جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Monday 24 March 2014

فرقہ جدید نام نہاد اھل حدیث کے پیش کردہ قرآنی آیات سے استدلال اور ان کے جوابات

باب سیزدھم فریق ثانی کے قرآنی دلائل سے استدلال اور انکے جوابات
قارئین کرام ! تصویر کا یکا رخ تو آپ ملاحظہ کر چکے ہیں اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے جایئے ھم آسانی کے لئے فریق  ثانی  کی طرف سے پیش کردہ اصولی باتوں  کو چندابواب میں پیش  کرنا زیادہ مناسب اور بہتر سمجھتے ہیں۔
فریق ثانی نے  جہاں بزعم خویش تقلید اور خصوصاً شخصی کے رد میں اور بہت سے دلائل پیش کئے  اور استدلال کرنے کی ناکام کوشش لی ہے۔ وہاں اس نے قرآن کریم سے بھی احتجاج کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے ہیں۔ چانچہ غیرمقلدین کے شیخ الکل تقلید کی تردید میں چار دلیلیں پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے  ہیں:۔
پہلی ۱؎ دلیل قول اللہ تعالٰی وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا “جو دے تم کو رسول سو لے لو۔ اور  جس ے منع کرے سو چھوڑ دو”۔ اور قول اللہ تعالٰی اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ  “چلو اسی پر جو اتر ا تم کو تمہارے رب سے ”۔ وجہ استدلال کی پیچھے بیان ہو گی۔ پہلے چند مقدمات بیان کئے ہیں۔ اور چھٹے مقدمہ کے اثبات کے لیے علامہ شامیؒ عامہ طحاویؒ۔ اور حضرت ملا علی القاریؒ کی عبارتیں پیش کی ہیں اور پھر ان مقدمات کے سہارے تقلید شخصی کی تردین کی تقریر کرتے ہوئے استدلال کیا ہے۔
الجواب:۔
اس طرز استدالال اور ان آیات سے اہل اسلام میں معہود تقلید شخصی کی تردید ضیاع وقت
کے سوا کچھ  نہیں۔ہے۔
اولاً ۱؎ اس لیے ان آیات سے تقلید کی تردید واضح ہوتی تو استدلال کو چھ مقدمات ک سیڑھی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ وثانیاً۲؎ ۔ اس لیے کہ لا علمی کے وقت اور اہل الذکر سے سوال خود قرآن و حدیث سے ثابت ہے بلکہ نقبل شیخ الکل واجب ہے  ہے تو پھر بھلا یہ  وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ  اور  اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ (آیۃ) کے کیوں خلاف ہو گا ۔ و ثا لثاً؎۳ اس لیے کہ خود شیخ الکل صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
اور جو مقلد تخصیص مذہب معین کی بطور قسم ثانی کے اختیا کرے وہ حقیقۃً تارک بعض  وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ  کا نہیں ہے بلکہ عامل بقتضائے عموم نص کے ہے اس لیے کہ تخصیص اس کی یا بنظر عدم استطاعۃ کے ہو گی کہ نص سے عموماً اتباع ما اتٰی بہ الرسول کا ثابت ہوتا ہے پھر اگر حنفی مذہب کے مسئلہ کے ضمن میں اخذ ما آتٰی بہٖ الرسول کر لیا تو بھی کافی ہے تو اسی نظر سے ترک بعض کا نہ ہؤا الخ (معار الحق ص155)
اور نیز لکھتے ہیں کہ
جیسا کہ مقلد بتقلید قسم ثالث باوجود عالم ایک مسئلہ کے بموجب مذہب دوسرے امام کے اس نظر سے کہ ہم کو سوائے اتباع اپنے امام کے کسی کی پیروی درست نہیں۔ اس مسئلہ کو عمل میں نہیں لاتا تو بے شک  ترک کیا اس نے بعض ما اتٰی بہٖ  الرسول کو بخلاف مقلد مخصص بتقلید قسم ثانی کے کہ تخصیص اس کی بنظر کفایت با عدم استطاعۃ و عملاً بعموم النص ہے تو ثابت بات ہؤا کہ ایسے مقلدین تارک بعض ما اتٰی بہ الرسول کے نہیں اور ان پر تقلید ہر مذہب سے ہر مسئلہ کی واجب نہیں فافہم انتہٰی بلفظلہٖ ( معیار الحق ص156)
خط کشیدہ الفاظ کو بغور ملاحظہ کیجئے کہ غیرمقلدین کے شیخ الکل نے کیا فرمایا ہےَ جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے اس پر ہمارا صاد ہے اور لاعلمی کے وقت مقلدین کا  ایک ہی امام کی تقلید میں یہی عمل اور یہی و تیرہ ہے اور شیخ الکل نے بجا فرمایا کہ ایسے مقلدین پر تقلید ہر مذہب سے ہر مسئلہ کی واجب نہیں کیونکہ جب ایک ایک ہی مام کی تقلید کفایت کرتی ہے اور تقلید کا کھا تہ بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اور عموم نص پر عمل بھی ہو جاتا ہے تو پھر سب کی تقلید کیوں واجب ہو ؟
دوسری۲؎ آیت:۔
فریق ثانی نے تقلید شخصی کے شرک و کفر ہونے پر اس آیت کریمہ سے بھی  استد لال کیا ہے۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ۔(النساء  ۶۵)
یعنی تیرے رب کی قسم وہ شخص مومن نہیں اے نبی ! جو تیرے حکم کو دل کی خوشی سے گردن جھکا کر قبول  نہ کر لیا کرے ۔
(ہم نے یہ ترجمہ غیرمقلد عالم مولانا ابو احمد محمد یونس دہلوی سے بلفضلہٖ  نقل کیا ہے ۔ اب انہی کی  زبان اور الفاظ میں اس کی مزید تفسیر تشریح اور استدلال بھی ملاحظہ فرما لیجئے لکھتے ہیں کہ:۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیغمبر خداﷺ کی حدیث کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی بڑے سے بڑے متقی۔ پرہیز گار۔ امام یا عالم کی بات کی طرف جھکنا حدیث نبوی پہ کسی قول کو مقدم کرنا ایمان سے خارج ہونا ہے۔ یہ آیت  دراصل اس منافق کے بقرے میں نازل ہوئی تھی جس کا ایک یہودی سے کچھ جگڑا تھا۔ یہ دونوں اپنا جھگڑا حضور علیہ السلام کی خدمت میں لے کر حاضر  ہوئے ۔ دربار نبوی سے فیصلہ یہودی  کے حق میں ہؤا ۔ مگر منافق نے اس فیصلہ پر اکتفاء نہ کی اور حضرت عمر ؓ سے فیصلہ چاہا۔ حضرت  عمر ؓ نے یہ معلوم کرکے کہ یہ شخص دربار محمدی سے فیصلہ لینے اور حدیث نبوی سن لینے کے بعد میرے پاس آیا ہے۔ اس کو قتل کر ڈالا اور فرمایا:۔
ھٰکذا اقضی بمن لم یرض بقضاء اللہ و رسولہ۔
جو  شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہ ہو تو اسی طرح کا فیصلہ اس کے  بارے میں کرتا ہوں”۔
یعنی جو شخص رسول خدا کے فیصلہ سے راضی نہ ہو آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے امتیوں کے اقوال تلاش کرے اس کا فیصلہ بس قتل کر دینا ہے۔ اس وقت اللہ عزو جل نے حضرت عمر ؓ کی تائید کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی کہ بے شک ایسےشخص مسلمان ہی نہیں۔
مسلمانو ! غور کرو۔ فرمان نبوی فیصلہ محمدی۔ حدیث مصطفی کے ہوتے ہوئے جو شخص حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر بزرگ خلیفہ رسول کے قول کو تلاش کرے وہ بے ایمان
اور واجب القتل ہو ۔ پھر جو شخص حدیث نبوی کی موجودگی میں امام ابو حنیفہؒ ۔ امام شافعی ؒ، امام مالکؒ  ، امام احمدؒ کے اقوال کو نہ صرف تلاش کرے بلکہ ان کی تقلید فرض ، واجب سمجھے کیا وہ مسلمان رہ سکتا ہے؟ انتہیٰ (طریق محمدی ص21 طبع مکتبہ محمدیہ کراچی)۔
الجواب:۔
اس آیت کریمہ سے اس معوم خیال پر اس سے بہتر الفاظ میں استدلال نہیں ہو سکتا ۔ مگر قارئین مندرجہ ذیل امور پر عمیق نظر اور ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں ۔
۱۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم، حدیثِ صحیح۔اٹل اور غیر معلل بعلت فیصلہ پر راضی نہ ہونے والا بلکہ غیر کی طرف  جھکنے والا خواہ وہ  آپ کا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو ۔ کافر مرتد ، منافق اور واجب القتل ہے۔ اب یہ چیز فریق ثانی کے ذمہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ مقلدین ائمہ کرام ؒ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے محکم اٹل اور صحیح فیصلہ پر راضی نہیں ہوا کرتے؟ بلکہ وہ ایسے اٹل اور محکم فیصلہ  کے ہوتے کسی امام کی تقلید کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔
۲۔ اس آیت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خد ا اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہونے والا شخص کافر اور واجب القتل ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے  یہ الفاظ کہ جو شخص خد اور اس کے رسول کے فیصلہ  پر راضی نہیں ہوتا اس کا فیصلہ میں تلوار ہی سے کیا کرتا ہوں اس پر صرحت سے دلالت کرتے ہیں کہ اس آیت سے یہ کسی طرح  ثابت نہیں ہوتا  کہ جس مسئلہ میں قرآن کریم اور  حدیث شریف سے روشنی نہ پڑتی ہو تو اس غیر منصوص مسائل میں کسی امام کی تقلید شخصی کفر اور شرک ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عمرؓ دربار نبوت کے راز دان یہ فرماتے کہ آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں کسی اور کی تقلید کرنا کفر ہے۔ اس  لیے میں تمہارا فیصلہ تلوار ہی سے کروں گا۔ مگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہونے والے کا میں یہی فیصلہ کرتا ہوں کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے الغرض جو چیز اس آیت سے ثابت ہے مقلدین اس کا انکار نہیں کرتے۔ اور جس چیز کے مقلدین قائل ہیں اس آیت کی تردید ثابت نہیں ہوتی ۔
