رکعات کا پڑھنا سنت
نہیں بلکہ بیس رکعات کا پڑھنا ہی سنت ہے ۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے اپنے فرمان علیکم
بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین
(ترمذی جلد۲ص۹۴) میں اپنی سنت کی
سنت کی طرح اپنے خلفائے راشدین کی سنت کو بھی امت کیلے لازم اور ضروری قرار
دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غیرمقلدین کے معتدل اور انصاف پسند علمایئ صرف
آٹھ رکعات تراویح کو سنت نہیں کہتے بلکہ وہ بیس
کو بھی سنت سمجھتے ہییں۔ چنانچہ غیرمقلدین کے مجدد العصر نواب صدیق حسن خان
صاحب ان نکتہ کو یوں بیان کرتے ہیں :۔
مقصود آنکه یاز دو عکت اذ آنحضرتﷺ سروی گشته وبسنت رکعت زیادت عمرؓ بن الخطاب است
وسنت نبویه در زیادت عمرؓ معمود پس آئی یزیادت عامل بسنت ہم باشد (ہدایۃ السائلل
ص۱۳۸)
مقصود یہ ہے کہ گیارہ رکعتیں آنحضرتﷺ سے منقول ہیں اور بیس
رکعتیں حضرت عمرؓ کے اضافہ سے ہوئی ہیں۔ اضافہ کے بعد حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ
تعداد میں سنت نبوی داخل و شامل ہے لہذا بڑھائی ہوئی تعداد (بیس رکعات) پر عمل
کرنے والا بھی (رسول اللہﷺ کی) سنت پر عمل
کرنے والا ہے۔
مولانا میاں غلام رسول صاحب اپنے رسالہ تراویح کے خطبہ میں فرماتے ہیں: بیس
رکعات تراویح ادا کرنے سے آنحضرتﷺ کی سنت بھی ادا ہو جاتی ہے اور حضرات خلفاء
راشدین کی سنت بھی اور اس میں اجر بھی زیادہ ہے۔ (رسالہ ترایح مع ترجمہ ینابیع
ص۲۳)
اب غیرمقلدین حضرات اپنے اکابر کا یہ فیصلہ تسلیم کر لیں تو
تراویح کے مسئلہ میں اختلاف کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دیدہ باید !
٭ص۲۰۷٭
جواب نمبر ۱۰۔ حضرت عائشہؓ کی مذکور ہ حدیث پر غیرمقلدین کا
خود اپنا عمل نہیں بلکہ ان کا عمل تو اس حدیث کے سراسر خلاف ہے کیونکہ:۔
۱۔ اس حدیث میں ہے
کہ آنحضرت ﷺ پورا سال یہ نماز پڑھتے تھے جبکہ غیرمقلدین اس نماز کو صرف ماہ رمضان میں التزام کے ساتھ
پڑھتے ہیں۔
۲۔ حدیث میں ہے کہ آپﷺ یہ آٹھ رکعات چار چار رکعت کی نیت سے
دو سلام میں پڑھتے تھے۔ (صلوۃ الرسول ص۳۷۰) جبکہ غیرمقلدین ان آٹھ رکعتوں کو دو دو
کرکے چار سلاموں میں پڑھتے ہیں۔
۳۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ تین وتر پڑھتے تھے اور
مولانا عبدلرحمٰن مبارکپوری غیرمقلد لکھتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ وتر کی یہ تین
رکعتیں ایک سلام کے ساتھ تھیں۔ (تحفۃ الاحوذی جلد۱ ص۳۳)
جبکہ غیرمقلدین صرف ایک وتر پڑھتے ہیں اور اگر کوئی تین وتر پڑھتا بھی ہے تو دو سلام کے ساتھ۔
۴۔ اس حدیث میں ہے کہ پیغمبرﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے
تھے جبکہ غیرمقلدین وتر سونے سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔۵۔ مذکورہ حدیث میں ہے کہ
نبی کریمﷺ یہ آٹھ رکعتیں نہایت خوبی اور درازی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن غیرمقلدین
یہ آٹھ رکعتیں مختصر اور ہلکی پھلکی پڑھتے ہیں۔
۶۔ حضرت عائشہؓ حدیث میں جس نماز کا تذکرہ کر رہی ہیں وہ
آپﷺ آخر شب (سحری ک وقت ) میں پڑھتے تھے۔ (بخاری جلد۱ ص۱۵۴) لیکن غیرمقلدین تراویح
نماز عشاء کے متصل بعد پڑھتے ہیں۔
۷۔ آنحضرتﷺ یہ نماز سونے کے بعد پڑھتے تھے۔ (رسالہ تراویح
ص۵۹)
جبکہ غیرمقلدین یہ
نماز سونے سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔
۸۔ اس حدیث میں نبی کریمﷺ کا یہ نماز گھر میں پڑھنا مذکورہے
(کیونکہ حدیث ھذا میں حضرت عائشہؓ اور آپﷺ کے درمیان بات چیت کرنے کا جوذ کر ہے یہ
دلیل ہے کہ یہ نماز آپﷺ گھر میں ہی پڑھتے تھے) بلکہ ایک روایت میں تو رسول اللہﷺ
نے نماز تراویح کو گھر میں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ (بخاری جلد۱ص۱۵۴)
٭ص۲۰۸٭
لیکن غیرمقلدین اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تراویح مسجد وں
میں پڑھتے ہیں۔
۹۔ حدیث میں مذکور ہ نماز کو آپﷺ نے بلا جماعت ادا فرمایا
لیکن غیرمقلدین اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں بلکہ ان کے فتاویٰ علمائے حدیث
میں تو تروایح کے لیے جماعت کو شرط قرار
دیا ہے۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد۶ ص۲۴۳)
۱۰۔ اس حدیث میں ہے کہ نبیﷺ آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد وتر بھی
بلا جماعت پڑھتے تھے لیکن غیرمقلدین پورا رمضان وتر کو تروایح کے ساتھ باجماعت
پڑھتے ہیں۔ تلك عشرۃ کاملۃ
غیرمقلدین حضرات نے اس حدیث کو صرف ایک شق (آٹھ رکعات) کو
تولے لیا لیکن اس حدیث کی ان دیگر شقوں کو جوان کے موقف کے خلاف تھیں ٹھکرادیا
گویا۔
میٹھا میٹھا ھپ ھپ کڑوا کڑوا تھو
اسی طرح و ہ حدیث عائشہؓ سے اسستدلال کرکے کی وجہ سے اپنے
اوپر وار شدہ اعتراجات کا جواب دینے کیلئے حضرت عمر فاروقؓ کے قائم کردہ طریقہ
جماعت سے تو استدلال کرتے ہیں لیکن ان کی مقرر کردہ بیس رکعات والی سنت کو ترک کر
دیتے ہیں۔
یہ لوگ بھی غضب کے ہیں، دل پر یہ اختیار !
شب مو م کر لیا سحر آہن بنا لیا۔
حضرات ! یہ ہے غیرمقلدین کی آٹھ تراویح کے اثبات میں پہلی
اور مرکزی دلیل جس کو وہ اپنے
زعم میں ایک غیر متزلزل پہاڑ سمجھتے ہیں
لیکن بحمد اللہ تعالٰی ہمارے ذکر کر دہ
ان دس جوابات (جو غیرمقلدین کے مسلمات اور
ان کے اکابر کی تصریحات کی روشنی میں ذکر کئے گئے ہیں) سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت
عائشہؓ کی مذکورہ حدیث کا غیرمقلدین کے دعویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث سے
ان کا مدہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا۔ ان دس
جوابات کے علاوہ اس دلیل کے اور بھی کئی جوابات ہمارے پیش نظر ہیں لیکن طوالت کے
خوف سے ان ہی دس جوابات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ انصاف پسند کیلئے یہی دس جوابات
کافی ہیں۔
تلک عشرۃ کاملۃ وفیه کفایه لعن لہ ہدایه
٭ص۲۰۹٭
دلیل نمبر ۲:۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول
اللہﷺ نے رمضان میں نماز پڑھائی آپﷺ نے آٹھ رکعتیںاوور وتر پڑھے۔ (صحیح ابن خزیمہ
جلد۳ص۱۳۸)
جواب نمبر۱:۔
یہ روایت غیرمقلدین کے بیان کردہ قاعدہ کے موافق منقطع ہے
کیونکہ اس روایت کو حضرت جابرؓ سے نقل کرنے والے راوی عیسیٰ بن جاریہ ہیں جن کے
متعلق حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :۔ من الرابعه۔ (تقریب جلد۱ص۷۶۹) کہ وہ چوتھے طبقے
کے راوی ہیں۔ اور چوتھے طبقے کے متعلق مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب غیرمقلد لکھتے
ہیں۔ چوتھا طبقہ وہ ہے جو تابعین کے طبقہ و سطی کے قریب ہے جن کی اکثر روایتیں
کبار تابعین سے لی گئی ہیں صحابہ سے
نہیں۔ (انوار المصابیح ص۲۸۰)
سو جب عیسیٰ بن جاریہ چوتھے طبقہ کے راوی ہیں اور بقول
مولانا رحمانی اس طبقہ والوں ی احادیث صحابہ کرامؓ سے مروی نہیں ہیں تو پھر جب
عیسیٰ نے بھی اسروایت کو حضرت جابرؓ سے
نقل کیا ہے جو صحابہ رسول ہیں تو
غیرمقلدین کے اصول کے مطابق عیسیٰ کی یہ رویات حضرت جابرؓ سے منقطع ٹھہری اور
منقطع روایت غیرمقلدین کے نزدیک حجت نہیں
بالخصوص جبکہ عیسیٰ نے یہ روایت حضرت جابرؓ سے لفظ عن کے ساتھ بیان کی ہے اور لفظ
عن کے متعلق مولانا نذیر رحمانی لکھتے ہیں
: عن میں احتمال معاصرت اور امکان لقاء کی گنجائش ہے مگر حافظ ابن حجر کے قول کے
بموجب صرف احتمال اور امکان کافی نہیں بلکہ معاصرت کا ثبوت شرط ہے حافظ
الصلاح کے قول کے بموجب تو ملاقات
کا ثبوت بھی شرط ہے۔ (انوار المصابیح
ص۲۹۵،۲۹۶)
بنابرین غیرمقلدین
حضرات کا فرض ہے کہ وہ اس روایت کا
تصال ثابت کرنے کیلئے عیسیٰ بن جاریہ اور حضرت جابرؓ کے درمیان ملاقات کا ثبوت یا
کم از کم معاصرت ہی ثابت کر دیں ورنہ اس
روایت سے استدلال کرنا چھوڑ دیں۔
٭ص۲۱۰٭
جواب نمبر۲:۔
اس حدیث کی سند کے اتصال و انتقطاع سے قطع نظر بھی اس حدیث
سے استدلال کرنا غلط ہے کیونکہ یہ حدیث نہایت ضعیف سند سے مروی ہے اس روایت کو
حضرت جابرؓ سے نقل کرنے میں عیسیٰ ن جاریہ منفرد ہیں اور عیسیٰ روایت حدیث میں
نہایت ضعیف اور مجروح راوی ہیں۔ پھر عیسیٰ بن جاریہ سے بھی اس روایت کو صرف ایک
راوی یعقوب قمی نے نقل کیا ہے اور یعقوب قمی بھی ضعیف راوی ہیں۔ قیام اللیل وغیرہ
میں اس روایت کا ایک تیسرا راوی محمد بن
حمید الرازی بھی بالاتفاق ضعیف اور کذاب ہے لہذ ا ایسی روایت جس کی سند ظلمات بعضھافون بعض کا
مصداق ہو اس سے حجت لینا ہر گز جائز نہیں۔ اب اس روایت کے تینوں راویوں کا حال
ملاحظہ کریں۔
۱۔ عیسیٰ بن جاریہ کا تعارف : حافظ ابن حجر عسقلانیؒ تہذیب
التہذیب جلد۸ ص۱۸۶، میں حافظ ابو الحجاج
مزی تہذیب الکمال جلد۱۴ ص۵۳۴،۵۳۳ میں اور حافظ ذھبیؒ میزان الاعتدال جلد۳ص۳۱۱ میں عیسیٰ بن جاریہ کے بارہ میں لکھتے
ہیں کہ:۔ ۱۔ امام الجرح والتعدیل حضرت یحیٰ بن معین فرماتے ہیں لیس بذالك کہ یہ
کچھ بھی نہیں ہے۔۲۔ امام ابن معین اس کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ عندہ
مناکیر کہ اس کے پاس منکر روایتیں ہیں۔۳۔ امام ابو داؤد اس کے بارے میں یہ بھی
فرماتے ہیں:۔ منکر الحدیث کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرقملد لکھتے ہیں کہ امام ابو داؤد اور حافظ ابن
حجر یہی دو حضرات ایسے ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ نہ متشدد ہیں اور نہ
متساہل ۔ امام ابو داؤد نے بے شک عیسیٰ بن جاریہ کو منکر الحدیث کہا ہے۔ یہی جرح
امام نسائی نے بھی کی ہے۔ (انوار
المصابیح ص۱۱۲) اس اقتباس سے حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد کا یہ کہنا غلط ثابت ہو گیا کہ ابو داؤد کی جرح
ثابت نہیں ہے۔ رسالہ تعداد رکعات قیام کا تحقیق جائزہ ص۶۴) ۵۔ امام نسائی بھی اس
کو منکر الحدیث کہتے ہیں۔ اور منکر الحدیث
راوی کون سا ہوتا ہے اس کی بابت مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد حافظ ابن حجر
سے نقل کر تے ہوئے لکھتے ہیں جس کی غلطیاں زیادہ ہوں یا غفلت باکثرت ہو یا فسق
ظاہر ہو اس کی حدیث منکر ہے۔ (توضیح الکلام جلد۲ص۶۲۸)
٭ص۲۱۱٭
مولاناا عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب غیرمقلد منکر الحدیث راوی
کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ حتی تکثیر المنا کیر فی روایته وینھی الٰی ان یقال فی
منکر الحدیث لان منکر الحدیث وصف فی الرجل یسحق بهالترک بحدیثه (ابکار المنن ص۱۹۹) منکر الحدیث وہ راوی ہے جو
منکر روایتیں ایسی کثرت سے بیان کرے کہ بالآخر اس کو منکر الحدیث کہا جانے لگے
لہذا منکر الحدیث راوی میں ایسا صف ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس بات کا مسٹھق ہوجاتا
ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی جائے۔
مولانا محمد گوندلوی صاحب سابق امیر جماعت الحدیث لکھتے ہیں
دوسری عبارت یعنی منکر الحدیث سے قابل اعتبار جرح ثابت ہوتی ہے۔ (خیر الکلام ص۱۶۰)
حافظ محمد اسحاق
صاحب غیرمقلد (مدرس جامعہ رحمانیہ لاہور ) ایک حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں ان
دونوں راویوں کے ضعیف بلکہ اول الذکر کے
منکر الحدیث ہونے کی بنا ء کر کہا جاسکتا ہے کہ حدیث ضعیف جدایا منکر کے درجہ تک
پہنچی ہوئی ہے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۲۰ ،۱۷ اگست ۱۹۱۲ء )
مولانا ارشار الحق اثری صاحب غیرمقلد الرفع التکمیل سے نقل
کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ پہلے الفاظ قابل اعتبار جرح نہیں بر عکس دوسرے منکر الحدیث
کے کہ وہ راوی پر ایسی جرح ہے جس کا ارتبار کیاجاتا ہے۔ (توضیح الکلام جلد۱ ص۴۹۹)
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھنے ہیں سوار منکر الحدیث یعنی سخت
ضعیف ہے۔ (توضیح الکلام ص۴۹۸)
ان اقتباسات سے ثابت ہوگیا کہ لفظ منکر الحدیث خود علمائے
غیرمقلدین کے نزدیک بھی انتہائی سخت قابل اعتبار اور مفسر جرح ہے۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد عیسٰی بن جاریہ پر لفظ
منکر الحدیث سے کی گئی جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں محدیثین کے اطلاقات میں
منکر الحدیث کا لفظ مختلف معانی میں مستعمل ہے بعض معنٰی کے اعتبار سے تو یہ سرے
سے کوئی جرح کا لفظ ہی نہیں چہ جائیکہ یہ کوئی شدید جرح ہو چنانچہ
٭ص۲۱۲٭
۱۔ حافظ عراقی لکھتے ہیں کہ بسا اوقات محدثین کسی راوی پر
منکر الحدیث کا اطلاق اس لیے کر دیتے ہیں کہ اس نے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے۔
(الرفع والتکمیل ص۱۴)
۲۔ حافظ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں کہ کبھی یہ لفظ ثقہ راوی پر بھی بول دیتے ہیں جبکہ اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثیں روایت کی ہوں۔
۳۔ حافظ زہبیؒ میزان میں لکھتے ہیں محدثین جب کسی راوی کی
بابت منکرالحدیث کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کی جتنی
روایتیں ہیں وہ سب منکر ہیں بلکہ اس کی جملہ روایتوں میں سے اگر بعض بھی منکر ہوں
تو اس کو منکر الحدیث کہہ دیتے ہیں (الرفع التکمیل )
دیکھئے ان اطلاقات کے مفہوموں میں باہم کتنا فرق ہے اس لئے
جب تک کسی معتبر دلیل سے ثابت نہ ہو جائے کہ امام ابو داؤد وغیرہ نے عیسٰی بن
جاریہ کو کس معنٰی کے اعتبار سے منکر الحدیث کہا ہے اس وقت تک قطعی طور پر یہ حکم
لگا دینا کہ اس کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی نری زبردستی ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۸)
لیکن رحمانی صاحب کا یہ جواب (حسب عادت ) محض سینہ زوری اور
فع الوقتی ہے ۔ کیونکہ انہوں نے لفظ منکر الحدیث کے اصل معنٰی (جو علمائے
غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہیں) چھوڑ کر جتنے بھی ضمنی معانی یہاں ذکر کئے ہیں ان میں
سے ایک معنٰی بھی یہاں عیسیٰ بن جاریہ کے
بارہ میں مراد نہیں ہو سکتا۔ اول معنٰی کا مراد نہ ہونا تو ظاہر ہے کیونکہ
عیسٰی بن جاریہ سے صرف ایک حدیث مروی نہیں بلکہ کئی اور روایات بھی مروی ہیں۔ مثلا
متصل آئندہ روایت جابر ؓ جس میں حضرت ابی بن کعب ؓ کا اپنے گھر میں آٹھ رکعات
پڑھانے کا ذکر ہے۔ اس روایت کو بھی حضرت جابرؓ
سے نقل کرنے والے یہی ابن جاریہ ہیں لہذا پہلے معنٰی کا یہاں مراد نہ ہونا
بالکل ظاہر ہے ۔ اسی طرح لفظ منکر الحدیث کا دوسرا معنٰی جو رحمانی صاحب نے حافظ
سخاوی سے نقل کیا ہے۔ وہ بھی یہاں مراد نہیں کیونکہ عیسٰی بن جاریہ نے ان راویوں سے (بشرط ثبوت) روایات نقل کیں
ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ حضرت جبیر بن
عبداللہؓ حضرت شریکؓ حضرت سالمؒ بن عبداللہ ؒسعید بن المسیبؒ ابو سلمہؒ
عبدالرحمٰین ؒ بن عوف تہذیب الکمال جلد۱۴ص۵۳۳ تہذیب التہذیب جلد۸ ص۱۸۶ اور یہ سب
راویو ثقہ اور عادل ہیں بلکہ اول الذکر
تینوں صحابہ کرام ہیںؓ میں سے ہیں۔ اور باقی سب ثقہ اور مشہور تابعین ؒ ہیں
لہذا یہ معنٰی لینا کس طرح درست ہو سکتا
ہے کہ عیسٰی بن جاریہ خود تو ثقہ راوی ہیں لیکن اس نے ضعیف راویوں سے منکر
حدیثین روایت کی ہیں۔ نعوذبا اللہ بن ذالک
اور لفظ منکر الحدیث کے تیسرے معنٰی جو رحمانی صاحب نے حافظ
زھبیؒ سے الرفع التکمیل کے حوالہ سے ذکر کئے
ہیں اسس کی اصل نہیں ہے کیونکہ الرفع والتکمیل میں مولانا عبدالحئی صاحب
لکھنویؒ نے حافظ ذھبیؒ سے یہ قول یوں نقل
کیا ہے کہ حافظ ذھبیؒ نے میزان الاعتدال میں عبداللہ بن معاویہ الزھیری کے ترجمہ
میں لکھا ہے فولهم منکر الحدیث
٭ص۲۱۳٭
لا یعدون به ان کل ماوراہ منکر الخ (الرفع والتکملص۲۰۱)
لیکن حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ عبداللہ
زھیری کے ترجمہ میں میزان الاعتدالا کے کسی مطبوعہ نسخے میں موجود نہیں ہیں جیسا کہ ششیخ ابو عدہ
عبد الفتاح صاحب نے الرفع والتکمیل کے حاشیہ میں اس کی تصریح کی ہے۔ دیکھئے حاشیہ نمبر ۳ الرفع والتکمیل
ص۲۰۱ مطبوعہ مکتبہ الدعوۃ الاسلامیہ پشاور
اور میزان الاعتدال کا جو نسخخہ خود غیرمقلدین کے مکتبہ اثر یہ سانگلہ اہل شیخو
پورہ نے شائع کیا ہے اس میں بھی عبداللہ
زہیری کے ترجمہ میں حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ
مولانا لکھنویؒ کا یہ الفاظ نقل کرنا ان
کے سہو قلم کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم ۔ اور بالفرض اگر حافظ ذھبیؒ کے یہ الفاظ کے
کسی اور نسخہ میں ہوں تب بھی تو پھر بھی
یہ الفاظ عیسٰی بن جاریہ کے حق میں کچھ
بھی مفید نہیں کیونکہ اس سے جتنی روایات مروی ہیں ان کے متعلق کسی محدث نے یہ
تصریح نہیں کی کہ عیسیٰ کی مروی روایات میں سے صرف بعض روایات منکرر ہیں اور باقی
صحیح ہیں اور یہ اس کی یہ مذکورہ روایت ان منکر روایتوں میں شامل نہیں ہے۔ اذلیس
فلیس ۔
الغرض رحمانی صاحب نے جتنے معنٰی بھی لفظ منکر الحدیث کے
ذکر کیے ہیں ان میں سے کوئی معنٰی بھی عیسٰی بن جاریہ جیسے منکر الحدیث راوی
کے بارے میں مراد نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے
حق میں وہی معنٰی مراد ہیں جو ہم نےغیر مقلدین کے علمائے سے نقل کئے ہیں۔ اور اس
پر ونیل اور قرینہ یہ ہےکہ امام الجرح واتعدیل حضرت یحیٰ بن معین نے اس کے بارے
میں عندہ مناکیر کا مطلب یہ بیان کیا ہےک ہ اس سے لی گئی احادیث (یعنی بکثرت) منکر
ہیں۔ (سیرت المصطفٰی ص۱۳۸) (فتاویٰ اہل حدیث جلد۱ ص۳۱۴) اسی طرح ابن معین کے الفاظ عندہ مناکیر جملہ
اسمیہ ہے جس میں دوام اور استمرار ہوتا ہے۔ اب عندہ مناکیر کا مطلب ہوگا کہ اس
راوی نے بکثرت منکر روایتیں نقل کی ہیں
اورر بعینہ یہی معنٰی لفظ منکر الحدیث کا مولانا مبارک پوری صاحب وغیرہ نے نقل کیا
ہے کہ
جو راوی بکثرت سے منکر روایتیں نقل کرے الخ لہذا رحمانی صاحب کا لفظ منکر الحدیث کا اپنی مرضی کا معنٰی لینے کی کوئی دلیل موجود نہیں
ہے۔
اشکال ثانی:۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ لفظ منکر الحدیث جرح
مبہم ہے کیونکہ مستند علمائے نے اس کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ علمہ
سندھیؒ لکھتے ہیں:۔ کسی محدث کا کسی راوی کے حق میں منکر الھڈیث کہنا ایسی جرح ہے
جو بیان سبب سے خالی ہے ۔ کیونککہ اس جرح کا حاصل یہ ہےکہ یہ راوی ضعیف ہے
اور اسی کے اس نے ثقات کی مخالفت کی ہے
لہذا ضعیف کہنا بلا شبہ جرح مبہم ہے۔ الخ (انورار المصابیح ص۱۱۹،۱۲۰)
جواب :۔ رحمانی صاحب نے دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ مسند علماء
نے اس کے جرح مبہم ہونےک ی تصریح کی ہے لیکن ان کو کافی کوشش و محنت کے باوجود اس دعویی کے اثبات میں صرف علامہ
سندھی کا ہی حوالہ مل سکا ورنہ رحمانی کا اپنی پوری کتاب میں یہ طرز ہے کہ اگر کسی
مسئلہ کی تحقیق میں کوئی ضعیف سے ضعیف قول بھی ہاتھ آجائے تو اس کو بھی ذکر کر نے
سے دریغ
٭ص۲۱۴٭
نہیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ منکرالحدیث کو جرح مبھم کہنے
والوں کے دلائل فی کل کائنات صرف علامہ
سندھی ؒ کا یہ قول ہے لیکن الحمد للہ تعالٰی ہم نے صرف غیرمقلدین کے کئی مستند
علماء کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ مفسر اور نہایت سخت جرح ہے اور رحماننی صاحب
کے استاذ اور غیرملقدین کے محقق اعثم مولانا مبارکپوری صاحب کا حوالہ گزر چکا ہے
کہ لفظ منکر الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی کثر سے منکر روایتیں بیان کرے
اور یہی جرح مفسر ہے کیونکہ جرح مفسر کا
مفہوم یہی ہے کہ اس میں جرح کا سبب مذکور ہو اور لفظ منکر الحدیث میں بھی جرح
کا سبب یعنی راوی کا کثرت سے مناکیر نقل
کرنا موجود ہے لہذا اس کو جرح مبھم کہنا غلط ہے ۔ رحمانی صاحب نے علامہ سندھی ؒ کا
جو قول نقل کیا ہے یہ جرح مبھم ہے تو اس کا جواب یہ ہےک ہ اگر انہوں نے لفظ منکر
الحدیث کو جرح مبھم کہا تو ساتھ انہوں نے
یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ جب یہ اس معنٰی
میں ہو کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اسس نے
ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ چنانچہ علامہ سندھیؒ فرماتے ہیں :۔انه ضعیفف خالف
الثقه (الرفع والتکمیل ص۲۰۴) لیکن جس معنٰی میں علامہ سندھی نے لفظ منکر الحدیث کو
جرح مبھم کہا ہے وہ معنٰی عیسٰی بن جاریہ کے
بارے میں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو منکر الحدیث کہنے کے ساتھ عندہ
مناکیر بھی کہا گیا ہے اور پہلے گزر چکا ہے کہ یہ لفظ اس راوی کے حق میں بولا جاتا ہے جس نے کثرت سے منکر روایتیں نقل
کی ہوں اور یہ جرح مفسر ہے اور خود علامہ سندھی بھی اس معنٰی میں لفظ منکر الحدیث
کو جرح مفسر مانتے ہیں ۔چانچہ فرماتے ہیں ۔ وانما تصر کثر المنا کیر و کثرۃ
مخالفه ۔ حوالہ سابقہ۔ راوی کا کثرت سے
منکر روایتیں نقل کرنا اور کثرت سے ثقات کی مخالفت کرنا مضر یعنی جرح مفسر ہے لہذا
