جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Monday, 10 November 2014

Masla TALAQ E SALASA GHER Muqaldeen Ky Qayasi Dalail Ka Jawab

مسئلہ طلاق ثلاثہ وکٹورین غیرمقلدین کے عجیب و غیریب قیاس
کہتے ہیں اکھٹی تین طلاق دینا حرام ہے لہذا واقع نہیں ہو گی۔
اگر اکھٹی تین طلاق حرام ہونے کی وجہ سے واقع نہیں ہوں گی تو اکھٹی تین طلاق دینے سے یہ ایک کیسے واقع ہوجاتی ہے دوسرا حالت حیض میں ایک طلاق دینا بھی حرام ہے لیکن غیرمقلد بھی مانتے ہیں کہ یہ واقع ہو جائے گی۔ اب یہ حرام ہے اور واقع مان رھے ہو۔
ایک دن میں تین الگ الگ مجلسوں میں  بھی طلاق دینا اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا کہ اکھٹی تین طلاق دینا لیکن  پھر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔، غیرمقلدین بھی مانتے ہیں کہ طلاق واقع ہو گئی۔
اسی طرح ایک بڑ کہتے ہیں نماز غلط وقت پر پڑھنا حرام ہے لہذا یہ ادا بھی نہیں ہوتی، وہی جواب حالت حیض بھی غلط وقت ہے اس میں دی گئی ایک طلاق کو کیسے واقع مان لیتے ہو؟؟؟
جو غلط قیاس یہ لوگ کرتے ہو اس سے ان کا دوسرا مسئلہ خود ہی رد ہوتا جاتا ہے۔
                                                       
2۔مسئلہ طلاق ثلاثہ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ   قرآن پاک سے غیرمقلدین کے باطل استدلال کا ردّ
قرآن پاک میں ہے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ (بقرۃ ۲۲۹)
”طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دنیا ہے“۔
غیرمقلدین کا اللہ ک کلام کے ساتھ فراڈ دیکھیں ۔
کہتے ہیں یہاں جو لفظ”مَرَّتٰنِ ۠ “استعمال ہوا ہے اس طرح سورۃ نور میں لفظ ”مَرّٰتٍ“  استعمال ہوا ہے جو کہ ”مَرَّتٰنِ ۠ “سے نکلا ہے  وہاں  اس کیلئے  تین الگ الگ وقت  آئے ہیں،
 اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ  (النور ۵۸)
”اے ایمان والو اجازت لیکر آئیں تم سے جو تمہارےہاتھ کے مال ہیں اور جو کہ نہیں پہنچے تم میں عقل کی حد کو تین بار فجر کی نماز سے پہلے اور جب اتار رکھتے ہو اپنے کپڑے دوپہر میں اور عشاء کی نماز سے پیچھے“۔
لہذا ثابت ہوا   کہ ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ “ (طلاق دو مرتبہ ہے) میں بھی صرف وقفے کے ساتھ ہی دو طلاقیں دینا شامل ہے  اور ایک ہی مجلس میں یا اکھٹی دو طلاقیں اس میں شامل نہیں۔
الجواب:۔
غیرمقلدین کی اللہ کی کتاب کے ساتھ کی گئی یہ تحریف کبھی ان کی دلیل نہیں بن سکتی ۔
اسلئے کہ غیرمقلدین  کا  اللہ پاک پر  پہلے تو یہی بہتان ہے کہ ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠“صرف وقفے کے ساتھ ہی دو طلاق دینا اس میں شامل ہے اور اکھٹی ایک ہی مجلس میں دو طلاق دے دینا اس آیت میں شامل نہیں۔ معاذ اللہ
صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ (صحیح بخاری ج۱ حدیث:۱۶۲)
ترجمہ :۔عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا۔
یہاں پر بھی لفظ” مَرَّتَيْنِ“ہی استعمال ہوا ہے جو کہ ”مَرّٰتٍ “  سے نکلا ہے جو کہ ایک ہی مجلس میں دو مرتبہ ہر عضو کو دھونے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ اگر غیرمقلدین  والا معنی یہاں لیا جائے جیسا کہ  وہ کہتے ہیں کہ  ”مَرّٰتٍ “ میں  ایک مجلس یا اکھٹی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی تو ”نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا“۔  کا معنی یہ ہو گا کہ پہلے ایک ایک مرتبہ ہر عضو کو دھویا پھر دوسری مجلس میں آکر  پھر ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔ جو کہ قطعاً درست نہیں ہو سکتا۔