۳۔ مولوی صاحب موصوف نے یہ کہا تھا کہ “ پیغمبر خدا ﷺ کی حدیث کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی بڑے سے بڑے متقی پرہیز گار امام یا عالم کی بات کی طر ف جھکنا حدیث نبوی پر کسی کے قول کو مقدم کرنا ایمان سے خارج ہونا چایئے۔ ہمارا بھی اس پر صاد ہے کہ حدیث صحیح کے ہوتے ہوئے
غیر کے قول کو مقدم سمجھنا ایمان سے خارج ہوتا ہے۔
مگر قارئین کرام  ! مولوی صاحب کے اس فتویٰ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مندر جہ ذیل واقعات پر نظر دوڑایئے ۔ اور پھر مولوی صاحب کے فتویٰ کی داد دیجئے۔
۱۔ ہم باحوالہ ( بخاری  و مسلم ص120ج2) کے حوالے سے پہلے نقل کر چکے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو خلافت کے لیے نامزد کروں توپھر بھی میرے لیے گنجائش ہے۔ کیونکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایسا  کیا تھا ۔ اور اگر میں کسی کو نامزد نہ کروں تو بھی کوئی    حرج نہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صرحت کے ساتھ کسی کو نامزد نہیں کیا تھا یہ فر مانے کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے عمل کو آپ نے  پسند کیا اور چھ۶؎ آدمیوں کو خلافت کیلے آپ نے نامزد کر دیا۔ کہ یہ اپنے میں سے ایک کو متحب کر لیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضورﷺ کا عمل حدیث نہیں؟ اگر ہے اور یقیناً ہے تو حضرت عمر ؓ نے جب غیر رسول متقی یعنی حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عمل کو آنحضرت ﷺ کے عمل مقابلے میں کھڑا کیا ۔ اور  پھر اس کو ترجیح بھی دی۔ تو ارشاد فرمایئے کہ کیا حضرت عمرؓ مسلمان رہے یا نہیں؟
۲۔ بلکہ ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن میں بظاہر آنحضرت ﷺ لے قول کی مخلافت بھی کی گئی۔ آنحضرت ﷺ نے مرض الموت کے دوران ارشاد فرمایا کہ (قلم دوات  لاؤ) میں تمہیں کچھ لکھو ا دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ تو حضرت عمرؓ فاروق نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔( بخاری ص22 ج1 و مسلم ص43 ج2 و مشکوۃ ص548)
دیکھئے آپ نے حکم دیا ہے مگر حضرت عمرؓ بظاہر آنحضرت ﷺ کے حکم کو ٹالتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔ آپ کے لکھوانے کی ضرورت نہیں ۔ فرمایئے۔ کہ بقول آپ  حضرات  کے حضرت عمرؓ آ نحضرت ﷺ کے حکم پر اپنی رائے  کو ترجیح د ینے کی وجہ سے مسلمان رہے یا نہ؟
۳۔ حدیبیہ کے مقام پر جب آنحضرت ﷺ  نے مشکرین مکہ کے سفیر کے ساتھ معاہدہ کی شرطیں طے کر لیں تو یہ الفاظ لکھوائے۔
ھٰذا ماقاضہ علیہ محمد رسول اللہ ۔ یہ وہ شرطیں ہیں جن پر جناب رسول اللہ ﷺ
نے (مشرکین  کے ساتھ ) صلح کر لی پے۔
تو مشرکین کے نمائندہ  سہیل  بن عمرہ نے  کہا کہ ہمارا تو آپ سے جھگڑا ہی اس بات پر ہے کہ ہم آپکو اللہ تعالٰی کا رسول نہیں مانتے ۔ آپ رسول اللہ کے الفاظ اور جملہ کو مٹا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جو شرطیں لکھ رہے تھے فرمایا کہ اچھا تم یہ مٹا دو۔ ا س پر حضرت علی ؓ نے فرمایا ۔
لا واللہ لا  امحاما  “خدا کی قسم میں اسے نہیں مٹاؤں گا”۔ (بخاری ص372ج1 و مسلم ص105 ج2 و اللفظ لٰہ و مشکواۃ ص355ج2)
 دیکھئے آپؐ فرماتے ہیں مٹا دو ۔  مگر حضرت علی ؓ حلف اٹھا کر کہتے ہیں کہ میں نہیں مٹاؤں گا۔ اور آنحضرت ﷺ کے صریح فرمان کا بھری مجلس میں فریق مقابل کے نمائندہ اور سفیر کے رو برو انکار کرتے ہیں۔ ان پر فتویٰ لگانے کی ہمت ہمارے اند ر تو نہیں ۔ البتہ فریق  ثانی ہی اس کی جسا رت کر سکتا ہے اور کرے گا ہمارے ہاں حضرت علیؓ کا نہ مٹانا پر مبنی (ملاحظہ کیجئے مقام ابی حنیفہؒ)
۴۔ ہم باحوالہ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے شرابی کی سزا چالیس ۴۰ کوڑے ثابت ہے۔ مگر حضرت علی ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صریح عمل کے مقابلہ میں حضرت عمرؓ اور  حضرت عثمان ؓ کی شرابی سے متعلق ۸۰؎ کوڑے سزا اور حد کو بھی سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ فریق ثانی ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عمل کے مقابلہ میں حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کا  عمل  حضرت علیؓ کے نزدیک کیسے بن گیاَ اور یہ کفر سے کیسے اور کیونکر بچ نکلے؟ کہ حضور کے عمل کے مقابلہ میں امتیوں کے فعل سے تعبیر کرتے ہیں؟ فریق ثانی کے نزدیک تو یہ دن زدنی کے قابل ہیں ۔ (العیاذ  باللہ تعالٰی )
۵۔ منفوقس شاہ مصر نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جب  اریہ قبطیہؓ کو بطور تحفہ ارسال کیا تو ان کے ساتھ ان کا ایک چچا اورر بھائی (جس کا نام موبور تھا) بھی خدمت اقدس میں بھیجا ۔ چونکہ سابقہ تعارف کے علاوہ یہ حضرت  ماریہ ؓ کے چیچرے بھائی بھی تھے۔ اور لونڈیوں کا پردہ بھی شرعاً نہیں ہوتا ۔ اس لیے یہ بات مدینہ میں اتنی مشہور  ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو بھی سن کر اس پر یقین نہ  گیا۔ اور غیرت میں آکر آپؐ نے حضرت علیؓ کو تلوار دی اور فرمایا کہ جا کر مابور کو جہاں بھی ملے قتل کر دینا۔ حضرت علیؓ
نے اس کو تلاش کیا ۔ قتل کرنے پر ہی تھے کہ تقدیراً اس کا کپڑا  جب ہٹا تو دیکھا کہ۔
لم یخلق اللہ عزوجل لہ ما للرجال
اللہ تعالٰی نے اس کا وہ عضو جو مردوں کے لیے ہوتا ہے پیدا ہی نہیں کیا”۔ (مستدرک ص39ج4، و تیسیر ص136)
حضرت علی ؓ نے اس کو قتل نہ کیا اور آنحضرت ﷺ سے آکر عرض کیا ۔آپﷺ نے فرمایا:۔
الشاھد  یرٰی مالا یرٰی الفائب  ”  یعنی  ؏ شنیدہ کے بود مانند دیدہ (مسند احمد،و قال ابن کثیر ؒ اسنادہ رجال ثقات (البدایۃ ص304ج5)
دیکھئے اس شخص کے قتل دربار نبوی سے صادر ہو چکا ہے۔ مگر حضرت علی ؓ اس کو قتل نہیں کرتے ۔ کیوں ؟ کیونکہ وہ نامرد و ثابت ہوا اور اس کے قتل کی علت نہ پائی جا سکی اس لیے اس کو چھوڑ دیا گیا ۔ آنحضرت ﷺ اس کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ مگر حضرت علیؓ آپ کے اس ارشاد کے مقابلہ میں اپنی دیداور رائے دیتے ہوئے قتل سے باز آتے ہیں۔
۶۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ایک خادمہ سے زنا کا  ایک فعل صادر ہو گیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا ان اجلدھا میں اس کو کوڑے لگادوں۔ مگر میں نے جا کر دیکھا کہ وہ  زمانئہ نفاس میں ہے۔ میں  نے اس خود سے  کہ کہیں کوڑے مارنے سے وہ مرہی نہ جائے اس کو تازیا نے نہ لگائے۔ اور میں نے  آپ ؐ سے یہ قصہ کہہ سنایا۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ احسنت (مسلم ص71ج2) تم نے اچھا کیا (کہ اس کو اس حالت میں سزا نہ دی) یہاں بھی اپ کے ظاہر ی حکم  کو فوراً اس لیے نہیں پورا کیا گیا کہ مصلحت اور حالت مجرمہ اس کی متقاضی نہ تھی ۔ اس سے مصلحت کی وجہ سے  باعث ملامت نہ ٹھہرے  بلکہ  آپ نے  ان کی دا د دی ۔ اور ان کے اس فعل کی تحسین فرمائی۔
حضرات ہم نے باب ہفتم میں مصلحت ِ وقت کا لحاظ کرنے کی متعد حدیثیں نقل کی ہیں، اور مسلم وغیرہ کی وہ حدیث جس میں اللہ تعالٰی کے حکم سے ہٹ کر  امر کو اپنے حکم پر پناہ دینے کا حکم  ہے اس بحث کو اور جو کچھ  ابھی ابھی عرض کیا گیا ہے۔ ان کو آپس میں ملا کر نتیجہ نکالیہ کہ  کیا آنحضڑت ﷺ کے اس حکم اور رائے کا نکار کفر ہے جو اٹل محکم اور صحیح غیرمعلول بعلت ہو ؟ یا ہر اس حدیث اور رائے کا جو سنداً صحیح ہو  اور نہ اٹل اور محکم ہو ؟ اور خواہ اس حدیث میں فعل اور نفی کی علت ہو یا نہ ہو ؟
نواب صدیق حسن خان صاحبؒ لکھتے ہیں:۔
امام احمد ؒ بن حنبلؒ فتاویٰ حضرات صحابہ کرام ؓ کو حدیث مرسل ٌر مقدم سمجھتے ہیں۔ (الجنۃ ص8)
نسبت تو دیکھئے کہ حدیث اور اقوال صحابہؓ ؟ لیکن چونکہ حدیث مرسل ان کے نزدیک قابل اعتبار نہ تھی اس لیے اس حدیث پر وہ اقوال صحابہ ؓ کو ترجیح دیتے تھے ۔ مرسل حدیث وہ ہوتی ہے جس میں صحابئ کا ذکر نہ ہو۔ اور اہل اسلام کے نزدیک الصحابۃ کلہم عدول ہیں۔ اس لیے دوسری صدی تک مرسل حدیث کو حجت سمجھا جاتا تھا۔ (تدریب الراوی ص120)