جس منعٰی میں عیسیٰ بن جاریہ منکر الحدیث ہے اس معنیٰ میں یہ لفظ خود علامہ سندھی ک
نزدیک بھی جرح مضر اور مفسر ہے تو یوں غیرمقلدین کا آخری سہارا علامہ سندھیؒ کا
حوالہ بھی ان کے ہاتھ سے نقل گیا۔
؏ جن به نکیه تھاوہی پتے ھوا دینے لگے
۶۔ امام نسائی نے عیسٰی بن جاریہ کو منکر الحدیث کے ساتھ
ساتھ متروک بھی فرمایا ہے۔ اور مشہور غیرمقلد مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے
ہیں کہ کذاب ، متروک لیس بثقہ کے الفاظ
شدید جرح میں شمار ہوتے ہیں۔ (توضیح
الکلام جلد۲ ص۶۰۸)
نیز اثری لیس بثقہ جس لفظ کو انہوں نے متروک کے ہم درجہ
شمار کیا ہے فرماتے ہیں یہ الفاظ جرحی کلمات میں دوسرے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں جن کی
روایت قابل استشہاد و اعتبار نہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۷۱۷)
اب بقول مولانا اثری صاحب غیرمقلد عیسیٰ بن جاریہ پر امام
نسائی نے اتنی شدید جرح کی ہے کہ ایسے راوی کی روایت سے استدلال تو کیا اس کی
روایت متابعت اور استشہاد میں بھی پیش کرنے کے قابل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود
٭ص۲۱۵٭
غیرمقلدین حضرات اپنے طے شدہ اصولوں کی ذرا برابر ہروا نہیں کرتے اور عیسیٰ بن جاریہ کی روایت سے
صرف استشہاد ہی نہیں بلکہ استدلال کئے
بیٹھے ہیں۔
؏ ایں چه بوالعجیست
۷۔امام ابن عدی فرماتے ہیں احادیثہ غیر محفوظۃ کہ عیسٰی یہ جاریہ کی بیان کر دہ حدیثیں غیر محفوظ
ہیں مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد اس جلہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں۔ یعنی محفوظ
کا مقابل اور اس کا غیر ہیںں جن کا اصطلاعاً شاذ کہتے ہیں۔(انوار المصابیح ص۱۱۷)
اب غیرمقلدین کے وکیل اعظم
مولانا رحمانی صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ ابن جاریہ کی بیان کر دہ حدیثیں
غیر محفو ظ اور شاذ ہیں اور جس راوی کی روایتیں شاذ ہوں وہ راوی کیسا ہوتا ہے۔
ایسے راوی کا تعارف بھی رحمانی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کریں، چنانچہ فرماتے ہیں ۔
اگر حفظ کے اعتبار سے بہت گرا ہوا راوی نہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہو گی اور اگر اسسس
کے خلاف ہو یعنی حفظ کے اعتبار سے بہت گرا ہوا راوی ہو تو البتہ (اس کی) وہ روایت
شاذ و ممنکر کہی جائے گی۔(انوار المصابیح ص۱۲۳)
گویا عیسٰی بن جاریہ
حفظ کے اعتبار سے اتنا گراہوا راوی ہے کہ بقول رحمانی صاحب غیرمقلد اس کی
وجہ سے اس کی حدیثیں غیر محفوظ اور شاذ ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہی امام ابن
عدیؒ جنہوں نے عیسٰی بن جاریہ کی روایتوں کو غیر محفوظ اور شاذ فرمایا ہے انہوں نے حدیث ابن عباسؓ کے راوی
ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ ؒ کی روایتوں کو صالح اوور درست کہا ہے۔ (تہذیب الکمال
جلد۱ ص۳۹۳) اب ابو شیبہ کی بیان کر دہ حدیث تو غیرمقلدین کے نزدیک موضوع اور نہایت ضعیف ہے ۔ لیکن جس راوی (عیسیٰ بن
جاریہ) کی روایات ابن عدی کے نزدیک غیر محفوظ ہیں اس کی بیان کر دہ یہ حدیث
غیرمقلدین کے ہاں قابل استدلال ہے۔
؏ ناطقہ سر بگریبان
ہے اسے کیا کہئے
۸۔ امام عقیلیؒ نے عیسٰی بن جاریہ کو ضعفاء یعنی ضعیف راویوں میں شمار کیا
ہے۔
۹۔ امام ساجیؒ نے بھی اس کو ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔
مولانا نذیر رحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں عیسٰی بن جاریہ کے
جارحین میں چار حضرات ابن معین ، نسائی ،عقیلی، ابن عدی کا متعثین میں شمار ہونا تو بالکل واضح ہے اسی طرح ساجی جرح و
تعدیل کے باب میں مثبت اور متیقظ نہ تھے بلکہ قسابل یا متشدد تھے اور ایسے لوگوں
کی '
٭ص۲۱۶٭
جرح و تعدلیل مقبول نہیں۔ (انوار المصابیح ص۱۱۲)۔ جواب رحمانی صاحب کا یہ اشکال بالکل بے وقعت ہے
کیونکہ اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ
حضرات متشدد اور متعنت تھے تو پھر بھی انکی جرح مقبول ہے کیونکہ ابن جاریہ کے
جارحین میں امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجرؒ بھی ہیں جن کے متعلق خود رحمانی صاحبل
کھتے ہیں کہ یہ نہ متشدد ہیں اور متساہل۔(ص۱۱۲)۔ رحمانی صاحب یہ اصول بھی کھلے دل
سے تسلیم کرتے ہیں کہ جب متشدد جارح کی موافقت کوئی معتدل جارح کر دے تو پھر متشدد
جارح کی جرح بھی مقبول ہو جاتی ہے۔ (انوار
المصابیح ص۱۱۳)۔ پس جب امام نسائی اور
امام ابن معینؒ ،امام ابن عدیؒ اور امام ساجی اور امام عقیلی کو متشدد کہہ کر ان
کو جرح کو رد کرنا انصاف و دیانت سے جی چرانے والی بات ہے۔
۱۰۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس کے بارے میں لکھتے
ہیں ۔ فیه لین (تقریب التہذیب جلد۱ ص۷۷۹)
کہ عیسٰی بن جاریہ روایت حدیث میں کمزور (یعنی ضعیف) ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے فیه کو الفاظ جرح و تعدیل کے چھٹے طبقہ
میں شمار کیا ہے۔(انوار المصابیح ص۱۱۶)
علامہ احمد شاکر غیرمقلد فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجررؒ کے
بیان کردہ طبقات سے میں صرف پہلے چار
طبقوں کی روایات حجت ہیں۔ اور چوتھے طبقہ کے بعد والے طبقات والے راوی کی روایات
مردود ہیں وہ روایت کثرت طرق سے مروی ہو۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ حافظ بن حجرؒ کی جرح
سے عیسیٰ کی روایت کا ترک ہونا لازم نہیں انہوں نے تقریب میں صرف فیہ لین کہا ہے۔
محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اوور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں
شمار کیا ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۱۵) نیز فرماتے ہیں کہ امام دارقطنیؒ جیسے ناقدر
رجال کے نزدیک ایسا راوی نہ ساقط العدالت ہے اور نہ اس کی حدیث قابل ترک (ص۱۱۶)
جواب:۔ غیرمقلدین حضرات کی عادت شریفہ ہے کہ جب کوئی روایت ان کے مسلک اور خواہش
کے موافق ہو تو وہ اسے سر آنکھوں پر رکھتے ہیں چاہئے اس میں کوئی کتنا ضعیف راوی کویں نہ ہو اور پھر
اس راوی پر کی گئی جرح کو وہ طرح طرح کی
رکیک تاویلوں اور مختلف بہانوں سے ٹال دیتے ہیں لیکن اسی قسم کی جرح جب کسی ایسے
راوی پر ہو جس کی روایت سے ان کے مسلک پر
زر پڑتی ہو تو پھر یہ حضرات اس جرح کو انکھیں بند کرکے قبول کر لیتے ہیں اور اس
جرح کے سہارے وہ اس راوی اور اس کی مروی روایت کوضعیف سے ضعیف قرار دیتے ہیں یہ
یحال نذیر رحمانی صاحب کا ہے کہ یہاں یہ روایت ان کے مسلک کے موافق آئی تو اس
٭ص۲۱۷٭
کے راوی عیسیٰ بن
جاریہ پر حافظ ابن حجرؒ کی جرح جیہ لین کو
یوں کہہ کر ٹال دیا کہ بہت ہلکی اور معمولی درجہ کی جرح ہے اور راوی کا ضعیف ہونا
اوور اس کی روایت کا قابل ترک ہونا لازم نہیں اتا ۔ لیکن ان کا دو غلا پن ملاحظہ
کریں کہ جب حافظ ابن حجرؒ کی یہی جرح غیرمقلدین کے مسل ک کے مخالف روایت کے راوی
پر آئی تو اسے فوراً قبو ل کر لیا اور اس روایت اور اس کے راوی کو سخت ضعیف قرار
دے دیا ۔ چنانچہ رحمانی صاحب ایک روایت کا
جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ورنہ حق تو یہ ہے کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے اس کا
ایک راوی نضر بن شیبان بالکل ضعیف ہے۔
(انورا المصابیح ص۸۷)
حالانکہ نضر بن شیبان
کے بارے میں بھی حافظ ابن حجرؒ نے تقریب
التہذیب میں لین الحدیث کہا ہے۔ (تقریب جلد۲ ص۲۴۵)
جو بقول رحمانی صاحب نہایت ہلکی اور معمولی درجہ کی جرح
کی ہے۔ اب قارئین اندازہ کریں کہ عیسٰی بن
اریہ اور نضر بن شیبان پر حافظ ابن حجرؒ نے ایک ہی قسم کی جرح کی ہے لیکن عیسٰی بن
جاریہ تو اس جرح کی وجہ سے رحامنی صاحب کے نزدیک ضعیف نہ ہوئے بلکہ بدستور ثقہ ہی اور اس کی روایت بھی صحیح
اور قابل احتجاج ہے لیکن نظر بن شیبان حافظ صاحب کی اسی جرح سے باوجود رحامنی صاحب
کی نظروں میں بالکل ضعیف ٹھہرا اور اس کی
حدیث بھی ضعیف قرار پائی۔
تیری بات کو بت حیلہ گرنہ قرار ہے نہ قیام ہے
کبھی شام ہے کبھی صبح ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے
حضرات ! عیسٰی بن جاریہ پر مشہور ائمہ رجال کی طرف سے یہ
مذکورہ دس کلمات جرح منقول ہیں اور ان میں
سے اکثر میں(عندہ مناکیر ، منکر الحدیث اور مترول وغیرہ) خود علمائے
غیرمقلدین کے نزدیک بھی مفسر اور نہایت سخت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جرح کے ذیل میں غیرمقلدین کے علماء
کے حوالے آپ نے ملاحظہ کئے ہیں۔ اس میں سے اگر ایک جرح بھی عیسٰی بن جاریہ پر عائد ہوتی تو یہ اس
کی اس روایت کے ضعیگ اور ناقابل استدلال
ہونے کیلئے کافی تھی چہ جائیکہ عیسٰی ابن تمام جرحوں کے ساتھ مجروح ہے۔لیکن
غیرملقدین کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو کہ ان کو
عیسٰی بن جاریہ پر کی گئی جرحوں کے سنگین ہونے کا ااقرار بھی ہے ۔
لیکن اس کے باوجود اس کو ثقہ ٹھہرانے اور
اس کی مذکورہ روایت کو قابل استدلال بنانے میں ست تا پاؤں غرق ہیں۔
عیسیٰ بن جاریہ کو ثقہ ثابت کرنے کی ایک کوشش اور اسس کا
جواب:۔
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتا ہےکہ عیسٰی بن جاریہ جمہور
علماء کے نزدیک ثقہ صدوق یا حسن الحدیث ہے۔ چنانچہ ۱۔ ابو زعہ نے اس کے بارے میں
کہا لاباس به۔۲۔ ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا۔
٭ص۲۱۸٭
۳۔ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ۔ ۴۔ المیثمی نے اس کی حدیث کی تحسین
کی ۔ ۵۔ الیوصیری نے زوائد سنن ابن ماجہ میں اس کی حدیث کی تحسین کی ۔ ۶۔ حافظ
منذری نےااس کی ایک حدیث کو باسناد جید کہا۔ ۷۔ الذھبی نئ اس کی منفرد حدیث کے
بارے میں اسناد و وسط کہا۔ ۸۔ بخاری نے التاریخ الکبیر میں اسے ذکر کیا ہے اور اس
پر طعن نہیں کیا۔ ۹۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح البارری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔ یہ
سکوت اس کی حدیث کی تحسین یا تصحیح کی
دلیل ہے قواعد علوم الحدیث ص۵۵۔ ۱۰۔ ابو حاتم الرازی نے اسے ذکر کیا ہے اور اس پر
کوئی جرح نہیں کی۔ ابو حاتم کا سکوت راوی
کی توثیق ہوتی ہے۔ حوالہ سابق لہذا یہ حدیث حسن ہے۔ (نورا لمصابیح ص۱۸)
جواب:۔ زبیر صاحب نے عیسٰی بن جاریہ کو ثقہ اور حسن الحدیث
ثابت کرنے کیلئے یہ جتنی شقیں ذکر کی ہیں ان میں سےایک شق سے بھی اس کا ثقہ ہونا
ثابت نہیں ہوتا ۔ زبیر صاحب کی ذکر کردہ ہر ہر شق کا جواب خود ان کے ہم مسلک
اور مستند علماء کے قلم سے ملاحظہ کریں۔
۱۔ امام ابو زرعہؒ کا ابن
جاریہ کو لابأس به کہنا اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہے۔
جس راوی کو سات بڑے بڑے ائمہ رجال نے ضعیف منکر الحدیث اور
متروک وغیرہ قرار دیا ہو ان کے مقابلے میں صرف امام ابو زرعہ کے لابأس به کہنے سے
کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ عنقریب علمائے غیرمقلدین کے حوالہ سے یہ بحث آنے ولای ہے
کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے بالخصوص جبکہ جرح مفسر ہو۔ نیز لاباس به کا لفظ خود
علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی الفاظ تعدیل میں سے نہایت پلکا اور کمزور ہے ۔ اس سے اس راوی کی
رویت کا قابل احتجاج ہونا لازم نہیں آتا۔ چنانچہ مشہور غیرمقلد مولانا ارشادد
االحق اثری صاحب لکھتے ہیں۔ ارجوانه لاباس به یکتب حدیثه یعتبر به ایسے الفاظ ہیں
کہ ان کے حاملین کی رووایت قابل احتجاج نہیں ہوسکتی ۔(توضیح الکلام جلد۱ ص۱۳۲)
نیز لکھتے ہیں کہ ایسے راوی کی روایات صرف متابعت میں قبول ہوتی ہیں۔
بنا بریں غیرمقلدین کا عیسٰی بن جاریہ کی روایت سے احتجاج
کرنا باطل ہو گیا ۔ اور یہ بات یاد رہے
٭ص۲۱۹٭
کہ زبیر علی زئی مولانا ارشاد اثری صاحب غیرمقلد اور ان کی کتاب تو ضیح الکلام کے نہایت مداح
ہیں۔ چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی روضیح الکلام
کا مطالعہ کریں۔ یہ اس موضوع پر لاجواب شاہکار کتاب ہے۔ (الکواکب الدرپہ ص۵۸) اب
ہم نے زبیر صاحب کے مطالعہ پر اس لاجواب اور شاہکار کتاب کا مطالعہ کر کے زبیر
صاحب کی پہلی شق کا جواب دے دیا الحمدللہ تعالٰی۔
۲۔ ابن حبان ؒ کا کسی راوی کو ثقات میں ذکر کرنا غیرمقلدین
کے نزدیک غیر معتبر ہے۔
امام ابن حبان نے اگرچہ عیسٰی بن جاریہ کو ثقات میں ذکر کیا
ہے لیکن ابن حبان ؒ کا کسی راوی کو ثقات
میں ذکر کرنا غیرمقلدین کے نزدیک غیر معتبر ہے اور وی اس سلسلہ ممیں ان کے نزدیک
متسابل شمار ہوتے ہیں چنانچہ مولانا محمد گوندلوی صاحب غیرمقلد ایک راوی کو ابن
حبان کے ثقات میں شمار کرنے پر لکھتے ہیں: ابن حبان نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے
مگر ابن حبان کا تسابل مشہور ہے۔ (خیر الکلام ص۲۵۳)
مولانا عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں واضح رہے کہ ابن
حبان کا اس ثقات میں ذکر کرنا معتبر نہیں کیونکہ وہ مجاہیل کو ثقات میں شمار کرتے
ہیں۔ (القول المقبول ص۳۲۵)
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں ابن حبان متساہل ہیں
۔(توضیح الکلام جلد۲ص۲۱۹)
شیخ البانی صاحب غیرمقلد ایک راوی کے بارہ میں لکھتے ہیں
وانما و ثقه ابن حبان وھو معروف بتساھله (سلسلۃ احادیث ضعیفه جلد۱ص۴۶۶)
ایک اور راوی کے بارے میں لکھتے ہیں حافظ ابن حبان نے اسے
ثقات میں ذکر کیا ہے مگر ان کا ثقات میں
ذکر کرنا معتبر نہیں۔ (سلسلۃ الضعیفه ص۵۶۰)
مولانا رفیق سلفی غیرمقلد لککھتے ہیں کہ :۔ ابن حبان
کی توثیق کو ائمہ رجال کچھ واقعت نہیں
دیتے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۱۵۔ ۹ ستمبر ۱۹۹۴ء)
٭ص۲۲۰٭
غیرمقلدین کے محدث اعظم مولانا عبداللہ روپڑی صاحب لکھتے ہیں:۔ ابن حبان کا تسابل مشہور ہے۔
ذرا سے سہارے پر ثقوں میں شمار کر لیتے
ہیں۔(فتاویٰ اہل حدیث جلد۲ ص۵۰۸)
زبیر صاحب کے استاذ اور مشہور غیر مقلد عالم عبدالمنان نور
پوری صاحب بھی لکھتے ہیں کہ:۔ مگر تصحیح میں ابن حبان اور ابن خزیمہ کا تساہل مشہور ہے۔(تعداد تراویح ص۳۴)
لہذا جب خود علمائے غیرمقلدین کے نزدیک بھی امام ابن حبان
کا کسی راوی کو ثقات میں شمار کرنا غیر معتبر
ہے تو پھر اگر ابن حبان نے عیسٰی بن جاریہ کو بھی تسابل برتتے ہوئے ثقات میں شمار
کر دیا ہے تو اس سے ابن جاریہ کا ثقہ ہونا کیسے لزم آئے گا؟
۳۔ ابن خزیمہؒ نے حدیث ابن جاریہ کی تصحیح نہیں فرمائی:۔
امام ابن خزیمہ ؒ نے عیسٰی بن جاریہ کی مذکور ہروایت کو
قطعاً صحیح نہیں کہا۔ لہذا زبیر عی زئی صاحب کا یہ ککہنا جھوٹ ہے اور
ابن خزیمہؒ جیسے اعظیم محدث پر صریح بہتان ہے کہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے۔ البتہ امام ابن خزیمہؒ اور ان کے شاگرد امام ابن حبان نے اپنی اپنی
صحیح میں مذکورہ روایت ذکر کیا ہے۔(انوار المصابیح ص۱۴۸)۔ لیکن کیاا ان دونوں اہل
علم کا کسی حدیث کو محض اپنی اپنی صحیح میں ذکر کرنا اس حدیث کی صحیح ہونے ی دلیل ہے؟ اس سوال کا جواب ہم سے نہیں بلکہ زبیر علی زئی صاحب کے مدوحوں اور
ہم مسلک مولانا ارشاد الحق اثری صاحب سے ملاحظہ کریں۔ چنانچہ اثری صاحب
غیرمقلد اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے
ہوئے فرماتے ہیں یسے ابن خزیمہ اور صحیح
ابن حبان ہیں مگر ان کی بھی تماما روایات
صحیح نہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۲۶۴)
اس سے معلوم ہوا کہ ابن خذیمہ یا ابن حبان کا کسی حدیث کو
اپنی صحیح میں لانے سے اس حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا بلکہ امام ابن خزیمہؒ
نے اپنی صحیح میں جن احادیث کی صراحتاً تصحیح کی ہے ان حادیث کی صحت بھی غیرمقلدین
کا تسلیم نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا عبدلرحمٰن
مبارکپوری صاحب امام ابن خزیمہؒ کے ایک حدیث کو صحیح قرار دینے کے جواب میں لکھتے
ہیں۔ فی تصحیح ابن خزیمہ نظر (ابکار المنن ص۱۰۰ بحوالہ تراویح ایک تحقیقی جائزہ
ص۲۲۰)
٭ص۲۲۱٭
امام ابن خزیمہ کی تصحیح میں نظر ہے۔
غیرمقلد محقق مولانا عبدالرؤف سندھو صاحب ایک حدیث کے بارے
میں لکھتے ہیں ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے ملاحظہ ہو (صحیح ابن خزیمہ جلد۲ص۲۷) مگر یہ حدیث صحیح نہیں۔(القول
المقبول ص۳۶۶)
پس جب
غیرمقلدین کے نزدیک ابن خزیمہؒ کا
اپنی صحیح میں کسی حدیث کی تصحیح کرنا اس حدیث کی صحت کو مستلزم نہیں تو پھر عیسٰی بن جاریہ کی مذکورہ
حدیث جس کی ابن خزیمہ نے تصحیح بھی نہیں کی بلکہ صرف اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اس
کا صحیح ہونا کیوں کر لازم آئے گا؟ غالباً یہی وجہ ہے کہ زبیر صاح کے استاذ مولانا
عبدلمنان نور پوری صاحب غیرمقلد کو اس حدیث کی
صحت میں توقف ہے۔ چنانچہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: حضرت جابرؓ کی
حدیث کو حافظ ابن حبان اور حافظ ابن خزیمہ نے اپنی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے جو
اس بات کی بیس دلیل ہے کہ یہ حدیث ان دونوں جلیل القدر وسیع العلم کے نزدیک صحیح
ہے مگر تصحیح میں ان کا تسابل مشہور ہے ا کی سند میں عیسٰی بن جاریہ ہے۔ جس پر کلام کتب رجال میں مذکور ہے۔
(تعداد تراویح ص۳۴)
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
۴۔ علامہ ہیثمی کی تصحیح و تحسین بھی غیرمقلدین کے ہاں
معتبر نہیں۔
علامہ ہیثمیؒ نے
اگرچہ اس حدیث کا حسن کہا ہے لیکن اس کے راوی ابن جاریہ کو ثقہ نہیں کہا۔
زبر علی زئی نے مجمع الزوائد (ج ۲/ص۱۵۸) کا حوالہ دیا ہے کہ ہیثمیؒ نے اسے ثقہ کہا ہے لیکن ان کے
محوالہ صفحہ پر عیسٰی بن جاریہ کی توثیق تو کیا اس کا نام بھی نہیں ہے۔ بالفرض اگر
علامہ ہیثمی نے کہیں اس کو ثقہ کہا بھی ہے تو غیرمقلدین کو ان کی توثیق سے اتفاق
نہیں ہے جیسا کہ اوپر کتاب میں علمائے غیرملقدین کے حوالے مذکور ہیں۔
علامہ ہیثمی کی تصحیح و تحسین غیرمقلدین کی نظروں میں غیر
معتبر اور ناقابل اعتماد ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالرحمٰن مبارک پورری صاحب لکھتے ہیں
ولا یطمئن القلب یتحسین الہیثمی فان لہ اوھا مافی مجمع الزوائد (ابکار المنن ص۵۷)
ہیثمی کی تحسین سے دل مطمین نہیں ہے کیونکہ ان کو مجمع
الزوائد میں بہت وہم ہوئے ہیں۔ نیز مبارکپوری صاحب غیرمقلد
٭ص۲۲۲٭
علامہ ہیثمیؒ کے ایک حدیث کو صحیح کہنے پر گرفت کرتے ہوئے
لکھتے ہیں۔ ولا یطمئن القب علی تصحیح الھیثمی (ابکار المنن ص۱۹۹)
علامہ ہیثمیؒ کی تصحیح پر دل مطمئن نہیں ہے۔
مولانا محمد گوندلوی کے بارے میں زبیر صاحب لکھتے ہیں شیخ
الاسلام حجۃ الاسلام شیخ القرآن والحدیث ، الامام الثقہ المتقن الحجۃ الحدث الفقیہ
الاصولی محمد گوندلوی رحمۃ اللہ ۔(الکواکب الدریہ ص۷)
زبیر صاحب کے یہ انتہائی ممدوح غیرمقلد عالم علامہ
ہیثمیؒ کی تصحیح پر اپنا رد عمل یوں ظاہر
کرتے ہیں۔ ہیثمی کی تصحیح میں نظر ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔ فان لہ اوھا م (کہ ان کے بہت سے وہم ہیں) کذافی تاج
المکل (التحقیق الراسخ ص۵۷) زبیر صاحب کے
دوسرے ممدوں مولانا ارشاد الحق اثری قمطراز ہیں۔ اور جہاں تک کسی حدیث کے متعلق
علامہ ہیثمیؒ کے حکم کا تعلق ہے تو یقین جانئے مجمع الزوائد میں بیسوں ایسے مقامات
ہیں جہاں ائمہ فن نے علامہ ہیثمیؒ کے حکم سے اتفاق نہیں کیا ۔(توضیح الکلام جلد۲ ص۴۰۹)
شیخ عبدلروف سندھو
غیرمقلد لکھتے ہیں: دوسرے بات علامہ
ہیثمیؒ پر کلیۃ اعتماد کرنا بھی صحیح نہیں یونکہ ان کے بہت سے اوبام ہیں ۔(القول
المقبول ص۳۳۵)
نیز سندھو صاحب ایک
حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : حافظ ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد میں اس کی سند کو حسن
کہا ہے مگر ان کا یہ کہنا درست نہیں۔ اس
کی سند میں عاصم بن عبید اللہ ہے جو ضیعف ہے۔ (القول المقبول ص۴۷۴)
بنابریں جب غیرمقلدین کے نزدیک علامہ ہیثمیؒ کی کسی حدیث کی
تحسین نا تصحیح کرنے سے اس ھدیث کا صحیح
یا حسن ہونا لازم نہیں اتا تو پھر اگر انہوں نے عیسٰی بن جاریہ جیسے ضعیف
راوی کی روایت کو بھی حسن کہہ دیا ہے تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ غیرمقلدین کو
اپنے بڑوں کی اتباع میں ان کے اس حکم پر بھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
۵۔ علامہ بوصیری کی تحسین بھی غیرمقلدین کے نزدیک کطھ وقعت
نہیں کرھتی :
علامہ بوصیریؒ نے عیسٰی بن جاریہ کی مذکورہ روایت کو حسن
نہیں کہا اور اگر انہوں نے اس کے علاوہ اس کی کسی اور حدیث کی تحسین کی بھی ہے تو
ان کی تحسین و تصحیح پر بھی غیرمقلدین کا اعتماد نہیں ہے۔
٭ص۲۲۳٭
چنانچہ انہوں نے زوائد سنن
ابن ماجہ میں احادیث کے متعلق صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے لیکن غیرمقلدین
حضرات ان کے اس فیصلہ کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مثلاً ابن ماجہ کی ایک حدیث
