اہلسنت اشاعرہ و ماتریدیہ اور فرقہ سلفیہ کے درمیان اختلاف
اختلاف نمبر (1)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے مگر وہ اس پر ٹھہرا ہوا نہیں۔
اور ٹھہرنے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہیں ہونا اور اسکے علاوہ کہیں نہ ہونا۔
استوی کا اگرچہ لفظی ترجمہ و معانی و مفہوم استقرار یعنی ٹھہرنا ہوتا ہے نام نہاد سلفیوں نے
اسی کا اثبات کیا ہے کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ اللہ بس عرش پر ہی ہے اور کہیں
نہیں جبکہ اسلاف میں سے جمہور کا یہ عقیدہ نہیں تھا انہوں
نے اسکا رد کیا ہے اور استویٰ علی العرش
کو متشابہات سمجھ کر اسکا علم اللہ کے
سپرد کیا ہے ۔
جس طرح سے سلف نے اللہ کی ذات کیلئے جسم ، جھت اور مکان کا انکار کیا ہے اسی طرح
سلف نے اللہ تعالٰی کی ذات کیلئے عرش
پر یا کہیں اور ٹھہرنے کا بھی انکار کیا ہے۔
استوی
کا مطلب غالب ہونا بھی ہوتا ہے برابر
ہونا بھی ہوتا ہے
لَا
يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ
فِيْ سَبِيْلِ اللہِ (النساء 95)
”برابر نہیں بیٹھ رہنے والے
مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں“
جس طرح سے ان دونوں معانی پر یا ایک معنی کی اللہ کیلئے تخصیص نہیں
کی جاسکتی اسی طرح استویٰ کے تیسرے معنی استقرار ٹھہرنا متمکن ہونا کی بھی نہیں کی
جاسکتی
استوی
سے غلبہ کی تخصیص کرنے والے کو صفات کا منکر کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے اللہ کی صفات
کو اس کے سپرد نہیں کیا بلکہ اس کی مراد کو خود سے تعین کر لیا اسی طرح استوی کا معنی
برابر ہونا بھی ہوتا ہے اگر اللہ کیلئے استویٰ کے اسی معنی کی تخصیص کر لی جائے تو
پھر کہنا پڑے گا کہ اللہ عرش کے برابر ہے جبکہ اللہ سب سے بڑا وہ کسی کے برابر نہیں
سب اس کے آگے ذرہ کے برابر بھی نہیں اسی طرح اللہ کیلئے استوی سے ٹھہرنے کی تخصیص کرنے والا بھی صفت کا منکر ہو گا کیونکہ
اس نے بھی اللہ کی مراد کو اس کے سپرد کرنے کی بجائے خود سے اس کی مراد کو تعین کرلیا۔
فرقہ
سلفیہ و کرامیہ بھی ایسا ہی کرتا ہے استویٰ سے ٹھہرنا تو لے لیتا ہے لیکن ساتھ میں
استوی کا دوسری معنی جو کہ برابر ہونا بھی
ہوتا ہے غالب ہونا بھی ہوتا اسے چھوڑ دیتا ہے اور اگر کوئی اسے اپنائے تو اسے
یہ معتزلیہ کہتا ہے۔
اب بتائے معتزلیہ
کا یہی جرم ہے کہ اس نے استوی کا معنی غلبہ لے کر اس پر بس کی اور گمراہ کہلایا، مجیسمیہ کا یہی جرم
ہے کہ اس نے استوی کا معنی برابر ہونا لے کر اس پر بس کی اور گمراہ کہلایاتو سلفیہ کس کھیت کی مولی
ہیں انہوں نے بھی استوی کا معنی استقرار ٹھہرنا لے کر اس پر بس کی ہے۔ مجرم تو تینوں
ہیں۔
(i) مجتہد مطلق حضرت الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمہ الله (وفات 150ھ) فرماتے
ہیں کہ
ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن
يكون له حاجة إليه واستقرار عليه
”ہم
یہ اقرار کرتے ہیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں
اورنہ وہ عرش پر ٹھہرا ہے۔“
(كتاب
الوصية (ص ۸۷)،
ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه
الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف)
(ii) القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعريؒ (وفات 403ھ)فرماتے ہیں