اگر ہر حکم اور رائے میں  آنحضرت ﷺ کی خلاف  ورزی کفر ہے تو ان اکابر حضرات صحابہ ؓ کرام پر فتویٰ لگایئے۔ اور ہم باب سوم و چہارم میں باحوالہ جمہور حضرات محدثین کرامؒ کا مقلد ہونا ثابت کر آئے ہیں کیا وہ سب گردن زدنی کے لائق تھے؟َ  اور کیا سارے  کے سارے مشرک تھے؟
سہے لاکھو ستم لیکن نہ کی آہ و فغاں اب تک
زبان رکھتے ہوئے  بھی ہم رہے ہیں بے زباں اب تک
تیسری آیت:۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا  ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ (البقرہ 21)
اور جب کوئی ان سے کہے تابعداری کرو اُس حکم کی جو کہ نازل فرمایا اللہ نے کہتے ہیں ہر گز نہیں ہم تو تابعداری کریں گے  اس کی جس پر دیکھا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگرچہ ان کے باپ  دادے نہ سمجھتے ہوں  ہوں کچھ بھی اور نہ جانتے ہوں سیدھی  راہ۔ 
عینی حق تعالٰے کے احکام کے مقابلہ میں اپنے باپ داا کا اتباع کرتے ہیں اور یہ بھی شکر ہے چنانچہ بعض جُہال مسلمان بھی ترکِ نکاح بیوگان وغیرہ رسول باطلہ میں ایسی بات کہ گذرتے ہیں اور بعض زبان سے گو نہ کہیں  مگر  عملدر آمد سے اُن کے ایسا ہی مترشح ہوتا ہے سو یہ بات ا سلام کے خلاف ہے (بفضلہ یہ ترجمہ اور اس کی تشریح حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ کی ہے) اس کے ساتھ اسی مضمون کی دو آیتیں اور بھی ملاحظہ فرما لیں تاکہ بات خوب واضح ہو جائے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا  ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ (البقرہ 21)
اور جب کہا جاتا ہے ان کو آؤ اس کی طرف جو کہ اللہ
نے ناز ل کیا اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہم کو کافی ہے  وہ جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگر ان کے باپ دادے نہ کچھ علم رکھتے ہوں نہ راہ جانتے ہوں تو بھی ایسا ہی کریں گے۔
جاہلوں کی سب سے بڑی حجت یہ ہوتی ہے کہ جو کام باب دادا سے ہوتا ہے اس کے خلاف کیسے کریں ان کو بتلایا گیا کہ اگر تمہارے اسلاف بے عقلی یا بے راہی  سے قعر ِ ہلاکت میں جا گر ے ہوں تو کیا پھر بھی تم ان کی راہ چلو گے حضرت شاہ (عبدالقادرؒ) صاحب لکھتے ہیں ، باپ کا حال معلوم ہو کہ حق کا تابع اور صاحب علم تھا تو اس کی راہ پکڑے نہیں تو عبث ہے۔ یعنی کیف ما اتفق ہر کسی کو رانہ  تقلید جائز نہیں ۔
(بلفظہ ترجمہ شیخ الہند اور تشریح از مولانا عثمانیؒ)
۲۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ
اور جب ان کو کہتے چلو اس حکم پر جو اتارا اللہ نے کہیں نہیں ہم تو چلیں گے اس پر جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں  کو بھلا اور جو شیطان بلاتا ہو ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف تو بھی”۔( لقمٰن ۲۱)
یعنی اگر شیطان تمہارے باپ دادوں کو دوزخ کی طرف  لے جارہا ہو تب بھی تم اس کے پیچھے چلو گے؟ اور جہاں وہ  گریں گے وہیں  گرو گے؟
(ترجمہ شیخ الہند اور تشریح از مولانا عثانیؒ)
الجواب:۔
ان آیات کریمات میں جس تقلید کی تردید کی گئی ہے ووہ ایسی تقلید ہے جو اللہ تعالٰی اور جناب رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مد مقابل ہو ایسی تقلید کے حرام شرک  ، مذموم اور قبیح ہونے میں کیا شبہ؟ اور اہل اسلام اور اہل علم میں کو ن ایسی تقلید کو جائز قرار دیتا ہے؟ اور  ایسے مقلدوں کو کو ن مسلمان  کہتا اور حق پر سمجھتا ہے جو خدا تعالٰی اور اس کے پیغمبروں کی تعلیم اور ان کے حکم کے خلاف کہتے  اور کرتے ہیں؟ الغرض ان آیات سے جس تقلید کی تردید ثابت ہے اس کا کوئی بھی مسلمان قائل نہیں اور جس تقلید کے اہل اسلام قائل ہیں اس کی تردید ان آیات سے ثابت ہے اس کا کوئی بھی مسلمان قائل نہیں اور جس تقلید کے اہل اسلام قائل ہیں اس کی تردید ان  آیات سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ اگر باپ داددے علم و عقل اور ہدایت  پر ہوں تو انہی آیات سے ان کی اتباع اور پیروی کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ  کسی بھی
عاقل سے یہ مخفی نہیں اور خود قرآن کریم  سے اہل حق آ با ء واجداء کی پیروی کرنا ثابت ہے۔
چنانچہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروں گے تو انہوں نے
قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا (البقرۃ ۱۳۳)
کیا تم موجود تھے جس وقت قریب آئی یعقوب کے موت جب کہا اپنے بیٹوں کو تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد بولے ہم بندگی کرینگے تیرے رب کی اور تیرے باپ دادوں کے رب کی جو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق ہیں” (علیہم الصلٰوۃ و السلام) وہی ایک معبود ہے”۔
اس سے صاف طور پر معلوم ہوا  کہ اگر باپ دادے حق پر ہوں تو ان کے طریقہ پر چلنا اور ان کی اتباع و پیروی کرنا پیغمبر انہ وصیت میں داخل ہے تو اس کے جائز او رپسندیدہ ہونے میں کیا کلام ہے ۔
حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ و السلام نے جیل میں قیدیوں کو تبلیغ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا۔
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ(یوسف ۳۸)  “اور میں نے اپنے باپ دادوں  ابرہیم اسحاق او ریعقوب (علیہم الصلوۃ والسلام ) کی ملت کی پیروی کی ہے۔
اگر دین حق میں باپ دودوں کی پیروی مذموم اور بری چیز ہوتی توحضرت یوسف ؑ اس پیروی کا کبھی تکذرہ نہ فرماتے اور نہ اللہ تعالٰی  اس کو مقام مدح میں بیاں فرماتے۔  ، قرآن کریم کی ان نصوص کی روشنی میں یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ اللہ تعالٰی اور اس کے برحق انبیاء ؑ کے احکام کے مقابلہ میں آباء و اجداد کی پیروی جایز اور محمود ہے او اس صریح فرقہ کو نظر  انداز کرنا کسی عاقل اور متدین کا کام نہیں ہو سکتا الغرض حرام اور مذموم تقلید کر حرمت ے جائز اور مطلوب تقلید کا عدم جواز ثابت کرنا ایک طرفہ کاروائی اور نرالا تماشا ہے۔ ؎
صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیت دل کی                                    دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گَدلا کر کے
ہم بعض معتبر اور مشہور مفسرین کرامؒ کے چند حوالے  بھی عرض کیے دیتے ہیں تاکہ معاملہ بالکل واضح ہو جائے۔ امام قرطبیؒ (محمد بن احمدؒ ابو عبداللہ الانصاری الاندلسی القرطبی المتوفٰی ۶۷۱ھ) قَلُوْ بَل نْتّبِعُ مَا اَلْفَیْناَ عَلَیْہِ اٰ بَاؔ ءَ نَا کی  تفسیر  اور تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔
تعلق قوم بھذہ الالیہ فی ذم التقلید لذم اللہ تعالٰی الکفار باتباعھم فی الباطل و اقتداء ھم فی الکفر و العصیۃ وحذا فی الباطل  صحیح واما التقلد فی الحق فاصل من اصول الدین و عصمۃ عن عصم المسلمین یلجاء الیھا الھاھل المقصی عب درک النظر
اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے تقلید کی مذمت پر استدلال کیا ہے جنہوں نے باطل  میں اپنے باپ دودوں کی اتباع کی اور کفر و معصیت میں انکی اقتداء کی ہے اور ایسی باطل تقلید کے بطان پر اس سے استدلال صحیح ہے رہی حق کے سلسلہ میں تقلید  تو وہ تو اصولِ دین میں سے ایک اصل ہے۔ اور مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا ایک بڑا ذریعہ ہے   جو شخص اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دین کے معاملہ میں تقلید ہی پر اعتماد کرتا ہے۔
(تفسیر قرطبی ص194ج2 طبع مصر)                                           
مطلب بالکل واضح ہے کہ اگر اس آیت کریمہ  سے اس تقلید کی تردید  مقصود ہے جو باطل اور کفر  معصیت میں اپنے آباء کی کی جاتی ہے تو استدلال بجا اور درست ہے اور اگر اس سے اس تقلید کا ابطال مراد  ہے جو اہل حق میں آبا واسلاف کی تقلید کرتے ہیں تو وہ تو دین کے اصول میں سے ایک اصل ہے اور قرآن کریم اصول دین کی تردید تو نہیں کرتا ۔ 


جس طریق ثانی نے اہل اسلام میں رائج تقلید کے ابطال پر بزعم خویش قران کریم کی بعض آیات کریمات سے بے جا استدلال کیا ہے ۔ جیسا کہ قارئین کرام پڑھ چکے ہیں اسی طرح انہوں نےبعض احادیث شریفہ  سے بھی معہود تقلید کی تردید پر استدلال کیا ہے ۔ لیکن ان سے بھی ان کا ستدلال ناتمام اور سعی لاحاصل رہتی ہے ۔
پہلی حدیث