کے متعقل علامہ بوصیری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے لیکن شیخ البانی غیرمقلد
لکھتے ہیں کہ مجھے اس میں توقف ہے۔ (تحقیق المشکاۃ جلد ۱ ص۲۵۳)
علامہ ازیں مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد نے یہ بات
بھی صاف کر دی ہے کہ حدیث کی صحت کا دارو
مدار راویوں پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی راوی ضعیف ہے تو اسے کوئی صحیح کہتا ہے تو کہتا
رہے اس سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی ۔ بے خطا ذات صرف اللہ کی ہے اور بس ۔(توضیح
الکلام جلد۲ ص۶۳)
لہذا اگر علامہ
بوصیری یا علامہ ہیثمیؒ وغیرہ نے عیسٰی
بن جاریہ جیسے ضعیف راوی کی روایتک و حسن کہہ بھی دیا ہے تو بقول اثری صاحب اس سے اس کی حدیث کا حسن یا
صحیح ہونا لازم نہیں اتا جب تک کہ عیسٰی کی توثیق نہیں ہو جاتی اور عیسیٰ کی توثیق
زبیر علی زئی کے پس میں تو کیا پوری
دنیائے غیرمقلدیت بھی اگر اپنا سارا ززورصرف کرلے تو بھی اس کی توثیق ثابت نہیں کر
سکتی ۔
۶۔ حافظ منذریؒ غیرمقلدین
کی نظر میں اہل فن رجال میں ہے نہیں۔
یہی حافظ منذریؒ اپنی اسی کتاب الترغیب میں ایک روایت کے
بارے میں فرماتے ہیں: درجہ ثقات کہ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ اس پر شیخ البانی
غیرمقلد لککھتے ہیں: واسنادہ ضعیف فیه عنعنه الولیدین مسلم وعبداللہ بن ابی بردہ
ولم یوثقه احد حتی ولا ابن حبان فلا یغتر یقول المندری ورجالۃ ثقات (تحقیق
مشکاۃ بحولہ رعکت تروایح ایک تحقیقی جائزہ
ص۲۳۳)
اب ایک راوی کو حافظ منذریؒ کے صراحتاً ثقہ کہنے کے باوجود راوی غیرمقلدین کے
محقق زمان اور محدث اعظم کی نظروں میں غیر ثقہ ہے تو پھر اگر منذری ؒ نے ابن جاریہ
جیسے ضعیف راوی کی حدیث کو اگر جید کہا
بھی ہے تو اس سے ثقہ ہونا کیسے لازم آگیا۔؟
؏ بسوخت عقل زحیرت ایں چہ بوالعجیست
٭ص۲۲۴٭
حافظ منذریؒ نے عیسٰی
بن جاریہ کی کونسی حدیث کے بارے میں اسناد جید کہا ؟ اس کی زبیر صاحب نے کوئی بھی وضاحت نہیں کی
ہے اور راقم المعروف نے الترغیب کی جلد اول
کا بالا ستعباب مطالعہ کیا ہے لیکن ہم کو اس میں ابن جاریہ کی کوئی ایسی
حدیث نہیں ملی جس کی سند کو حافظ منذریؒ نے جید کہا ہو لہذا زبیر علی صاحب کو چاہئے کہ وہ وضاحت کریں کہ منذریؒ نے ابن
جاریہ کی کونسی حدیث کو جید کہا ہے یا کس ادارہ کی شائع کردہ الترغیب کے فلاں صفحہ
پر یہ الفاظ انہوں نے کہے ہیں۔
۷۔ حافظ ذھبیؒ کے نززدیک ابن جاریہ کی مذکورہ حدیث منکر ہے۔
حافظ ذھبیؒ نے میزان الاعتدال میں عیسٰی بن جاریہ پر ائمہ
رجال سے سخت جرح نقل کی ہے اور اس کے
تذکرہ میں اس کی مذکورہ روایت کو بھی ذکر کیا ہے اور بقلو غیرمقلدین ذھبی ؒ کی
عادت ہے کہ وہ میزان الاعتدال میں جس مجروح رای کا تذکرہ کرتے ہیں تو اگر اس راوی
کی روایات میں کوئی منکر روایت ہوتی ہے تو وہ اس روایت کو بھی ذکر کر دیتے ہیں
۔چنانچہ غیرمقلد محقق شیخ عبدالراؤف سندھو ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ
حدیث سخت ضعیف ہے کیونکہ بخاری اور ابو حاتمؒ نے ابو الزعیز غہ کو منکر الحدیث جدا
کہا ہے ذھبی نے اس کے ترجمہ میں اس حدیث کا بھی ذکر کیا ہے۔ (القول المقبول ص۵۲۷)
سندھو صاحب ایک اور حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں یہ حدیث نہایت ضعیف ہے۔ اس کی سند
میں عمرو بن معین متروک ہے۔ ذھبی نے اس کے ترجمہ میں جن احادیث کا ذکر کیا ہے ان
میں سے ایک یہ بھی ہے۔ (القول المقبول ص۵۲۳) معلوم ہوا کہ حافظ ذھبی کا کسی مجروح راوی
کی روایت کو اس کے ترجمہ میں ذکر کرنا اس روایت کے منکر ہونےک ی دلیل ہے لہذا اگر
انہوں عیسٰی بن جاریہ کے تذکرہ میں اس کی
مذکورہ روایت کو بھی ذکر کیا ہے تو یہ ابن جاریہ کے ضعیفف اور اس حدیث کے منکر
ہونے کی دلیل ہے نہ کہ اس کے ثقہ ہونے کی
۔ اگر یہ کہا جائے کہ علامہ ذھبیؒ نے تو ابن جاریہ کی حدیث کے بارے میں اسنادہ
متوسط بھی کہا ہے جو اس کی مذکورہ حدیث کے
صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے تو اس شبہ کا جواب یہ ہےکہ علامہ ذھبیؒ نے تو ابو
یوسف عن ابی حنیفہؒ کی سند کو سند عالی سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن غیرمقلدین اس عظیم
المرتب امام عالی شان کی روایت کو صحیح
٭ص۲۲۵٭
نہیں سمجھتے چنانچہ
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد
لکھتے ہیں:۔ علامہ ذھبیؒ انا ابو یوسف انا ابو حنیفہؒ کی سند کو عالی کہتے ہیں مگر
ہر عالی سند صحیح نہیں ہوتی۔ (توضیح الکلام ص۶۶۸)
نیز لکھتے ہیں مولف احسن الکلام کا یہاں ایک دوسری سند کو عالی ثابت کر دینا اس طریق کے
صحت کے قطعاً دلیل نہیں۔
قارئیں:۔ غیرمقلدین کے ستم ظریفی کا اندازہ لگائیں کہ علامہ
ذھبیؒ کے امام ابو حنیفہؒ کی سند کو عالم کہتے کے باوجود بھی غیرمقلدین امام صاحب
کی سند کو صحیح ماننے کیلئے تیار نہیں لیکن عیسٰی بن جاریہ جس کی سند کو علامہ
ذھبیؒ کے محض متوسط (جو عالی سے کم درجہ ہے) کہہ دینے سے وہ اسے ثقہ اور اس کی
حدیث کو صحیح ماننے کا ہم مطالبہ کر رہے
ہیں۔
یہ سب سوچ کر دل لگایا ہے ناصح ؔ
نئی بات کیا آپ فرما رہے ہیں
۸۔ کیا امام بخاری
ؒ کا کسی راوی کو تاریخ الکبیر میں ذکر کرنا اس کی توثیق ہے۔؟
امام بخاری کا کسی راوی کو اپنی کتاب تاریخ کبیر میں بلا
جرح و تعدلیل کے ذکر کرنا خود غیرمقلدین کے نزدیک بھی اس راوی کی توثیق کو مستلزم
نہیں کیونکہ امام بخاری ؒ نے تاریخ کبیر میں رواۃ کی ایک بڑی تعداد کا تذکر بلا
جرح و تعدلیل کیا ہے لیکن اس کے باوجود
راوی علمائے غیرمقلدین کے نزدیک ضعیف اور مجہول نہیں اور ان کی روایات کو صحیح
نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ صرف چند مثالیں بطور نمونہ مالحظہ کریں۔
۱۔ مولانا عبدلرؤف سندھو غیرمقلد ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ روایت نہایت گھٹیا درجہ کی
ہے۔ اس روایت کا پہلا راوی عبدالوارث
مولٰی انسؓ بن مالک ہے اسے امام
بخاری نے تاریخ الکبیر میں ذکر کیا مگر اس کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں
کی الخ (القول المقبول ص۵۲۷)
۲۔ سندھو صاحب ایک اور حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں ابو
مسلم کو بخاری نے الکنٰی ص۶۸ ، تاریخ الکبر ، میں اور ابن ابی حاتم نے الجرح و
التعدیل میں ذکر کیا ہے مگر دونوں میں کسی نے بھی اس کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل
نہیں کی ہے۔ احمد البناء نے اس کی سندکو جید کہا ہے قلت ( میں کہتاہوں) اس کی سند کو جید قرار دینے کیلئے ابو
مسلمکی ثقاہت کا علم ضروری ہے ورنہ سند ضعیف ہے۔(القول المقبول ص۱۷۰)
٭ص۲۲۶٭
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ایک حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے
رقمطراز ہیں ۔ ابن بجاد محمد بن بجاد ہے اور وہ موسٰی بن سعد کا پوتا ہے جب کہ بجاد موسٰی کے
صاحبزادے ہیں ان کا مام بخاری نے التاریخ الکبیر جلد۱ ص۴۴ ، میں امام ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل جلد۳ص۲۱۳ میں ذکر کیا ہے مگر کوئی
جملہ توثیق و توصیف کا نقل نہیں کیا ۔(توضیح الکلام جلد۲ص۷۴۱)
پھر آخر میں ان کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں محمد بن
بجاد موسٰی بن سعد دونوں مجہول ومستور ہیں لہذا اس کی سن کو صحیح کہنا درست نہیں۔
(توضیح الکلام ص۷۴۳)
صرف ان چند مثالوں کو ہی سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی
ہے کہ امام بخاری کے کسی راوی کو تاریخ الکبیر میں بلا طعن ذکر کرنے سے اس راوی کا
ثقہ ہونا لازم نہیں آتا۔ لہذا غیرمقلدین کے اصول کی روشنی میں یہ کہنا حق بجانب
ہوگا کہ امام بخاریؒ نے عیسٰی بن جاریہ کو
بھی تاریخ الکبیر میں بلا طعن ذکر کیا ہے
تو اس سے اس کی توثیق ثابت نہیں ہوتی۔
۹۔ حافظ ابن حجرؒ کے سکوت کے ساتھ غیرمقلدین کا دو غلا پن
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اگر فتح الباری میں عیسٰی بن
جاریہ کی مذکور ہ روایت پر سکو کیا ہے تو
حافظ نے فتح الباری میں کئی ایسی روایات پر بھی سکوت کیا ہے جہاں غیرمقلدین ان
سکوت کو ٖ غلط کہتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبدالرؤف سندھو ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ نہایت ضعیف ہے۔ ابن حجر
نے اس حدیث کو مصنف سعید سے منسوب کیا ہے اور
اس پر سکوت کیا ہے ۔ لہذا حافظ کا سکوت درست نہیں (القول المقبول ص۴۳۴)
نیز اگر حافظ ابن حجر ؒ کا فتح الباری میں کسی روایت پر
سکوت کرنا اس روایت کے صحیح یا حسن ہونے کی دلی لہے تو پھر انہوں نے اسی فتح
الباری میں حضرت یزید بن حصیفہؒ اور یزید بن رومانؒ کی بیس رکعات والی روایات پر
بھی سکوت کیا ہے۔ ان روایتوں کی صحیح غیرمقلدین کو کیوں تسلیم نہیں؟ نیز حصہ اول
میں ہم نے یزید بن رومان کی مرسل روایات کے ذیل میں کئی علمائے غیرمقلدین کے
حوالے ذکر کر چکے ہیں کہ حافظ ابن حجرؒ کا فتح الباری میں کسی روایت پر سکوت اس
روایت کے صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے۔
٭ص۲۲۷٭
(ان حوالوں میں زبیر صاحب اور ان کے استاد حافظ عبدلمنان
صاحب کا بھی حوالہ شامل ہے) لیکن اس کے باوجود غیرمقلدین یزید بن خصیفہ اور یزید
بن روما نکی روایات جن پر حافظ نے فتح الباری میں سکوت کیا ہے کو صحیح حسن ماننے
کیلئے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ان مذکور ہ
روایات کی صحت کو محدثین اور
غیرمقلدین کے معتدل علماء نے بھی تسلیم
کیا ہے۔ اب یہ روایات تو حافظ ابن حجرر کے سکوت کے باوجود غیرمقلدین کے نزدیک صحیح
نہیں ہیں اور یہاں ایک نہایت ضعیف روایت کی صحت کی دلیل قرار دیا جارہا ہے۔ والی
اللہ المشتکٰی
خیر یہ تو حافظ ابن
حجرؒ کے سکوت کا غیرمقلدین کے ہاں حال ہے کہ اپنے مطلب کی روایات پر ان کا سکوت تو
روایات کے صحیح یا حسن ہونے کی دلی لہے اور پانے مسلک کے خلاف روایات پر ان کا سکو
فوراً رد کر دیا جاتا ہے۔
لیکن حافظ کے سکوت
سے قطع نظر جن روایات کو فتح الباری وغیرہ
میں انہوں نے صراحتاً صحیح یا حسن قرار دیا ہے
وہ روایات بھی غیرمقلدین کے منشاء کے موافق نہ ہوں تو پھر یہ حضرات حافظ ابن حجر پر بد اعتمادی
اور ان کی سخت مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ ٖ غیرمقلدین حضرات کے صرف چند ایسے حوالے
بطور مشتے نمونہ از خروارے ذکر کئے جاتے ہیں تاکہ قارئیں پر واضح ہو جائے کہ یہ
لوگ حافظ ابن حجر ؒ کی تحقیق پر کتنا اعتماد کرتے ہیں؟ چنانچہ
۱۔ مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب غیرمقلد حافظ ابن حجر کے ایک حدیث کو حسن قرار دینے کے
جواب میں لکھتے ہیں۔ قلت فی تحسین اسنادہ
نظر۔ (ابکار المنن ص۹۷) میں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر کا اس حدیث کو حسن کہنا محل
نظر ہے۔
۲۔ اسی طرح مباک پوری صاحب ابن حجر کا رد کرتے ہوئے لکھتے
ہیں ففی قول الحافظ باسناہ صحیح ایضا نظر (ابکار المنن، بحوالہ رکعات تراویح ایک
تحقیقی جائزہ ص۲۲۷) حافظ ابن حجر کے قول کہ یہ سند صحیح ہے میں بھی نظر ہے۔
٭ص۲۲۸٭
۳۔ قاضی محمد شوکانی ایک حدیث کے بارے میں رقمطراز ہیں۔ وحسنه
الحافظ فی الفتح وفی الاسنادہ عبداللہ بن محمد بن
مقیل وفیه مقال (نیل الاوطار جلد۳ص۳۴۲) حافظ ابن حجرؒ ننے فتح الباری میں
اس کو حسن کہا ہے حالانکہ اس کی سند میں عبداللہ
بن محمد بن مقیل راوی ہے جس میں کلام ہے۔
۴۔ مشہور غیرمقلد شیخ ناصر الدین البانی حافظ ابن حجر کی
ایک حدیث کی تحسین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ا ن قول الحافظ فی الفتح اسنادہ حسن
غیر حسن (سلسلۃ الحادیث الضعیفه ص۳۴۰، بحوالہ
تراویح تحقیق جائزہ ص۲۲۸) بے شک حافظ ابن حجر کا فتح الباری میں اس حدیث کی
سندد کو حسن کہنا غیر حسن اور ناپسندیدہ ہے۔
۵۔ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں: حافظ ابن حجرؒ
نے فتح الباریؒ (جلد۴ ص۱۰) اس کی سند کو قوی کہا ہے مگر یہ درست نہیں۔(مولانا سر
فراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں ص۱۶۹)
قارئیں:۔ صرف ان چند مثالوں کو ہی سامنے رکھ کر آپ
غیرمقلدین کے دو غلا پن اور ان کے مکر و فریب کا اندازہ لگا سکتے ہیں یہ لوگ اپنے
مطلب کیلئے حافظ ابن حجرر کی تحقیق کو اتنی فوقیت دیتے ہیں کہ اپنے مسلک کی تائید
میں واردشدہ کسی روایت پر ان کے صرف سکوت کرنے کو ہی اس روایت کے صحیح یا حسن ہونے
کی دلیل گردانتے ہیں لیکن دوسری طرف اگر کوئی روایت ان کے مسلک کے خلاف جاتی ہو
تو وہاں حافظ ابن حجر کا سکوت کرنا تو کیا
ان کا صراحتاً اس روایت کو صحیح یا حسن کہنا بھی غیرمقلدین کی نظروں میں ناقابل
اعتماد اور مشکوک ٹھرتا ہے۔
یہ لوگ بھھی غضب کے ہیں لد پر اختیار
شب مومو کر لیا سحر آہن بنا لیا
۱۰۔ امام ابو حاتم
ؒ کا کسی راوی پر سکوت اور جرح نہ کرنا بھی غیرمقلدین کے نزدیک اس راوی کی
توثیق کو مقتضٰی نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں : بعض
حضرات نے جو یہ کہا ہےک ہ امام ابن ابی حاتم جس راوی پر سکوت کریں وہ ثقہ ہوتا ہے
تو یہ قاعدہ بھی صحیح نہیں۔ خود امام ابن
ابی حاتم
٭ص۲۲۹٭
نے صراحت کر دی ہے کہ جس راوی کے متعلق کوئی جرح یا تعدیل نقل نہیں کی گئی تو
ان کا ذکر محض تکیلا ہے اگر کوئی ۔۔( ص۲۲۹ ایک لفظ غائب
ہے)۔۔۔۔۔ مل گیا تو بالاخر اس کو نقل کر دیں گے۔ (حاشیہ توضیح الکلام
جلد۲ص۷۴۱)
مولانا سید محب اللہ شاہ پیر آف جھنڈا لکھتے ہیں اور امام
ابن ابی حاتم اور ابن حبان کے متعلق جو فرمایا
یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ اس کا مقتہیٰ تو یہ ہوا کہ جس راوی کا بھی امام
ابن ابی حاتم اپنی الجرح و تعدیل میں ذکر کریں اور اس پر کچھ بھی حکم ۔ جرحاو
تعویلاً نہ لگائیں اس کے متعلق یہی کہنا چاہئے کہ اس میں طعن یا عیب ہوتا تو امام
ابن ابی حاتم سے پوشیدہ نہ رہتا حالانکہ کسی طعن یا توثیق کے عدم ذکر سے یہی عیاں
ہوتا ہے کہ امام موصوف کو ان کے متعلق۔ (اپنے والد ابو حاتم یاد یگر ائمہ سے ناقل)
کچھ معلوم نہ ہو سکا ۔ یہی وجہ ہےک ہ ایسی
حالت میں علمائے حدیث یہی فرماتے ہیں کہ یہ راوی مجہول الحال ۔ غیرمعروف اور مستور
ہے۔ (ہفت روزہ الاعتصام ص۱۱)
بنابریں اگر امام ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں عیسٰی بن جاریہ کے متعلق
اپنے والد امام ابو حاتم سے کوئی جرح نقل نہیں فرمائی تو مذکورہ علمائے غیرمقلدین
کی تصریحات کی روشنی میں اس سے ابن جاریہ کی توثیق بھی ثابت نہیں ہوسکتی ۔
الحاصل :۔ زبیر علی زئی صاحب نے عیسٰی بن جاریہ کو ثقہ ثابت
کرنے کیلئے کتنی شقیں ذکر کی تھیں ان میں سے ہر ایک شق کا بطلان غیرمقلدین کے
مستند علماء کی روشنی میں ثابت ہو گیا اوور یہ بات اچھی طرح ثا بت ہو گئی کہ زبیر صاحب نے ایک
ضعیف راوی کو ثقہ ثابت کرنے کیلئے جتنا خس
و خاشاک اکھٹا کیا تھا ۔ ااس سے ابن جاریہ کی ذرا بھی توثیق ثابت نہیں ہوسکتی اور
بالفرض اگر ا کی کوئی معمولی تو ثیق ثابت بھی ہو جائے تو بھی اس پر محدثین کرامؒ
کی کی گئی سخت اور مفسر جرح کے مقابلے میں
یہ معمولی سی توثیق کچھ حیثیت نہیں رکھتی
۔ کیونکہ خود علمائے غیرمقلدین نے تصریح کی ہےکہ جرح بالخصوص مفسر تعدیل پر مقدم
ہوتی ہے۔ چنانچہ غیرمقلدین کے استاذ العلماء اور محدث مولانا محمد گوندلوی صاحب
لکھتے ہیں: جرح تعدیل پر مقدم ہوا کرتی ہے خصوصا! جب مفسر ہو (التحقیق الراسخ
ص۱۱۴) نیز لکھتے ہیں راجح اور صحیح نقادان فن کی نظر میں یہی
٭ص۲۳۰٭
ہے کہ جرح مفسر اور
تعدیلکا تعارض ہو تو جرح کوو ترجیح عام اس
سے معدلین زائد ہوں یا کم (حوالہ سابق
ص۱۷۲)
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں: جبکہ جرح مفسر کی
موجودگی میں تو ثیق معتبر نہیں۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۲۷۱)
خود زبیر علی زئی لکھتے ہیں: اگر جرح مفسر اور تعدیل مفسر
باہم برابر ہو تو جرح مقدم ہو گی۔(نور العینین ص۴۲)
پس جب غیرمقلدین کے اصولوں کی روشنی میں ثابت ہو گیا کہ
عیسٰی بن جایہ پر کی گئی ائمہ حدیث کی جرح مفسر اور نہایت سخت ہے تو اس کے مقابلے
میں اگر اس کی کچھ تھوڑی بہت توثیق ثابت بھی ہو جائے تو وہ بقول علمائے غیرمقلدین
جرح مفسر کے مقابلے میں غیر معتبر ہے لہذا عیسٰی بن جاریہ اصولاً ضعیف ٹھہرے۔
ابن جاریہ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ متفرد بھی ہے۔
علاوہ ازیں عیسٰی بن جاریہ
ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس روایت کو نقل کرنے میں متفرد بھی ہے اور اس کے
علاوہ کوئی دوسرا راوی حضرت جابرؓ سے اس زیادت (آٹھ) رکعات کو نقل نہیں کرتا۔
چنانچہ امام طبرانیؒ حضرت جابرؓ کی مذکورہ روایت کو نقل
کرنے کے بعد فرماتے ہیں: لا یروی عن جابر بن عبداللہ ؓ الابھذا الاسناد (المعجم
الصغیر جلد۱ص۱۹۰) حضرت جابرؓ سے یہ آٹھ
رکعات کی روایت اس (عیسٰی بن جاریہ کی) سند کے علاوہ کسی اور سند سے مروی نہیں ہے۔
اور اصول حدیث کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ضعیف راووی کی منفرد
روایت قابل قبول نہیں ہوتی بالخصوص جب کہ آنحضرت ﷺ کی تین راتوں کی نماز کو نقل
کرنے والے (حضرت ابو زر ؓ حضرت انسؓ حضرت زید بن ثابت ؓ حضرت عائشہؓ اور حضرت
نعمان بن بشیرؓ وغیرہ ) متعدد صحابہ کرامؓ ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی رسول
اللہﷺ کی نماز تراویح کی تعداد رکعات
منقول نہیں کہ اس سے ابن جاریہ کی اس روایت کی تائید ہو سکے ۔ لہذا ابن جاریہ کی
یہ روایت ناقابل عمل ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ :۔ مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں عیسیٰ بن
جاریہ کا تفرد غیرمقبول نہیں کیونکہ
٭ص۲۳۱٭
اس کے تفرد کی صورت یہ ہے کہ اس نے ایک اییس بات بیان کی ہے
جس کے بیان سے دوسری راوی ۔۔۔ ہیں اور
محدثین (حافظ الصلاح وغیرہ) نے تصریح کی ہے کہ منفرد راوی جو حفظ و ضبط کے اعلٰی
درجہ پر اگر فائز نہ ہو لیکن وہ حفظ و ضبط کے اعتبار سے بہت گرا ہو ا بھی نہ ہو تو
اس منفرد راوی کی زیادتی بشرطیکہ اپنے سے اوثق راوی کی روایت کے مخالف نہ ہو تو ہو
مقبول ہے۔ اس بیان کے لحاظ سے عیسٰی کا یہ تفرد غیر مقبول نہیں کہا جاسکتا ۔ اس
لئے کہ جوو جرحیں اس پر کی گئی ہیں وہ سب غیرمقبول ہیں اور غیر ثابت ہیں اور ان کے
مقابلے میں اس کی تعدیل و توثیق معتبر ہے۔ لہذا حفظ و ضبط کے اعتمار سے اگر وہ بہت
اعلٰی درجہ پر نہ ہو تو بہت گرا ہو ا بھی نہیں ہے۔ بنا بریں اس کی یہ حدیث کم سے
کم حسن ہو گی ضعیف یا منکر نہیں۔ نیر جب یہ ثابت ہو چکا کہ عیسٰ بن جاریہ ثقہ راوی
ہے اور اس نے ایک زائد بات بیان کی کہ
رسول اللہﷺ نے آٹھ رکعات باجماعت پڑھی تھی اور بات دوسرے راوی بیان نہیں کرتے تو
حافظ ابن حجرؒ کے بیان کے مطابق اس کی یہ زیادت راجح اور مرجوع کا مقابلہ کئے بغیر
مقبول ہو گی اور ا س سے زیادت می اس متفرد ہونا ہرگز اس کی روایت کیلئے کسی قدح کا
موجب نہیں ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۲۱،۱۲۵)
جواب:۔
رحمانی صاحب کا یہ نرادہم اور مغالطہ ہے کہ عیسٰی بن جاریہ
ثقہ راوی ہے اور اس پر کی گئ تمام جرحیں غیر مقبول ہیں۔ ابن جاریہ جس پایہ کا ثقہ راوی ہے اسس کی حقیقت تو ہم اچھی طرح طشت از بام کر چکے ہیں اور یہ
بات بھی خود غیرمقلدین کے تسلیم شدہ
اصولوں کی روشنی میں ہم ثابت کر چکے ہیں کہ اس پر ائمہ حدیث کی طرف سے اتنی سخت
اور معتبر جرحین کی گئی ہیں کہ ایسے راوی کی روایت سے استدلال تو کجا اس کی روایت
متابعت میں پیش کرنے کے بھی قابل نہیں۔ تو پھر ایسے راوی کا تفرد کیوں کر قبول کیا
جاسکتا ہے؟
ثانیاً:۔ بالفرض اگر مان لیا جائے کہ عیسیٰ بن جاریہ ثقہ
راوی ہے لیکن یہ بات تو رحمانی صاحب کو بھی رسلم ہے کہ وہ حفظ و ضبط کے اعلٰی درجہ
پر فائز نہیں ہے۔ (انوار المصابیح ص۱۲۳) تو پھر ایسے راوی کی زیادتی کیسے معتبر ہو
سکتی ہے۔؟
کیونکہ خود غیرمقلد علمائے نے ثقہ راوی کی زیادت اور تفرد
کے قبول ہونے کیلے شرط لگائی ہے کہ وہ راوی احفظ و اتقن ہو ۔ چنانچہ رحمانی صاحب کے ہم مسلک اور ہم استاذ مولانا
ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں
٭ص۲۳۲٭
صحیح قول یہ ہے کہ
ثقہ کی زیادتی مطلقاً قبول نہیں بلکہ اس کا مدار قرائن پر ہے اور قبولیت میں شرط
اورل یہ ہےک ہ زیادت کرنے والا احفظ وتقن ہو ۔ (توضیح الکلام ججلد۲ص۲۶۱)
مولانا محمد گوندلوی صاحب جو رحمانی صاھب کے استاذ ہیں،
فرماتے ہیں کہ باقی رہا زیادتی ثقہ کا قبول و عدم قبو ل، سو ثقہ کی زیادتی مطلقاً
قبول نہیں ہوتی کسی جگہ ہوتی ہے اور کسی جگہ نہیں ، کیوں کہ ثقہ غلطی کر جاتا ہے ان الثقه قدیغلط مشہور مقلہ ہے۔ (التحقیق الراسخ ص۱۲۲) نیز