کہ
ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله
تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان. [ الانصاف فيما يجب اعتقاده
ولا يجوز الجهل به (ص/65)]
” ہم یہ نہیں کہتے کہ
عرش الله تعالی کا ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ
الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا
کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبلامکان ) اب بھی ویسا ہی ہے“
(iii) امام بخاریؒ (وفات 256ھ) کا بھی یہی عقیدہ ہے شارح بخاری (iv) علی بن خلف المالکیؒ
(449ھ) امام بخاری کے باب سے انکا عقیدہ لکھتے ہیں:
فلا
يحتاج إلى مكان يستقر فيه،
کہ ان کے نزدیک (اللہ) نہیں ہے مکان کا محتاج یا اس میں
ٹھہرنے کا۔
[فتح الباري
(13/416)]
(v) وقال الفقيه
الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي
(476 هـ)
في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة
صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان
وهو على ما عليه كان " اهـ
[أنظر عقيدة الشيرازي
في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101)]
الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري
رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا
) نہیں ہے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بھی نہیں ہے ، کیونکہ استقرار
ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات ہے ، پس یہ
دلالت ہے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب
الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے
۔
(vi) القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة الـمعروف بابن رُشْد الجَدّ الـمالكي (وفات 520ھ)
بھی اللہ کیلئے ٹھہرنے کی نفی کرتے ہیں۔
لا أنه محلٌّ له وموضع لاستقراره
" .
[فتح
الباري ( 7/124 ) ]
(vii) اسی طرح أحمد الرفاعي، الفقيه الشافعي الأشعري ، (وفات 578ھ)
بھی اللہ کیلئے ٹھرنے کی نفی کرتے ہیں۔
[البرهان الـمؤيد
(ص/17 و18) ] : نزهوا الله عن صفات المحدثين، وسمات المخلوقين، وطهروا عقائدهم عن تفسير
معنى الاستواء في حقه تعالى بالاستقرار كاستواء
الأجسام على الأجسام المستلزم للحلول والنزول والاتيان والانتقال
(vii) اسی طرح ابن جوزیؒ (وفات 597ھ) ),(viii),امام احمد بن حنبلؒ (وفات 241ھ)
اور سلف کا عقیدہ لکھتے ہیں کہ اللہ جھت ، حدود ،جسم ، مکان سے
، بیٹھنے سے اور ٹھہرنے سے پاک ہے۔
( دفع شبه التشبيه )
الذي رد فيه على الـمجسمة
الذين ينسبون أنفسهم إلى مذهب الإمام أحمد والإمام أحمد بريء مما يعتقدون . وقد بيَّنَ
ابن الجوزي في هذا الكتاب أن عقيدة السلف وعقيدة الإمام أحمد تنـزيه
الله عن الجهة والـمكان
والحد والجسمية والقيام والجلوس والاستقرار
(ix) اسی طرح امام فخر الدین رازیؒ (وفات 606ھ) بھی اللہ کیلئے ٹھہرنے کی نفی
کرتے ہیں۔
وقال
الـمفسّر علي بن محمد الـمعروف
بالخازن (741هـ) [تفسير الخازن
(2/238)]
إن الشيخ فخر الدين الرازي ذكر الدلائل العقلية والسمعية
على أنه لا يمكن حمل قوله تعالى : { ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى العَرْشِ } على الجلوس والاستقرار
وشغل الـمكان والحيّز .