معلوم ہوا کہ لفظ”مَرّٰتٍ “،”مَرَّتٰنِ ۠ “،” مَرَّتَيْنِ“  ان میں  ایک مجلس بھی شامل ہے اور الگ الگ مجالس بھی شامل ہیں لہذا یہ دلیل تو ہماری بنی کہ ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ “ طلاق دو مرتبہ ہے ۔(چاہے جیسے بھی دو) خواہ کوئی   ایک ہی مجلس میں  اکھٹی دو طلاقیں دے دے جیسا بخاری کی حدیث میں ایک  ہی  مجلس میں دو  مرتبہ ہر عضو کو دھونے کیلئے یہ استعمال ہوا ہے یا کوئی وقفے کے ساتھ الگ الگ وقت یا مختلف مجلسوں میں  دو طلاق دے جیسا کہ سورۃ نور کی آیت۵۸  میں الگ الگ وقتوں میں سلام کرنے  کیلئے استعمال ہوا ہے ہر صورت ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ “”طلاق دو مرتبہ ہے “میں  دونوں باتیں شامل ہیں  نہ کہ کسی ایک  ہی کی قید ہے، اور  کسی ایک   ہی کی قید لگانا  (جیسا  غیرمقلدین    کا مسئلہ ہے کہ اکھٹی دو یا ایک مجلس میں دو طلاقیں  دو نہیں  ہیں) قرآن پاک کے معنوں میں کھلی تحریف ہے ۔

Friday, 5 September 2014

Hazrat Abdullah Bin Masood (RA) Hazrat Mahaz (RA) AUR Taqleed Mujtahid



حضرت ابن مسعود‌ؓ ، حضرت معاۡ بن جبلؓ اور تقلید مجتہد
بعض لوگ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  اور حضرت معاذ بن جبل ؓکا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں:حضرت  ابن مسعودؓ فرماتے ہیں،

لا یقلدن رجل رجلاً دینہ :کوئی شخص اپنے دین میں کسی دوسرے کی تقلید نہ کرے۔حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں، اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو۔ 

مکمل جملہ اس طرح ہے:

وعن عبدالله بن مسعود قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح (مجمع الزوائد ج:1 ص:180)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔

قال معاذ بن جبل یا معشر العرب کیف تصنعوں بثلاث دنیا تقطع اعناقکم وزلۃ عالم و جدال منافق بالقرآن فسکتوا فقال اما العالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم و ان افتتن فلا تقطعوا منہ اناتکم فان المومن یفتتن ثم یتوب۔

(جامع بیان العلم و فضلہ ج:۲،ص ۱۱۱)


حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے تین امور سے متعلق پوچھا ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ تم لوگ ایک عالم کی پھسلن سے کیسے بچو گے پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیا کہ اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے۔