غیر مقلدین حضرات کے شیخ الکل ؒ تقلید کی تردید میں دوسری دلیل حضرت ابن مسعود ؓ  کی روایت نقل کرتے ہیں کہ کوئی آدمی بعد نماز دائیں طرف پھر کر بیٹھنے کو ضروری جان کر اپنی نماز میں شیطان کا حصہ  نہ مقرر کرے کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ کو اکثر بائیں طرف بیٹھتے بھی دیکھا ہے ،[ محصلہ بخاری ص ۱۱۸ ج  ۱] علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر ضروری اور واجب جانتا ہے تو پھر شیطان کا حصہ ہوگا ورنہ دونوں امر برابر ہیں گو دائیں طرف پھرنا اولیٰ ہے  ۔ اور علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے امر مندوب پر اصرار کیا تو اس میں شیطان کا حصہ ہوجاتا ہے اور جس شخص نے بدعت پر اصرار کیا تو اس کا کیا حال ہوگا ؟ درمختار میں ہے کہ سجدہ شکر مستحب ہے لیکن نماز کے بعد مکروہ ہے تاکہ انجان لوگ اس کو سنت اور واجب نہ ٹھہرائیں اور جو مباح اس درجہ کو پہنچ جائے تو وہ مکروہ تحریمی ہے [ محصلہ ] یہ حوالے نقل کرنے کےبعد شیخ الکل ؒ تحریر کرتے ہیں کہ تو اس حدیث کے فحویٰ سے مطابق تصریحات اُن محدثین اور فقہاء کے جب کسی امر مستحب کا التزام اور اس پر اصرار اور ہٹ کرنا فعل شیطانی اور مکروہ تحریمی ہوا تو التزام اور اصرار حتما اور وجوباً    ایک مجتہد کے مذہب کا جو مخالف اجماع قرون ثلاثہ کے اور مخالف قران کے ہے کیونکر بدعت نہ ہوگا ؟ انتھی بلفظہ [معیار الحق ص ۱۵۷
صفحہ ۳۱۸:   الجواب: شیخ الکل ؒ کا استدلال بھی نرا مغالطہ ہے ۔ اولاً   اس لیے کہ اگر تقلید کی تردید میں ان کے وسیع علم میں کوئی صریح اور صحیح حدیث ہوتی تو وہ مقام استدلال میں ضرور اُسے پیش کرتے اصل موضوع سے بالکل غیر متعلق  روایت کو شراح حدیث اور حضرات فقہاء کرام ؒ کی تشریحات کو ساتھ جوڑ جوڑ کر اور ان سے سہارا لیتے ہوئے استدلال نہ کرتے یہ استدلال یقیناً صریح نہیں بلکہ خالص مغالطہ ہے ۔
و ثانیا ً اس لیے حدیث کے مفہوم اور اسکی  تفسیر میں نقل کردہ الفاظ و عبارات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شرعی اور فقہی طور پر جو چیز مباح یا مستحب ہے تو اس کے التزام سے وہ چیز واجب متصور ہوگی اور غیرواجب کو واجب اور غیر سنت کو سنت سمجھنا بدعت و مکروہ ہے لیکن لا علمی کے وقت عالم سے سوال کرنا تو قران وحدیث سے اور باقرار شیخ الکل ؒ واجب ہے اور مکلف عہدہ تکلیف سے صرف صرف ایک ہی مجتہد کی بات کو تسلیم کرکے فارغ الذذمہ ہوسکتا ہے اور اس بیچارے نے تو واجب پر اصرار کیا ہے ب۔نہ کہ مباح و مستحب پر اور واجب پر التزام شرعاً مطلوب ہے تو وہ مکروہ اور بدعت کیسے ہوگیا ؟ ہاں اگر جاہل کے لیے  لا علمی کے وقت اہل الذکر  سے سوال  کرنا صرف مباح یا مستحب ہوتا اور پھر وہ تمام مجتہدین سے دریافت کرنے کا بھی  مکلف ہوتا ۔ تو پھر وہ ایک ہی مجتہد کی تقلید پر اصرار و التزام کرکے بدعت و کراہت کا مرتکب ہوتا مگر معاملہ یوں نہیں ہے غور فرمائیں ۔
شیخ الکل ؒ کے الفاظ یہ ہیں کہ جس آیت کے حکم سے تقلید ثابت ہوتا ہے وہ اسی صورت میں ہے جب کہ لا علمی ہو ۔ قال اللہ تعالی فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ  یعنی پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر نہ جانتے ہو تم اور یہی آیت دلیل ہے وجوب تقلید پر کما اشار الیہ المحقق ابن الھمام فی التحریر وغیرہ الخ [ معیار الحق ص ۶۷]
اور خود تصریح کرتے ہیں کہ جب کہ امر اللہ تعالی کا واسطے اتباع اہل کے عموماً صادر ہوا ہے تو جس ایک مجتہد ک ااتباع کرینگے اسی کی اتباع سے عہدہ تکلیف سے فارغ ہوجائینگے اور اس میں سہولت بھی پائی جاتی ہے الخ [ معیار الحق ص ۷۸]
اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ لاعلم کے لیے مجتہد کی اتباع  اور تقلید واجب ہے  اور صرف ایک ہی مجتہد کی اتباع سے مکلف عہدہ برا ہوسکتا ہے تو پھر اس تقلید کو قران اور قرون ثلاثہ کے مخالف کہنا اور بدعت قرار دینا قطعاً غلط ہے ۔ الحاصل بالکل غیر متعلق حدیث اور غیرمتعلق عبارات سے قران وحدیث اور خود اپنے اقرار سے ثابت شدہ تقلید کی تردید کرنا خالص تعصب تر  ہے مگر علمی خدمت نہیں ہے ۔
صفحہ ۳۱۹: وثالثاً اس لیے کہ  ترک ِ تقلید کے قدرے مفصل مفاسد آپ باقرار فریق ثانی پڑھ چکے ہیں کہ ترک تقلید سے کفر ۔ الحاد اور زندقہ لازم آیا اور آتا ہے اگر کسی کے ایمان اور اسلام کو محفوظ رکھنے کے لیے امر مباح اور مستحب پر اصرار کیا جائے تواس میں شرعاً کیا قباحت ہے جب کہ اس کا ایمان اور اسلام اسی صورت ہی بچ سکتا ہو ؟  کون مسلمان نہیں جانتا کہ اسلام میں جھوٹ ایک بڑا گناہ ہے  لعنۃ اللہ علی الکاذبین قران کریم میں وارد ہے اور قران و ھدیث کی تصریحات سے جھوٹ کی بُرائی عیاں اور ظاہر ہے  مگر بعض اوقات جھوٹ بولنا بھی صرف جائز نہیں بلکہ واجب ہوجاتا ہے
چنانچہ حضرت امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ
فلا خلاف انہ لو قصد ظالم قتل رجل ھو عند ہ مختف وجب علیہ الکذب فی انہ لا یعلم این ہو [شرح مسلم  ص ۳۲۵ ج  ۲]
اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کوئی ظالم کسی شخص کو جو کسی کے پاس چھپا ہوا ہے [ناحق] قتل کرنا چاہتا ہے تو جس کے پاس وہ چھپا ہے اُس پر جھوٹ بولنا واجب ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے ؟ 
مشہور اصولی ملا محب اللہ بہاری ؒ [ المتوفی  ۱۱۰۹ھ] جن کی اصول فقہ کی کتاب مسلم الثبوت سے فریق ثانی تقلید کی تعریف نقل کرکے استدلال کیا کرتا ہے اور معیار الحق میں ان کی عبارات سے باقاعدہ استدلال کیا گیا ہے لکھتے ہیں کہ
فان الکذب مثلاً یجب لعصمۃ نبی و انقاذ بریئ من سفاک [ مسلم الثبوت ص ۱۵]
بلاشبہ مثلاً نبی کے بچاو اور بری الذمہ آدمی کے ظلم اور سفاک سے چھڑانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ۔ 
یعنی  اگر کوئی ظالم معصوم نبی کی جان کے درپے ہے اور جھوٹ بولنے  سے نبی کی جان بچ سکتی ہے تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا واجب ہے تاکہ معصوم  کی جان بچ جائے اسی طرح اگر کوئی ظالم اور سفاک کسی مظلوم مسلمان کو قتل کرنا چاہتا ہے اور اُس بے گناہ کی جان جھوٹ بولنے کے بغیر بچ نہیں سکتی تو جھوٹ بولنا واجب ہے ۔ قارئین کرام اگر جھوٹ جیسی قطعی حرام چیز معصوم کی جان بچانے کے لیے واجب ہے تو مومن ایمان بچانے کے لیے مباح اور مستحب کیوں واجب
صفحہ ۳۲۰: نہیں ہوسکتا ؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟
؎وہ مجھے مشورہ ِترک ِ وفا دیتے ہیں                          :::   یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا
دوسری حدیث:
غیرمقلد عالم مولانا محمد جوناگڑھی صاحب اور مولانا صادق صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں ۔کہ ابن ماجہ جلد اول مصری ص ۵ میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم آنحضرت ﷺ  کی مجلس میں تھے کہ آپ ﷺ نے ایک [لمبا] خط کھینچا اور پھر اس کے دائیں طرف دو خط کھینچے اور دو خط بائیں طرف کھینچے ۔ اس طرح پھر اپنا دایاں ہاتھ درمیانے خط پر [جو لمبا تھا اور جس کو پہلے کھینچا تھا] رکھ کر ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کا راستہ ہے پھر یہ آیت پڑھی
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ الآیۃ[پ ۸ ۔الانعام]
یعنی یہ سیدھا راستہ ہے ۔ اس پر چلو اور دوسرے راستے جو تمہیں اس ہٹادیں گے ان کی اتباع نہ کرو 
کہتے ہیں کہ خطوط اربعہ مذاہب اربعہ ہیں اور میانہ خط اہل حدیث کا مذہبب ہے اگر خط متوسط پر چلوگے تو کامیاب ہوگے ورنہ گمراہ  اور تباہ ہوجاو گے [محصلہ]
اور آخر میں لکھتے ہیں کہ وان ھذا   یعنی خدا  کی سیدھی راہ یہی ایک ہے اسی پرچلو ۔ اور اِدھر اُدھر کی چاروں راہوں میں کسی راہ پر نہ چلو ورنہ راہ راست سے بھٹک جاوگے بلفظہ[طریق محمدی ص ۹ طبع کراچی وسبیل رسول ص ۳۱]
الجواب:۔اس حدیث سے استدلال   نہ تو روایۃً درست ہے نہ درایۃً ۔ روایۃً تو اس لیے کہ اس کی سند میں مجالد بن سعید ؒ راوی ہے جمہور محدثین اس کی تضعیف کرتے ہیں ۔ چنانچہ امام نسائی ؒ اور امام دارقطنی ؒ کہتے ہیں کہ وہ ضعیف اور کمزور تھا ۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ امام یحیی ٰ بن سعید ؒ  اس کی تضعیف کرتے تھے اور امام عبد الرحمن بن مہدی ؒ اس کی روایت نہیں کرلیا کرتے تھے ۔[میزان الاعتدال ص ۸ ج ۳]
ان حضرات کے یہ جرحی کلمات حافظ ابن حجر ؒ نے[ تہذیب التہذیب ص ۴۰، و ص ۴۱ ج ۱ میں]