(x)اسی طرح امام بدر الدین العینی الحنفیؒ (وفات 855ھ) لکھتے ہیں
أَن
الله لَيْسَ بجسم فَلَا يحْتَاج إِلَى مَكَان يسْتَقرّ فِيهِ،
(عمدۃ القاری ج 2 ص
117)
اللہ جسم سے پاک ہے اللہ مکان کا محتاج نہیں نہ اس میں ٹھہرنے
کا۔
جس طرح سے سلف نے اللہ کی ذات کیلئے جسم ، جھت اور مکان کا انکار کیا ہے اسی طرح
سلف نے اللہ تعالٰی کی ذات کیلئے عرش پر یا کہیں اور ٹھہرنے کا بھی انکار کیا ہے۔
سلفیہ کا دعوی ہے کہ اللہ عرش پر ہی ٹھہرا ہوا ہے اور وہ کہیں
نہیں ہے۔
(i) سلفیوں کے شیخ صالح العثیمین(وفات 1421ھ) لکھتے ہیں۔
ما معنی الاستواء عندھم فمعنا العلو والااستقرار (شرح عقیدہ
الوسطیہ ص 375)
ہمارے نزدیک استوایٰ کا معنی بلند اور استقرار یعنی ٹھہرنا
ہے۔
(ii) سلفیوں کے ایک اور شیخ ابن عبد الرحمن جبرین (وفات 2009ء) لکھتے ہیں
هذه ھه تفاسير اهل السنة الاربعة اكثر هم يقول : استوي علي
العرش اي استقرر علیه
اکثر اہلسنت کہتے ہیں استویٰ علی العرش کی تفسیر ٹھرنا ہے۔
(التعلیقات الزکیۃ ص
211)
(iii) سلفیوں کے ایک اور شیخ الفوزان (جو حیات ہیں) لکھتے ہیں۔
اما الاستواء فمعنا كما فسرہ السلف العلو، والاستقرار
کہ سلف کے ہاں استویٰ کا معنی استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔
(شرح لمعۃ الاعتقاد
ص 91)
نوٹ: یہاں یہ سب کے سب اللہ کیلئے ہی استویٰ کی بات کر رہے
ہیں۔
جبکہ ہم نے جمہور سلف اور مطلق مجتہد امام سے یہ بات ثابت
کی ہے وہ اس کا رد کرتے ہیں اس کا اثبات قطعاً نہیں کرتے۔ یہ سب کے سب ابن تیمیہ کی
تقلید میں ایسا کہتے ہیں۔
(iv) ابن تیمیہ (وفات 728ھ) لکھتے ہیں
ولو قد شاء لاستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف
ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات والأرض وكيف تنكر أيها النفاخ أن عرشه يُقِلُّه
والعرش أكبر من السموات السبع والأرضين السبع ولو كان العرش في السموات والأرضين ما
وسعته ولكنه فوق السماء السابعة
(بیان تلبیس الجھمیۃ
فی تاسیس بدعھم الکلامیۃ3/243)
اوراگراللہ چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرسکتاہے
اوراس پر اپنی قدرت اورلطف ربویت سے بلند ورفیع ہوسکتاہےتوعرش عظیم جو ساتوں زمین اورآسمان
سے بھی زیادہ بڑاہے تواس پر اللہ استقرارکیوں نہیں کرسکتا۔توبڑی بڑی ہانکنے والے تم
اس کا انکار کیسے کرتے ہو اللہ کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے۔
بعد میں ابن تیمیہ کو بچانے کیلئے ان کے مقلدین نے یہ بھی
کہا ہے کہ ابن تیمیہ نے ایسا نہیں کہا جبکہ یہ کہنا بے فائدہ ہے کیونکہ ہم نے بقیہ
سلفیوں کے بڑے بڑوں سے یہی بات ثابت کی ہے۔
(v) حافظ ابن قیم (وفات 751ھ )
نے امام بیہقیؒ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ
بن عباسؓ کی ایک روایت نقل کرکے اللہ کیلئے استقرار کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
(اجتماع الجیوش الاسلامیۃ
ص 249)
جبکہ امام بیہقیؒ نے اپنی اسی کتاب میں جس کا حوالہ حافظ
ابن قیم نے دیا اس روایت کو منکر کہا ہے۔ اور
کہا ہے کہ اس روایت میں جھوٹ ظاہر ہے۔
فهذه الرواية منکرة ۔۔۔۔۔۔۔ وظهور الكذب منهم في روایاتهم
(كتاب الاسماء والصفات
للبيهقي ص 383- 384)
حافظ ابن تیمیہ نے عبد الله بن عبد المجيد بن مسلم بن قتيبة
الدينوري (وفات 276ھ) کی کتاب کے حوالہ سے عبد اللہ بن مبارکؒ کا قول نقل کیا ہے جس
میں ہے کہ استوایٰ استقرار ہے۔
قال : وقال عبد الله بن المبارك ومن تابعه من أهل العلم
وهم كثير أن معنى استوى على العرش استقر وهو قول القتيبي
.