(مجمع الزوائد ج:1 ص:180)
جواب نمبر۱:۔
دینیات  اور ایمانیات میں تقلید کا کوئی بھی قائل نہیں اہلسنت والجماعت میں سے، نہ اس کے کرنے کا کوئی کہتا ہے سوائے ضروریات ِ احکام شرعیہ معلوم کرنے کیلئے صرف فوت شدہ افراد کے۔ چنانچہ جیسکہ خودہی امام الائمہ حضرت  عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔(مجمع الزوائد ج:1 ص:180)
جواب نمبر۲:۔
تقلید اجتہاد میں ہوتی ہے اور ائمہ اربعہؒ میں سے  کوئی ایک بھی  دینیات و ایمانیات میں اجتہاد کا قائل نہیں،  یہ سب  ضروریات ِاحکام شرعیہ معلوم کر نے کیلئے مسائل میں استنباط   کے اہل ہیں، وہ بھی سب سے پہلے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع و اجتہاد صحابہ  کے بعد  پھر اپنا اجتہاد، لہذا ائمہ اربعہؒ کے مدون مذہب  سے ایمان کو  کسی قسم کا خطرہ نہیں البتہ  ان کے علاوہ  اوروں سےجو بعد والے ہیں 
ایمان محفوظ نہیں۔
جواب نمبر3
ہم اہلسنت والجماعت ائمہ اربعہؒ کے اجتہادات جو کہ فقہاء کرام نے جمع کیئے ہیں ان کی تقلید کرتے یعنی ان پر عمل کرتے ہیں اب ائمہ اربعہ کا اگر ایمان محفوظ نہیں تھا تو اور پھر کس کا ایمان محفوظ ہو سکتا ہے۔ جس تقلید کا رد حضرت معاذ ؓ کر رہے ہیں وہ غیر ضروری اجتہاد میں کی جانے والی تقلید ہے۔ جیسے کوئی عالم، دین کے کسی ایسے مسئلے میں اجتہاد کرکے کوئی بات اخذ کرے جس میں اجتہاد کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اس میں تقلید کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جہاں تک ائمہ کی بات ہے وہ غیر ضروری اجتہادات کے قائل نہیں اور انہوں نے وہیں اجتہاد کیا ہے جہاں اس کی ضرورت پیش آئی ہے اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ یا تو بندہ اپنی مرضی کرنے لگ جائے یا پھر اس مسئلے کا حل مجتہد نکال کر دے۔ اپنی مرضی تو دین میں جائز نہیں  اور اجتہاد غیر مجتہد کے بس کی بات نہیں لیکن مجتہد کیلئے اجتہاد کرنے کی اجازت ہے اب اس موقع پر مجتہد پر اجتہاد کرکے مسئلہ اخذ کرنا اور غیر مجتہد پر اس مجتہد کے مسئلہ پر عمل کرنا واجب ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اس لئے یا تو مسئلہ صواب پر ہو گا یا خطا پر اگر ”صواب پر ہوا تو دو اجر اور اگر خطا بھی ہوئی تو اس پر بھی ایک اجر ملنے کا وعدہ ہے“ (صحیح مسلم)۔ نہ غیر مجتہد کو قرآن حدیث میں کہیں اجتہاد کی اجازت ہے نہ ہی اس مسئلہ میں جسے مجتہد اخذ کر چکا ہے مجتہد کے خلاف کرنے کی اجازت ہے جب تک کہ وہ اس جیسا مجتہد نہ ہو۔

تقلید مجتھد کے متعلق اسلاف کی شہادتیں
http://ahlehadeesaurangrez.blogspot.com/2015/04/taqleed-mujtahid-aur-aslaf.html

Thursday, 24 July 2014

Masla 3 TALAQ GherMuqalideen Ky Dalil Ky Jawabat
 مسئلہ تین طلاق غیرمقلدین کے دلائل کے جوابات






مسئلہ طلاق ثلاثہ مسند احمد اور ابو داؤد دو روایت حدیث رکانہ کا جائزہ اور جواب اور غیرمقلدین کو چیلنج

1 دلیل:۔
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت ! میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کر لو۔ (((ابو داؤد جلد ۱ ص۲۹۷ و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)))

اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاقوں کے بعد بھی رجوع ثابت ہئ اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت واقع نہ ہوں ورنہ رجوع کا کیا معنٰی۔
الجواب:۔
اس روایت سے تین طلاقوں کے عدم وقوع پر استدلال صحیح نہیں ہے۔
اولاً۔ اس لئے کہ اس کی سند میں بعض بنی ابی رافع موجود ہیں جو مجہول ہے۔
٭چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ رکانہ ؓ کی وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں وہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں مجہول راوی موجود ہیں۔ (((شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)))

٭اور علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ (((محلی جلد ۱۰ص۱۶۸)))

لہذا اس روایت کی سند ایسی نہیں کہ ا س سے استدلال کیا جا سکے اور خصوصاً حلال و حرام کے مسئلہ میں اور وہ بھی قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں۔ اور یہ مسئلہ بھت ہی نازک ہے جو کہ ایک طرف تو ساری عمر بدکاری کرنے کا جرم ہے تو دوسری طرح اس بدکاری کو حلال سمجھنے کا جرم جو کہ کفر ہے۔
٭حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہانپویؒ (المتوفٰی ۱۳۴۶ھ) فرماتے ہیں کہ مستدرک میں بعض بنی ابی رافع کو تعیین بھی آئی ہے کہ وہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع تھے۔ (((بذل المجہور جلد ۳ص۶۹) ))لیکن یہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے۔ علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ اس کو منکر الحدیث اور امام ابن معین لیس بشیؒ اور امام ابو حاتکم ؒ اسکو ضعیف الحدیث اور منکرالحدیث جداً کہتے ہیں۔ امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ محدثین انکی تضعیف کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے۔ (((میزان ص۹۷ج۳، تہذیب التہذیب )))