صفحہ ۳۲۱: بھی نقل  کیے ہیں اور اس میں یہ بھی ہے کہ امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ قابل احتجاج نہیں ۔اور حدیث میں قوی  نہیں ۔اور امام ابن حبان ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے اور امام ابن سعد ؒ فرماتے ہیں کہ وہ حدیث میں ضعیف تھا [ ایضاً] اور حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ وہ کمزور اور ضعیف تھا ۔ آخر عمر میں اس کے حافظہ میں نمایاں خرابی پیدا ہوچکی تھی [ تقریب ص ۳۲۶] تو ایسی ضعیف روایت سے استدلال اور احتجاج کا کیا معنی ہے ؟
اور درایۃً  اس لیے کہ نہ تو حضرات ائمہ اربعہ ؒ نے صراط مستقیم کو چھوڑ کر اس کے مقابل کوئی  اور راستہ اختیار کیا ہے اور نہ ان کے مقلدین نے ۔ یہ سب کے سب حضرات صراط مستقیم پر ہی گامزن تھے اور ہیں ۔ اور خود اس حدیث کے آخر میں قران کریم کے جس مضمون سے آنحضرت ﷺ نے استدلال فرمایا ہے ۔ اس میں تصریح موجود ہے کہ صراط مستقیم اور اللہ تعالی کے راستے کے مد مقابل دیگر راستوں کی پیروی نہ کرو ۔ جو تمہیں اللہ تعالی کے راستے سے دور کردیں اور خود دوسری حدیث  اس کی تفسیر کرتی ہے  کہ دوسرے راستے وہ ہیں جن میں سے ہر راستہ پر شیطان ہے اور وہ اپنی طرف دعوت دیتا ہے
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے دائیں اور بائیں کے خطوط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
علی کل سبیل منھا شیطان یدعوہ الیہ [ مسند دارمی ص ۶۸ طبع ہند و مشکوۃ ص ۳۰ج۱ مسند احمد ۴۳۵ ج۱ و نسائی ص،ج]
ان راستوں میں سے ہر ایک پر شیطان ہے جو اپنی طرف دعوت دیتا ہے
ظاہر امر ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ ؒ نے خدا تعالی اور رسول برحق ﷺ اور قران وحدیث ہی کی طرف دعوت دی ہے۔ اور اسی کے  لیے اپنی تمام زندگی صرف اور وقف کی ہے انہوں نے شیطانی راستوں کی طرف لوگوں کو دعوت نہیں دی ۔اور نہ ان کے مقلدین نے ایسا کیا ہے
یہ غیر مقلدین کی اخلاقی پستی کوتاہ فہمی اور نرا تعصب ہے کہ انہیں حضرا ائمہ اربعہ ؒ کے فقہی مسالک اور راستے گمراہی اور تباہی کے سُبل نظر آرہے ہیں ۔ حالانکہ حضرات ائمہ اربعہ ؒ وغیرہم فقہاءکرام  ؒ اور صوفیاء عظام ؒ کے [نقشبندی ، قادری چشتی سہروردی وغیرہ ] راستے یقیناً ان سُبل اور راستوں میں
صفحہ ۳۲۲: شامل اور داخل ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے ۔
یھدی بہ من اتبع رضوانہ سبل السلام [ پ  ۶۔المائدہ ۔۳]
ہدایت دیتا ہے اللہ کتاب کے ذریعے ان کو جو اس کی رضا کی پیروی کرتے ہیں سلامتی کے راستوں کی ۔
اور
والذین  جاھدوا فینا  لنھدینھم سبلنا [پ ۲۱ عنکبوت: ۷]
اور وہ لوگ جنہوں نے کوشش کی ہمارے واسطے ہم ضرور ان کو ااپنے راستوں کی ہدایت کریں گے ۔
میں کیا ہے یہ سب اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے راستے ہیں جس میں رتی بھر شک نہیں البتہ تعصب و عناد لا علاج بیماری ہے
تیسری حدیث :    مولانا ثنا ء اللہ صاحب لکھتے ہیں ایک حدیث بخاری میں ارشاد ہےلو کان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی یعنی آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری ہی تابعداری کرتے ایک حدیث میں ارشاد ہے اگر حضرت موسی علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر اُن کی تابعداری کرنے لگ جاو تو گمراہ ہوجاو ۔چونکہ اصل اطاعت اور تابعداری خدا نے اپنے رسول ﷺ کی فرض کی ہے اس لیے علماء کو اجماع اور قیاس کو حجت ماننے میں شبہات پیدا ہوتے ہیں یہاں  تک کہ بعض تو ان دونوں کی حجیت سے انکاری ہی ہوگئے [ وہ اہلحدیث نہیں ہونگے بلکہ منکرین حدیث ہونگے کیونکہ مولانا موصوف اہلحدیث کا مذہب یہ بیان کرچکے  ہیں کمامر کہ اجماع امت اور قیاس مجتہد اصول دین میں سے ہیں ۔ صفدر]اور بعض جو قائل ہیں انہوں نے اس کی وجہ بتلائی کہ اجماع بھی صحیح ہوگا جس جس کی بنا اور مدار کسی حدیث پر ہو [جب حدیث موجود ہو تو پھر اجماع کی ضرورت ہی کیا ہے؟ صفدر] اور قیاس مجتہد بھی وہی صحیح ہوگا جو کسی آیت یا حدیث کے مخالف نہ ہو [اس میں اہل حق میں سے کس نے اختلاف کیا ہے ؟ صفدر]بلکہ اسی سے مستنبط ہو اس  لیے کہ کُل اصول قاطبۃًً شرائط قیاس میں یہ بھی لکھا کرتے ہیں کہ ان یتعدی الحکم الشرعی الثابت بالنص بعینہ الی فرع ہو نظیرہ و لا نص فیہ اھ بلفظہ [ اہلحدیث کا مذہب  ص ۵۹ و ص ۱۶۰]
الجواب :۔تقلید اہل اسلام کی تردید میں موصوف کا یہ استدلال بھی قطعاً مردود ہے اولا ً اس لیے          
صفحہ ۳۲۳: کہ حدیث لو کان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی بخاری میں نہیں ہے تقلید موعود کی تردید کے شوق میں بخاری شریف پر نرا افتراءاور کم از کم خالص وہم ہے ۔اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ  ایک مرتبہ تورات کا ایک نسخہ کہیں سے لے آئے اور آنحضرت ﷺ کے سامنے پڑھنا شروع کردیا آپ کا چہرہ اقدس ناراضگی کی وجہ سے سُرخ ہوگیا حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر ؓ کو توجہ دلائی کہ آپ کے چہرہ مبارک کو نہیں دیکھتا؟ حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو واقعی انتہائی ناراضگی کے آثار نمایاں تھے حضرت عمر ؓ نے اعوذ باللہ و غضب رسولہ رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا وبمحمد ﷺ نبیا پڑھا آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ خدا تعالی کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تمہارے سامنے موسی علیہ السلام آجائیں ،
فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواءالسبیل  ولو کان موسی حیا وادرک نبوتی لا اتبعنی [مشکوۃ ص ۳۲ ج۱ و اللفظ لہ  و مسند احمد ص ۳۸۷ ج ۲ و ص ۳۳۸ ج ۳ و دارمی ص ۶۶ طبع ہند ]
پس تم ان کی پیروی کرنے لگو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے گمراہ ہوجاوگے اگر موسی علیہ الصلوۃ والسلام زندہ ہوتے اور میری نبوت [ کا دور ] پالیتے تو وہ بھی میری اطاعت کرتے
اور  ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
لقد جئتکم بھا بیضا ء نقیۃ ً ولو کان موسی حیا ً لما وسعہ الا اتباعی [ مسند احمد  ص ۳۸۷ ج ۲و ص ۳۳۸ ج ۳ و مشکوۃ ص ۳۰ ج۱]
بلا شبہ میں تمہارے پاس روشن اور صاف ستھری شریعت لایا ہوں اگر موسی علیہ الصلوۃ والسلام زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا
 الحاصل یہ روایت بخاری شریف میں نہیں ہے جیسا کہ موصوف نے بے بنیاد دعوی کیا ہے  وثانیا ً اس لیے کہ ان دونوں روایتوں  کی سند میں مجالد بن سعید ہے جس کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے اور علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں اسنادہ لین [ میزان الاعتدال ص۳۱۳ ج ۱] تو ایسی ضعیف اور کمزور روایتوں سے اہل اسلام کی اُس تقلید کا رد جس کا ثبوت قران کریم ۔حدیث شریف اور جمہور امت کے تعامل سے ہے
ص ۳۲۴: کیسے درست ہوسکتا ہے ۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہا گیا ہے
؎         نازک خیالیاں میری توڑیں عدوّ کا دل       :::     میں وہ جواں ہوں شیشے سے پتھر کا دل توڑدوں
و ثالثا  ً : اس لیے کہ اس حدیث کے معنی پر بھی غور نہیں کیا گیا ۔ اور غیر مقلدین کو ردّ تقلید کے نشہ میں آکر غور کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھے ترک کردو اور حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع کرلو تو تم گمراہ ہوجاوگے ۔ اس میں کس کو اختلاف ہے ؟ یا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کرحضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام یا کسی اور نبی اور رسول کی پیروی گمراہی ہے کیونکہ آپ ص کی بعثت کے بعد نجات صرف آپ کے دین میں بند ہے مگر یقین جانئیے کہ مقلدین میں سے کسی کے تصور میں بھی آنحضرت ﷺ کو ترک کرکے کسی اور کی پیروی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ تو حضرات ائمہ کرام ؒ کی غیرمنصوص مسائل میں اس لیے اتباع کرتے ہیں کہ وہ اُ ن کو آنحضرت ﷺ کی سنت کا شیدائی ،متبع اور رازدان سمجھتے ہیں ۔اور  قران و حدیث کی رو سے لاعلمی کی طرف علماء کی طرف رجوع کرنے کے مکلف اور پابند ہیں ۔کما مر الغرض موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت منسوخ اور آنحضرت ﷺ کی شریعت ناسخ ہے ۔ اور حضرات فقہاء کرام ؒ کے مستنبط مسائل جو قران و حدیث سے ماخوذ ہیں وہ شرعا ً معمول بہا ہیں ، منسوخ نہیں۔ ان کو منسوخ شریعت قرار دینا یا  اس سے تشبیہ دینا جہل مرکب کا پلند ہے جو علمی دنیا میں مسموع نہیں ہے اور جس انداز سے فریق ثانی مقلدین کی دل آزاری کے درپے ہیں ہم اس پر بھی دعا گو ہیں  کہ اس سے بھی بے شمار مسائل کی حقیقت نمایاں ہوگئی ہے۔                                       ؎