(مجموع الفتاوى
5/519)
عبد الله بن عبد المجيد بن مسلم بن قتيبة الدينوري ایک بڑے محدث اور مفسر تھے مگر مذہباً کرامی تھے۔
امام بیہقیؒ انہیں کرامی فرماتے ہیں
كان ابن قتيبة يرى رأى الكرامية.
(سیر اعلام النبلا ج
13 ص 218 )
اور کرامیہ ایک
گمراہ فرقہ ہے
ہم
کسی کو صرف محدث و مفسر دیکھ کر ہی بقیہ تمام امت کے خلاف اس کے پیروا نہیں ہو سکتے
بڑے بڑے محدث گزرے ہیں جو کہ نبیﷺ
کی حدیث روایت کرنے میں تو صحیح تھے مگر مذہباً
یا تو شیعی تھے خوارج بھی تھے رافضی بھی تھے
خود بخاری مسلم میں کئی راوی ایسے موجود ہیں۔
ان کی نبی کریمﷺ
سے نقل روایت درست ہے مگر ان کا مذہب درست نہیں۔
اور
محدثین کا اصول ہے کہ بدعتی کی حدیث (یا روایت) کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے کہ جس حدیث (یا روایت) سے اس کی بدعت کی تقویت
و تائید ہوتی وہ قبول نہیں کی جاتی۔
(شرح مسلم للنوی ص
6 ، شرح نخبۃ الفکر ص 118)
عبد القاهر بن طاهر البغدادي التميميؒ(المتوفى: 429ھ) فرماتے
ہیں:
أواجمعوا على انه لَا يحويه مَكَان وَلَا يجرى عَلَيْهِ
زمَان خلاف قَول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه.
[ الفرق بين الفرق(ص/321)]
”اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی کو کسی مکان نے گھیرا
نہیں نہ اس پر زمان یعنی وقت کا گذر ہوتا ہے بخلاف اس فرقہ ہشامیہ اور کرامیہ کے اس قول کے کہ اللہ عرش پر ہی ہے“۔
اشاعرہ و ماتردیہ کا یہ عقیدہ پہلی صدی کے مطلق مجتہد امام
سے ثابت ہے جبکہ کرامیہ سلفیہ کا یہ عقیدہ
کسی ایسے سے ثابت نہیں سب نے ابن تیمیہ کی تقلید کی ہے جو کہ خود ایک غیر اجتہادی اور
اجماعی مسئلہ میں تمام امت کے خلاف ہوئے تھے جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ میں ان کا
اجماع کو چھوڑ کر سلف سے غلط ملط استدلال کرنا کوئی حیرت نہیں۔
آج کل کے تمام سلفیہ کہلانے والے صرف ابن تیمیہ کے مقلد
ہیں ابن تیمیہ نے عقیدہ الوسطیہ نامی کتاب لکھی علامہ عثیمین نے اس کی شرح میں اس عقیدے
کا اقرار کیا پھر عبد الرحمن جبرین نے بھی التعلیق الذکیۃ علی عقیدہ الوسطیہ میں اس
عقیدے کا اقرار کیا ہے۔
اگر ہم نے ماننا ہی ہے تو اہلسنت کی مانیں یا ان کرامیہ
کی ؟ اور ہم نے جمہور کا مذہب نقل کر دیا
ہے جو کہ ان کے خلاف ہے۔ اور اسے سلفیہ نے
بلکل چھوڑ رکھا ہے اور اس کے مقابلہ میں ان کرامیہ کی اتباع کی جارہی ہے اور سلفیہ کے نزدیک یہی لوگ سلف
ہیں اور اہلسنت کے یہ امام ان کے نزدیک سلف میں نہیں آتے یہ ان کا انصاف ہے۔
اختلاف نمبر (2)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ جس طرح تمام مخلوقات
کی تخلیق سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ بلا مکان ، بلا جھت ، بلا حلول بلا اتحاد
بلا کیف ، بلا حدود
(i)الإمام الأعظم أبو حنیفة ؒ(150ھ)فرماتے ہیں کہ
أَيْن الله تَعَالَى فَقَالَ يُقَال لَهُ كَانَ الله تَعَالَى
وَلَا مَكَان قبل ان يخلق الْخلق وَكَانَ الله تَعَالَى وَلم يكن أَيْن وَلَا خلق كل
شَيْء . ( الفقه الأبسط و اکبر :باب الِاسْتِثْنَاء فِي الْإِيمَان (ص/161)،العالم
والمتعالم (ص/57))
” جب
تم سے کوئی پوچھے کہ اللہ (کی ذات )کہاں ہے
تو اسے کہو کہ (اللہ وہیں ہے جہاں) مخلوق کی
تخلیق سے پہلے جب کوئی مکان نہیں تھا صرف اللہ
موجود تھا۔ اوروہی اس وقت موجود تھا
جب مکان مخلوق نا م کی کوئی شے ہی نہیں تھی“۔
(ii)إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 ھ)فرماتے ہیں:
" كان
الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل
خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير
احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي
الجويني۔۔.)تبيين كذب المفتري
فيما نسب إلى الإمام أبي الحسن الأشعري(ص/150
((
” الله
تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان
کا محتاج نہیں ہے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ مکان کو پیدا
کرنے سے پہلے تھا “۔
(iii)القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعريؒ (403ھ)فرماتے ہیں کہ
ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله
تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان. )الانصاف
فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65((
” ہم
یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا ٹھہرناہے
یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله
تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبلامکان ) اب بھی ویسا ہی ہے“
(iv)أبو القاسم، ابن جزيؒ (المتوفى: 741ھ) فرماتے ہیں کہ
وَهُوَ الْآن على مَا عَلَيْهِ كَانَ.
)القوانين الفقهية ج۱ ص۵۷ الْبَاب
الثَّانِي فِي صِفَات الله تَعَالَى عز شَأْنه وبهر سُلْطَانه(
” اللہ
کی ذات جیسا (مخلوقات کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے“
(v)وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (وفات 476
ھ)
في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة
لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه
كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
(أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101))
الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري
رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا
) نہیں ہے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بھی نہیں ہے ، کیونکہ استقرار
ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات ہے ، پس یہ
دلالت ہے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب
الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
(vi) وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن عساكرؒ
(وفات 620 ھ)
[طبقات الشافعية ( 8/186 ) ] : " موجودٌ
قبل الخَلْق ، ليس له قَبْلٌ ولا بَعْدٌ ، ولافوقٌ ولا تحتٌ ،
ترجمہ:
اللہ موجود ہے جیسا (تمام) مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا،
نہیں اس سے پہلے کچھ نہیں اس کے بعد کچھ نہیں اس کے اوپر کچھ نہیں اس کے نیچے کچھ
۔
(vii) وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (وفات 505 ھ)
ما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس
عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان
" اهـ.
)إحياء علوم الدين:
كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108(
امام غزالیؒ فرماتے ہیں اللہ زمان و ماکان کی تخلیق سے پہلے
تھا اور ویسا ہی ہے جیسا وہ (مخلوق کی تخلیق)
سے پہلے تھا۔
(viii) قال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف
بابن رشد الجد المالكي (520 ھ) "ليس الله في مكان، فقد كان قبل أن يخلق المكان)
اهـ. ذكره ابن الحاج المالكي
في كتابه "المدخل"
(المدخل: فصل في الاشتغال بالعلم يوم الجمعة (149/2))
اللہ مکان میں نہیں
وہ تو مکان کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔
(ix)وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري
الملقب بسلطان العلماء (وفات 660ھ)
"ليسء
أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا
تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان،
وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
(طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام
(8/ 219)
اللہ جسم والا نہیں محدود نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا
وہ پہلے تھا۔
(x) وقال الشيخ تاج الدين محمد
بن هبة الله المكي الحموي المصري (599 هـ)
في تنزيه الله عن المكان ما نصه وصانع العالم لا يـحـويه