گوندلوی صاحب علامہ ابن عبدلرؒ سے نقل
کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ انما تقبل اذا کان راوبھا احفظ واتقن الخ (التحقیق
الراسخ ص۱۲۲)
یعنی ثقہ راوی کی زادتی اس وقت قبول کی جاتی ہے جب اس زیادتی کا راوی احفظ واتقن
ہو۔
اب غیرمقلدین حضرات کی ناانصانی اور دو غلا پن ملاحظہ کریں
کہ مسئلہ رفع یدین اور قراۃ خلف الامام میں تو وہ عاصم بن کلیب اور سلیمان العیمی
جیسے بالاتفاق ثقہ راویوں کی زیادت کوقبول نہیں کرتے اور یہاں مسئلہ تراویح میں اپنی مطلب براری کیلئے
عیسٰی بن جاریہ جیسے ضعیف اور متروک راوی
کی زیادت کو بھی بڑے طمطراق سے قبول کر رہے ہیں۔
آپ اپنے جو رہ جفا پر خؤد ذرا غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
روایت جابر ؓ کے دورے
راوی یعقوب قمی کا تعارف :۔
عیسٰی بن جاریہ کا شاگرد یعقوب بن عبداللہ القمی بھی ضعیف اور شیعہ راوی ہے۔
چنانچہ امام دارقطنیؒ اس بارے میں فرماتے ہیں۔ لیس بالقوی کہ یہ راویت حدیث میں
قوی نہیں ہے۔ (میزان الاعتدال جلد۳ص۳۴۲)
مشہور محدث امام الرجال ابن کثیرؒ اس کی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
وھذا الحدیث منکر اجد دوفی اسنادہ ضعیف ویعقوب ھذا ھوالقمی
وفیه تشیع ومثل ھذ ا الایقبل تفردہ به۔(البدایه والنهایه جلد۸ص۳۷۵)
یہ حدیث انتہائی منکر ہے اور اس کی سند میں ضعیف ہے اور
یعقوب القمی شیعہ ہے۔ ایسے مسائل میں اس
٭ص۲۳۳٭
کا تفرد قبول نہیں کیا جاتا ۔ اور چونکہ یعقوب قمی مذکورہ
روایت ممیں بھی متفرد ہے اور اس کی یہ روایت اجماع صحابہؓ اور تعامل امت کے بھی خلاف ہے۔ لہذا اس کی یہ
روایت بھی غیر معتبر ہے۔
غیرمقلدین کے مسلمہ امام علامہ محمد شوکانی (حافظ عبداللہ
روپڑی صاحب لکھتے ہیں: امام محمد بن علی یمنی شوکانی : متاخرین اہل حدیث میں یہ
عالم بھی ایک بے مثل جامع و ماہر جمیع فنون اصول و ففروع معقول و منقول اور مجتہد
مطلق گزرے ہیں۔۔۔۔ ان کا ایک رسالہ القول المفید رد التقلید بھی ہے ان اکتساب سے
ہزار ہا لوگ اہل حدیث ہوئے۔(تعریف اہل حدیث ص۸۸)
غیرمقلدین کے بڑے امام بھی یعقوب قمی کو ضعیف کہتے ہیں۔
چنانچہ وہ ایک حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وفی اسنادہ یعقوب بن عبداللہ القمی و جعفر بن ابی المغیرۃ القمی وفیھا مقال (نیل
الاوطار جلد۴ص۲۸۷)
اس حدیث کی سند میں
یعقوب بن عبداللہ قمی اور جعفر بن المغیر
قمی ہیں اور ان دونوں میں کلام ہے۔
یعقوب قمی کو ثقہ
ثابت کرنے کی کوشش کا جواب:۔
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ یعقوب القمی ثقہ ہے
اسے جمہور علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔
۱۔ ابن حزیمہ نے اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔۲۔ ابن
حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ ۳۔ نور الدین المیثمی نے اس حدیث حدیث کو
حسن قرار دیا ہے۔ ۴۔ حافظ ابن حجرؓ نے فتح الباری میں اس کی منفرد حدیث پر سکور
کیا ہے اور یہ سکوت اس کی حدیث کی تحسین یا تصحیح کی دلیل ہے۔ ۵۔ جریر بن
عبدالمحید اسے مومن آل فرعون کہتے تھے۔۷۔
بخاری نے تعلیقات میں اس سے روایت لی اور اپنی التاریخ الکبیر میں اس پر طعن نہیں
کیا۔ لہذا وہ ا ن کے نززدیک بقول (ظفر احمد) تھانوی ثقہ ہے۔۸۔ حافظ ذھبیؒ نے کہا ۔
صدوق ۹۔ نسائی نے کہا لیس به باس ۔۱۰۔ ابو القاسم الطبرانی نے کہا ثقہ ۔(نور
المصابیح ص۱۷)
جواب :۔ یعقوب قمی
کو ثقہ ثابت کرنے کیلئے زبیر علی صاحب کی ذکر کر دہ یہ تمام شقیں بھی محض ڈوبتے کو
تنکے کا سہارا کے مترادف ہیں۔ ان میں پہلی چار شقوں کا جواب تو عیسٰی بن جاریہ کے
تذکرہ میں ہو چکا ہے
٭ص۲۳۴٭
دیگر شقوں کی صورت حال ملاحظہ فرمائیں۔
۵۔ مومن آل فرعون کا لفظ راوی کی توثیق نہیں۔
مومن آل فرعون کو
ئی تو ثیق و تعدیل کا کلمہ نہیں ہے کہ اس
سے یعقوب قمی کا ثقہ ہونا لازم آئے ۔ زبیر صاحب کا حق بنتا ہے کہ وہ پہلے اس کلمہ
کا الفاظ تعدیل میں سے ہونا ثابت کریں۔ اس کے بعد اس کو یعققوب کی توثیق کے دلائل
میں بھرتی کریں۔
۶۔ ابن مہدی ؒ کا
یعقوب قمی سے روایت لینا۔
امام ابن مہدیؒ نے
اگر چہ یعقوب قمی سے روایت بیان کی ہے لیکن کیا نا کا اس سے روایت لینا اس
کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے؟ اس بارہ میں خود علمائے غیرمقلدین کی آراء ملاحظہ ہو۔
چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں۔ یحیٰ بن سعید قطان کے متعلق جو
عموماً معروف ہے کہ وہ ثقات ہی سے روایت لیتے ہیں اور حسن بن عمارہ سے بھی انہوں
نے روایت لی ہے تو بھی یہ حسن کی توثیق کیلئے کافی نہہیں جبکہ امام یحیٰ کے متعلق دوسرے محدثین (امام ابن مہدی وغیرہ۔
ناقل) کی طرح یہ قاعدہ بھی کوئی کلی اصول نہیں بلکہ اکثریتی ہے۔ (توضیح الکلام
جلد۲ ص۶۱۸)
غیرمقلدین کے استاذ العماء مولانا محمد گوندلوی صاحب ایک
راوی کے متعلق لکھتے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے لوگوں نے اس سے روایت لی ہے۔ سو یہ توثیق کی
کوئی دلیل نہیں کیونکہ جرح کے باوجود ائمہ کا روایت لینا ثابت ہے۔ (التحقیق الراسخ
ص۱۱۴)
علاوہ ازیں امام ابن
مہدی ؒ نے خود تصریح فرمادی ہے کہ وہ فضائل اعمال وغیرہ کی روایت میں تسابل
برتتے اور ضعیف راویووں سے بھی روایات لے
لیتے ہیں۔ چنانچہ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے۔
عن عبدالرحمٰن بن مہدی یقول اذا روینا عن النبیﷺ شدد نافی
الاسانید وانتقد نا الرجال وااذ ا روینا فی فضائل الاعمال الثواب والعقاب
والمباحات والدعوات تساھلنا فی الاسانید (المستدرک جلد۱ ص۴۹۰)
امام عبدالرحمٰن بن مہدیؒ فرماتے ہیں کہ ہم جب آنحضرتﷺ سے
حلال و حرام اور احکام کی روایات نقل
٭ص۲۳۵٭
کرتے ہیں تو اسانید اور ان کے راویوں کی تنقید میں تشدد سے
کام لیتے ہیں اور جب فضائل اعمال ثواب و عقاب مباحات اور دعاؤں کے بارہ میں روایات
نقل کرتے ہیں تو اسانید میں تسابل (نرمی) بر ت لیتے ہیں۔
بنابریں اگر امام ابن مہدی ؒ نے یعقوب قمی سے بھی روایت بیان کی ہے تو یہ اس کی توثیق کی دلیل
نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ امام موصوف نے اس سے روایت لیتے ہوئے اسی تسائل سے کام
لیا ہو اور وہ ضعفا سے بھی روایات لے لیتے ہیں۔ فاذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال۔
۷۔ امام بخاریؒ کا کسی راوی سے متعلق روایت لینا۔
عیسٰی بن جاریہ کے تکذکرہ میں علمائے غیرمقلدین کے حوالہ سے
گزر چکا ہے کہ امام بخاری ؒ کا کسی راوی کو تاریخ الکبیر میں بلا طعن ذکر کرنا اس
رایو کی توثیق پر دال نہیں۔ رہا امام
بخاری کا اپنی صحیح ممیں کسی رایو سے تعلیقات روایت بیان کرنا تو یہ بھی غیرمقلدین کے نزدیک اس رایو کی توثیق اور اس
روایت کے صھیح ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔ چنانچہ غیرمقلدین کے محدث اعظم حافظ عبداللہ
روپڑی صاحب تحریر فرماتے ہیں جیسے بخاری میں تعلیقات ہیں اور ان کی صحت
ضروری نہیں۔ (رفع یدین اور آمین ص۱۳۰)
نیز لکھتے ہیں بخاری اصح الکتاب ہے لیکن تعلیقات بخاری(
جن کی سند بالکل پوری ذکر نہیں ہوتی) ان
میں بھی کئی محل گفتگو بھی ہیں۔
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں صحیح بخاری میں معلق روایات امام بخاری کا موضوع اور مقصود
نہیں۔ لہذا ان سے کسی سند کے بارے میں
استدلال صحیح نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے اپنے النکت میں صحیح بخاری کی معلق رواایت کے
بارے میں بڑی نفیس بحث کی ہے اور اس کی تعلیقات کی اقسام بیان کرتے ہوئے ایک قسم
ذکر کی ہے کہ امام بخاری کبھی بالجزم ایسی معلق روایت بھی لاتے ہیں جو انقطاع کی
بنا پر ضعیف ہوتی ہے۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۵۷۶) نیز لکھتے ہیں معلق روایات امام
بخاری کے مقصود سے خآرج ہیں۔ ان میں وہ
بطور تنبیہ ذکرکرتے ہیں ان سے استدلال و احتجاج مقصود نہیں (توضیح الکلام ص۵۷۷)
٭ص۲۳۶٭
۸۔ ذھبیؒ کا قمی کو صدوق کہنا غیرمقلدین کو مفید نہیں۔
حافظ ذھبیؒ کا یعقوب قمی کو صدوق کہنا بھی غیرمقلدین حضرات کو کچھ مفید نہیں ہے ۔
کیونکہ یہ لفظ ان کے نزدیک راوی کو ثقہ
ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں۔ چنانچہ ان کے بہت بڑے بزرگ عالم مولانا ابراہیم
سیالکوٹی صاحب فرماتے ہیں کہ صدوق کا لفظ مراتب تعدیل میں نہایت گھٹیا درجہ کا ہے۔
(اناررۃ المصابیح ص۳۹)
شیخ البانی غیرمقلد حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کہے
گئے لفظ صدوق سے متعلق لکھتے ہیں:۔
وممالاشک فیه عند ذان ابا حنیفه من اھل الصدق ولکن ذلک لا
یکفی لیحتج یحدیثه حتی ینضم الیه الضبط والحفظ وذلک ممالم یثبت فی حقه (سلسله
احادیث الضعیفه جلد۱بحوالہ رکعت تراویح تحقیقی جائزہ ص۲۳۶)
اور ہمارے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ اہل
صدق میں سے ہیں لیکن یہ ان کی حدیث کے قابل احتجاج ہونے کیلئے کافی نہیں جب تک اس
کے ساتھ ضبط اور حفظ نہ ملے ہوں اور یہ
دونوں چیزیں امام صاحب کے حق میں ثابت نہیں ہیں۔ نعوذ با للہ من ذلک ولعنۃ اللہ
علی الکا ذبین۔
اب غیرمقلدین حضرات کی ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ امام صاحب
کی تعریف و توثیق میں تمام بڑے بڑے محدثین
اور فقہاء طب السان ہیں لیکن غیرمقلدین کے نزدیک لفظ صدوق ان کی حدیث کے
قابل احتجاج ہونے کیلئے کافی نہیں لیکن یعقوب قمی جیسے ضعیف اور شیعہ راوی کے حق
میں یہ لفظ اس کی حدیث کے قابل حجت ہونے کی دلیل ہے ۔واعجبا
نہ پہنچا نہ پہنچے گا تمہاری ظلم کیشی کو
بہت سے ہو چکے ہیں گرچہ تم سے کتگر پہلے
۹۔ امام نسائی کا قمی کو لیس بہ باس کہنا غیرمقلدین کے
نزدیک اس کی توثیق کے لئے کافی نہیں عیسیٰ بن جاریہ کے تذکرہ میں مولانا ارشاد
الحق اثری صاحب غیرمقلد کے حوالہ سے گزر
چکا ہے کہ لا باس بہ وغیرہ کے الفاظ سے اس
راوی کی حدیث کا قابل احتجاج ہونا لازم نہیں آتا اور چونکہ لیس بہ باس بھی اس کے
ہم درجہ اور ہم معنٰی لفظ ہے اس لئے اگر
امام نسائی نے یعقوبقمی کے بارے میں لیس بہ باس فرمایا ہے تو بھی اس سے بقولاثری
یعقوب کی توایت کا قابل حجت ہونا لازم نہیں آتا۔
٭ص۲۳۷٭
امام طبرانی ؒ کی توثیق کا جواب:۔
امام طبرانیؒ نے گو قمی کو ثقہ کہا ہے ۔ لیکن غیرمقلدین کے
استاذ العلماء اور سابق امیر جماعت اہل حدیث مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں:۔
صرف ثقہ کہہ دینا کافی نہیں خصوصاً ایسے
موقع پر کہ جرح مفسر و مفصل ہو ۔(التحقیق الراسخ ص۱۲۶) اور یعقوب قمی کے حق میں
بھی جرح مفسر وارد ہے ۔ کیونکہ علامہ ابن
کثیرؒ نے اس کی روایت کو منکر جدا کہا ہے اور مولا نا ارشاد الحق اثری صاحب
غیرمقلد لکھتے ہیں۔ جس کی غلطیاں زیادہ ہوں یا غفلت باکثرت ہو یا فسق ظاہر ہو اس کی
حدیث منکر ہے۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص۶۲۸) اور یہی جرح مفسر ہے ۔ نیز یعقوب قمی
عیسیٰ بن جاریہ سے اس روایت کو نقل کرنے میں بھی متفرد ہے اور کوئی دقوسرا راوی اس
کا متابع نہیں اور علامہ ابن کثیر کی تصریح کے مطابق یہ حالت انفراد میں قابل حجت نہیں۔ لہذا اگر بالفرض اس کو ثقہ
بھی مان لیں پھر بھی اس کے منفرد ہونے کی وجہ سے اس کی مذکورہ رروایت سے احتجاج
کرنا درست نہیں۔
روایت جابرؓ کے تیسرے راوی محمد بن حمید الرازی کا تعارف :۔
قیام اللیل وغیرہ میں اس روایت کو یعقوب قمی سے نقل کررنے
والا محمد بن حمید الرازی بھی ائمہ رجال کے نزدیک نہایت ضعیف، کذاب اور متروک راوی
ہے۔ اگر چہ صحیح ابن خزیمہ وغیرہ کتب حدیث میں اس روایت کو ابن حمید رازی کے علاوہ
دیگر راویوں نے بھی یعقوب قمی سے نقل کیا ہے۔ لیکن مابعد آنے والی روایات جو حضرت
جابرؓ سے مروی ہے اس روایات کو نقل کرنے وامیں محمد بن حمید الرازی متفرد ہے۔ لہذا
اس کا تفصیلی تعارف کتاب رجال سے ملاحظہ ہو۔۱۔ امام یعقوب بن شبہ سدوسی ؒ اس
کو کثیر المناکیر فرماتے ہیں۔ ۲۔ امام بخاری ؒ اس کے بارے میں فرماتے ہیں فیه نظر۔
۳۔ امام ابراہیم جوزجائی ؒ اس کو روی المذہب اور غیر ثقه فرماتے ہیں۔ ۴۔ امام ابو زرعہ ؒ فرماتے ہیں کہ
وہ جھوٹ بولتا تھا۔
۵۔ عبدالرحمٰن بن یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم محمد بن حمید رازی جھوٹا تھا۔ ۶۔
اسحاق بن منصورؒ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں محمد بن حمی اور عبید بن اسحاق
عطا ر دونوں کذاب ہیں۔ ۷۔ امام نسائی اور امام ابن رارہ وغیرہ نے بھی اس کو کذاب
قرار دیا ہے۔ ۸۔ امام ابو علی نیساپوری
٭ص۲۳۸٭
فرماتے ہییں کہ میں نے امام ابن خزیمہ سے عرض کیا کہ اگر آپ
محمد بن حمید الرازی سے حدیث بیان کرتے تو بہت اچھا تھا کیونکہ امام احمدؒ نے اس کی تعریف کی ہے۔
اس پر ابن خزیمہؒ نے فرمایا کہ امام احمد ؒ نے اسس کو پہچانا نہیں۔ اگر وہ بھی
ہماری طرح اس کو پہچان لیتے تو وہ اس کی بالکل تعریف نہ کرتے ۔۹۔ امام ابن حبان ؒ
نے بھی اس پر جرح کی ہے۔ ۱۰۔ ابو نعیم بن عدیؒ فرماتے ہیں کہ امام ابو حاتمؒ کے پا ان کے گھر حاضر تھا اور ان کے پاس رے کے
مشائخ اور حفاظ کی ایک جماعت بیٹھی تھی۔ جب انہوں نے محمد بن حمید رازی کا ذکر
چھڑا تو سب نے بالاتفاق فرمایا کہ وہروایت حدیث میں نہایت ضعیف ہے۔ اور اس نے ایسی
حدیثیں بیان کی ہیں جو اس نے سنی تک نہیں ہیں۔(دیکھیں تہذیب الکمال جلد۱۷،ص۲۲۱ تا
۲۲۶) (تہذیب التہذیب جلد۹ ص۱۱۴،۱۱۵)
ناظرین! آپ نے مملاحظہ کرلیا ہے کہ حضرت جابرؓ کی مذکورہ
روایت کے یہ تینوں تاوی نہایت ضعیف اوور متروک ہیں لہذا جو روایت ایسے ضعیف راویوں
کی سند پر مشتمل ہونےک ی وجہ سے ظلمات بعضھا فوق بعض کا مصداق ہو اس کو تراویح یسے
اہم مسئلہ میں کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ؟ یہی وجہ ہےک ہ غیر مقلدین کا ایک سنجیدہ
طبقہ اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اس راویت کو معرض استدلال میں پیش کرنے سے دستبر دار ہو گیا ہے۔ چنانچہ
غیرمقلدین کے بڑے عالم مولانا عبدالمنان نورپوری صاحبل کھتے ہیں یاد رہے کہ رسول
اللہﷺ کی نماز تراویح کی تعداد رکعات کے اثبات کا اعتبار حضرت جابرؓ کی یہ حدیث
نہیں۔ (تعداد تراویح ص۳۴)
مولانا ایوب صابر مدرس جامعہ محمد یہ خانپور حضرت جابرؓ کی
مذکورہ روایت اور مابعد انے والی روایت ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں۔ مذکورہ
بالادونوں حدیثیں ہم نے بطور شواہد پیش کی ہیں۔ (تحقیق تراویح ص۲۲)
ان علماء کے نزدیک گویا یہ دونوں حدیثیں استدلال میں پیش
کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں اور مولانا عبدالرؤف غیرمقلد نے تو انصاف پسندی کا مظاہر
کرتے ہوئے صاف لکھ دیا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کی سند عیسیٰ بن جاریہ کی وجہ سے
ضعیف ہے۔(القول المقبول ص۶۰۷،۶۱۰)
تیرے رندوں پہ کھل
گئے سارے اسراردین ساقی
ہوا جب علم الیقین عین الیقین حق الیقین ساقی
٭ص۲۳۹٭
غیرمقلدین کی دلیل نمبر ۳ واقعہ ابی ابن کعب بروایت جابرؓ:۔
حضرت جابرؓ سے
روایت ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
عڑض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! رات کو یعنی رمضان میں مجھے ایک واقعہ پیش آگیا
آنحضرتﷺ نے پوچھا اے اابی کیا بات ہوئی ؟ حضرت ابی ؓ نے عرض کیا کہ میرے گھر کی
عورتوں نے مجھ سے کہا کہ ہمین قرآن یاد نہیں اس لئے ہم آپ کی اقتداء میں نماز
پڑھیں گی تو میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیں۔ آنحضرتﷺ نے سن کر سکوت فرمایا گویا کہ آپ نے اس کو پسند فرمایا ۔
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلدین لکھتے ہیں:۔ امام ہیثمیؒ نے اس
حدیث کے بارے میں فرمایا ہے ابو یعلٰی نے
روایت کیا اور اس طرح طبرانی نے اوسط میں
روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے ۔ (مجمع الزوائد جلد۲ص۷۴) مولوی سرفراز دیوبندی
لکھتے ہیں:۔ اپنے وقت ممیں اگر علامہ ہیثمی ؒ کو صحت اور سقم کی پرکھر نہیں
تو اور کس کو تھی ۔(احسن الکلام جلد۱
ص۲۳۳)۔
جواب اول:۔ اس حدیث کی سند بھی وہی ہے جو سابقہ حدیث کی تھی
اور اس میں بھی تینوں ضعیف راوی (عیسٰی بن
جاریہ یعقوب قمی اور محمد بن حمید رازی ) موجود ہیں بلکہ آضر الذکر راوی کو تو
متعدد اماموں نے کذاب اور وضاع قرار دیا ہے۔ مولانا محمد گوندلوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں۔ جس
(حدیث ) کو کسی شخص وضاع یا کذاب نے بیان
کیا وہ موضوع ہے۔ (التحقیق الراسخ ص۱۲) ماشاء اللہ ہیثمیؒ نے جو اس حدیث کو حسن
کہا اس کا جواب سابقہ روایت کے ذیل میں گزر چکا ہے کہ ان کی تصحیح و تحسین
غیرمقلدین کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔
باقی حضرت الاستاذ شیخ الحدیث مولانا سر فراز خان
صفدرؒ نے علامہ ہیثمیؒ کے بارے میں جو
لکھا ہے تو ان کی مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہےکہ علامہ ہیثمی علوم حدیث کی ایک
مسلمہ شخصیت ہیں اور اللہ تعالٰی نے ان کو حدیث کی صحت و سقم پرکھنے کا قوی ملکہ
نصیب فرمایا ہے۔ ان کی ہر بات کو لہ ادھا م کہہ کر بلا دلیل رد کر دینا (جیسا
غیرمقلدین کی ان کے بارے میں رائے ہے)
٭ص۲۴۰٭
بلکل غلط ہے۔ حضرت کی عبارت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ علامہ
ہیثمیؒ کی ہر تصحیح یا تحسین کو بلا دلیل قبول کر لیا جائے خواہ اسس سند میں مھمد
بن حمید رازی جیسے کذاب ااور عیسیٰ بن
جاریہ جیسے متروک اور منکر الحدیث راوی موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ صفدر صاحب
مدظلہ علامہ ہیثمیؒ کو علل حدیث کا ماہر ماننے کے باوجود ان کی اگر کوئی بات دلائل
سے غلط ثابت ہو جائے تو اس کا رد فر ماتے ہیں مثلا علامہ ہیثمیؒ کے ایک ضعیف حدیث
کو صحیح قرار دینے کے جواب میںں لکھتے ہیں: ۔اگر محض بلا دلیل کہنے سے روایت صحیح
ہو سکتی تو یہ صحیح ہے ورنہ ان کی صحت پر
کوئی دلیل موجود نہیں اور یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ (احسن الکلام جلد۲ ص۱۲۷)
معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہ نہ تو مطلق ہیثمیؒ
کی تصحیح و تحسین کو رد کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی ہر بات کو جو قرائن کی روشنی میں
غلط ثابت ہو قبول کرتے ہیں۔ لہذا غیرمقلدین کا ایک حنفی مقلد عالم کی آر لے کر اس
موضوع روایت کو حسن ثابت کرنا باطل ہے۔
جواب ثانی:۔ اس روایت کو بھی حضرت جابرؓ سے نقل کرنے والا
عیسیٰ بن جاریہ ہے جس کو حافظ ابن حجرؒ نے
تقریب میں طقبہ رابعہ کا راوی بتلایا ہے اور گزشتہ روایت میں مولانا نذیر رحمانی
صاحب غیرمقلد کے حوالہ سے گزر چکا ہے کہ طبقہ رابعہ والوں کی روایات صحابہ کرامؓ
سے مروی نہیں ہیں۔ لہذا غیرمقلدین کے اصول کے مطابق ابن جاریہ کی حضرت جابرؓ سے
مروی یہ روایت بھی منقطع ٹھری اور منقطع روایت غیرمقلدین کے نزدیک حجت نہیں۔
جواب ثالث:۔ ا س روایت کی سند سے قطع نظر بھی اس سے آٹھ
تراویح پر استدلال نہیں ہو سکتا کیونکہ اس
روایت سے تو یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے حضرت ابی ؓ کا بیان
کردہ یہ واقعہ ضرور رمضان یا تراویح سے متعلق ہی ہو۔ اس لئے کہ مسند احمد اور
طبرانی کی روایت میں تو سرے سے رمضان کا لفظ ہی نہیں اور مجمع الزوائد جلد۲ ص۷۴
بحوالہ مسند ابی یعلی یعنی رمضان کا لفظ ہے جو روایت کا حصہ نہیں بلکہ راوی کا
اپنا فہم ہے اور قیام اللیل میں اگرچہ رمضان کا لفظ ہے لیکن بوجہ قرینہ سابقہ اس
میں رمضان کا لفظ مدرج ہے۔ اب ممکن ہے
کہیہ لفظ خود حضرت جابرؓ کا فرمودہ ہو جو اس روایت کے پہلے راوی ہیں یا پھر نیچے
٭ص۲۴۱٭
کے ضعیف راویوں (عیسیٰ بن جاریہ ، یعقوب قمی اور محمد بن
حمید رازی 9 میں سے کسی ایک کا تصرف ہو۔
فاذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔ بنابریں جب اس روایت میں
رمضان کا لفظ ثابت ہی نہیں تو پھر اس سے
آٹھ تراویھ پر استدلال کیسے کیا جاسکتا
ہے؟ کیونکہ نماز تراویح تو صرف خاص رمضان میں ہی پڑھی جاتی ہے نہ کہ پورا سال اور
یہاں روایت میں رمضان کا لفظ ثابت ہی نہیں تو
پھر اس عام دلیل سے خاص رمضان کی نماز (تراویح) پر استدلال کرنا چہ معنٰی
داردَ
اگر یہ شبہ کیا جائے کہ اگر اس روایت کا تعلق تراویح سے
نہیں تو پھرتہجد سے ہو گا ۔اس صورت میں تہجد کا جماعت سے پڑھنا ثابت ہوتا ہے
حالانکہ عندالاحناف تہجد کی جماعت مکرو ہے۔(انوار المصابیح ص۱۵۸) اس شبہ کا جواب
یہ ہے کہ احناف کے نزدیک تہجد و غیرہ نوافل کی جماعت مطلق مکروہ نہیں ہے بلکہ اس
کو قدامی کے ساتھ ادا کرنا مکروہ ہے۔(فتاوی شامی جلد۱ ص۵۲۴)۔ اگر چند آدمی اتفاقی
طور پر اکھٹے ہو جائیں اور بلا تداعی نوافل کی جماعت کرالیں۔ (جیسا کہ مذکورہ بالا
روایت میں حضرت ابی بن کعبؓ کا اپنے گھر کی عورتوں کو بلا رداعی نوافل کی جماعت