خدا آباد رکھے ان کو اور ان کی جفاوں کو    ::::رہیں وہ شاد یارب ہمیں ناشاد رکھتے ہیں
چوتھی حدیث : حضرت عوف ؓ بن مالک [ المتوفی ۷۳ ھ] سے رتوایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت ستر سے کچھ زائد فرقوں میں بٹ جائیگی
اعظھم فرقۃ قوم یقیسون الامور برایھم  فیحرمون الحلال و یحللون الحرام [مستدرک    ۴۳۰ ج۴ وقال خ م  و مجمع الزوائد ص ۱۷۹ ج ۱ و قال رواہ الطبرانی فی الکبیر والبزاز و رجالہ  رجال الصحیح
صفحہ ۳۲۵: فریق  ثانی کہتا ہے کہ اس فرقہ سے مقلدین ہی مراد ہیںجو رائے اور قیاس کے قائل ہیں جس سے امت میں افتراق پیدا ہوگیا ہے [ملاحظہ ہو طریق محمدی ص ۷۴اور ص ۱۵۸]
الجواب : اس سے بھی احتجاج درست نہیں اوّلاً اس  لیے کہ اس کی سند میں نعیم بن حماد ؒ راوی واقع ہے اگر چہ محدثین کرام ؒ کی ایک جماعت نے اس کی توثیق کی ہے لیکن امام نسائی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے مسلمہ بن قاسم ؒ فرماتے ہیں اگرچہ وہ سچے ہیں لیکن کثیرالخطاء ہیں اور مُنکر روایات کے بیان کرنے میں متفرد ہیں امام ابن حبان ؒ  ثقات  میں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں ربما اخطاء ووھم  اور امام یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں  کہ حدیث میں محض ہیچ ہے اور امام ابوالفتح ؒ فرماتے ہیں کہ حضرات محدثین ؒ کا بیان ہے کہ وہ سنت کی تقویت میں جعلی حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور وہ امام ابوحنیفہ ؒ کی تنقیص میں جھوٹی حکایتیں تراشا کرتے تھے جو سب جھوٹ کا پلندہ ہے اور امام ابن عدی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ اہل الرای کے بارے میں بڑے سخت تھے اور پھر اُن کی بعض  مُنکر روایات کی نشاندہی بھی انہوں نے کی ہے ۔حافظ ابن حجر ؒ نقل کرتے ہیں کہ اگر چہ ان کی عدالت اور صداقت ثابت ہے لیکن ان کی روایات میں اوھام معروفۃ   اور امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ امام فی السنۃ کثیرالوھم [محصلہ تھذیب ص  461 تا 463]
تو ایسے راوی کی روایت سے ایسا اہم مسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے ؟ و ثانیاً خود اسی روایت میں تصریح موجود ہے کہ جس رائے کی مذمت بیان کی گئی ہے وہ ایسی رائے ہے جس میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا گیا ہو اور اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ۔
یحرمون بہ ما احل اللہ و یحلون بہ ما حرم اللہ [ مجمع الزوائد ص ۱۷۹ ج ۱]
کہ جس چیز کو اللہ تعالی نے حلال کیا ہے وہ اپنی رائے سے حرام کریں گے اور جس چیز کو اللہ تعالے نے حرام کیا ہے اس کو حلال کریں گے
تو ایسی رائے کے مذموم و قبیح ومردود ہونے میں کیا کلام ہے ؟ یا ہوسکتا ہے مگر مقلدین میں کوئی  بھی عمداً ایسی رائے کا کبھی مرتکب نہیں ہوا کہ اپنی رائے سے اللہ تعالی کی حلال  کی ہوئی چیزوں کو حرام کرتا ہو ؟حاشا و کلا کوئی مقلد نہ تو اس کا قائل ہے اور نہ ایسی رائے پر عامل ہے  تو اس سے اُس رائے کی جس کا ثبوت شریعت سے ہے کیسے تردید ہوگی ؟ و ثالثا ً امام ابن عبدالبر ؒ نے یہ اور اس قسم کی متعدد روایات و آثار آنحضرت ﷺ
 صفحہ   ۳۲۶:  اور حضرات صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ سے رائے کی مذمت کے کئی صفحات میں باسند نقل کیے ہیں آخر  میں فرماتے ہیں  کہ
اختلف العلماء  بالرائ المقصود الیہ بالذم والعیب فی ھذہ الآثار المذکورۃ فی ھذاالباب عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  وعن اصحابہ  رضی اللہ عنھم وعن التابعین لھم باحسان فقالت طائفۃ الرائ المذموم ھو البدع المخالفۃ للسنن فی الاعتقاد کرأي جھم وسائر مذاھب اھل الکلام لانھم قوم قیاسھم و آرئھم فی رد الاحادیث الخ [جامع بیان العلم ص  ۱۳۸ ج۲]
آنحضرت ﷺ اور حضرات صحابہ کرام ؓ اور اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے تابعین ؒ کے آثار میں جس رائے کو مذموم ومعیوب قرار دیا گیا ہے اُس کے بارے میں حضرات علماء کرام ؒ کا اختلاف ہے ۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ مذموم رائے سے مُراد وہ اعتقادی بدعات ہیں جو سُنن کے مخالف ہیں جیسے جہم [بن صفوان] اور دیگر [خود رائے ] متکلمین کے مذاہب کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کا قیاس و آراء احادیث کے رد ہی کے لیے ہیں ۔
پھر آگے ان باطل فرقوں کے چند اختراعی عقائد کی نشاندہی بھی کی ہے جو انہوں نے اپنی رائے سے اختیار کر رکھے ہیں اور احادیث متواترہ کو بھی رد کردیا ہے چنانچہ ایک جملہ یہ  بھی ہے
فردوا الاحادیث المتواترۃ فی عذاب القبر وفتنتہ الخ [ص  ۱۳۸ ج۲]
ان لوگوں نے عذاب ِقبر اور فتنہِ قبر کے بارے میں متواتر احادیث کو رد کردیا ہے
اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ اس قسم کی حدیثوں میں جس باطل رائے کی تردید ہے وہ  ایسی رائے ہے جس سے احادیث صحیحہ و متواترہ تک کو رد کرنے کی جسارت کی جائے اور مقلدین کا دامن اس سے پاک ہے
اور پھر آگے تحریر فرماتے ہیں کہ
وقال جماعۃ من اھل العلم
صفحہ ۳۲۷: انما الرای المذموم المعیوب المہجور  الذی لایحل النظر فیہ ولاالاشتغال بہ الرای المبتدع  وشبھہ من ضروب البد ع[ ص ص  ۱۳۸ ]
 اہل علم کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ مذموم و معیوب و متروک رائے جس کی طرف توجہ کرنا اور مشغول ہونا ہی حلال نہیں و تراشیدہ رائے اور اس کی مانند بدعات کی اقسام و انواع ہیں ۔
اور پھر آگے رقمطراز ہیں کہ
وقال آخرون  وھم جمھور  اھل العلم الرای المذموم  المذکور فی ھذہ الآثار عن النبی ﷺ  وعن اصحابہ والتابعین ھو القول فی احکام شرائع الدین ولظنون والاشتغال بحفظ المعضلات والاغلوطات ورد الفروع والنوازل بعضھا علی بعض قیاساً دون ردھا علی اصولھا والنظر فی عللھا واعتبارھا فاستعمل فیھا الرای قبل ان  تنزل وفرعت وشققت قبل ان  تقع وتکلم فیھا قبل ان تکون بالرای المضارع للظن قالوا فی الاشتغال بھذا و الاستغراق فیہ تعطیل للسنن والبعث علی جھلھا وترک الوقوف علی ما یلزم الوقوف علیھا منھا ومن کتاب اللہ عزوجل ومعانیہ [ ص ۱۳۹]
دوسرے حضرات جو جمہور اہل علم ہیں یہ فرماتے ہیں کہ ان احادیث  میں آنحضرت  ﷺ  اور حضرات صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ سے جس مذموم رائے کا ذکر ہوا وہ یہ ہے کہ دین کے بنیادی احکام میں  استحسان  اور ظنون سے  بات کی جائے اور پیچیدہ مسائل اور چیتانوں کی حفاظت کی جائے اور فروع اور پیش آمدہ مسائل  میں بعض کو بعض پر قیاس کیا جائے اور ان اصول [کتاب  وسنت و اجماع ] کی طرف نہ لوٹایا جائے اور نہ ان کی عِلل میں نظر و اعتبار کیا جائے اور ان کی تفریعات اور شقیں قائم کی جائیں اور ایسے حوادث کے پیش آنے سے پہلے ہی ظن کے مشابہ رائے سے ان میں کلام کیا جائے جمہور علماء اسلام  فرماتے ہیں کہ     ایسی رائے میں مشغول و مستغرق ہونے سے احادیث معطل ہوکر رہ جائیں گی اور ایسی رائے ان سے جہالت کا باعث ہوگی اور جن  احادیث پر اطلاع پانا لازم اور کتاب اللہ اور اس کے معانی پر آگاہ ہونا ضروری ہے تو ایسی رائے سے اُن  سے آگاہی اور اطلاع بالکل ترک ہوجائے گی ۔[جو نہایت ہی مذموم ہے]
صفحہ ۳۲۸: اس سے بالکل عیاں ہوگیا کہ مذموم اور معیوب وہ رائے ہے جن میں کتاب و سنت کو نظر انداز کرکے نرے ظن اور گمان پر اس رائے کی بنیاد قائم کی جائے اور ایسی رائے کی جتنی بھی تردید کی جائے کم ہے لیکن مقلدین ایسی رائے کے ہرگز قائل نہیں ہیں ،
پانچویں حدیث
تقلید کے مذموم ہونے پر غیر مقلدین حضرات نے حضرت عدی ؓبن حاتم [المتوفی سنہ ۶۸ھ] کی حدیث بھی پیش کی ہے جو یوں مروی ہے
عن عدی بن حاتم ؓ قال اتیت النبی ﷺ وفی عنقی صلیب من ذھب فقال یا عدی ؓ اطرح عنک ھذا الوثن وسمعتہ یقرا فی سورۃ براۃ اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ قال اما انھم لم یکونوا یعبدونھم ولکنھم کانوا اذا احلوا شیئا استحلوہ واذا حرموا شیئا حرموہ ۔ھذا حسن غریب لانعرفہ الا من حدیث عبدالسلام  بن حرب وغُطیف بن اعین لیس بمعروف فی الحدیث [ترمذی ص ۱۳۶ ج ۲ مجتبائی دہلی]