قطر تعالـى الله عن تشبيه قد
كان موجودا ولا مكانا وحكمه الان عـلى
ما كانا سبحانه جل عن المكان وعز عن تغير الزمان" اهـ
)منظومته "حدائق
الفصول وجواهر الأصول" في التوحيد، التي كان أمر بتدريسها السلطان المجاهد صلاح
الدين الأيوبي (ص13) النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب، 4/ 32 (
اللہ موجود تھا بلا مکان اور ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
(xi) وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي
ما نصه :
" إنه
تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز
عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ)إتحاف السادة المتقين (2/ 24 (
امام شافعیؒ فرماتے ہیں
بے شک اللہ تعالیٰ موجود تھے اور کوئی مکان موجود نہیں تھا
پس اللہ تعالیٰ نے مکان کو پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ اُسی صفت ازلیہ ( ازل سے جو اللہ
کی صفت ہے) پر ہے جیسے مکان کے پیدایش سے پہلے تھے ۔ جائز نہیں ہے اللہ کے ذات میں
تبدیلی کرنا اور نہ اللہ کے صفات میں تبدیلی کرنا۔
سلفیہ کا دعوی ہے نہیں اللہ جس طرح مخلوق
کی تخلیق سے پہلے تھا اب ویسا نہیں۔
سلفیہ کے شیخ صالح العثیمین (وفات 1421ھ) لکھتے ہیں
وهو
الآن علي ما كان عليه وهو يريد ان ينكر استواء الله
اللہ جیسا تھا اب بھی ویسا ہے کہنا استواء کا انکار کرنا
ہے۔
)شرح عقیدہ وسطیہ ص
208(
اختلاف نمبر (3)
ہمارا دعوی کہ جس طرح اللہ کے اوپر کچھ نہیں اسی طرح اسکے نیچے
بھی کچھ نہیں
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
(الحدید 3)
وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہہی باطن
رسول اللہﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں
"اللهم
أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء،
وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے
بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے تیرے نیچے کچھ نہیں۔
(صحیح مسلم)
دون کا مطلب ”علاوہ“
بھی ہوتا ہے اور ”دون“ کا مطلب ”نیچے بھی ہوتا ہے۔(المورد ص 557)
ہم
دونوں باتوں کا اقرار کرتے ہیں خود حدیث میں بھی لفظ ”دون“ نیچے کیلئے استعمال ہوا
ہے۔
نبی کریمﷺ کی حدیث ہے
وَلَا الْخُفَّيْنِ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدَ نَعْلَيْنِ فَإِنْ
لَمْ تَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَمَا دُونَ الْكَعْبَيْنِ
”اور اگر تمہارے پاس
جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے پہن لیا کرو“۔
(سنن نسائی ج 2 ح 587 : صحیح)
امام بيهقي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ
عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ
فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ
يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ.
(الأسماء والصفات
للبيهقي ج۲
ص۲۸۷)
”ہمارے بعض اصحاب اللہ
کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ
تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں
اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اسکے نیچے کچھ نہیں تو اللہ مکان سے پاک ہے“
فائدہ: اس سےمعلوم ہو گیا کہ اللہ کی ذات موجود بلامکان
، لامحدود اور نہ ختم ہونے والی ہےجس سے
نہ اس کے اوپر کسی اور شے کا تصور کیا جاسکتا ہے نہ اس کے نیچے کسی
شے کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کہا جائے کہ یہاں سے اللہ کی ذات ختم ہو کر یہ چیز شروع
ہوتی ہے۔اِس سے ان لوگوں کے عقیدے کی بھی نفی ہو گئی جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ صرف عرش
پر ہے کیونکہ اگر کہا جائے کہ اللہ صرف عرش پر ہے تو پھر کہنا پڑے گا کہ اللہ کے اوپر تو کچھ نہیں لیکن نیچے عرش ہے۔
سلفیہ کا دعوی کہ اللہ کے اوپر تو کچھ نہیں