کرانا) تو اس صورت میں عندالاحناف بھی تہجد کی جمات بلا کراہت جائز ہے۔
جواب رابع:۔ اس روایت میں اضطراب بھی ہے جیسا کہ ابھی اگزرا
ہے کہ بعض روایتوں میں رمضان کا لفظ ہے اور بعض روایتوں میں یعنی رمضان کا لظ ہ
اور بعض روایتوں میں توسرے سے رمضان کا
ذکر ہی نہیں ۔ اسی طرح قیام اللیل وغیرہ
میں حضرت ابی ؓ کا رسول اللہﷺ کے سامنے اپنا واقعہ بیان کرنا مذکور ہے جب
کہ مسند احمد وغیرہ کی روایت میں حضرت ابی ؓ اپنا واقعہ بیان نہیں کر رہے بلکہ یہ واقعی کسی دوسرے نا معلوم
شخص کا نقل فرما رہے ہیں۔ چنانچہ مسند احمد وغیرہ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
عن جابرؓ بن عبداللہ عن ابی ؓ بن کعب قال جاء رجال الی
النبیﷺ عملر الیله قال ماھو فال نسوۃ معی فی الدار ۔۔۔۔ الخ (مسند احمد بحوالہ
انوار المصابیح ص۱۶۲)
لہذا یہ روایت مضطرب ہے اور غیرمقلدین بھی مانتے ہیں کہ
حدیث مضطرب قابل احتجاج نہیں ہو سکتی۔(تحقیق الکلام جلد۲ ص۷)
٭ص۲۴۲٭
الغرض اس روایت سے استدلال اور احتجاج کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
غیرمقلدین کی دلیل نمبر۴:۔ امیر المؤمنین حضرت عمرؓ بن
الخطاب نے حضرت ابی ؓ بن کعب اور حضرت تمیم الداری ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو
گیارہ رکعات پڑھائیں۔ (موطا مالک ص۱۱۴)۔
جواب:۔ اس روایت سے استدلال کرنا بھی کئی وججوہ سے باطل ہے۔
۱۔ یہ ایک صحابیؓ اور خلیفہ راشد کا قول ہے جبکہ غیرمقلدین حضرات
کے نزدیک صرف االلہ اور اس کے رسول ﷺ کا قول ہی حجت ہے۔ باقی کسی صحابی یا تابعی
وغیرہ کا قول ان کے نزدیک حجت نہیں ہے۔ چنانچہ غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانا نزیر
حسن صاحب دھلوی لکھتے ہیں ابرا کہ قول
صحابی حجت نیست ۔(فتاویٰ نزیدیہ جلد۱ ص۳۴۰)
علامہ شوکانی لکھتے ہیں : وافعال الصحابهؓ واقوالھم لاحجه
فیھا۔(نیل الاوطار جلد۴ ص۷۱)
صحابہ کرامؓ کے افعال اور ان کے اقوال حجت نہیں ہیں۔
غیرمقلدین کے استاذ العلماء اور محدث حافظ گوندلوی صاحب
فرماتے ہیں : تابعین کے اقوال بلکہ صحابہؓ کے
اقوال اختلافی امور میں حجت نہیں ہوتے۔(خیر الکلام ص۲۴۹)
نواب صدیق صاحب کے صاحبزادے اور مشہور غیرمقلد عالم نواب
نور الحسن خان صاحب تحریر فرماتتے ہیں کہ قول صحابی حجت نباشد (عرف الجادی
ص۳۸،۴۴) شیخ عبدالروفف سندھو صاحب لکھتے
ہیں: قول صحابی حجت نہیں ہے۔ (القول المقبول ص۴۴۷) غیرمقلدین کے شیخ الاسلام
مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب فرماتے ہیں کہ : اہل حدیث کے مذہب میں خدا اور رسول کے کلام کے سوا کسی کے قول و فعل کو حجت
شرعیہ کی حیثیت سے جگہ نہیں ہے۔ (مظالم روپڑی ص۵۰)
بلکہ فرقہ غیرمقلدین میں تو ماشاء اللہ ایسے لوگوں کی بھی
کوئی کمی نہیں ہےج و حضرات خلفائے راشدین
ؓ کے جاری کردہ طریقہ اور ان کی سنت کو بدعت ضلالۃ اور گمراہی تک کہنے سے بھی نہیں
چوکتے۔ چنانچہ غیرمقلدین کے مشہور اور مستند عالم علامہ امیر یمانی صاحب خلیفہ
راشد حضرت عمرؓ کی جاری کردہ جماعت تراویح
کو بدعت ضلالۃ قرار دیتے ہوئئے لکھتے ہیں: عرفت ان عمرؓ ھوالذی جعلھا جماعه علٰی
معین وسماھا بدعه واما قوله نعم البدعه فلیس فی البدعه ما
٭ص۲۴۳٭
یمدح بل کل بدعه
ضلالۃ (سبل السلام شرح بلوغ المرام جلد۲ ص۱۲)
تم نے یہ جان لیا کہ حضرت عمرؓ ہی نے تراویح کو ایک مقرر
کروہ امام کے ساتھ جماعت کی صورت دی اور اس کا نام بدعت رکھا، آپ کا یہ قول کہ یہ
اچھی بدعت ہے تو بدعت کوئی بھیی قابل تعریف نہیں بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ نیز
یمانی صاحب خلفائے راشدین ؓ کے کسی بھی
قول و فعل کو حجت نہیں مانتے چنانچہ لکھتے
ہیں۔ ان انسحابه ؓ خالعو الشیخین فی مواجع ومسائل فدل انھم کم بحموالحدیث علی ان
ما قلوہ و فعلوہ حجه (ایضاً ص۱۱)
صحابی کرامؓ نے کئ ی مسائل میں شیخین (حضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمر فاروقؓ ) کی مخالفت کی ہے۔ اس سے
معلوم ہوا کہ انہوں نے حدیث کا مطلب یہ نہیں سمجھا کہ خلفائے راشدین ؓ جو کچھ کہیں
یا کریں وہ حجت ہے۔
اب جو لوگ صحابہ
کرامؓ اور خلفائے راشدین ؓ کے اقوال و افعال کو حجت نہیں مانتے بلکہ ان کی
سنت کو بدعت اور گمراہی قورار دیتے ہیں۔ العیاذ
با للہ تو ایسے لوگوں کو یہ حق کیسے پہنچ سکتا ہے کہ وہ خلفائے راشدین اور
صحابہ کرامؓ میں سے کسی کے قول یا فعل سے حجت پکڑیں۔؟
۲۔ اس روایت کی سند اگر چہ صحیح ہے لیکن اس کا متن ضعیف ہے۔
مولانا مبارکپوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ان صحۃ السند لا
یسثلز سحۃ المتن (ابکار المنن ص۲۸) بے شک
سند کا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں ہے۔ مولانا محمد گوندلوی
صاحب لکھتے ہیں اور صصحیت سند صحت متن کو مستلز نہیں ہے۔ (التحقیق الراسخ ص۱۱۷)
محدثین کرامؒ نے اس روایت کے راوی امام مالک کے قول گیارہ رکعات کو وہم قرار دیا ہے۔
اگر یہ اشکال کیا جائے کہ امام مالک ؒ جیسے جلیل القدر محدث اور ثقہ راوی سے کیسے وہم ہو سکتا ہے تو
مولانا مبارکپوری صاحب غیرمقلد اسی اشکال کا جواب دیتے ہوئے
لکھتے ہیں ان الثقه فدبھم و یغلظ کہ کبھی
کبھی ثقہ راوی بھی وہم اور غلطی کر جاتا ہے۔ (ابکار المنن ص۱۵۹) ۔ مولانا گوندلوی صاحب لکھتے ہیں ان الاثقہ فد
یغلط (ثقہ راوی بھی کبھی کبھی غلطی کر جاتا ہے ۔) مشہور مقولہ ہے ۔ التحقیق الراسخ
ص۱۲۲) مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں حدیث میں ایسی غلطیوں سے امام مالک
سفیان ثوری شعبہ یحییٰ بن سعید ایسے حافظ
و اثبات بھی محفوظظ نہ رہت سکے تو وہ آخر انسان ہی ہیں اور خطا نسیاں انسان کے خمیر میں ہے۔ امام ابن
مبارک فرماتے ہیں کہ وہم سے کون محفوظ رہا ہے ۔ (توضیح الکلام جلد۲ ص ۵۹۱) ؏ مدعی
لاکھ پہ بھری ہے گواہی تیری
٭ص۲۴۴٭
چنانچہ مشہور مالکی فقیہ اور عظیم محقق علامہ ابن عبدالبرؒ
فرماتے ہیں ان لا غلب عندی ان قولہ احدی عشرہ وہم ۔(زر قانی شرح موطا جلد۱ ص۲۱۵)
میرے نزدیک غالب گمان یہ ہے کہ امام مالک کا قول گیارہ
رکعات وہم ہے ۔ نیز فرماتے ہیں: روی غیر مالک
فی ھذاا لحدیث احدی و عشرون وھو الصحیح ولا اعلم احدا قال فیه احدی عشرۃ
الامالکا ۔(ایضاً) ا مام مالک ؒ کے علاوہ
دیگر راویوں نے اس حدیث میں تراویح کی اکیس رکعات نقل کی ہیں اور یہی صحیح ہے اور میں نہیں جانتا کہ امام مالکؒ کے سوا کسی دوسرے
محدث نے گیارہ رکعات کا قول اس حدیث میں نقل کیا ہو۔ اب علامہ ابن عبدالبر باوجود
امام مالک ؒ کے مقلد ہونے کے کھلے دل سے
اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث میں گیارہ رکعات کا قول امام مالک ؒ کا وہم اور انکاار تفرد ہے۔
اشکال:۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام مالک کی طرف وہم کی
نسبت کرنا غلط ہے کیونکہ وہ گیارہ رکعات کے
قول کو نقل کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ عبدالعزیز بن محمد الدراوردی ؒ
اور یحییٰ بن سعید قطان نے بھی ان کی متابعت کی ہے اور انہوں نے بھی محمد بن یوسف
سے امام مالک کی طرح گیارہ رکعات کا قول نقل کیا ہے۔ لیکن یہ اشکال غلط ہے۔
اولا ۔ عبدالبر العزیز کی متابعت تو کالعدم ہے کیونکہ وہ خود
غیرمقلدین کے نزدیک بھی ضعیف راوی ہے ۔ کماسیاتی تفصیلہ نیز اس روایت میں لوگوں کا
حضرت عمرؓ کے دور میں گیارہ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ امام مالک کی روایت میں
لوگوں کا عمل مذکور نہیں بلکہ صاف حضرت
عمرؓ کے حکم دینے کی تصریح ہے۔ اسی طرح یحییٰ بن سعید کی روایت بھی امما مالک کی
روایت سے مختلف ہے کہ امام مالک کی روایت
میں تو ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی ؓ اور حضرت تمیم کا گیارہ پڑھنا مذکور ہے ۔ لہذا امام یحییٰ کی روایت
امام مالک کی روایت سے مختلف ہونے کی وجہ سے اسکے متابع نہیں
بن سکتی ۔ البتہ امام مالک کی روایت کا
مضمون اور مصنف عبدلرزاق کی روایت کا
مضمون اورالفاظ ایک جیسے ہیں لیکن تعداد
رکعات کے بیان میں فرق ہے۔ امام مالک کی روایت میں ہے کہ انہوں نے ان دونوں کو
اکیس رکعات پر جمع کیا ۔(یعنی حکم دیا) تھا۔ اب
ان دونوں کی روایت میں سے اکیس رکعات والی روایت کو علامہ عبدالبرؒ نے
ترجیح دی ہے اور امام مالک ؒ کی گیارہ رکعات والی روایت کو انہوں نے وہم قرار دیا
ہے اور اس روایت پر غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو بشتباہ ہو گیا اور
انہوں نے کہہ دیا کہ امام مالک ؒ کی روایت کیلئے عبدالعزیز اور یحییٰ قطان کی
روایت متابع ہیں حالانکہ ان دونوں کی روایات امام مالک کی روایت سے مضموم کے لحاظ
سے مختلف ہیں جیسا کہ ابھی گزر ا تو پھر یہ روایات اس کے لئے متابع کیسے ہیں۔
ثانیاً:۔ اگر تسلیم بھیی کر لیں کہ یہ دونوں روایتیں امام مالک کی رویت کیلئے
متابع ہیں اور امام مالک خ کی روایت کی
طرف علامہ ابن عبدالبرؒ کا وہم کی نسبت غلط ہے تو پھر بھی ان کا اس روایت پر وہم
کا حکم لگانا صحیح ہے کیونکہ غیرمقلدین کے ایک بہت بڑے عالم مولانا محمد گوندلوی
صاحب نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی محدث کسی حدیث پر بہ سبب مخالفت بقیہ احایدث کے
وہم کا یقین کرے لیکن نسبت وہم میں غلطی بھی کر ے تو بھی وہم کا حکم صحیح ہو
گا۔(التحقیق الراسخ ص۱۲) اور چونکہ علامہ ابن عبدالبرؒ (جن کا محدث ہونا غیرمقلدین
کو بھی تسلیم ہے) نے اس حدیث پر بہ سبب
مخالفت بقیہ احادیث کے وہم کا حکم لگایا ہے لہذا اگر ان سے وہم کی نسبت میں غلطی
بھی ہو گئی ہے تو پھر بھی بقول مولانا گوندھلوی صاحب ان کا اس حدیث پر وہم کا حکم
لگانا صحیح ہے۔ وللہ اعلم۔
گوندلوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ:۔
جس حدیث کی سند کے رجال ثقات ہوں بظاہر اس میں کوئی خرابی
نہیں ہوتی لیکن کسی محدث کو کسی علت خفیہ ( وہم وغیرہ) پر اطلاع ہو جائے اور وہ
کہے کہ اس میں علت ہے تو وہ معلل ہے۔ (التحقیق الراسخ ص۱۲)
چونکہ علامہ ابن عبدلبرؒ جو مشہور محدث ہیں انہوں نے اس
حدیث پر عہم کا حکم لگایا ہے لہذا اس حدیث
کے رای ثقہ بھی ہیں تو بھی یہ حدیث
معلل اور نا قابل حجت ہے۔
۳۔ اس راویت کے ناقابل استدلال ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس روایت کے متن میں اضطراب بھی ہیے جس کی تفصیل ان شاء اللہ دلیل نمبر ۴ کے ذیل میں آئے گی۔
۴۔ اگر اس روایت کے متن کو وہم اور مضطرب نہ بھی کہا جائے
بلکہ مذکورہ روایت اور یس رکعات والی روایت میں تطبیق دی جائے جس کو بعض محدثین نے
اختیار کیا ہے تو پھر بھی اس روایت پر عمل کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ ان محدثہین
کے نزدیک گیارہ رکعات پر عمل چند
روز تک ہی رہا پھر یہ عمل منسوخ ہو کر
بیس رکعات پر ہمیشہ کے لئے عمل قرار پایا
۔ چنانچہ مشہور غیرمقلد عالم مولانا غلام رسول صاحب فرماتے ہیں : ایک یہ حدیث ہے
جو موطا میں آتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت
ابی ،ؓ اور تمیم داریؓ کو گیارہ رکعات
پڑھانے کا حکم دیا اور دوسری حدیث بیهقی کی ہے جس میں تیئس رکعت کا ذکر ہے پھر عمل
کس پر ہوگا اس کا جواب خود صاحب محلی نے اما م بیهقي کے قلم سے نقل کیا ہے وہ یہ
ہے کہ پہلی روایت
٭ص۲۴۶٭
اس منافی نہیں ہے ۔ کیونکہ اولا گیارہ پر عمل ہوا پھر
معاملہ بیس پر مقرر ہو گیا۔(رسالہ تراویح مع ینابیع ص۴۰)
امام بيهقيؒ کے علاوہ علامہ زرقانیؒ علامہ عینیؒ علامہ باجی
مالکیؒ علامہ سیوطیؒ حافظ ابن تیمیہؒ علامہ شوکانیؒ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ علامہ
نیمویؒ وغیرہ ہم مشاہیر علمائے کرامؒ نے بھی اسی تطبیق کو اختیار کیا ہے۔(تعداد
تراویح ص۱۶۵)
اب مذکورہ علمائے کرام کی ذکر کردہ تطبیق کی وجہ سے اس
روایت پر عمل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ
منسوخ روایت ناقابل عمل ہوتی ہے۔
۵۔ اس روایت کے بنیادی راوی امام مالکؒ کا اپنا عمل بھی اس
روایت کے خلاف ہے کیونکہ حصہ اول میں تفصیل سے گزر چکا ہے کہ امام مالکؒ کا مذہب
بیس یا چھتیس رکعات کا ہے۔
۶۔ اس روایت کے مرکزی راوی سائب بن یزید کا اپنا عمل اس
روایت کے خلاف ہے کیونکہ حصہ اول میں صحیح
السند روایت سے ان کا اپنا عمل گزر چکا ہے ہم حضر ت عمرؓ بن الخطاب کے زمانہ خلافت میں بیس رکعات کے ساتھ قیام کرتے تھے۔
۷۔ حضرت ابی ؓ بن کعب ( جن کو اس روایت میں حضرت عمرؓ نے
تراویح پڑھانے کا حکم فرمایا) کا اپنا عمل
بھی اس روایت کے خلاف ہے کیونکہ وہ خود حضرت عمرؓ کے زماانہ خلاف میں بیس
رکعات تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے جیسا
کہ ان کی
روایات حصہ اول میں گزر چکی ہیں۔ نیز غیرمقلدین کے مسلملہ امام شیخ الاسلام
حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: فلما جمعھم عمرؓ علی ابی بن کعب ؓ کان یصلی بھم عشرین
رکعه ثم یوتر بثلاث۔ (مجموعه الفتاوی
جلد۱۱ ص۵۲۰) جب حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حضرت ابی ؓ کی امات پر جمع کیا تو وہ ان کو
بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔
بنابرین اس روایے کے تینوں راویوں کا عمل اپنی مروی روایت
کے خلاف ہے حالانکہ اگر کسس یروایت کے ایک راوی کا عممل بھھی اپنی مروی روایت کے
خلاف ثابت ہو جائے تو ہو روایت ناقابل عمل ہوتی ہے۔ اور یہ قاعد ہ خود علمائے غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہے۔ چنانچہ بزرگ غیرمقلد عالم مولانا ابراہیم سیالکوٹی
صاحب
٭ص۲۴۷٭
لکھتے ہیں: اگر راوی کا عمل اس کی روایت کے خلاف ہو تو اسس
کی روایت قابل عمل نہ ہو گی۔ (انارۃ المصابیح ص۲۹)
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ ومخالفت راوی
ازمروی دلیل است براآنكه راوی علم ناسخ دار دچه حمل آں برسلامت واجب است (دلیل
الطالب ص۴۷۶)
راوی کا پانی مروی روایت کے خلاف عمل کرنا اس بات کی دلیل
ہے کہ راوی اس روایت کو منسوخ کر ددینے والی روایت کا علم رکھتا ہے کیونہ اس راوی
کی عدالت کو سلامتی پر محمول کرنا واجب ہے۔
مولانا گوندلوی صاحب غیرمقلد ایک روایت کو ناقابل عمل قرار
دیتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت ابن عباسؓ کا خود اپنی مروی عنه کے خلاف کرنا اس کے صاف معنٰی یہی ہیں کہ یہ روایت قبل
مشروعیت کی ہے۔(التحقیق الراسخ ص۱۳۲)
نیز گوندلوی صاحب ایک اور روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: اسی طرح مجاہد جسے آپ ابن عمرؓ کے
فعل عدم رفع کا ناقال بتاتے ہیں خود اس کا عمل اس کے مروی عنہ کے خلاف ہے۔ یہ ضرور
بتاتا ہے کہ یہ روایت اس کے نزدیک معمول بہ نہیں
۔ (التحقیق الراسخ ص۱۳۲)
ان اقتباسات سے ثابت ہو گیا کہ روایت کے کسی ایک راوی کا
عمل بھی اپنی مروی روایت کے خلاف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ رو روایت قابل عمل
نہیں جبکہ اس مذکور ہ روایت کے تینوں راویوں کا عمل اپنی مروی روایت کے خلاف ہے تو
پھر یہ روایت معمول بہ کیسے بن سکتی ہے۔؟
۸۔ حضرت عمرؓ سے جس طرح گیارہ رکعات نقل کی جاتی ہیں اسی طرح ان سے بیس رکعات کی روایات
بھی صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں اور بیس
والی روایات گیارہ والی روایات پر کئی وجوہ سے راجح ہیں۔ مثلاً
اولاً:۔ بیس رکعات والی روایات بہ نسبت گیارہ والی روایات
کے زیادہ اور کثیر ہیں۔
ثانیاً:۔ بیس والی روایات اجماع صحابہؓ اور تعامل امت سے
مؤید ہیں جبکہ گیارہ والی روایات نہ تو
اجماع صحابہ ؓ سے مؤید ہیں اور نہ ہی تعامل امت ہے۔
٭ص۲۴۸٭
ثالثاً:۔ تمام بڑے محدثین اور ائمہ کبار مثلا امام شافعیؒ ،
امام نوویؒ علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ حافظ
ابن تیمیہؒ وغیرہ ہم اور علمائے غیرمقلدین میں سے نواب صدیق حسن خان اور مولانا
میاں غلام رسول صاحب وغیرہ ہما نے بھی
گیارہ والی روایات کے مقاملے میں بیس رکعات والی روایات کو ترجیح دی ہے۔ مذکورہ
علمائے کی یہ عبارات مقدمہ میں گزر چکی
ہیں لیکن کسی محدث سے یہ ثابت نہیں کہ اس نے بیس والی روایات کے مقابلے میں گیارہ
والی روایات کو ترجیح دی ہو۔
رابعاً:۔ مولانا میاں غلام رسول صاحب غیرمقلد نے مذکورہ
گیارہ والی روایات کے مقابلے میں بیس والی روایات کی ایک وجہ ترجیح یہ بھی بیان کی
ہے کہ یہ حدیث صحت اور قوت میں موطا کی
(گیارہ رکعات والی) حدیث سے زیادہ بڑی ہوئی ہے کیونکہ اس میں زیادت ہے۔ (جو اصول حدیث
کے لحاظ سے واجب القبول ہے۔) (رسالہ تراویح
ص۴۲)۔
ان مذکورہ بالا وجوہ ترجیح کی بنا پر بیس رکعات والی روایات
گیارہ رکعات والی روایات پر راجیح ہیں۔ لہذا یہی
قابل عمل ہیں۔
۹۔ مذکورہ بالا روایت میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے اور یہ
غیرمقلدین کے دعویٰ کے خلاف ہے کیونکہ ان گیارہ رکعات میں اگر ایک رکعات وتر کی
شمار کی جائے ، جیسا کہ غیرمقلدین کا عمل ہے تو پھر تراویح کی دس رکعا ت ہو جائیں
گی حالانکہ غیرمقلدین صرف آٹھ تراویح کی سنیت کے قائل ہیں اور اگر گیارہ رکعات میں
آٹھ رکعات تراویح اور تین رکعتیں وتر کی شمار کی جائیں تو یہ بھی غیرمقلدین کے
موقف کے خلاف ہے کیونکہ یہ تین وتر کی بجائے صرف ایک وتر کی پڑھتے ہیں۔ الغرض
دونوں صورتوں میں یہ رویات غیرمقلدین کے مدعیٰ کے مخالف ہے۔
۱۰۔ احتیاط بھی بیس رکعات والی روایات پر عمل کرنے میں ہیں کیونکہ بیس رکعات ادا کرنے سے
آٹھ رکعات پر خود بخود عمل ہو جاتا ہے کہ آٹھ بھی بیس میں داخل
اور شامل ہیں لیکن اس کے برخلاف آٹھ تراویح کے پڑھنے سے بیس رکعات والی
روایات پر عمل نہ کرنا لازم آتا ہے۔ اس لئے احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے
٭ص۱۴۹٭
کہ آٹھ کی بجائے
بیس رکعات تراویح ادا کی جائیں۔ ذلک عشرۃ کامله
غیرمقلدین کی دلیل نمبر۵۔:۔
حضرت سائبؓ ن یزیدؓ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمرؓ بن خطاب کے
زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ سنن سعید بن منصور۔
الجواب:۔
اس روایت میں صرف حضرت عمرؓ کے زمانہ میں گیارہ رکعات کے
پڑھے جانے کا ذکر ہے۔ اس میں نہ حضرت عمرؓ کے حکم کی تصریح ہے اور نہ ان کا اپنا
عمل مذکور ہے اور جب تک روایت میں خلیفہ راشد کا حکم یا ان کا عمل ذکر نہ ہو اس
وقت تک غیرمقلدین اس روایت کو حج ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ حافظ عبداللہ
صاحب غازیپوری حضرت یزید بن رومان ؒ کی روایت
(جس میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں
بیس رکعات پڑھے جانے کا ذکر ہے) کا جواب
دیتے ہوئے لکھتے ہیں، اس میں اس امر کی تصریح نہیں کہ جو لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے
وہ بحکم عمرؓ پڑھتے تھے۔(رکعات تراویح ص۱۹)
حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں کہ ابن ابی ذہب ؓ ک
یروایت تو فاروقی حکم سے یکسر خالی ہے ۔
لہذا موضوع سے خارج ہے۔(تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جازہ ص۷۰)
مولانا عبدلمننا نور پوری صاحب لکھتے ہیں، جس قدر آثار
ذکر کئے گئیے ہیں ان میں صرف یہی بتایا
گیا ہے کہ لوگ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیس رکعت
پڑھتے تھے تو ظاہر بات ہے کہ اتنے سے لوگوں کے عہد فاروقی میں بیس پڑھنے سے یس رکعات کا حضرت عمرؓ کی ست
ہونا لازم نہیں آتا ۔ (تعداد تراویح ص۶۲)۔
مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں، سنن الکبريٰ للبيهقي
اور معرفه السنن کی جن روایتوں کو (کہ ہم
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیس ر کعتیں پڑھتے تھے) حنفی مذہب کی دلیل میں پیش کیا گیا
ہے کہ ان میں تو ”علی عہد عمرؓ بن
الخطاب اور فی زمان عمرؓ بن الخطاب “ سے
زیادہ کچھ نہیں ہے نہ کسی شہر کا ذکر ہے نہ کسی مسجد کا ۔(انوار المصابیح ص۲۳۱)
٭ص۲۵۰٭
ان مذکور ہ بالا علمائے غیرمقلدین کے اقتباسات سے یہ بات
واضح ہو گئی کہ روایت میں جب تک حضرت عمرؓ کے حکم یا عمل کاذکر نہ ہو وہ روایت
موضوع سے خآرج اور ناقابل حجت ہے اور چونکہ مذکورہ روایت میں بھی حضرت عمرؓ کے حکم
اور ان کے لیے اپنے عمل کی کوئی تصریح نہیں ہے۔ لہذا غیرمقلدین کے مسلمات کی روشنی
میں یہ روایت بالکل ناقابل احتجاج اور موضوع سے خارج ہے۔
جواب ثانی:۔
اس روایت سے استدلال بالکل باطل ہے کیونکہ اس روایت کے مرکزی راوی عبدالعزیز بن
محمد الدرادری پر ائمہ حدیث نے ایسی جرحیں ی ہیں جن کی وجہ سے خود غیرمقلدین کے نزدیک بھی اس کی
حدیث سے احتجاج جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ۱۔ امام احمد بن زبیر ؒ فرماتے ہیں لیس بشئی۔
کہ یہ کچھ نہیں ہے۔ ۲۔ امام نسائی ؒ فرماتے ہیں کہ کیس بالقوی یہ روایت حدیث میں
مضبوط نہیں ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس کی احادیث عبیداللہ عمری سے منکر ہیں۔