٭محدث ابن عدیؒ انکو کوفہ کے ”شیعہ“ میں بیان کرتے ہیں۔ (((تہذیب التہذیب ص۳۲۱ ج۹)))

جن کا مذھب یہ ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کرتے ہیں، قرآن سنت صحابہ تابعین کو چھوڑ کر) اور ایک اور روایت میں بھی شیعہ راویوں نے گڑ بڑ کی ہے چنانچہ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ جن راویوں نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ نے بجالت حیض اپنی بیوی کو تین طلاقی دی تھیں وہ سب کے سب شیعہ ہیں صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی طلاق دی تھی۔ (((سنن دارقطنی جلد ۲ ص۴۲۷)))

٭اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں میں منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت کرنا جائز نہیں (((میزان الاعتدال جلد ۱ ص۵ طبقات سبکی جلد ۳ص۹ و تدریب الراوی ص۲۳۵))) گویا امام بخاری کی تحقیق کے رو سے اس روایت کا بیان کرنا ہی جائز نہیں ہے۔

اور ثانیاً:۔
حضرت رکانہؓ کی صحیح روایت میں بجائے تین طلاق کے بتہ کا لفظ ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ:۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَأَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ قَالَ وَاحِدَةً قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ قَالَ هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ ۔۔۔۔ الخ
سلیمان بن داؤد، جریر بن حازم، زبیر بن سعید، عبد اللہ، علی بن یزید سے روایت ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تیری نیت کیا تھی؟ بولا ایک طلاق کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اللہ کی قسم کھا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں واللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی (یعنی ایک ہی طلاق واقع ہو گی) ابو داؤد ؒ فرماتے ہیںحضرت رکانہ کی یہ روایت (جس میں بتہ کا لفظ موجود ہے) ابن جریجؒ کی رویت سے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ بتہ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں اور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں“۔ (((ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱ وکذا فی سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۲۳۹)))

بتہ یعنی ایک ایسا جملہ جس سے نیت ایک طلاق کی بھی ہو سکتی ہے اور تین طلاق کی بھی اس لئے رسول اللہﷺ ان سے قسم لے رہے ہیں، تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا شخص سمجھ سکتا ہے کہ قسم کیوں لے رہے ہیں ورنہ ایک ہی طلاق ہونی تھی تو کہہ دیتے ایک کی نیت ہے یعنی ایک دی ہے تب بھی رجوع کر لو اور اگر تین دیں ہیں تب بھی رجوع کر لو لیکن رسول اللہﷺ کو اس بات کا باخوبی علم تھا کہ تین طلاق کے بعد بیوی حرام ہو جاتی ہے ۔ ایسے لفظ سے اگر ایک کی نیت کی ہے تو ایک واقع اور تین کی نیت کی ہے تو تین واقع ہو جائیں گی۔ یعنی هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی۔
یعنی کہ یہاں سے بھی اکھٹی تین طلاق کے واقع ہو جانے کا قوی ثبوت مل جاتا ہے لھذا غیرمقلد رافضی ہے پکا۔
اس روایت کو امام ابو داؤد نے وہیں صحیح کہا ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ(((ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱)))

٭ قاضی شوکانی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
واثبت ماروی فی تصتہ رکانہؓ انہ طلقھا البتہ لاثلاثا
حضرت رکانہ ؓ کے واقعہ میں ثابت اور صحیح روایت یہ ہےکہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین“ (((نیل الاوطار جلد۶ ص۲۴۶)))

الغرض اس روایت سے تین طلاقوں کا اثبات اور پھر تین کو ایک قرار دینا اور پھر خاوند کو رجوع کا حق دینا ظلم عظیم ہے قرآن کا سنت کا امت مسلمہ کا مذاق ہے۔ اور حلال و حرام کے بنیادی مسئلہ میں ایسی ضعیف و کمزور اور مجمل روایتوں پر اعتماد بھی کب جائز ہے؟ اور پھر وہ بھی صحیح اور صریح روایات اور اجماع امت کے مقابلہ میں۔
غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت کے راوی ابن عباسؓ ہیں،
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)))

اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))

٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷ کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۳)))

اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔
یہاں پر بھی بالکل واضح ہے کہ اس شخص نے ااکھٹی طلاقیں دیں اور وہ بھی ۱۰۰ تین اپنی جگہ واقع ہو گئیں باقی گناہ کبیرہ۔