مگر نیچے ہے۔
جیسا ان کے عقیدہ سے
صریح طور پر واضح ہے کہ اللہ کی ذات کے نیچے عرش وغیرہ مخلوقات کے قائل ہیں
اور اس کے بھی قائل ہیں نیچے کی طرف سے نعوذ باللہ اللہ کی ذات ختم ہوتی ہے پھر
عرش وغیرہ مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔
اختلاف نمبر (4)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ موجود ہے لیکن بلا مکان و جگہ
سفلیہ کا دعوی اللہ بلا مکان موجود نہیں بلکہ
اسکیلئے ایک خاص جگہ/ مکان عرش ہے اور اسکے
سوا وہ کہیں نہیں۔
اختلاف نمبر (5)
ہمارا دعویٰ اللہ آسمان میں بھی ہے۔
سلفیہ کا دعوی نہیں آسمانوں میں کچھ نہیں
آسمان اللہ کی ذات سے بلکل خالی ہیں۔
سلفی چاہے اسکی کوئی بھی تاویل کرلیں لیکن حق بات یہی ہے
کہ وہ آسمانوں کو اللہ کی ذات سے بلکل خالی مانتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ
قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ
الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
(مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵/ص۵۶۷):صحیح)
”سلیمان ؒ فرماتے ہیں
حماد بن زیدؒ(محدث و فقیہ)نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ
لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے
“
اختلاف نمبر (6)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ تمام جھات اور حدود
سے پاک ہے۔
امام طحاویؒ اپنی کتاب عقیدہ طحاویہ میں تمام اہلسنت والجماعت
کے عقائد اور تین مجتہدین جن میں سے مجتہد مطلق امام ابو حنیفہؒ ، مجتہد فی المذہب
امام ابو یوسفؒ ، مجتہد فی المذہب امام محمد بن الحسن شیبانیؒ ہیں انکے عقائد نقل کرتے ہیں۔
هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ
فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ
إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم
أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين
یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء
الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور
أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق
اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے هیں اس کا ذکروبیان
هے۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 7)
پھر اسی کتاب میں اگے فرماتے ہیں:
وتعالى
عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ
المبتدعات
”اللہ عزوجل حدود و
قیود اور جسمانی رکان و اعضا و آلات سے پاک ہے اور جھات ستہ (اوپر نیچے دائیں بائیں
اگے پیچھے) سے پاک ہے“۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)
جبکہ سلفیہ کا دعوی ہے کہ نہیں اللہ تمام جھات اور حدود سے پاک نہیں۔
جیسا ان کے عقیدے واضح ہے اور اگر ان کے عقیدے سے اللہ کیلئے
حدود جھت ثابت نہیں ہوتی تو اور پھر کس طرح سے
ہوتی ہے؟
اختلاف نمبر (7)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ کی ذات اور مخلوق کے
درمیان کوئی مسافت (فاصلہ) نہیں۔
مجتہد مطلق حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
"والله
تعالى يُرى في الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة،
ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة"
االلہ تعالي کو آخرت ميں ديکھا جائے گا اور مومنين اس کو
اپني آنکھوں سے ديکھيں گے جبکہ وہ جنت ميں ہونگے، بنا کسي تشبيہ اور کميت کے اور اللہ
اور اس کے مخلوق کے مابين کوئي مسافت (فاصلہ) بھي نہيں ہوگي
)شرح فقه الكبر ملا
علي قاريؒ ص 136-137(
سلفیہ کا دعوی ہے کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان مسافت ہے۔
جیسا کہ ان کے عقیدہ سے واضح ہے کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان
بڑی مسافت(فاصلہ) ہے اللہ کی ذات دور اپنے عرش پر ہے وہ بھی بعض کے نزدیک عرش کی سطح