۳۔ امام محمد بن سعد ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ویسے تو ثقہ اور
کثیر الحدیث ہے لیکن روایت حدیث میں
غلطیاں کرتا ہے۔ ۴۔ امام ابن حبان ؒ کتاب الثقات میں اس کو خطا کار بتلاتے ہیں۔ ۵۔ امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں لا یحتج به
کہ یہ قابل حجت نہیں ہے۔ تہذیب الکمال جلد۱۱ص۵۲۷،۵۲۸، تہذیب التھذیب جلد۶ص۳۵۲،۲۵۳
الجرح التعدیل ) ۶۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں صدوق ہے لیکن دوسرے محدثین
کی کتابوں سے احادیث نقل کرنے میں غلطیاں کرتا ہے۔ (تقریب التہذیب جلد۱ ص۲۰۷)
۷۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ لیس بشئی یہ روایت
حدیث میں کطھ نہیں ہے، نیز فرماتے ہیں کہ یہ لوگوں کی کتابوں سے احادیث نقل کرنے
میں خطا اور وہم کر جاتا ہے۔
۸۔ امام سعد بن سعید فرماتے ہیں فیه لین یہ روایت حدیث میں
کمزور ہے۔ (میزان الاعتدال جلد۲ص۶۳۴)
۹۔ امام ساجیؒ فرماتے ہیں
کہ یہ اگرچہ سچے اور امانت دار لوگوں میں سے ہے لیکن کثیر الوہم ہے۔ (ایضاً)
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں کہ کثیر الوہم جرح
مفسر ہے۔ (توضیح الکلام جلد۱ ص۴۷۹)
٭ص۲۵۱٭
حافظ زبیر علی زئی
غیرمقلد لکھتے ہیں جس شخص کی روایات میں خطا
و اوہام زیادہ ہوں تو اس کی حدیث ترک
کر دی جاتی ہے۔ (نورالعینین ص۶۳)
۱۰۔مشہور محدث امام الرجال حضرت ابو زرعہ کی تعریف میں
مولانا نذیر رحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں وہ
ابو زرعہ جن کی خصوصیات اور کمال فن کو
حافظ ابن حجر ؒ نے تہذیبب التہذیب میں تقریباً تین صفحے میں ذکر کیا ہے سب سے پہلا لفظ یہ ہے کہ
ابو زرعه الرازی احد الائمه لحفاظ (انوار الصابیح ص۱۳۶) حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں ، امام ابو زرعہ تو انتہائی معتدل اور علل حدیث کے
مسلم استاد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ (نور العینین ص۱۲۸٭ یہ ابو زرعہ غیرمقلدین کے انتہائی ممدوح امام فر ماتے
ہیں کہ: عبدالعزیز دراوردی سی الحفظ (برے
حافظے والا) راوی ہے اور بسااوقات اپنے حافظ سے کچھ بیان کرتا ہے تو غلطی کر جاتا ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد۶ ص۳۵۳)۔
مولانا سلطان محمدو صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں کہ : کاذب سی الحفظ وغیرہ جرح مفسر ہے۔ (اصطلاعات
المحدثین ص۲۰)۔ مونا محمد گوندلوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں سوء حفظ الحاق وضع سب
جرحین مفسر ہیں۔ (تحقیق الراسخ ص۱۱۴) ۔ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب اور مولانا
عبد الرحمٰن مبارکپوری صاحب بھی سئی الحفظ
کو جرح مفسر کہتے ہیں۔ (توضیح الکلام جلد،۲ص۶۳۰)
اور عیسیٰ بنا جاریہ کے تذکرہ میں گزر چکا ہے کہ جرح مففسر
تعدیل پر مقدم ہوتی ہے اگرچہ تعدیل کرنے والے زیادہ ہوں اور چونکہ خود غیرمقلدین
کے نزدیک عبدالعزیز راودی قابل ترک راوی
ہے اور اس پر جرح مفسر
کی گئی ہے ۔ لہذا اس کی مذکورہ بالا حدیث ضعیف ٹھہری اور شیخ عبدالروف
غیرمقلد کے نزیدک تو دراوردی کی روایت تو معبتر ہی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اس کی ایک
روایت کے متعلق لکھتے ہیں: اور دراوردی غلطیاں کرتے ہیں جیسا کہ ابن سعد ابو
زرعہ ااور ابن حبان وغیرہ نے کہا ہے۔ لہذا ان کا اس حدیث کومرفوعاً روایت
کرنا معتبر نہیں ۔ (القول المقبول ص۵۵۸)
اعتراض:۔ حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتا ہے کہ عبدالعزیز
صحاح ستہ کا راوی ہے اور جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے ۔ا س کی عبید اللہ
العمری سے روایت پر جرح ہے اوور ہماری پیش
کردہ روایت عبید اللہ سے نہیں۔ (تعداد رکعات قیاام رمضان ص۷۰)
٭ص۲۵۲٭
زبیر علی صاحب کے
ذکر کردہ اعتراض کی تینوں شقیں باطل ہیں، ہر شق کا جواب نمبر وار ملاحظہ کریں۔
۱۔ عبدلعزیز دراوردی صحاح ستہ ک راوی نہیں ہے کیونکہ امام
بخاری نے اپنی صحیح میں اس سے احتجاج نہیں کیا بلکہ اسس کی روایت کو مقرون بالغیر
یعنی دوسرے ثقہ راویو کی روایت کے ساتھ ملا کر
رویت کیا ہے۔ چنانچہ مولانا شمس
الھق عظیم آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں: عبدالعزیز بن محمد الدراوردی قد اخرج له مسلم فی صحیهواحتج به
واخرج له البخاری مقرونا بعبد العزیز بن ابی حازم (التعلیق لمغنی جلد۱ ص۳۴۵)
امام مسلم نے تو اس کی حدیث سے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے لیکن امام بخاری نے اس کی روایت
کو ابن ابی حازم کی روایت کے ساتھ ملا کر
روایت کیا ۔ گویا صرف دراوردی
کی رواایت پر اعتماد نہیں کیا۔
اور مولانا نذیر رحمانی صاحب نے تصریح کی ہے کہ ایسے راوی
کو بخآری کا راوی نہیں کہتے ہیں۔ (انوار المصابیح
ص۲۲۰ بحولہ تراویح تحقیقی جائزہ)
مولانا مبارکپوری
صاھب نے بھی دراوردی کو بخاری کا راوی شمارن ہیں کیا۔ چنانچہ وہ اس کے بارے
میں لکھتے ہیں: قد احتج بہ مسلم واصحاب السنن (ابکار المنن ص۲۲۹)۔ کہ امام
مسلم اور اصحاب سنن نے اس سے احتجاج کیا
ہے۔ (نہ کہ بخاری نے)
اگرچہ امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں اس کی رویت سے احتجاج
کیا ہے لیکن خود علمائے غیرمقلد کے نزدیک کسی راوی کی روایت سے صھیح مسلمین
احتجاج کیا گیا ہو تو
اس سے یہ لازم نہیں اتا کہ اس نے صحیح مسلم کی روایت کے علاوہ جو بھی رویات
کی ہو وہ بھی صحیح ہو۔ چنانچہ عظیم غیرمقلد عالم قا ضی شوکانی ایک روایت کو جعیف
قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں وفیه عبداللہ بن عمر العمری فیه مقال وقد اخرج له مسلم۔
(نیل الاوطار جلد۳ص۳۳۰)
اس روایت میں عبداللہ بن عمر العمری راوی ہے جس میں کلام ہے
اگرچہ امام مسلم نے اس سے (اپنی صحیح میں) تخریج کی ہے۔ معلوم ہوا غیرمقلدین کے نزدیک صرف صحیح مسلم کا راوی ہونے
سے
٭ص۲۵۳٭
اس کی ہر حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔
۲۔ عبدالعزیز دراوردی کو جمہور محڈثین نے ثقہ اور صدوق نہیں
کہا صرف چند محدثین نے اس ی توثیق کی ہے اس کے بالمقابل اکثر ائمہ حدیث نے باقرار
غریرمقلدین اس پر سخت اور مفسر جرح کی ہے جیسا کہ بحوالہ گزر چکا ہے۔ اور اگر بالفرض مان ہی لیا جائے کہ
اس کی توثیق کرنے والوں کی تعداد اس کے
جارحین سے زایادہ ہے لیکن یہ بات تو بہر حال غیرمقلدین کے حوالہ سے گزر چکی ہے کہ جرح مفسر کو توثیق پر ترجیح ہوتی ہے اگر
توثیق کرنے والے زیادہ ہوں ۔ لہذا عبد العزیز بااصول غیرمقلدین بھی ضعیف ٹھہرے۔
ثانیاً:۔ غیرمقلدین
عبدالعز یز وراوردی جیسے راوی کے باارے میں عموماً یہ فیصلہ کیا کرتے ہیں
کہ جن محدثین نے اس کی توثیق کی ہے وہ اس کی ذات کے اعتبار سے ہے اور
جنہوں نے اس کی تضعیف کی ہے وہ اس کے برے
حافظہ اور کثیر اوہام کی وجہ سے کی ہے۔
چنانچہ خؤد معترض ز بیر علی ززئی صاھب ای
کراوی کے بارے میں لکھتے ہیں: جن لوگوں نے اس کی توثیق کی ہے وہ اس کی ذات کے
لحاظ سے ہے مگر برے حافظے اور کثرت اوہام
و خطا کی وجہ سے ضعیف ٹھہرا (نور العینین
ص۶۲) کیا زبیر صاحب سے ہم یہاں بھی فیصلے کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ دیدہ باید!؏ نگاہ لطف کے اسیدہ
ارہم بهی ہیں۔
۳۔ زبیر علی صاحب کا
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس کی عبداللہ العمری کی روایت پر
جرح ہے کیونکہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ امام نسائی کے علاوہ فیگر محدثین نے اس پر مطلق جرح کی ہے اور امام نسائی سے بھی
اس پر دہ قسم کی جرح منقول ہے ایک مطلق جرح اور ایک عبید اللہ عمری کی روایت کی
وجہ سے اب زبیر صاحب کا ان جارحین ک یجروحات کو امام نسائی کی ایک جرح پر
محمول کرنا بلا دلیل اور محض ہوائی قلعہ
فتح کرنا ہے۔
٭ص۲۵۴٭
دلیل نمبر۶:۔
یحییٰ بن سعید القچان حضرت سائب بن یزیدؓ سے روایت کرتے ہیں
کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت تمیم داریؓ کی امامت پر جمع
کیا ہے پس وہ دونوںں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
جواب اول:۔
یہ روایت بھی سابقہ
روایت کی طرح تعداد رکعات کے سلسلہ میں حضرت عمرؓ کے حکم یا عمل سے خالی ہے۔
کیونکہ اس روایت میں صرف یہی ہے کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حضرت ابی ؓ اور حضرت
تمیمم ؓ کی اقتداء پر جمع کیا لیکن اس میں
یہ تعین نہیں ہےک ہ انہوںن ےہی گیارہ
رکعات کی تعداد مقرر فرمائی یا حضرت ابی ؓ اور حضرت تمیمؓ خود اپنی مرضی سے گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ جب تک روایت میں
حضرت عمرؓ کا حکم یا ان کے حکم کی تصریح نہ ہو تو وہ غیرمقلدین کے نزدیک حجت نہیں ہے۔ مولانا عبدالمنان نور پوری صاحبب غیرمقلد اس
اشکال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ درست ہے کہ یحییٰ بن سعید کے بیان میں حضرت
عمرؓ کے حکم کا ذکر نہیں مگر اس کے بیان میں حضرت عمرؓ کے حکم کی نفی بھی تو نہیں ۔ تعداد تراویح (ص۱۴۴) لیکن نورپوری صاحب کا یہ جواب محض دفع وقتی اور
راہ فرار اختیار کرنے کا ایک بہانہ ہے کیونکہ اگر اسس روایت میں حضرت عمرؓکے حکم
کی نفی نہیں تو بیس رکعات والی روایات میں
بھی حضرت عمرؓ کے حکم کی نفی نہیں ہے۔ پھر غیرمقلدین (بشمول نور پوری صاحب)
نے ان روایات پر یہ اعتراض کیوں کیا تھا کہ ان روایات میں حجرت عمرؓ کے غکم کی
تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہ نا قابل حجت ہیں۔ اب غیرمقلدین کے اس دو غلہ پن کو
تجاہل عارفانہ کہا جائے یا پھر تعصب مذہبی کا شاخسانہ قرار دیا جائے؟ اس کا فیصلہ کرنا غیرملقدین کے سر ہے نیز
اگر غیرمقلدین کی طرف سست یہ کہا جائے کہ دراودی کی روایت
میں حضرت عمرؓ کے حکم کی اگرچہ تصریح نہیں لیکن موطا کی روایت میں ان کے
حکم کی تصریح موجود ہے اس کے جواب میں عرض
ہے کہ جناب ! بالکل لیکن یزید بن
رومان وغیرہ کی روایات میں بھی اگرچہ حضرت عمرؓ کے حکم کی تصریح نہیں ہے لیکن بیس
والی دیگر روایات میں تو حضرت عمرؓ کے حکم
کی تصریح موجود ہے۔ پھر وہ روایات آپ کے نزدیک کیوں نا قابل حجت ہیں؟
ٹھوکریں مت کھایئے چلئے سنبھل کر
چال سب چلتے ہیں مگر بندہ پر در دیکھ کر
جواب ثانی:۔
اس روایت کے متن میں اضطراب ہے اور اضطراب کی تفصیل یہ ہےکہ
اس روایت کو حضرت سائب بن یزید سے نقل کرنے والے محمد بن یوسف مدنی ہیں جن سے اس
روایت کو ان کے پانچ شاگردوں نے بیان کیا
ہے۔ ۱۔ امام مالکؒ ۲۔ عبدالعزیز دراودی ۲۔ یحییٰ بن سعید القطان ؒ
٭ص۲۵۵٭
محمد بن اسحاق ۵۔ داؤد بن قیسؒ ۔ اور ان پانچوں کی بیان کر
دہ روایات یوں ہیں:۔
۱۔ محمد بن یوسف سے ان کے پہلے شاگرد امام مالک یوں نقل
کرتے ہیں حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو
گیارہ رکعتیں پڑھائیں۔(موطا مالک ص۹۸)
۲۔ دوسرے شاگرد عبدالعزیز یوں نقل کرتے ہیں کہ حضرت سائب ؓ
فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔(سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی جلد۱ ص۳۴۹)
۳۔ تیسرے شاگرد
یحییٰ بن القطانؒ بیان کر تے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن
کعب ؓ اور حضرت تمیم داری ؓ پر لوگوں کو
جمع فرمایا ۔ پس وہ دونوں فیارہ رکعتیں پڑھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد۲ ص۲۸۳)۔
۴۔ چوتھے شاگرد محمد بن اسحاق اپنے استاد کے بیان یوں نقل
کرتے ہیں کہ حضرت سائب ؓ فرماتے ہیں کہ ہم
حضرت عمرؓ کے زمانہ ممیں رمضان المبارک میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ (قیام اللیل
بحوالہ التعلیق الحسن ص۲۰۳)
۵۔ پانچویں شاگرد داؤد بن قیس جو امام عبدالرزاق کے استاذ
ہیں یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے رمضان المبارک میں لوگوں کو حضرت ابی بن
کعبؓ اور حضرت تمیم داریؓ کی اقتداء میں
اکیس رکعت پر جمع کیا تھا۔ (مصنف عبدالرازق جلد۴ص۲۶۰)
اب محمد بن یوسف کے پانچوں شاگرد کے بیانات عدد اور کیفیت
دونوں اعتبار سے ایک دوسسرے سے مخالف ہیں۔
عدد کے اعتبار سے اختلاف یوں ہے کہ پہلے تین شاگرد تو گیارہ
رکعات نقل کرنے ہیں اور چوتھے شاگرد محمد بن اسحاق(جو غیرمقلدین کے نزدیک نہایت
ثقہ راوی ہیں) تیرہ رکعت نقل کرتے ہیں۔
بعض غیرمقلدین نے علامہ نیموی ؒ کے حوالہ سے ابن اسحاق کی روایت کی یہ توجیہ ذکر کی ہے کہ ان تیرہ رکعتوں میں عشاء
کی دو رکعات سنت شامل ہیں لیکن یہ توجیہ بلا دلیل اور محض
احتمال عقلی پر مبنی ہے اور خود غیرمقلدین حضرات گیارہ اور بیس رکعات والی روایات
کے درمیان محدثین (امام بيهقي علامہ نیمویؒ وغیرہ) کی کی گئی توجہ کو احتمالی اور
بلا دلیل کہہ کر رد کر چکے ہیں۔ چنانچہ عبدالمنان نورپوری صاحب لکھتے ہیں حافظ
بيهقيؒ حافظ ابن حجر ، علامہ زرقانیؒ علامہ شوکانی علامہ عینی ، علامہ شوق صاحب
نیموی علامہ باجی اور دیگر
٭ص۲۵۶٭
مشاہیر علماء کرامؒ کی تحریرات میں بلکہ بندہ پنے اپنی ناقص یاداشت کے مطابق گیارہ کا حکم
پہلے ہونے اور بعد میں اکیس کر دینے کی آج تک کوئی دلیل نہ پڑھی ہے اور نہ کسی سے سنی ہے۔ نیز لکھتے ہیں۔
مذکورہ (علماء) تطبیق احتمال پر مبنی ہے۔ (تعداد تراویح ص۱۶۵،۱۶۶) مولانا عبداللہ
غازیپوری صاحب لکھتے ہیں اس کا کیا ثبوت ہے کہ گیارہ کا حکم پہلے ہے اور بیس کا
پیچھے، رکعات تراویح (ص۲۲)۔ اب قارئیں
اندازہ لگائیں کہ ان سب بڑے بڑے محدثین کی
بیان کر دہ تطبیق اور توجیہ تو غیرمقلدین کی نظروں میں بلا دلیل اور احتمالی ہونی
کی وجہ سے مردود ہے لیکن علامہ نیموی ؒ کی گیارہ اور تیرہ رکعات کے درمیان کی گئی
توجیہ مقبول ہو گئی حالانکہ علامہ نیموی نے بھی اپنی اس توجیہ پر کوئی دلیل ذکر
نہیں کی اور نہ ہی آج تک کوئی غیرمقلد اس
کی دلیل پیش کر سکا ہے اور نہ کر سکتا
ہے۔
ثانیاً:۔ اس روایت کے راوی محمد بن اسحاق نے خود تیرہ رکعتوں کو اختیار کیا ہے اسی عد کو ترجیح
دی ہے ۔ فتح الباری جلد۴ ص۲۰۵۔ بحوالہ انوار المصابیح ص۲۵۲۔ عمدۃ القاری جلد۵ص۳۵۲۔
بحوالہ تعداد تراویح ص۱۲۸۔ اب خود اس روایت کا راوی ان تمام تیرہ رکعتوں کو ترایوح
کی رکعات سمجھ رہا ہے اور اس نے ان تیرہ رکعتوں میں عشاء کی دو سنتوں کو
شمار نہیں کیا۔ اور مولانا مبارکپوری صاحب نے لکھا ہے کہ راوی اپنی مروی روایت کا
مطلب دوسروں سے بہتر جانتا ہے تحفه الاحوذی (جلد۱ ص۲۵۷)۔ لہذا یہ تاویل کرنا خود
خود باطل ہو گیا کہ ان تیرہ رکعتوں میں عشاء کی دو رکعات سنت شامل ہیں۔
اور اس میں پانچویں شاگررد داؤد بن قیس کی روایت میں اکیس
رکعات کا ذکر ہے۔
غیرمقلدین نے اس روایت سے جان چھڑانے کیلئے یہ تدبیر اختیار
کی ہے کہ اس روایت کو ہی ضعیف قرار دے دیا ہے ۔؏ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری
چنانچہ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں : یہ روایت
متعددوجوہ سے مردود ہے۔ نمبر۱۔ یہ ثقات کے
خلاف ہے لہذا شاذ ہے۔ نمبر۲۔ مصنف کے اصل
نسخہ میں اختلاف ہے امام سیوطیؒ نے مصنف عبدالرزاق سے گیارہ کا عدد نقل کیا ہے۔
نمبر۳۔ اس روایت پر حنفیہ دیوبندیہ کا عمل
نہیں ہے۔ نمبر۴۔ مصنف کا راوی الدبری ضعیف و مصحف ہے تعداد رکعات قیام رمضان کا
جائزہ ص۶۸۔ لیکن زبیر صاحب کی یہ سب تحریر محض رام کہانی ۔ ان کی ہر ہر شق کا جواب
ملاحظہ ہوں۔
نمبر۱۔ داؤد بن قیس کی روایت شاذ نہیں ہے کیونکہ شاذ روایت
(بقول مولانا گوندلوی صاحب غیرمقلد) وہ ہوتی ہے جس میں ثقہ راوی اوثق کی مخالفت
کرے۔ التحقیق الراسخ (ص۱۰)۔ اور داؤد بن قیس کی روایت دیگر چارراویوں (امام مالک
وغیرہ) کی روایتوں کے منافی نہیں بلکہ اس میں زیادتی ہے جو ان کی روایات میں نہیں
ہے، یعنی باقی راوی تو گیارہ یا تیرہ رکعتیں نقل کرتے ہیں جب کہ داؤد ان سےزیادہ یعنی اکیس رکعتیں
نقل کرتے ہیں اور وہ بالا تفاق ثقہ راوی ہے۔ ایسے راوی کی زیادت خود غیرملقدین کے
نزیدک بھی مقبول ہے۔ چنانچہ گوندلوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: زیادتی ثقہ اس وقت
مقبول ہوتی ہے جب اس پر کسی محدث نے وہم
کا حکم نہ لگایا ہو۔ (التحقیق الراسخ ص۱۱۱)۔ جس راویت پر علامہ ابن عبدالبرؒ جیسے
مسلمہ محدث نے وہم کا حکم
٭ص۲۵۸٭
لگایا ہے وہ روایت
تو غیرمقلدین کے نزدیک شاذ نہیں۔ لیکن جس روایت پر ھندستان میں انگریز کے
انے سے پہلے پہلے کسی نے بھی تنقید نہ کی
وہ غیرمقلددین کے نزدیک شاذ ہے۔
۲۔ مصنف
عبداراق کے کسی نسخہ میں گیارہ
مذکور نہیں ہے اور زبیر صاحب نے امام سیوطی
ؒ کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں فیا کہ اننہونن ے کہاں گیارہ
عدد نقل کیا ہے ۔ زبیر صاحب نے ممدوح مولانا نذیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں
ایسی بے حوالہ بات قابل التفات ہی نہیں ہے۔ (انورار المصابیح ص۲۱۲)
ثانیاً:۔ اور اگر
مان ہی لیا جائے کہ امام سیوطیؒ نے مصنف عبدالرزاق سے گیارہ کا عدد نقل کیا ہے تو
کیا زبیر صاحب اور ان کی تمام پارٹی مصنف کے کسی اصل نسخہ سے یہ رویات گیارہ کے
عدد کے ساتھ نکال کر دیکھا سکتے ہیں اور اگر نہ دیکھا سکیں تو پھر (زبیر صاحب کی
اپنی زبان سے) ہمم امام سیوطیؒ کے نام کا رعب ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ دیکھئے زبیر صاحب کی تعداد قیام رمضان ص۷۰،۷۳۔ ؏ ہے یہ گنبد کی
صدا جیسی کہے ویسی سنے۔
ثالثاً:۔ بالفڑض اگر سیوطیؒ نے مصنف کے حوالہ سے گیارہ کا
عدد ذکر کیا ہےتو انہوں نے موطا کے حوالہ
سے حضرت سائب ؓ کی بیس رکعات والی روایت بھی نقل کی ہے دیکھئے (الحاوی للفتاویٰ
جلد۱ص۳۳۶) مطبوعہ دار العنمیه بیروت۔
اب غیرمقلدین کو
چاہئے کہ وہ موطا میں عشرون والا نسخہ بھی تسلیم کر لیں ورنہ مصنف عبدالرزاق کے
گیارہ رکعات والے نصخہ سے بھی دستبردار ہو جائیں۔ دیدہ باید!
۳۔ زبیر صاحب کے ذکر کردہ اعتراض کی تسری شق کہ اس
روایت پر حنفیہ دیوبندیہ کا عمل نہیں ہے ۔ نہایت عجیب اور حیرت انگریز ہے۔
کیونک ہاحناف کے پاس تو الحمدللہ اپنے موقف کے اثبات میں روایات کثیرہ صحیحہ موجود
ہیں۔ پھر احناف کو اس مضطرب رویت سے استد
لال کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ البتہ
غیرمقلدین کے مذہب کا سارا امدارا یسی مضطرب اور ضعیف راویتوں پر ہے اس لیے
ان کو احناف کی بجائے اپنی فکر کر نی چاہئے۔
۴۔ زبیر صاحب کے اعتراض کی چچوتھی شق بھی باطل ہے کیونکہ
مصنف عبدالرزاق کتب حدیث میں سے ایک معتبر اور مستند کتاب ہے اور خود علمائے
غیرمقلدین کو بھی اس کا اقرار ہے چنانچہ زبیر علی زئی صاحب کے نہایت ممدوح مولانا
محمد گوندلوی صاحب نے مصنف عبدالرزاق کو
کتب حدیث کی طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے ۔ دیکھئے
التحقیق الراسخ ص۱۷۔ اور گوندلوی صاحب طبقہ ثالثہ کی احادیث کے بارے میں لکھتے ہیں وہ لوگ جو ان کی جانچ پڑتال اچھی
طرح کر سکیں ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ (ایضاً ص۲۰)۔ شروع سے لیکر آج تک علمائے امت
مصنف عبدالرزاق کی احادیث سے استدلال کرتے ہیں اور کبھی کسی نے اس کو غیر معتبر
نہیں ٹھہرایا بلکہ غیرمقلدین بھی اس کی
احادیث کو اپنے مستدلالت میں پیش کرتے ہیں اور ان کو درست
٭ص۲۵۸٭
مانتے ہیں چند ا یسی مثالیں بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
نمبر۱:۔ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب مصنف عبدالرزاق
(جلد۲ص۱۳۹) سے حضرت عمرؓ کے اثر کو
استدالال میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ اثر سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔ توضیح الکلام جلد۱ص۵۲۶۔ مولانا عبدالرؤف سندھو
غیرمقلد ایک روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں سفیان ثوری سے حضرت ابو ہریرہؓ پر
موقوف روایت کیا ہے اور ترجیح بھی اسی
موقوف کو ہی گی کیونکہ عبدالرزاق ثقه اور حافظ ہیں۔ القول المقبول (ص۴۷۳)۔ خود
معترض زبیر علی نے بھی مصنف عبدالرزاق کی کئی احادث سے استدلال کیا ہے اور ان کو صحیح قرار دیا ہے۔ مثلاً مصنف(جلد۲ص۶۹)
کی ایک روایت (طاؤس) سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں اسنادہ صحیح (نور العینین
ص۱۲۳)۔ اور (جلد۳ص۶۹) سے حضرت نافع کی روایت
سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: واسنادہ صحیح۔ ایضاً (ص۸۱)۔ اسی طرح (ج۲ص۶۹)
سے حضرت وہب بن منبہ کے اثر کو استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ واسناد صحیح داؤد ثقه ایضاً (ص۱۳۸)۔
اب ہم زبیر صاحب کو انصاف و دیانت (بشرطیکہ ایسی کوئی شے ان
میں موجود ہو) کا واسطہ دے کر پوچھتے ہیں
کہ اگر مصنف عبدالرزاق کا بنیادی راوی ہی ضعیف و مصحف ہے تو پھر وہ روایات جن سے
آپ نے یا آپ کے بڑوں نے استدلال کیا ہے اور صراحتاً ان کو صحیح کہا ہے وہ کس کھاتے
میں جائیں گے۔!