حضرت عدی ؓ بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور میری گردن میں سونے کا صلیب تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ اے عدی ؓ اس بُت کو پھینک دے اور میں نے آپ نے سنا کہ سورہ براۃ میں یہ پڑھ رہے ہیں کہ [ اہل کتاب نے] اپنے مولویوں اور پیروں کو اللہ تعالی کے نیچے رب بنا رکھا ہے آپ نے فرمایا کہ بہر حال وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن ان کے مولوی اور پیر جو چیز ان کے لیے حلال کرتے وہ اُسے حلال سمجھتے اور جو چیز وہ ان کے لیے حرام کرتے تو وہ اُسے حرام سمجھتے تھے ۔ یہ حدیث حسن غریب ہے اس کے راوی ہمارے علم میں صرف عبدالسلام بن حرب ہیں اور غطیف بن اعین حدیث میں مشہور نہیں ہیں ۔
غیرمقلدین حضرات کا اس سے استدلال یوں ہے کہ مقلدین کو قران وحدیث سے کوئی سروکار نہیں ان کے لیے جو کچھ ان کے ائمہ حلال یا حرام کردیں وہی ان کا دین ومذہب ہے اور اس طریقہ
صفحہ 329: انہوں نے اپنے ائمہ کرام ؒ کو اربابا من دون اللہ بنا رکھا ہے جو صریح شرک ہے اور وہ تقلید کرکے شرک کے مرکتب ہیں [محصلہ ملاحظہ ہو انکشاف جدید در تحقیق تقلید ص ۶۰ و نتائج التقلید ]
الجواب: غیر مقلدین کا دعوی بڑا سخت اور سنگین ہے کہ وہ مطلقاً تقلید کو شرک وبدعت اور گمراہی سے کم تصور نہیں کرتے اور ایسے بڑے دعوےٰ کے اثبات کے لیے جس طرح قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ دلیل درکار ہے یہ حدیث اس کا مصداق نہیں ہے خود حضرت امام ترمذیؒ غطیف بن اعینؒ پر ہلکی سی تنقید کا اشارہ فرماکر اس میں کلام کررہے ہیں اور باوجودیکہ حضرات محدثین کرام ؒ کے نزدیک امام ترمذی ؒ تصحیح و تحسین میں بڑے متساہل ہیں ۔مگر وہ بھی اس حدیث کے بارے  حسن غریب سے کچھ زیادہ نہیں کہ سکے
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ
ذکرہ ابن حبان ؒ فی الثقات روی لہ الترمذی ؒ حدیثا   واحدا ً وقال لیس بمعروف فی الحدیث قلت و ضعفہ الدارقطنی [تہذیب التہذیب ص ۲۵۱ ج ۸]
 اس کا ذکر ابن حبان ؒ نے ثقات میں کیا ہے اور امام ترمذی ؒ نے اس سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے  اور فرمایا ہے کہ وہ حدیث میں معروف نہ تھا میں کہتا ہوں کہ امام دارقطنی ؒ نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
قطع نظر اس کی روایتی اور سندی بحث سے اس سے غیرمقلدین حضرات کا اہل اسلام کی جائز اور ثابت تقلید کے بطلان پر استدلال درست نہیںاوّلاً اس لیے کہ غیر مقلدین کے شیخ الکل تفسیر نیشاپوری ، تفسیر کبیر ، تفسیر عزیزی ، تنویر العینین اور تفسیر مظہری وغیرہ کے حوالوں سے اہل کتاب کے اپنے احبار و رہبان کو اربابا من دون اللہ بنانے کی تشریح یوں نقل کرتے ہیں ۔۔[واللفظ للاول]
قال الربیع قلت لابی العالیۃ کیف کانت الرُبوبیۃ فی بنی اسرائیل ؟ فقال انھم ربما وجدوا فی کتاب اللہ تعالی ما یخالف قول الاخبار والرھبان  فکانوا یاخذون باقوالھم وماکانوا یقبلون  حکم اللہ تعالی الخ [معیار الحق ص  ۷۸ وراجع ص ۷۷ و ص ۸۳]
حضرت ربیع ؒ نے کہا کہ میں نے ابوالعالیہؒ سے پوچھا کہ بنی اسرائیل کا علماء کو رب ٹھہرانا کیونکر تھا ؟ انہوں نے کہا کہ اکثر کتاب اللہ میں وہ مسئلہ جو ان کے علماء کے مخالف ہوتا اس میں وہ اپنے علماء کے قول کو لیتے اور اللہ تعالی کے حکم کو چھوڑ دیتے تھے ۔
صفحہ ۳۳۰: اور ان کے شیخ الکل ہی اس مفہوم کو اپنے عالمانہ اور فاضلانہ الفاظ میں یوں ادا کرتے ہیں یہ مُراد نہیں کہ یہود ونصاری نے اپنے علماء اور درویشوں کو خدا ٹھہرالیا تھا بلکہ مُراد یہ ہے کہ اطاعت انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کی بر خلاف حکم خدا اور رسول کے کی تھی [بلفظہ معیارالحق ص ۷۷] اور ہم باحوالہ یہ بحث اسی پیش نظر کتاب میں درج کرچکے ہیں کہ اللہ تعالی اور اسکے رسول برحق ﷺ کے برخلاف  کسی کا حکم ماننا خالص کفر ہے ایسی تقلید کے کفر وشرک اور بدعت وضلالت ہونے سے یہ کیونکر اور کیسے لازم آیا کہ غیرمنصوص مسائل میں لاعلم آدمی کا علماء اور مجتہدین کی طرف رجوع کرنا  اُن سے مسائل دریافت کرنا اور ان کو مجتہد تصور کرتے ہوئے اُنکی تقلید کرنا بھی شرک وبدعت ہے جیسا کہ ایسے موقع پر علماء کی طرف رجوع کرنا خود قران و حدیث سے ثابت ہے کما مر
و  ثانیا اہل کتاب نے جس معنی میں اپنے علماء  اور درویشوں کو  ارباباً من دون اللہ بنا رکھا ہے وہ اس طرح ہے کہ وہ ان کو شارع ، مقنن اور معصوم عن الخطا  سمجھتے ہیں جب کہ مقلدین حضرات کا کوئی بھی طبقہ اور فرقہ اس باطل نظریہ کا قائل نہیں ہے کہ حضرات ائمہ مجتہدین معصوم عن الخطا ء ہیں کُتب اصول میں وہ صراحت سے یہ قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ المجتہد ُ یخطئ و یصیب یعنی مجتہد کی رائے خطا بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی ہوسکتی ہے وہ معصوم نہیں امام ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی ؒ المتوفی ۳۷۰ھ] روافض  کے اس نظریہ کی کہ اولوا الامر سے ائمہ معصومین مراد ہیں جن کے ہم قائل ہیں تردید کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں کہ
والفقہا ء والامرا ء یجوز علیھم الخلط والسھو والتبدیل والتغییر وقد امرنا بطاعتھم وھذا یبطل اصل الامامۃ فان شرط الامامۃ عندھم ان یکون معصوما لایجوز علیہ الخلط والخطا والتبدیل والتغییر الخ [احکام القران ص  ۲۱۱ ج۲]
حضرات فقہا ء اور امرا ء کے حق میں جائز ہے کہ اُن سے سہو ،تبدیل اور تغییر واقع ہو بایں ہمہ ہم ان کی اطاعت  کے    مامور ہیں اور یہ نظریہ امامت کے قاعدے کو باطل کرتا ہےکیونکہ روافض کے نزدیک امامت کی شرط یہ ہے کہ امام معصوم ہو اس سے غلطی ،سہو اور تبدیل و تغییر کوئی چیز جائز نہیں ہے
کُتب فقہ اور شروح حدیث میں اس کی صریح مثالیں موجود ہیں کہ حضرات ائمہ دین سے بعض مسائل
میں اجتہادی غلطی اور خطاء ہوئی اور انہوں نے اپنی پہلی رائے ترک کر کے اس سے تبدل اور تغیر کر کے اس کے خلاف قول اور رائے اختیار کی اور قول قدیم سے قول جدید کی طرف رجوع کیا لیکن روافض کے نزدیک ائمہ کرام غلطی اور خطاء اور تبدیل و تغیر سے بلکل معصوم اور منزہ ہیں ان کی رائے وحی کی طرح حرف آخر اور اٹل ہوتی ہے اور اسی لئے اہل حق کے تمام طبقے شیعہ اور روافض کے اس باطل نظریہ کی پرزور تردید کرتے ہیں کہ حضرات ائمہ کرام معصوم میں کیوں کے اگر وہ معصوم ہوں تو پھر نبی اور امام کا کیا فرق رہا ؟ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں احبار و رہبان کے متعلق جن کو اہل کتاب اپنی اصطلاح میں پوپ کہتے ہیں- یہ لکھا ہے
"لہذا پوپ عقائد کے معاملہ میں مقتدر اعلیٰ ہونے کی حثیت سے اسی حجیت اور اسی معصومیت کا حامل ہے جو پورے کلیسا کو مجموعی طور سے حاصل ہے (جیسا کہ جمہور اہل اسلام اجماع کی حجیت کے قائل ہیں- صفدر ) چناچہ پوپ واضع قانون اور قاضی کی حثیت ا=میں وہ تمام اختیارات رکھتا ہے جو کلیساؤں کی اجماعی کونسل کو حاصل ہیں چنانچہ پوپ کے اقتدار اعلیٰ کے دو لازمی حقوق ہیں ایک عقائد وغیرہ کے معاملے میں معصوم عن الخطاءہونا اور دوسرے تمام عقیدہ پر ہر پہلو سے مکمل قانونی اختیار-" (ص ٢٢٢، ٢٢٣ مطبوعہ ١٩٥٠ مقالہ پوپ ماخوذ از تقلید کی شرعی حثیت ص ١٢٤ از مولانا تقی عثمانی)
اور اسی کتاب میں دوسری جگہ لفظ پوپ کی معصومیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رومن کیتھولک چرچ پوپ کی جس معصومیت کا قائل ہے اس کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ جب پوپ تمام اہل عقیدہ پر نافذ ہونے والا کوئی فرمان جاری کرے جو عقائد یا اخلاقیات سے متعلق ہو تو وہ غلطی نہیں کر سکتا . (ج 12 ص ٣١٨ مقالہ معصومیت ماخوذ از تقلید کی شرعی حثیت ص ١٢٥)
ان حوالوں سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ اختصاراً بقول مولانا تقی عثمانی یہ ہیں جو بلکل بجا ہیں .
پوپ ایک مستقل حجت ہے جب کہ مجہتد کے قول کے حجت شرعیہ نہ ہونا خود تقلید کی تعریف میں داخل ہے (یعنی حجت اربعہ شرعیہ میں سے نہ ہونا کما مر بفضلہ تعالی نہ یہ کہ عامی کے لئے اس کا قول حجت ہی نہیں . صفدر
پوپ عقائد کے معاملہ میں بھی با اختیار ہے اور مقلدین عقائد میں تقلید کے قائل نہیں.
پوپ عقائد کے معامله میں بھی با اختیار ہے اور مقلدین میں سے بھی کوئی بھی مجتہد کو شارع یا واضع قانون نہیں مانتا بلکہ ان کو قانون کے شارح اور مفسر جانتا اور مانتا ہے .
پوپ معصوم عن الخطاء ہے اور مقلدین اپنے ائمہ مجتہدین کو معصوم عن الخطاء تسلیم نہیں کرتے .