سے بھی اوپر ہے۔
اختلاف نمبر (8)
ہمارا دعوی ہے کہ استویٰ علی العرش کے بعد
ہی اللہ عرش پر نہیں ہوا بلکہ وہ پہلے بھی تھا۔
سلفیہ کا دعوی ہے نہیں عرش استوی کے بعد ہی اللہ عرش پر
ہوا۔
جیسا ان کے عقیدے اور دلائل سے واضح ہوتا ہے وہ استویٰ علی
العرش والی آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ دلیل ہے کہ اللہ عرش پر ہے۔ جبکہ استویٰ تو بعد میں ہے اللہ تو پہلے بھی وہاں
تھا۔ یا ان کا عقیدہ غلط ہے یا یہ دلیل ان
کے عقیدے کے مطابق نہیں۔
اختلاف نمبر (9)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ کا آسمان دنیا پر نزول
بلا کیف ہے حرکت کے ساتھ نہیں
اللہ تعالٰی رات کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں جیسا
کہ حدیث میں آیا ہے۔ اور دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں رات ہوتی ہے اگر یہ کہا جائے
کہ اللہ کا آسمان دنیا پر نزول یوں ہے کہ اللہ
عرش سے اتر کر آسمان پر آگیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ اللہ ہر وقت آسمان پر ہی ہے یا
یہ کہا جائے کہ اللہ عرش پر بھی ہو تا ہے اور وہاں سے نیچے آسمان پربھی آتا تو یہ کہنا
پڑھے گا کہ اللہ بیک وقت عرش اور آسمان پر
ہوتا ہے یہ دونوں باتیں سلفیہ کے عقیدے سے لازم آتی ہے جبکہ ہمارا دعوی ہے کہ اللہ کا نزول بلا کسی کیفیت کے ہے۔
سلفیہ کا دعوی ہے نہیں بلا کیف نہیں بلکہ پہلے آسمان خالی ہوتے
ہیں پھر اللہ کی ذات حرکت کرکے عرش سے آسمان پر آجاتی ہے۔
جیسا کہ ان کے عقیدہ سے واضح ہے
شیخ محمد بن عثیمین لکھتے ہیں۔
الحرکة لله تعالي فالحرکة له حق
)الجواب المختار ص
22(
اللہ حرکت کرتا ہے یہ حق ہے۔
علامہ ابن عبد البر مالکیؒ (وفات463 ھ ) فرماتے ہیں
وقد قالت فرقة منتسبة الي السنة انه تعالي ينزل بذاته وهذا قول مهجور لأنه تعالي ذكره ليس بمحل للحركات
ولا فيه شئ من علامات المخلوقات
)الاستذکار ج 8 ص
153(
فرقہ منتسبہ یہ کہتا ہے کہ اللہ کا نزول ذات کے ساتھ ہے
اور ان کا یہ قول لاوارث ہے۔۔۔۔ اور حرکت کرنا مخلوق کی علامات میں سے ہے۔
اختلاف نمبر (10)
ہمارا دعوی ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کو حاضر ناظر سمجھنا
اللہ کی ذات کے ساتھ شرک ہے
حاضر
ناظر ہونے کا مطلب
”موجود اور دیکھنے والا
جب ان دونوں کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد ہوتی ہے وہ شخصیت جس کا وجود کسی خاص جگہ میں نہیں بلکہ
اس کا وجود بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہے اور کائنات کی ایک ایک چیز کے تمام حالات
اول سے آخر تک اس کی نظر میں ہیں حاضر ناظر ہونے کا یہ مفہوم اللہ کی ذات پاک پر صادق
آتا ہے اور یہ صرف اسی کی شان ہے“۔ (اختلاف امت اور صراط مستقیم ص 37 یوسف لدھیانوی
شہیدؒ(
جبکہ سلفیہ کے نزدیک کسی بھی ذات کو حاضر
ناظر ماننا شرک نہیں ہوسکتا۔
کیونکہ شرک ہو تو کس کے ساتھ ہو اللہ تو حاضر و ناظر نہیں۔
اسلئے اب کوئی نبی کو یا ولی کو یا کسی بھی اور مخلوق کو
ہر جگہ حاضر و ناظر مانتا ہو تو یہ گناہ اور جھالت
تو ہو سکتا ہے مگر شرک نہیں ہو سکتا۔
اختلاف نمبر (11)
تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی مسئلہ ہے
کہ تین طلاق تین ہی ہے۔
جبکہ سلفیہ کے نزدیک تین طلاق ایک ہے۔
اس میں وہ تمام امت کو چھوڑ کر ابن قیم اور ابن تیمیہ کی
پیروی کرتے ہیں جنہوں نے خود اس غیر اجتہادی مسئلہ میں اجتہاد کو دخل دیا۔
اختلاف نمبر (12)
اہلسنت والجماعت کے نزدیک تراویح 20 رکعت
ہیں
اور یہی 1400 سال سے حرم اور مسجد نبوی ﷺ میں پڑھی جا رہی
ہیں اور اہلسنت اسی کے قائل ہیں
جبکہ نام نہاد سلفیہ کا موقف ہے کہ تراویح 20 نہیں بلکہ
8 رکعت ہی ہے
سلفیہ کے شیخ البانی صاحب نے اسے بدعت ضلالۃ قرار دیا ہے
اور عرب میں موجود ان کے مقلدین 8 رکعت کے ہی قائل ہیں۔