ایک نظر
٭راوی پر زبردست جرحین۔
٭ راوی کا خود شیعہ ہونا ۔ اور یہ مذھب شیعوں کا ہے۔(تین ایک )
٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔
٭محدثین کرام کا اس پر کلام کرنا ۔
٭تین طلاقوں کی جگہ بتہ کے ہونے کا ثبوت۔
٭ امام بخاریؒ اس راوی کو منکر الحدیث کہنا ، اور منکر الحدیث سے رویت لینے کا منع کرنا۔
٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔
اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں )
کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔ لیکن غیرمقلد روافض میں یہ جرأت کہاں۔


2دلیل:۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت رکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ بہت ہی پیشمان ہوئے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم رجوع کر لو ۔۔۔۔۔۔ الخ مسند احمد جلد ۱ص۲۶۵ و سنن الکبریٰ جلد ۷ص۳۳۹) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اسکی تخریج امام احمد ؒ اور ابو یعلٰی نے کی ہے اور ماما ابو یعلٰی نے اس کی تصحیح کی ہے۔ (نیل ص۲۴۶ جلد ۶)

الجواب:۔
یہ روایت ہر گز قابل احتجاج نہیں ہے ۔
اولاً:۔ اس کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے ۔
٭ امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہے۔ (((ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)))

٭ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں کہ ہو ضعیف ہے۔ (((کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)))

٭ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ ہو قابل احتجاج نہیں محدث سلیمان تمییؒ فرماتے ہیں کہ وہ کذاب تھا ، امام ہشامؒ بن عروہ کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا امام یحیٰ ؒ بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا وہں کہ وہ کذاب ہے۔ (((میزان ص۲۱ ج۳)))

٭ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ہو دجالوں میں سے ایک دجال تھا ۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۹ ص۴۱ و تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))

٭ امام مالک نے اس کو کذاب بھی فرمایا ہے۔ (((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))

٭اس پر شیعہ اور قدری ہونے کا الزام بھی ہے۔ (((تقریب ص۲۹۰)))

٭امام خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کے بارے میں امام مالک ؒ کا کلام مشہور ہے اور حدیث کا علم رکھنے والوں میں سے کسی پر مخفی نہیں ہے۔(((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۳۲۴)))

٭ علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے۔ (((تذکرہ الحفاظ جلد ۱ص۱۶۳)))

اور یہی ہمارا مذھب ہے ایسے راویوں سے روایت نہیں لی جاسکتی خاص کر احکام میں تو ہرگز ہرگز ہرگز قابل قبول ہی نہیں۔
٭حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے جب کہ وہ متفرد ہو ا حکام کے بارے میں تو احتجاج نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ جب وہ اپنے سے ثبت اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہو۔(((محصلہ الدرایہ ص۱۹۳)))

٭نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک سند کی تحقیق جس میں محمد بن اسحاق اتا ہے لکھتے ہیں کہ:۔
در سندش نیز ہماںمحمد بن اسحاق است و محمد بن اسحاق حجت نیست “۔(((دلیل الطالب ص۲۳۹)))

یعنی اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور یہ حجت نہیں ۔
٭حافظ ابن رشد ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کی یہ روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ ثقہ راوی یوں روایت کرتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین۔ (((ہدایۃ المجتہد جلد ۲ ص۶۱)))

و ثانیاً:۔
اگر تنہا محمد بن اسحاق ہی اس سند کا راوی ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقبل احتجاج ہونے کے لیے یہی کافی تھا مگر غضب تو یہ ہے کہ اس سند میں داؤد بن حصین بھی ہے جو عکرمہؒ سے روایت کرتا ہے ۔
٭امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا ۔ اممام سفیان بن عینیہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم اس کی حدیث سے گریز کیا کرتے تھے۔ محدث عباس دوریؒ کہتے ہیں وہ میرے نزدیک ضعیف ہے (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))

٭ امام ابن حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث تھا، محدث جوزقانیؒ کہتے ہیں کہ محدثین ان کی حدیظ کو قابل تعریف نہیں سمجھتے تھے۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۳ص۱۸۱)))

٭امام علیؒ بن مدینیؒ اور امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ وہ داؤد بن حصین کی روایت عکرمہ سے منکر ہوتی ہے۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷))) اور یہ روایت بھی عکرمہ سے ہے۔

٭حافظ ابن حجرؒ ان سے متعلق یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ ثقہ الافی عکرمۃ (((تقریب ص۱۱۶))) کہ ہو ثقہ ہے مگر عکرمہ ؒ کی روایت میں وہ ثقہ نہیں ہے۔ اسی لیے امما بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ اس اس حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔(((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۹)))