؏ بریں عقل ودانس بباید گریست
دوسرا اعتراض:۔ اس روایت پر مولانا مبارکپوری صاحب غیرمقلد
نے یہ کہا ہے کہ اکیس رکعات کی روایت غیر محفو ظ
ہے کیونکہ ان الفاظ (اکیس رکعات) کو روایت کرنے میں امام عبدالرزاق منفرد ہیں اور وہ اگرچہ ثقہ اور حافظ
ہی مگر وہ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے تو ان کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔۔۔ الخ
(تحفه الاحوذی جلد۲ ص۷۴)۔ لیکن مبارکپوی صاحب کا یہ نرا وہم ہے کیونکہ امام
عبدالرزاق نے اپنی کتاب نابینا ہونے سے پہلے لکھی ہے اور ان کی کتاب کی روایات خود
غیرمقلدین کے نزدیک بھی درست ہیں۔ لہذا
اگر کتاب لکھنے کے بعد ان کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا تو اس سے ان کی کتاب
والی روایات پر کیا فرق پڑتا ہے؟ البتہ انہوں نے نابینا ہونے بعد جو روایات زبانی
بیان کی ہیں ان میں کلام کرنے کی گنجائش ہے لیکن مذکورہ روایت تو ان کی کتاب والی
روایات میں سے ہے۔ اس لئے غیرمقلدین کا اس روایت پر اعتراض کرنا چہ معنٰی وارد؟ اس
کی مزید تفصیل حصہ اول میں گزر چکی ہے۔
الغرض غیرملقدین کے اس روایت پر جتنے اعتراضات ہیں وہ سب باطل ہین اور یہ روایت
محمد بن یوسف کے دیگر چار شاگردوں کی
روایات سے صحت میں کم نہیں۔
٭ص۲۵۹٭
یہ اختلاف تو ان پانچوں کی روایتوں میں عدد کے اعتبار سے
تھا۔ اب اس میں کیفیت کے لحاظ سے جو اختلاف ہے وہ ملاحظہ کریں:۔ امام مالکؒ کی
روایت میں حضرت عمرؓ کے حکم کا ذکر ہے کہ
انہوں نے حضرت ابی ؓؓ اور حضرت رمیم ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم فرمایا تھا
لیکن عمل کیا ہوا؟ اس کا روایت میں کوئی تذکرہ نہیں ہے اور علامہ امیر یمانی صاحب
غیرمقلد کا بیان پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ
صحابہ ؓ نے کئی مسائل میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے حکم ککی خلاف ورزی
کی ہے۔ (سبل السلام جلد۲ص۱۵)۔
اس لئے ممکن ہے کہ صحابہ کرامؓ گیارہ سے زائد رکعات پڑھتے
ہوں جیسا ککہ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے۔۔۔ بلکہ مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد
نے یہاں تک لکھا ہے ہ حضرت عمرؓ نے جو گیارہ رکعات کا حکم دیا تھا وہ وجوبی نہیں تھا اور اختلاف کی گنجائش خود خلیفہ
ہی کی طرف سے موجود تھی۔ اس لئے (جو لوگ بیس وغیرہ رکعات پڑھتے تھے) ان کے حکم کی
خلاف ورزی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(انوار المصابیح ص۲۳۲)
بنابریں ااس روایت میں صرف حضرت عمرؓ کا حکم مذکورہ ہونے سے
لازم نہیں آتا کہ ان کے اس حکم پر عمل بھی ہوا ہے تاکہ گیارہ رکعات کو حضرت عمرؓ
کی سنت قرار دیا جائے ۔
دوسرے راوی حضرت یحییٰ قطان ؒ کی روایت امام مالکؒ کی روایت
سے بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ امام مالک کی روایت میں صرف حضرت عمرؓ کا کا ابی ؓ بن کعب اور تمیم داریؓ کو گیارہ رکعات
پڑھانے کا حکم مذکور ہے جبکہ یحییٰ کی روایت میں حضرت عمرؓ کے حکم کا کوئی ذکر
نہیں بلکہ اس میں حضرت ابیؓ اور حضرت تمیم
ؓ کا اپنا عمل مذکور ہے کہ وہ گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ اور پہلے گزر چکا ہے کہ
غیرملقدین ان دونوں باتوں ممیں فرق کرتے ہیں کہ جس روایت میں حضرت عمرؓ کے حکم کی
تصریح ہو اس کو حجت مانتے ہیں جسس روایت میں ان کا حکم مذکور نہ ہو اس کو حجت نہیں
مانتے ۔ اب امام مالکؒ اور حضرت یحییؒ دونوں ایک ہی استاد سے روایت بیان کر رہے
ہیں لیکن دونوں کے بیان کی تعبر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ تو ان دونوں کی روایتوں کا آپس میں اختلاف
تھا جب کہ ان کے تیسرے ساتھی عبدالعزیز وراوردی ؒ کی روایت
ان دونوں سے مختلف ہے کیونکہ اس کی روایت میں نہ تو حضرت عمرؓ کے
٭ص۲۶۰٭
حکم کا ذکر ہے اور نہ ہی حضرت ابیؓ اور حضرت تمیم ؓ کی
امامت کا کوئی تذکرہ ہے بلکہ اس میں حضرت سائبؓ کا اپنا بیان مذکور ہے کہ ہم گیارہ
رکعات پڑھتے تھے۔ اب اندازہ لگائیں کہ محمد بن یوسف کے یہ تینوں شاگرد گیارہ کے
عدد پر متفق ہونے کے باوجود اپنے بیانات کی تعبیر میں باہم کتنے مختلف ہیں جبکہ ان
کے چوتھے اور پانچوں ساتھی محمد بن اسحاق
اور داؤد بن قیسؒ کی روایتیں تو ان تینوں
کی روایتوں سے عدد اور کیفیت دونوں اعتبار سے مختلف ہیں۔ محمد اسحاق کی روایت میں
ہے کہ ہم تیرہ رکعات پڑھتے تھے جبکہ داؤد ؒ کی روایت میں ہے کہ حضر ت عمرؓ نے
لوگوں کو حضرت ابی ؓ اور تمیم ؓ کی اقتداء میں اکیس رکعت پر جمع کیا تھا۔ روایت میں
ایسے ہی اختلاف کو اضطراب کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ مولانا عبدالمنان نور پوری صاحب
حافظ ابن الصلاح کے حوالہ سے لکھتے ہیں: مضطرب حدیث وہ ہے جس میں رویت مختلف ہو
جائے چنانچہ کوئی اسے ایک طرح سے روایت کرے اور کوئی دوسرے طریقہ سے جو پہلے کے
مخالف ہو۔ (تعداد تراویح ص۱۴۹)۔ اور مضطرب روایت قابل احتجاج نہیں۔ (تحقیق الکلام
جلد۲ ص۷)۔ اب محمد بن یوسف کے شاگرد کے بیانات میں اس قدر اختلافات کے باوجود اگر
محمد بن یوسفؒ کی روایت کو مضطرب نہ قرار دیا جائے جیسا کہ غیرمقلدین حضرات کی
رائے ہے تو پھر اس روایت پر عمل کرنے کیلئے وہ ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو ان
پانچوں طرق میں سے کسی ایک طریق کو رجیح ددی جائے یا پھر ان سب میں تطبیق کا کوئی
طریقہ اختیار کیا جائے اور یہ دونوں صورتیں اختیار کی ہیں۔ انہوں نے گیارہ ،
تیرہ اور اکیس والی روایات میں اکیس کے
عدد کو ترجیح دی ہے اور گیارہ رکعت والی روایت کو وہم قرار دیا ہواور پھر گیارہ کی
بجائے اکیس رکعات کر دی گئی ہوں۔(زرقانی شرح موطا جلد۱ ص۲۳۹)۔
علامہ زرقانی نے بھی اس تطبیق کو پسند کیا ہے۔ ان ائمہ حدیث
اور ماہرین جن ککی تطبیق کے مقابلہ میں بعض غیرمقلدین (مولانا عبدالرحمٰن
مبارکپوری ، مولانا عبداللہ غازی پوری ، حافظ عبدالمنان وغیرہ نے ان روایات میں
تطبیق کی یہ صورت ذکر کی ہے کہ پہلے اکیس پر عمل پوتا رہا اور پھر آخر میں
گیارہ
٭ص۲۶۱٭
رکعتیں کر دی گئیں۔
(تحفه الاخوذی جلد۲ ص۷۶۸)۔
لیکن محدثین کرامؒ اور ماہرین فن کے مقابلہ میں مبارکپوری
صاحب وغیرہ غیرمقلدین کی رائے کی کوئی حدیثت نہیں ہے کیونکہ ان کی حیثیت محدثین کرامؒ کے مقابلہ میں محض اناڑی
کی ہے اور ان اناڑی کے مقابلہ میں ماہر فن
کی بات کو ہمیشہ ترجیح ہوتی ہے۔ چنانچہ مولانا نذیر رحمانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں
ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ماہر فن کی بات مانی جائے اناڑی کی کون سنتا ہے۔(رکعات
تراویح ص۲۳)۔ لہذا محدثین کرامؒ کی تطبیق یا ترجیح کے مقابلے میں غیرمقلدین کی بات
کو کچھ بھی وقعت نہیں دی جاسکتی ۔ الحاصل محمد بن یوسف کی روایت کے پانچوں طرق کو
مضطرب قرار دیا جائے یا ان میں تطبیق یا ترجیح دی جائے جو بھی طریقہ محدثین کرامؒ
کے اصولوں کی روشنی میں اختیار کیا جائے اس سے غیرمقلدین اپنا (گیارہ رکعات کی
مسنونیت کا ) دعویٰ ہرگز ثابت نہیں کر سکتے ۔ لہذا یہ روایت غیرمقلدین کیلئے حجت نہیں ہے۔
یہ ساری تفصیل تو محمد بن یوسف عن السائب ؓ بن یزیدؓ کی
روایت کے پانچوں طرق کے متعلق تھی لیکن اگر اس کے ساتھ یزید بن خصیفہ جو حضرت
سائبؓ کے دوسرے شاگرد اور محمد بن یوسف کے ہم استاذ ساتھی ہیں کی روایت کو سامنے رکھا جائے تو پھر لا
محالہ محمد بن یوسف کی روایت کے مقابلہ میں یزید بن خصیفہ کی روایت کو ترجیح ہو گی
کیونکہ محمد بن یوسف کی روایت میں ان پانچوں شاگردوں کے بیانات میں شدید اختلافات
ہیں جس کی تفصیل آپ ملاحظہ کر چکے ہیں جبکہ یزید بن خصیفہ کی روایت میں کوئی
اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت یدید بن خصیفہ سے ان کے تینوں شاگرد (ابن ابی ذہب
محمد بن جعفر اور امما مالک) متفق اللفظ ہو کر نقل کرتےہ یں کہ صحابہ کرامؓ حضرت
عمرؓ کے دور خلافت میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ حضرت سائبؓ بن یزیدؓ کے تیسرے شاگرد
محمد بن یوسف اور یزید بن خصیفہ کے ساتھی حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی زباب کی روایت
بھی یزید بن خصیفہ کی روایت کے موید ہے ۔ کیونکہ اس میں بھی حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر
کے پڑھے جانے کا ذکر ہے۔
اشکال :۔ بعض
غیرمقلدین لکھتے ہیں کہ اگر محمد بن یوسف کی روایت ان کے شاگردوں سے مختلف بیانات ہونے کی وجہ سے مضطرب ہے تو پھر یزید بن
خصیفہ کی روایت بھی مضطرب ہے کیونکہ ان شاگردوں کے بیانات میں بھی
٭ص۲۶۲٭
اختلاف ہے چنانچہ یزید
کے پہلے ششاگرد ابن ابی ذئب کا بیان ہے کہ حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں
لوگ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعات پڑھتے تھے دوسرے شاگرد محمد بن جعفر کی
روایت میں ہے کہ حضرت سائب ؓ فرماتے ہیں ہم حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعات اور
وتر پڑھتے تھے۔ اب پہلے کی روایت میں حضرت سائبؓ اپنے عمل کی بجائے دوسرے لوگوں کا
عمل نقل کر رہے ہیں جبکہ یزید کے دوسرے شاگرد محمد بن جعفر کی روایت میں حضرت
سائبؓ اپنا عمل ذکر کر رہے ہیں۔ اسیطرح ابن ابی ذئب کی روایت وتر کے ذکر سے ساکت ہے
جبکہ محمد بن جعفر کی روایت میں وتر کا
بھی ذکر ہے۔ (اسی طرح یزید بن خصیفہ کے ساتھ حارث بن عبدالرحمٰن کی روایت میں
بھی تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔) نیز ابن ابی
ذئب کی روایت میں ایک زائد جملہ ہے کہ لوگ حضرت عثمان غنیؓ کے عہد میں شدت قیام کی
وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے“ لیکن یزید کے دوسرے شاگرد محمد بن جعفر اور یزید
کے ہم استاذ حارث بن عبدالرحمٰن کی روایتوں میں نہ تو عہد عثمان کا ذکر ہے اور نہ
ہی کیفیت اداکا ۔ لہذا بیس رکعت والی
روایت بھی مضطرب ٹھہرے۔ محصہ انورا المصابیح ص۲۴۵،۲۴۶)۔ لیکن غیرمقلدین کا یہ اشکال بالکل بے اصل ہے اور محض گیارہ رکعات والی
مضطرب روایت کو بچانے کیلئے ایک غیرمقلدین نہ حیلہ ہے ۔ کیونکہ محمد بن یوسف کی
گیارہ رکعات والی روایت میں جو اختلاف ہے اور یزید بن خصیفہ کی بیس والی روایت میں
جو (ظاہری) اختلاف ہے ان دونوں میں زممین اور آسمان کا فرق ہے اس لیئے کہ محمد بن یوسف کے شاگردوں کے
بیانات میں جو اختلاف ہے وہ اختلاف معارضہ اور منافات کے قبیل سے ہے کہ ان میں ہر ایک کا بیان دوسرے سے بالکل
مختلف اور دوسرے کے بیان کے منافی ہے حتی
کہ پانچوں شاگرد رکعات تراویح کے عدد پر
بھی باہم متفق نہیں ہیں کوئی ان میں سے
گیارہ رکعات نقل کرتا ہے کوئی تیرہ رکعات اور کوئی اکیس رکعات نقل کر رہا ہے۔ اسی
طرح ان میں کوئی تو حضرت عمرؓ کا حکم نقل کر رہا ہے کوئی حضرت عمرؓ کے حکم کی
بجائے حضرت ابیؓ اور حضرت تمیمؓ کی امت کا تذکرہ کر رہا ہے۔ اور کوئی حضرت عمرؓ کے
دور میں گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھنے کا ذکر کر ررہا ہے روایا ت میں ایسے ہی اختلاف
کو اصول حدیث کی رو سے اضطراب کہا جاتا ہے ۔ اس کے بالمقابل یزید بن خصیفہ کے شاگردوں کی روایات میں اختلاف کی یہ
نوعیت نہیں بلکہ ان کے سب شاگرد بیس رکعات کے عدد پر باہم متفق ہیں۔ باقی ان کے
بیانات کی تعبیر میں جو معموللی سا اختلاف ہے
تو ہو اختلاف حقیقی نہیں بلکہ ظاہر ہے جس کو اضطراب نہیں کہا جاتا ۔ مثلاً۔
یزید کے شاگرد ا بن ابی ذئب کی روایت کے الفاظ ہیں کانوا یقومومن علی عھد عمر بن
الخطاب ؓ فی شیرر مضان یعشرین رکعه ۔۔۔الخ۔ اور محمد بن جعفر کی روایتکے الفاظ ہیں
کہ کانقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعه الخ۔ اب دونوں کی روایتوں کا مفہوم
ایک ہے کیونکہ کانوایقومون کا مصداق بھی
صحابہ کراؓ اور کبارہ تابعینؒ ہیں اور
کانقو کا مصداق بھی صحابہ کرامؓ
٭ص۲۶۳٭
اور کبار تابعین ہیں۔ اب ان دونوں کے بیانوں میں کیا فرق ہو
سکتا ہے۔
اگر محمد بن جعفر کے بیان میں وتر کو زائد ہے جس سے ابن ابی
ذئب کی روایت ساکت ہے۔ اسی طرح ابن ای
ذئنن کی روایت میں حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں تراویح پڑھے جانے کی کیفیت مذکور ہے
جس کا محمد بن جعفر کی روایت میں کوئی ذکر نہیں ہے تو یہ ان دونوں کی روایتیں محمد
بن یوسف کے شاگردوں کی روایات کی طرح باہم
ایک دوسرے سے معارض اور منافی نہیں کہ ان کو مضطرب قرار دیا جائے بلکہ ان دونوں میںجو معمولی فرق ہے وہ
صرف بیان اور سکوت کا فرق ہے کہ ایک روایت ممیں ایک چیز کا ذکر ہے جس سے دوسرے کی روایت میں سکوت ہے۔ مولانا نذیر رحامانی
صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں سکوت اور بیان میں کوئی مناظا ت اور معارضہ نہیں ہے۔
انوار المصابیحص۲۳۷۔ غیرمقلدین کے استاذ العلما ء اور محدث اعظم حافظ گوندلوی صاحب لکھتے ہیں ایسا ہو ہی
جاتا ہے کہ ایک چیز کا بعض طرق میں ذکر
ہوتا ہے اور بعض میں نہیں تو ایسے راوی کے ثقہ ہونےکی صورے میں روایت کا ضعف لازم نہیں آتا ۔ التحقیق الراسخ
ص۸۲۔ نیز لکھتے ہیں محدثین کے ہاں مسلمہ
ہے کہ ایک روایت میں ایک چیز کا عدم ذکر اس سے دوسرے طریق میں آجائے تو معمول بہ
ہو گی۔ایضاً (ص۸۴)۔ لہذا غیرمقلدین کا یزید بن خصیفہ کے شاگردوں کے بیاننات میں
اپنی طرف سے فرضی اختلافات بنا کر اس کو مضطرب کہنا باطل ہے اور ان کا محمد بن
یوسف کی مضطرب روایت پر قیام کرنا قیام مع الفارق ہے یہ تفصیل یزید بن خصیفہ کے
شاگردوں کی روایت کے متعلق تھی ۔ اس کے ساتھ یزید بن خصیفہ کے ہم استاذ حارث بن
عبدالرحمٰن کی روایت ملاحظہ کریں۔
چنانچہ حارث اپنے استاد حضرت سائب کا بیان
یوں نقل کرتے ہیںکہ حضرت عمرؓ کے دور میں قیام تیس رکعات کا تھا ۔ علامہ ابن
عبدالبر فرماتے ہیں کہ ا تیئس رکعات میں تین رکعات وتر کی ہوتی تھیں۔ عمدۃ القاری
جلد۸ص۲۴۶۔ اب حار ث کی روایت بالکل یزید بن خصیفہ کے شاگردوں کی روایات کی طرح ہے
صرف اتنا فرق ہے کہ وہاں صرف وتر کا ذکر تھا اور یہاں حارث کی روایت ممیں وضاحت سے
تین رکعات وتر کا ذکر ہے۔ اور مولانا ارشاد اثری غیرمقلد لکھتے ہیں: الحدیث یفسر
بعضه بعضا۔ کہ ایک حدیث دوسری کی وضاحت کرتی ہے توضیح الکلام (ج۱ص۴۸۹،۵۴۴)۔ الغرض
حضرت سائبؓ سے ان کے دونوں شاگرد یزید بن خصیفہ
اور حارث بن عبدالرحمٰن اور پھر ان
کے سب شاگرد متفق ہو کر نقل کرتے ہیں کہ حضر ت عمرؓ کے دور میں سحابہ کرامؓ اور تابعین
کرام بیس رکعات پڑھتے تھے اوور نا کے
بیانات میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بالمقابل حضرت سائبؓ کے تیسرے شاگرد
محمد بن یوسف کے شاگردوں کی روایات میں
شدید اختلافات ہونے کیوجہ سے وہ روایت مضطرب ہے۔
لہذا غیرمقلدین کا یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمٰن کی
بے بنیاد اور غیر مضطرب روایات کے مقابلے
میں محمد بن یوسف کی مضطرب روایت کو ترجیح
دینا صریح زیادتی اور انصا ف اور دیانت سے بھی کوسوں دور ہے بالخصوص جب کہ یزدید
بن خصیفہ اور حارث کی روایات کی تائید حضرت عمرؓ کے عہد سے
٭ص۲۶۴٭
متعلق دیگر آثار سے بھی ہوتی ہے جبکہ محمد بن یوسف کی روایات کی تائید میں ایک بھی روایت
ایسی نہیں ہے جو ان کی روایات کی تقویب کا سبب بن سکے۔
غیرمقلدین کے چند شبہات
قارئیں کرام، غیرمقلدین کے آٹھ رکعت پر دلائل تو آپ نے ملاحظہ کر لئے اب ان کے چند شبہات جو یہ
احناف سے پیش کرتے ہیں ملاحظہ
کیجئے۔
علامہ ابن ہمام حنفی رح اور
تراویح
اکثر غیر مقلدین کی جانب سے ابن ہمام حنفی رح کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے کہ ابن ہمامؒ کےنزیدیک بیس تراویح ثابت نہیں ہیں۔
جبکہ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ غیر مقلدین اپنی پرانی روش کو اختیار کرتے ہوئے مکمل عبارت پیش نہیں کرتے۔
علامہ ابن ہمام ؒ 20 تراویح کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن علامہ ابن ہمامؒ 8 کو سنت اور باقی کو مستحب تسلیم کرتے ہیں۔ غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ علامہ ابن ہمامؒ 20 تراویح کا انکار کرتے ہیں غلط ہے۔
علامہ ابن ہمامؒ جہاں 8 رکعت کو سنت تسلیم کرتے ہیں اسی سے پہلے یہ بیان کرتے ہیں کہ
''ہاں بیس تراویح ثابت ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے، یزید بن رومان سے موطا میں روایت ہے کہ کہا لوگ حضرت عمر رضی اللہ کی خلافت کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے یعنی تین وتر سمیت۔اور امام بہیقیؒ نے معرفۃ السنن والاثار میں سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے ، علامہ نووی شافعی نے خلاصہ میں فرمایا کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔'' ( فتح القدیر، جلد 1 صفحہ 485)۔
تویہاں ابن ہمامؒ تسلیم کر رہے ہیں کہ بیس تراویح ثابت ہیں۔
باقی علامہ ابن ہمام ؒ کا صرف اٹھ کو سنت کہنا ان کا اپنا تفرد ہے اور علامہ کشمیریؒ اور عبد الحی لکھنوی ؒ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کا اپنا تفرد ہے جو قابل اعتبار نہیں۔
خود غیر مقلدین کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن ہمامؒ کے تفرد کو احناف قبول نہیں کرتے۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری علامہ ابن ہمام ؒکے تفردات کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''علامہ ابن ھمام حنفی کو فقہ حنفی میں اجتہادی مقام حاصل تھا اور انہوں نے کئی مسائل میں اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کو خود علمائے احناف نے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔لہذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہو گا وہ قابل قبول نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے حنفی مذہب باور کر لیا جائے۔'' ( توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 546)۔۔
یہاں غیر مقلدین کے مستند عالم نے خود تسلیم کر لیا کہ ابن ہمامؒ کا تفرد احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے تو پھر مسئلہ تراویح میں بھی ان کے تفرد کو بار بار پیش کرنا غیر مقلدین کے لئے جائز نہیں۔
اکثر غیر مقلدین کی جانب سے ابن ہمام حنفی رح کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے کہ ابن ہمامؒ کےنزیدیک بیس تراویح ثابت نہیں ہیں۔
جبکہ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ غیر مقلدین اپنی پرانی روش کو اختیار کرتے ہوئے مکمل عبارت پیش نہیں کرتے۔
علامہ ابن ہمام ؒ 20 تراویح کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن علامہ ابن ہمامؒ 8 کو سنت اور باقی کو مستحب تسلیم کرتے ہیں۔ غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ علامہ ابن ہمامؒ 20 تراویح کا انکار کرتے ہیں غلط ہے۔
علامہ ابن ہمامؒ جہاں 8 رکعت کو سنت تسلیم کرتے ہیں اسی سے پہلے یہ بیان کرتے ہیں کہ
''ہاں بیس تراویح ثابت ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے، یزید بن رومان سے موطا میں روایت ہے کہ کہا لوگ حضرت عمر رضی اللہ کی خلافت کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے یعنی تین وتر سمیت۔اور امام بہیقیؒ نے معرفۃ السنن والاثار میں سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے ، علامہ نووی شافعی نے خلاصہ میں فرمایا کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔'' ( فتح القدیر، جلد 1 صفحہ 485)۔
تویہاں ابن ہمامؒ تسلیم کر رہے ہیں کہ بیس تراویح ثابت ہیں۔
باقی علامہ ابن ہمام ؒ کا صرف اٹھ کو سنت کہنا ان کا اپنا تفرد ہے اور علامہ کشمیریؒ اور عبد الحی لکھنوی ؒ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کا اپنا تفرد ہے جو قابل اعتبار نہیں۔
خود غیر مقلدین کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن ہمامؒ کے تفرد کو احناف قبول نہیں کرتے۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری علامہ ابن ہمام ؒکے تفردات کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''علامہ ابن ھمام حنفی کو فقہ حنفی میں اجتہادی مقام حاصل تھا اور انہوں نے کئی مسائل میں اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کو خود علمائے احناف نے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔لہذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہو گا وہ قابل قبول نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے حنفی مذہب باور کر لیا جائے۔'' ( توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 546)۔۔
یہاں غیر مقلدین کے مستند عالم نے خود تسلیم کر لیا کہ ابن ہمامؒ کا تفرد احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے تو پھر مسئلہ تراویح میں بھی ان کے تفرد کو بار بار پیش کرنا غیر مقلدین کے لئے جائز نہیں۔
علامہ ابن ہمام ؒ کا صرف اٹھ کو سنت کہنا ان کا
اپنا تفرد ہے اور علامہ کشمیریؒ اور عبد الحی لکھنوی ؒ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان
کا اپنا تفرد ہے جو قابل اعتبار نہیں۔
خود غیر مقلدین کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن ہمامؒ کے تفرد کو احناف قبول نہیں کرتے۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری علامہ ابن ہمام ؒکے تفردات کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''علامہ ابن ھمام حنفی کو فقہ حنفی میں اجتہادی مقام حاصل تھا اور انہوں نے کئی مسائل میں اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کو خود علمائے احناف نے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔لہذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہو گا وہ قابل قبول نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے حنفی مذہب باور کر لیا جائے۔'' ( توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 546)۔۔
یہاں غیر مقلدین کے مستند عالم نے خود تسلیم کر لیا کہ ابن ہمامؒ کا تفرد احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے تو پھر مسئلہ تراویح میں بھی ان کے تفرد کو بار بار پیش کرنا غیر مقلدین کے لئے جائز نہیں۔
خود غیر مقلدین کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن ہمامؒ کے تفرد کو احناف قبول نہیں کرتے۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری علامہ ابن ہمام ؒکے تفردات کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''علامہ ابن ھمام حنفی کو فقہ حنفی میں اجتہادی مقام حاصل تھا اور انہوں نے کئی مسائل میں اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کے اختلاف کو خود علمائے احناف نے بنظر استحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔لہذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہو گا وہ قابل قبول نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے حنفی مذہب باور کر لیا جائے۔'' ( توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 546)۔۔
یہاں غیر مقلدین کے مستند عالم نے خود تسلیم کر لیا کہ ابن ہمامؒ کا تفرد احناف کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے تو پھر مسئلہ تراویح میں بھی ان کے تفرد کو بار بار پیش کرنا غیر مقلدین کے لئے جائز نہیں۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی، بیس
تراویح اور غیر مقلدین کا دھوکہ
اہلحدیث حضرات بیس تراویح کے رد میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا ایک حوالہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک بیس تراویح سنت نہیں اور بیس تراویح کی روایت ضعیف ہے۔
غیر مقلدین کے عالم نذیر احمد رحمانی کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح سنت ہے اور علمائے حنفیہ کی شہادت کا عنوان دے کر اپنی کتاب انوار المصابیح صفحہ 34 پہ لکھتے ہیں کہ '' شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کہتے ہیں کہ یعنی محدثین کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور منقول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے زمانے میں بعض سلف کا اسی پہ عمل تھا ، سنت نبوی ﷺ کے اتباع کے شوق میں۔'' ( انوار المصابیح، صفحہ 34 بحوالہ ماثبت السنۃ از محدث دہلویؒ)۔
یہاں ان غیر مقلد عالم کی مراد یہ ہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک بھی 8 رکعت تراویح ہی سنت ہے اور 20 تراویح کی روایت ضعیف ہے۔
سب سے پہلے تو شاہ صاحب نے اس بات کی کوئی سند بیان نہیں کی کہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں گیارہ رکعت تراویح ہوتی تھے اور بغیر سند بات غیر مقلدین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
غیر مقلدین حضرات ہمیشہ کی طرح ادھوری بات ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ ان غیر مقلد عالم نے اس عبارت سے پہلی اور اگلی عبارت چھوڑ دی جس سے شاہ محدث دہلوی کا اپنا موقف واضح ہوتا تھا۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی کا جو حوالہ ان غیر مقلد عالم نے پیش کیا بلکہ اسی حوالہ سے اوپر شیخ ؒ اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ '' ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بہیقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ اور علی رضی اللہ کے عہد میں بھی اتنی ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان میں بیس رکعت پڑھیں اور اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گیارہ رکعت پڑھی'' ( ماثبت السنۃ صفحہ 217)۔
یہاں محدث دہلویؒ نے واضح بیان کیا کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں جو امام بہیقی کی صحیح روایت سے ثابت ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی بیس پہ موجود ہے لیکن محدث اس کو ضعیف کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہاں دہلویؒ خود ابن عباس رضی اللہ کی روایت کو ضعیف نہیں کہہ رہے بلکہ ان کا کہنا کے کہ محدث اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں۔