٭حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معلول ہے۔ (((تلخیص الجیر ص۲۱۹)))

٭علامہ ذہبیؒ اس روایت کو داؤد بن حصین کے مناکیر میں شمار کرتے ہیں۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))

٭مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ حافظ ابن القیم نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔(((تعلیق المغنی جلد ۲ص۳۳۶) ))لیکن مولانا حافظ محمد عبداللہ روپڑی صاحب غیرمقلد فرماتے ہیں کہ مگر ابن قیم کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسناد کے حسن ہونے سے حدیث اس وقت حسن ہو سکتی ہے جب حدیث میں کوئی اور عیب نہ ہو اور یہاں اور عیب موجود ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کو معلول کہا ہے۔ خاص کہ جب امام احمد کا فتویٰ بھی اس کے خلاف ہے تو پھر معلولیت کا شبہ اور پختہ ہوجاتا ہے۔ (((ضمیہ ص۱۶)))

ابن قیم ؒ کو اس پر سخت سزائیں بھی ملیں۔ خود غیرمقلد ین کے گھر کی گواہی ملاحظہ ہو (((فتاویٰ ثنائیہ جلد ۲ص۲۱۹)))

یہ ہیں وہ روایت جن سے زمانہ حال کے غیرمقلد روافض قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں حرام کو حلال کرنے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔اللہ اکبر کبیرہ
الحاصل تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اور غیر مدخول بہا کی متفرق طور پر دی گئی تین طلاقوں پر ہت مطلقہ کا حکم چسپاں کرنا نہ رویۃ ثابت ہے اور نہ دریۃ بلکہ یہ نری غلط فہمی ہے اور ہوم کا نتیجہ ہے ۔ ایسی غلطی پہلے کے لوگوں کو بھی ہو جایا کرتی تھی مگر وہ باانصاف اور دیانت دار لوگ تھے اس لیے وہ غلطی پر آگاہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ مگر آج تو تعصب اور ضد کو چھوڑنا پسند نہیں کیا جاتا ۔ الااماشاء اللہ تعالٰی حضرت محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ مجھےبعض ایسے راویوں نے جن پر مجھے اعتماد اور بھروسہ تھا یہ حدیث سنائی کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو بحالت حیض تین طلاقیں دیدی تھیں اور پھر آنحضرت ﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا میں بیس ۲۰ سال تک اسی غلط فہمی کا شکار رہا لیکن بعد کو مجھےے ابو غلاب یونسؓ بن جبیرؒ نے جو نہات ثقہ اور ثبت راوی تھے یہ روایت سنایہ کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی نہ کہ تین اور تین کی نسبت ان کی طرف غلط ہے۔ (((محصلہ مسلم جلد ۱ص۴۷۷ و سنن الکبریٰ ص۳۳۴)))

اس قسم کی غلط فہمی کا واقع ہوجانتاا تو مستعبد امر نہیں مگر دلائل کے بعد اس پر جمہود خالص تعصب ہے ۔ اللہ تعالٰی تمام اہل اسلام کو اس سے محفوظ و مصون رکھے آمین۔
غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت ابن عباسؓ سے ہے اور یہ امام احمد بن حنبل نے بھی نقل کی ہے۔
اب دیکھتے ہیں ابن عباسؓ کا مذھب کیا تھا۔
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)))

اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))

٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷ کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۳)))

اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔
اب دیکھتے ہیں خود امام احمد بن حنبلؒ کا مذھب کیا تھا۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:۔
جس شخص نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دیں تو بے شک اس نے جہالت کا ارتکاب کیا مگر اس کی بیوی اسس پر حرام ہو جائے گی اور اس کے لئے وہ کبھی حلال نہیں ہو سکتی جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے“۔ (کتاب الصلوۃ ص۴۷)

اتنی واضح دلیل سبحان اللہ العظیم
ایک نظر:۔
٭ دونوں راویوں پر محدثین کرامؒ نے کافی تعداد میں جرحین کر رکھی ہیں۔
٭شیعہ اور قدری ہونے کا الزام اور شیعوں کا بھی یہی مذھب ہے۔
٭ احکام میں قوی نہیں ۔
٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔
٭نقل کرنے والے امام احمد بن حنبل کا اپنا مذھب اس سے جد ا ہے۔
٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔
اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں )
کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