اگلی خیانت غیر مقلد عالم نے یہ کی کہ جو حوالہ پیش کیا اس سے اگلی عبارت بھی چھوڑ دی تاکہ حقیقت پتہ نہ چل سکے۔
اسی عبارت سے اگلی عبارت شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ '' عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ نبی کریم ﷺ سے مشابہت ہو جائے اور گنتی جو ٹھہر گئی ہے صحابہ اور تابعین سے اور ان کے بعد کے لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں'' ( ماثبت السنۃ صفحہ 218)۔
شاہ صاحب نے اگلی عبارت میں ہی وضاحت کر دی کہ صحابہ کرام، تابعین اور انکے بعد لوگوں سے بیس رکعت ہی مشہور ہے جس کو ان غیر مقلد عالم نے بیان نہیں کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت پتہ نہ چل سکے۔
اس کے علاوہ شاہ عبدالحق دہلوی ؒ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ
''صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جو گیاوہ رکعت پڑھی وہ آپ کی تہجد تھی ( یعنی تین وتر، آٹھ رکعت تہجد)، اور ابن ابی شیبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بیس رکعت (تراویح) پڑھی۔( اشعۃ اللمعات، باب قیام شھر رمضان، صفحہ 249)۔
تو شاہ صاحب کا موقف واضح ہو گیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو تہجد مانتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیس تراویح کی روایت کو تراویح مانتے ہیں جیسا کہ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے۔
اہلحدیث حضرات بیس تراویح کے رد میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا ایک حوالہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک بیس تراویح سنت نہیں اور بیس تراویح کی روایت ضعیف ہے۔
غیر مقلدین کے عالم نذیر احمد رحمانی کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح سنت ہے اور علمائے حنفیہ کی شہادت کا عنوان دے کر اپنی کتاب انوار المصابیح صفحہ 34 پہ لکھتے ہیں کہ '' شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کہتے ہیں کہ یعنی محدثین کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا اور منقول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے زمانے میں بعض سلف کا اسی پہ عمل تھا ، سنت نبوی ﷺ کے اتباع کے شوق میں۔'' ( انوار المصابیح، صفحہ 34 بحوالہ ماثبت السنۃ از محدث دہلویؒ)۔
یہاں ان غیر مقلد عالم کی مراد یہ ہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک بھی 8 رکعت تراویح ہی سنت ہے اور 20 تراویح کی روایت ضعیف ہے۔
سب سے پہلے تو شاہ صاحب نے اس بات کی کوئی سند بیان نہیں کی کہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں گیارہ رکعت تراویح ہوتی تھے اور بغیر سند بات غیر مقلدین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
غیر مقلدین حضرات ہمیشہ کی طرح ادھوری بات ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ ان غیر مقلد عالم نے اس عبارت سے پہلی اور اگلی عبارت چھوڑ دی جس سے شاہ محدث دہلوی کا اپنا موقف واضح ہوتا تھا۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی کا جو حوالہ ان غیر مقلد عالم نے پیش کیا بلکہ اسی حوالہ سے اوپر شیخ ؒ اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ '' ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بہیقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ اور علی رضی اللہ کے عہد میں بھی اتنی ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان میں بیس رکعت پڑھیں اور اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گیارہ رکعت پڑھی'' ( ماثبت السنۃ صفحہ 217)۔
یہاں محدث دہلویؒ نے واضح بیان کیا کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں جو امام بہیقی کی صحیح روایت سے ثابت ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی بیس پہ موجود ہے لیکن محدث اس کو ضعیف کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہاں دہلویؒ خود ابن عباس رضی اللہ کی روایت کو ضعیف نہیں کہہ رہے بلکہ ان کا کہنا کے کہ محدث اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں۔
اگلی خیانت غیر مقلد عالم نے یہ کی کہ جو حوالہ پیش کیا اس سے اگلی عبارت بھی چھوڑ دی تاکہ حقیقت پتہ نہ چل سکے۔
اسی عبارت سے اگلی عبارت شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ '' عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ نبی کریم ﷺ سے مشابہت ہو جائے اور گنتی جو ٹھہر گئی ہے صحابہ اور تابعین سے اور ان کے بعد کے لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں'' ( ماثبت السنۃ صفحہ 218)۔
شاہ صاحب نے اگلی عبارت میں ہی وضاحت کر دی کہ صحابہ کرام، تابعین اور انکے بعد لوگوں سے بیس رکعت ہی مشہور ہے جس کو ان غیر مقلد عالم نے بیان نہیں کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت پتہ نہ چل سکے۔
اس کے علاوہ شاہ عبدالحق دہلوی ؒ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ
''صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جو گیاوہ رکعت پڑھی وہ آپ کی تہجد تھی ( یعنی تین وتر، آٹھ رکعت تہجد)، اور ابن ابی شیبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بیس رکعت (تراویح) پڑھی۔( اشعۃ اللمعات، باب قیام شھر رمضان، صفحہ 249)۔
تو شاہ صاحب کا موقف واضح ہو گیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو تہجد مانتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیس تراویح کی روایت کو تراویح مانتے ہیں جیسا کہ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے۔
علامہ انور شاہ
صاحب کشمیری:۔
نمبر
[01] سب سے پہلے انہوں نے لکھا ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی بیس [20] رکعت سے
کم تراویح کا قائل نہیں اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک بھی بیس [20]
رکعت تراویح کا ہے [عرف الشذی]
نمبر
[02] پھر فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ کا بیس [20] رکعت تراویح کا مسلک حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ سے ماخوذ ہے
نمبر
[03] پھر فرماتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ مسلک ہی سنت ہے
نمبر
[04] پھر فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ اس میں بدعتی نہیں تھی بلکہ انہوں نے یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ
وسلم سے ہی لیا ہے
نمبر
[05] پھر فرماتے ہیں کہ یہ دلیل ہے کہ بیس [20] رکعت تراویح کی اصل نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے اگرچہ ہمیں قوی سند سے نہ پہنچی ہو [عرف الشذی]
یہ
پانچوں باتیں دوکاندار خطیب [عبداللہ بہاولپوری] نے چھوڑ دی ہیں اور علامہ موصوف
رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نام نہاد اہل حدیث کو سحری کے نبوت تک تراویح پڑھنی
چاہیے یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری رات کا عمل ہے جو صرف آٹھ رکعت پر
اکتفا کرتا ہے اور سواد اعظم سے الگ ہوکر ان کو بدعتی کہتا ہے وہ اپنا انجام سوچ
لے [فیض الباری] اور حدیث پاک میں سواد اعظم سے کٹنے والے کا انجام جہنم بتایا ہے
نیز حدیث میں خیانت کو منافق کی علامت بتایا ہے نہ کہ اہل حدیث کی - کیا کوئی
دوکاندار دکھا سکتا ہے کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا ہو کہ
آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر بھاگ جایا کرو؟
ہدایہ
کے حوالہ میں بھی خیانت کی ہے - وہاں تو صاف لکھا ہے کہ بیس [20] رکعت تراویح
خلفاء ثلاثہ کی مواظبت کی وجہ سے سنت مؤکدہ ہے - اور آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والا
سنت مؤکدہ کا تارک ہے "اگر ہمت ہے تو یہ عبارت دکھاؤ کہ حاشیہ ہدایہ میں لکھا
ہو" کہ آٹھ [8] رکعت تراویح پڑھ کر بھاگ جایا کرو
امام
محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی
بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی
پر ہے الخ
اورایک
دوسرے مقام پر امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله نے فرمایا کہ حضرت
فاروق الأعظم رضی الله عنه کا یہ فعل سنت ہے اوراسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل
برقرار رہا ہے الخ
وقال
العلامة محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة
بأقل من عشرين ركعة فى التراويح وعليه جمهور الصحابة الخ
أقول
: إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة
الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين‘‘
فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة... واستقر الأمر على عشرين ركعة. اھ۔
العَرف
الشذي شرح سنن الترمذي جلد 2 صفحہ 208
علامہ
کشمیری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو 20 کا حکم دیا تو ضرور ان کے
پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کوئ اصل صحیح سند سے پہنچی ہو گی اگرچہ وہ
ہم تک صحیح سند سے نہ پہنچی ہو۔
علامہ
کشمیری کے الفاظ یہ ہیں:
''لا بد من أن يكون لها أصل منه وإن لم يبلغنا بالإسناد القوي۔''
الكتاب
: العرف الشذي شرح سنن الترمذي
المؤلف
: محمد أنور شاه ابن معظم شاه الكشميري ج 2ص 294
اور
آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ 20 پر اجماع ہے، اس سے کم کا کوئ بھی قائل نہیں۔ علامہ
کشمیری کے الفاظ یہ ہیں:
''لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح
، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم۔''
الكتاب
: العرف الشذي شرح سنن الترمذي
المؤلف
: محمد أنور شاه ابن معظم شاه الكشميري ج 2ص293
......بھائی ابھی شاہ صاحب کی ایک اور بات سنو کہ وہ کیا کہتے
ہیں۔۔۔۔۔۔
شاہ
صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی 20 رکعت تراویح کی روایت بیان کر کے فرماتے ہیں کہ
'' تلقتۃالاُمۃ بلقبول'' کہ حضرت عمر کے اس عمل کو امت کی طرف سے تلقی بلقبول حاصل
ہے۔۔۔ اور جو 8 رکعت پہ اکتفا کرتا ہے وہ سواد اعظم سے کٹ گیا اور سواد اعظم پہ
بدعت کا الزام لگاتا ہے تو وہ اپنا انجام سوچ لے۔۔ )فیض الباری، جلد 3 صفحہ
375(۔۔۔۔
علامہ ملا قاری حنفی
رحمہ اللہ –
بیس رکعت تراویح اور غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کا دھوکا:
علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں:
ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر
در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
الجواب:
ملا علی قاریؒ کا موقف پیش کرنے میں سخت خیانت سے کام لیا گیا ہے ۔ملا علی قاریؒ نے تو اسی کتاب میں یہ لکھا ہے :۔
اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ
صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوا کہ تراویح بیس رکعات ہیں
(مرقاۃ المفاتیح، باب شھر رمضان الفصل الثالث جلد ۳ صفحہ ۳۷۲)
اسی طرح شرح النقایہ میں فرماتے ہیں
فصار اجماعاً لماروی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوا یقومون علی عھد عمر بعشرین کعۃ
وعلی عھد عثمان و علی
(شرح النقایہ ، فصل فی الوتر والنوافل جلد ۱ صفحہ ۱۰۴)
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے واضح طور پر بیس کی روایات نقل کی ہیں جو ان کے موقف[ بیس رکعت]کی واضح دلیل ہیں۔ چند عبارات ملاحظہ ہوں:
1: والذي صح أنهم كانوا يقومون على عهد عمر بعشرين ركعة
[مرقاۃ ج 4 ص 435]
ترجمہ:صحیح سند سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔
2: أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعة
[مرقاۃ ج 4 ص 441]
ترجمہ:صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے۔
3: فصار اجماعا لما روی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوا یقومون علی عھد عمر بعشرین رکعۃ وعلی عھد عثمان و علی رضی اللہ عنھم
[شرح النقایہ ج1 ص 342]
ترجمہ:پس اجماع ہو گیا،کیونکہ بیھقی میں سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعت پڑھتے تھے، ایسے ہی خلافت عثمانی اور خلافت علی میں بھی۔
4: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں بیس رکعت تراویح کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
و کانہ مبنی علی ما رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ و الطبرانی من حدیث ابن عباس انہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر۔
[شرح النقایہ ج1 ص 342]
ترجمہ: گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر مبنی ہے جسےامام ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ آ پ علیہ الصلاۃ والسلام رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔
ان واضح تصریحات کی موجودگی میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی کی جانب آٹھ رکعت کا قول منسوب کرنا تعجب انگیز ہے۔
اب آپ خد دیکھ لیں کےسے یہ نام نہاد اہل حدیث عوام کو دھوکا دے رہے ہیں —
عبارت نمبر 2:امام محمد شاگرد امام اعظم رحمہما اللہ اپنی
کتاب موطا امام محمد )ص:93( میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں: عن أبي سلمة بن عبد
الرحمن أنه سأل عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قالت ما كان
رسول الله صلى الله عليه و سلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى عشرة ركعة
ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انھوں نے ام المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایاکہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان و غیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں و بھذا ناخذ کلہ یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے، ہم ان سب کو لیتے ہیں۔
جواب :غیر مقلدین کا یہ سمجھنا کہ امام محمد رحمہ اللہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو جو قیام رمضان کے باب میں نقل کیا ہے لہذا وہ اس حدیث کو تراویح کے متعلق مانتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ اس کی چند وجوہ ہیں:
1: کہ امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی اسی کتاب موطا میں باب صلوۃ اللیل )ص 119(اور باب قیام شھر رمضان )ص 141 ہمارے نسخہ کے مطابق(کے الگ الگ باب قائم کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گیارہ رکعات والی دو روایات نقل کی ہیں۔ایک روایت باب صلوۃ اللیل) تہجد( میں عروہ بن زبیر سے اور دوسری روایت باب قیام شھر رمضان میں ابو سلمہ سے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گیارہ رکعات کو رمضان اور غیر رمضان میں تہجد کے لیے ہی مانتے ہیں۔
2: باب قیام شھر رمضان میں پہلی حدیث نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لائے ہیں جس میں باجماعت نماز کا ذکر ہے )رکعات کا تذکرہ نہیں( ، ایک حدیث حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے لائے ہیں جس میں قیام رمضان )تراویح ( کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زیر بحث حدیث )جس میں گیارہ رکعت مع وترکا ذکرہے( میں نہ جماعت کا ذکرہے نہ ترغیب کا، بلکہ اکیلی نماز کا بیان ہے۔ معلوم ہوا کہ اس حدیث عائشہ کو رمضان میں تہجدہی کے لیے لائے ہیں نہ کہ تراویح کے لیے۔۔۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انھوں نے ام المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایاکہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان و غیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں و بھذا ناخذ کلہ یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے، ہم ان سب کو لیتے ہیں۔
جواب :غیر مقلدین کا یہ سمجھنا کہ امام محمد رحمہ اللہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو جو قیام رمضان کے باب میں نقل کیا ہے لہذا وہ اس حدیث کو تراویح کے متعلق مانتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ اس کی چند وجوہ ہیں:
1: کہ امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی اسی کتاب موطا میں باب صلوۃ اللیل )ص 119(اور باب قیام شھر رمضان )ص 141 ہمارے نسخہ کے مطابق(کے الگ الگ باب قائم کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گیارہ رکعات والی دو روایات نقل کی ہیں۔ایک روایت باب صلوۃ اللیل) تہجد( میں عروہ بن زبیر سے اور دوسری روایت باب قیام شھر رمضان میں ابو سلمہ سے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گیارہ رکعات کو رمضان اور غیر رمضان میں تہجد کے لیے ہی مانتے ہیں۔
2: باب قیام شھر رمضان میں پہلی حدیث نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لائے ہیں جس میں باجماعت نماز کا ذکر ہے )رکعات کا تذکرہ نہیں( ، ایک حدیث حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے لائے ہیں جس میں قیام رمضان )تراویح ( کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زیر بحث حدیث )جس میں گیارہ رکعت مع وترکا ذکرہے( میں نہ جماعت کا ذکرہے نہ ترغیب کا، بلکہ اکیلی نماز کا بیان ہے۔ معلوم ہوا کہ اس حدیث عائشہ کو رمضان میں تہجدہی کے لیے لائے ہیں نہ کہ تراویح کے لیے۔۔۔
عبارت نمبر 4: علامہ عینی رحمہ اللہ عمدۃ القاری )جلد:3
ص:597(میں فرماتے ہیں: فإن قلت لم يبين في الروايات المذكورة عدد الصلاة التي
صلاها رسول الله فيتلك الليالي قلت روى ابن خزيمة وابن حبان من حديث جابر رضي الله
تعالى عنه قال صلى بنا رسول الله في رمضان ثمان ركعات ثم أوتر۔
اگر توسوال کرےکہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیں راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کی ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔
جواب:دراصل آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دو روایات مروی ہیں، ایک آٹھ کی اوردوسری بیس کی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے دیانتداری کا مظاہرہ فرمایا کہ آٹھ رکعت والی روایت نقل فرمائی اور بیس والی روایت کی نفی بھی نہیں کی۔ لیکن اپنے عمل کا مدار اس آٹھ رکعت والی روایت پر نہیں رکھا بلکہ مدارعمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایات ]جو بیس رکعت کو بیان کرتی ہیں[کو بنایا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ کے ہاں آٹھ رکعت والی روایات معمول بہا نہیں ہے۔
اب ہم علامہ عینی رحمہ اللہ کی اس تصریحا ت کو پیش کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں تعداد رکعت تراویح بیس ہیں۔
1: عشرون وحكاه الترمذي عن أكثر أهل العلم فإنه روى عن عمر وعلي وغيرهما من الصحابة وهو قول أصحابنا الحنفية )عمد ۃ القاری ج 8ص 245(
ترجمہ:بیس رکعت تراویح، اما م ترمذی رحمہ اللہ نے اکثر اہل علم کا موقف یہی بیان کیا ہے، اس لیےکہ حضرت عمر ، حضرت علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور یہی ہمارے حضرات حنفیہ کا قول ہے۔
2:ان عددھا عشرون رکعۃ۔)عمد ۃ القاری ج 5ص 458(
ترجمہ:تراویح بیس رکعت ہے۔
3:آپ نے اپنے عمل کا مدار اس آٹھ رکعت والی روایت پر نہیں رکھا بلکہ مدار عمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بنایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:واحتج أصحابنا والشافعية والحنابلة بما رواه البيهقي بإسناد صحيح عن السائب بن يزيد الصحابي قال كانوا يقومون على عهد عمر رضي الله تعالى عنه بعشرين ركعة وعلى عهد عثمان وعلي رضي الله تعالى عنهما مثله )عمد ۃ القاری ج 5ص 459(
ترجمہ:ہمارے حضرات حنفیہ نے، شافعیہ اور حنابلہ نےاس حدیث کو دلیل بنایا ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ سے سند صحیح سے روایت کی ہے کی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میںبیس رکعت پڑھتے تھے اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکے دور میں بھی اتنی رکعت ]بیس[پڑھتے تھے۔
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ غیر مقلدین حضرات نے علامہ عینی رحمہ اللہ کا پورا نقطہ نظر بیان نہیں کیا، جو ان کی "دیانت" کا واضح ثبوت ہے۔
اگر توسوال کرےکہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیں راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کی ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔
جواب:دراصل آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دو روایات مروی ہیں، ایک آٹھ کی اوردوسری بیس کی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے دیانتداری کا مظاہرہ فرمایا کہ آٹھ رکعت والی روایت نقل فرمائی اور بیس والی روایت کی نفی بھی نہیں کی۔ لیکن اپنے عمل کا مدار اس آٹھ رکعت والی روایت پر نہیں رکھا بلکہ مدارعمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایات ]جو بیس رکعت کو بیان کرتی ہیں[کو بنایا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ کے ہاں آٹھ رکعت والی روایات معمول بہا نہیں ہے۔
اب ہم علامہ عینی رحمہ اللہ کی اس تصریحا ت کو پیش کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں تعداد رکعت تراویح بیس ہیں۔
1: عشرون وحكاه الترمذي عن أكثر أهل العلم فإنه روى عن عمر وعلي وغيرهما من الصحابة وهو قول أصحابنا الحنفية )عمد ۃ القاری ج 8ص 245(
ترجمہ:بیس رکعت تراویح، اما م ترمذی رحمہ اللہ نے اکثر اہل علم کا موقف یہی بیان کیا ہے، اس لیےکہ حضرت عمر ، حضرت علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور یہی ہمارے حضرات حنفیہ کا قول ہے۔
2:ان عددھا عشرون رکعۃ۔)عمد ۃ القاری ج 5ص 458(
ترجمہ:تراویح بیس رکعت ہے۔
3:آپ نے اپنے عمل کا مدار اس آٹھ رکعت والی روایت پر نہیں رکھا بلکہ مدار عمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بنایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:واحتج أصحابنا والشافعية والحنابلة بما رواه البيهقي بإسناد صحيح عن السائب بن يزيد الصحابي قال كانوا يقومون على عهد عمر رضي الله تعالى عنه بعشرين ركعة وعلى عهد عثمان وعلي رضي الله تعالى عنهما مثله )عمد ۃ القاری ج 5ص 459(
ترجمہ:ہمارے حضرات حنفیہ نے، شافعیہ اور حنابلہ نےاس حدیث کو دلیل بنایا ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ سے سند صحیح سے روایت کی ہے کی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میںبیس رکعت پڑھتے تھے اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکے دور میں بھی اتنی رکعت ]بیس[پڑھتے تھے۔
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ غیر مقلدین حضرات نے علامہ عینی رحمہ اللہ کا پورا نقطہ نظر بیان نہیں کیا، جو ان کی "دیانت" کا واضح ثبوت ہے۔
عبارت نمبر 5:علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ فی
تخریج احادیث الھدایہ )ج:1 ص:293( میں اس حدیث کو نقل کیا ہےکہ عند ابن حبان في
صحيحه عن جابر بن عبد الله أنه عليه الصلاة و السلام صلى بهم ثمان ركعات
والوتر۔
جواب: علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ کی کتاب " نصب الرایہ " دراصل فقہ حنفی کی معتبر کتاب"الھدایہ" میں موجود احادیث و آثار کی تخریج ہے یعنی ہدایہ میں جو جو احادیث و آثار نقل کیے گئے ہیں وہ کن کن کتابوں میں ہیں اس کی نشاندہی کی ہے۔نیز الی موضوع پر اگر مختلف روایات مروی ہیں تو انھیں جمع کر دیا ہے۔
علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے تراویح کے مسئلہ پرمختلف روایات نقل کی ہیں۔زیر بحث روایت ]حدیث جابررضی اللہ عنہ[ کے ساتھ ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بھی نقل کی ہےجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیس رکعت تراویح کا ثبوت ہے لیکن معترض نے اسے نقل نہیںکیا۔اسی طرح علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت کے ثبوت پر دو روایات نقل کی ہیں، ایک بیہقی سے جس کی سند کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کا قول"اسنادہ صحیح" نقل کیا اور دوسری رویت موطا امام مالک سے نقل کی ہے، معترض کی "دیانت" نے اسے بھی نقل نہ ہونے دیا۔
خلاصہ یہ کہ علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ کےحدیث جابر رضی اللہ عنہ نقل کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آٹھ کے قائل ہیں بلکہ ان کا موقف بطور حنفی ہونے کے وہی ہے جو ان کی کتاب " نصب الرایہ" کے متن "ہدایہ" میں ہے کہ تراویح بیس رکعت ہی ہے۔
جواب: علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ کی کتاب " نصب الرایہ " دراصل فقہ حنفی کی معتبر کتاب"الھدایہ" میں موجود احادیث و آثار کی تخریج ہے یعنی ہدایہ میں جو جو احادیث و آثار نقل کیے گئے ہیں وہ کن کن کتابوں میں ہیں اس کی نشاندہی کی ہے۔نیز الی موضوع پر اگر مختلف روایات مروی ہیں تو انھیں جمع کر دیا ہے۔
علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے تراویح کے مسئلہ پرمختلف روایات نقل کی ہیں۔زیر بحث روایت ]حدیث جابررضی اللہ عنہ[ کے ساتھ ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بھی نقل کی ہےجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیس رکعت تراویح کا ثبوت ہے لیکن معترض نے اسے نقل نہیںکیا۔اسی طرح علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت کے ثبوت پر دو روایات نقل کی ہیں، ایک بیہقی سے جس کی سند کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کا قول"اسنادہ صحیح" نقل کیا اور دوسری رویت موطا امام مالک سے نقل کی ہے، معترض کی "دیانت" نے اسے بھی نقل نہ ہونے دیا۔
خلاصہ یہ کہ علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ کےحدیث جابر رضی اللہ عنہ نقل کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آٹھ کے قائل ہیں بلکہ ان کا موقف بطور حنفی ہونے کے وہی ہے جو ان کی کتاب " نصب الرایہ" کے متن "ہدایہ" میں ہے کہ تراویح بیس رکعت ہی ہے۔
۔