پوپ کو اپنے اہل عقیدہ پر مکمل طور سے قانونی اختیار حاصل ہوتا ہے اور کوئی بھی اہل عقیدہ اس کے ہم سے منحرف ہونے کا مجاز نہیں اس کے برعکس مقلدین حضرات ضرورت وقت اور ماحول کی مجبوریوں کی وجہ اپنے امام کا قول چھوڑ کر دوسرے ائمہ کرام رحمہ الله کے قول کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں. جیسا کہ متاخرین علماء احناف رحمہ الله نے مفقود الخبر، نامرد اور متعنت وغیرہ کی بیوی کے بارے میں مالکی مذھب کو اختیار کر کے اس پر فتویٰ دیا ہے. جس کی باحوالہ بحث حضرت تھانوی رحمہ الله کی علمی کتاب الحلیه الناجزہ للحلیلہ العاجزہ میں مجود ہے . اندریں حالات حضرت عادی بن حاتم رضی الله عنہ کی اس حدیث کو مقلدین کی جائز اور ثابت تقلید پر چسپاں کرنا نری جہالت اور خالص تعصب ہے . حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے
اتخذوا احبارھم (الآیه) اور حضرت عدی رضی الله عنہ کی حدیث سے بلاتفصیل تقلید کی تردید کی اور اسے شرک ضلالت اور بدعت کہا اور انہوں نے تقلید جامد کا سد اور تقلید مرغوب و مندوب کا فرق نہیں کیا وہ خود گمراہی کا شکار ہیں(غیث الغمام ص 9)
                        ہم فریق ثانی کے اس نظریہ کے سمجھنے سے تاہنوز قاصر ہیں کہ ایک طرف تو وہ اجماع و قیاس کے متعلق متضاد نظریات رکھتا ہے. ایک طبقہ اہلحدیث کا مذہب بتلاتا ہے کہ اجماع و قیاس اصول دین میں سے ہیں اور دوسرا طبقہ حجت نہیں سجھتا کمامرّہ اور ساتھ ہی وہ ہے بھی کہتا ہے کہ- درموقوفات صحابہ رضی الله عنہم اجمعین حجت نیست اگرچہ بصحت رسد- اور دوسرے طرف اقوال صحابہ رضی الله عنہم اور اجماع و قیاس سے استدلال بھی کرتا ہے ایک طرف تو تو وہ غیر نبی کی بات اور قول کو ماننے کی وجہ سے شرک و بدعت کی فتویٰ صادر کرتا ہے اور دوسری طرف آڑے وقت ان کے اقوال سے آسرا بھی پکڑتا ہے مگر تکمیل بحث کے لئے ہم اس باب میں اس کے وہ استدلالات بھی عرض کرتے ہیں جو اجماع اور حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اقوال سے وہ کرتا ہے چنانچہ غیرمقلدین حضرات کے شیخ الکل کی تردید میں چاروں دلیلوں میں سے تیسری دلیل یہ بیان کرتے ہیں-
(تیسری دلیل اجماع صحابہ رضی الله عنہم کا جو قرافی رحمہ الله نے نقل کیا ہے ہم ان کے ترجمہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں. صفدر)
اور جمع ہو گے ہیں صحابہ رضی الله عنہم اس پر کہ جو شخص ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اور عمر فاروق رضی الله عنہم سے فتویٰ پوچھ کر ان کے قول پر عمل کرے اسے روا ہے کہ فتویٰ پوچھ لے ابوہریرہ رضی الله عنہ اور معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے. آگے جن جن کتابوں میں یہ حوالہ آیا ہے ان کا نام ذکر کیا ہے اور پھر آگے کتب اصول کے حوالہ سے لکھا کے کہ قوی تر اجماع صحابہ رضی الله عنہم کا ہے خلاف اس کا مقبول نہیں بلکہ مردود ہے اور اجماع تمام مسلمین کا قرون اولی میں. چانچہ روایت (یعنی حوالہ اور دلیل نہ کہ حدیث- صفدر) ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢ سے بوجہ بسط پہلے معلوم ہوا پس جب کہ کل صحابہ رضی الله عنہم اور تمام مومنین کا قرون اولی میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی پھر اب ایک ہی مذھب کا التزام کرنا اور اس کو واجب  [] جاننا اور تارک اس التزام کو گمراہ جاننا اور لامذھب نام رکھنا اور لائق تعزیر کے جان کر تعزیر دینی اور مردود الشہادہ کہنا پھر بہ نسبت ایسے عقیدہ والے کی بدعت ضلالہ اور حرام نہیں تو کیا ہے؟ اور معتقد ایسے عقیدہ اور عمل کا مصداق اس آیت کریمہ ویتبع غیر سبیل المومنین - کا کیونکر نہ ہو گا؟ اور مصداق من شذ شذ فی النار کا اس حدیث سےاتبعوا السواد الاعظم ومن شذ شذ فی النار کس طرح نہ ہو گا؟ بلفظہ (میعار الحق ص ١٥٧ و ص ١٥٨)
الجواب:-  اس دلیل سے بھی تقلید کی تردید واضح نہیں ہے صرف دفع الوقتی ہے- اولا اس لئے کہ مؤلف مدار الحق (ص ٣١٠ سے ص ٣٣٠) تک کا مفصل جواب دیتے ہیں جس میں ایک دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ صلاح زمانہ اور فساد زمانہ کا حکم الگ ہے مثلا صلاح زمانہ کے دور میں ایک حدیث میں آتا ہے لا تمنعوانساءکم المساجد (الحدیث مسلم ص ١٨٣ ج ١) اور فساد کے دور میں دوسری حدیث میں آتا ہے لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلّم ما احدث النساء لمنعہن المسجد کا منعت نساء بنی اسرائیل (بخاری ص ١٢٠ ج ١ ومسند احمد ص ١٩٣ ج ٦  وفی روایت احمد قالت عائشہ رضی الله عنہ ولو رائی حالہن الیوم منعہن مسند احمد ص 70 ج ٦ و ص ١٩٣ ج ٦) تو حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کا زمانہ اچھا تھا اور وہ سب کے سب عدول تھے بمضمون حدیث اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم (مشکوہ ص ٥٥٤ ج ٢) وقال رواہ رزین حافظ ابن القیم رحمہ الله اعلام الموقعین (ص ٢٣٢ ج ٢) میں اس حدیث کی اسانید پر بڑی بحث کرتے ہیں اور فرماتے ہیں لا یثبت شئی منها اور اسی طرح امام ابن عبدالبر رحمہ الله نے بھی اس کی صحت میں کلام نقل کیا ہے جامع بیان العلم (ص ٩٠ ج ٢ و ص ٩١) مگر اتنی بات انہوں نے بھی تسلیم کی ہے کہ

وانما کل واحد منھم نجم جائز ان یقتدی بہ العامی الجاہل بمعنی ما یحتاج الیہ میں دینہ وکذالک سائر العلماء مع العامه (ص ٩٠ ج ٢)
 یعنی صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے ہر ایک ہدایت کا ستارہ ہے عامی جاہل کے لئے جائز ہے کہ وہ جس دینی مسئلہ میں ان کا محتاج ہو ان کی اقتداء کرے اور اسی طرح عام لوگ بھی علماء کی اقتداء کریں.
مولانا ثناءالله صاحب لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی نسبت گو علماء محدثین نے سخت ضعف کا حکم لگایا ہے ملاحظہ ہو اعلام الموقعین وغیرہ مگر خاکسار راقم کے خیال میں یہ حدیث بلحاظ معنی بہت صحیح ہے کیونکہ حکماء نے کہا ہے کہ ستاروں میں روشنی اصلی نہیں کیونکہ ان کی روشنی کا منبع سورج ہے- نور القمر مستفاد من نور الشمس الخ  (اجتہاد و تقلید ص ٩٢) پھر آگے تاویل کی ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کا علم آنحضرت صلی الله علیہ وسلّم کے علم سے مستفاد ہے- اور اس کا مصداق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی وہ روایتیں ہیں جو مرفوع ان میں انکی اقتداء ہے نہ کہ موقوفات میں محصلہ لیکن حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی اقتداء میں ان کے موقوفات بھی یقینن شامل ہیں-
 اوّلا اس لئے کہ مرفوع احادیث کی حجیت تو اپنی جگہ صریح اور قطعی دلائل سے ثابت ہے پھر ان کی حجیت کا لئے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کو نجوم قرار دینے اور ان کی اقتداء کی ترغیب دینے کا کیا مطلب ہے-
 وثانیا حضرات خلفاء راشدین رضی الله عنہم بھی تو صحابی ہیں اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلّم نے اپنی سنّت پر ان کی سنت کو عطف کر کے امّت کو اس کی پابندی کا حکم دیا ہے- علیکم بسنّتی و سنّه خلفاء الراشدین  (الحدیث) اس سے صراحتا معلوم ہوا کہ ان کے موقوفات بھی قابل اعتبار اور حجت ہیں ورنہ حروف عطف کے ساتھ ان کی نسبت کو الگ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی-
وثالثا آنحضرت صلی الله علیہ وسلّم نے ناجی فرقہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ما انا علیہ و اصحابی (یعنی میرے اور میرے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے طریقہ) پر کاربند ہو گا مرفوع احادیث کا اجمالا ذکر تو ما انا علیہ میں آ گیا- اگر صحابہ کرام رضی الله عنہم کے موقوفات اور ان کے اقوال و افعال حجت نہیں ہیں تو واصحابی کا پیوند ساتھ لگانے کی کیا ضرورت تھی جبکہ واؤ عطف مغایرت کے لئے آتا ہے؟
ورابعا   خود اسی روایت اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اھتدیتم میں بایہم میں ھم ضمیر ہے ضمیر ذات پر دلالت کرتی ہے اور حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ذوات کی اقتداء میں ان کا قول و فعل یقینن داخل ہے جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ الله کی عبارت سے عیاں ہے-
و خامسا  حکماء کے مقولہ نور القمر مستفاد من نور الشمس سے بلکل واضح ہے کہ سورج کا بعینہ نور تو قمر اور ستاروں میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا پرتو ہوتا ہے اگر بعینہ وہی نور ہوتا تو اسی طرح کی نورانیت اور حرارت اس نور مستفاد میں بھی ہوتی جس طرح کہ سورج میں ہے- حالانکہ مشاہدہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے – قمر اور ستاروں میں جتنی روشنی ہے وہ سورج ہی سے مستفاد ہے لیکن ہے قمر اور ستاروں میں اور حسب ارشاد خداوندی وبا لنّجم ھم یھتدون  لوگ ستاروں سے بھی راہنمائی حاصل کرتے ہیں نہ کہ نجوم کے ضمن میں براہ راست سورج کی روشنی سے جب سورج ظاہر ہوتا ہے تو اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے جب سورج غائب ہو جاتا ہے تو پھر قمر اور نجوم سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے   اسی طرح آفتاب نبوت سے روشنی حاصل کرنے والوں کو جب آفتاب نظر نہیں آتا یعنی مرفوع احادیث نہیں ملتیں تو وہ قمرو نجوم یعنی حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اقوال و افعال سے اکتساب فیض پر مجبور ہوتے ہیں- صفدر) اس وقت جاہل آدمی جس سے سے دریافت کرتا ٹھیک تھا مگر بعد کو شر اور فساد پیدا ہوا- تو قابل اعتماد بزرگ کی تقلید کا سوال پیدا ہوا پھر آگے لکھتے ہیں کہ کیونکہ اس زمانہ میں بغیر قید وجوب کے فساد کا دوازہ بند نہیں ہو سکتا پس ضروری ہے قید وجوب تعیین مذہب کی واسطے حفظ دین کے تا کہ فساد کا دروازہ بند ہو- (محصلہ مع تغیر یسیر مدارالحق ص ٣١٤) اور حضرت شاہ ولی الله صاحب رحمہ الله وغیرہ حضرات سے مذھب معین کی تقلید کے وجوب پر عبارات با حوالہ پہلے عرض کر دی گئی ہیں- وثانیا اس لئے کہ غیر مقلدین حضرات کے شیخ الکل حضرات فقہاء کرام رحمہ الله میں رائج تقلید شخصی کے مفہوم اور مقلدین کی تلقید سے بلکل تغافل برت رہے ہیں مثلا حضرات فقہاء احناف کثر الله تعالی جماعتہم کی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی تقلید کا یہ مطلب ہے کہ غیر منصوص مسائل میں یا ایسے مسائل میں یا ایسے مسائل میں جن کے دلائل ہوں وہ حضرت امام صاحب رحمہ الله کی تقلید کرتے ہیں اور ان کے بیان کردہ اصول اور ضوابط سے کام لیتے ہوئے پھر ان کا مشہور تلامذہ حضرت امام ابو یوسف رحمہ الله،  حضرت امام محمّد رحمہ الله بن الحسن، حضرت امام زفر رحمہ الله (علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ احناف نے سترہ مقامات میں امام صاحب رحمہ الله اور صاحبین کے اقوال چھوڑ کر امام زفر رحمہ الله کے اقوال لئے ہیں ص ٦٦) حضرت امام عافیہ رحمہ اللہ اور حضرت امام حسن بن زیاد رحمہ الله وغیرہ سے بھی مسائل اخذ کرتے ہیں اور بسا اوقات حضرات صاحبین رحمہ علیھم یا ان میں سے کسی ایک کے قول پر بھی فتویٰ دیتے ہیں اور بعض مسائل حضرت امام مالک رحمہ الله (ممتدہ الطہر کے مسئلہ میں نو ماہ کی عدت گزارنے کا فتویٰ حضرت امام مالک رحمہ الله کے مذھب کے مطابق ہے- شامی ص ٢٨٢ گ ٣ اور اسی طرح مفقودالخبر- زوجہ متعنت فی النفقہ اور حکم زوجہ مفقود کے بارے میں احناف نے حضرت امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کے مذھب پر فتویٰ دیا ہے شامی ص ٤٥٢ ج ٣) حضرت شیخ الکل رحمہ الله لکھتے ہیں کہ علماء حنفیہ عراق اور ماورانہر نے سات مسئلوں میں امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ الله کے قول پر فتویٰ دے رکھا ہے الخ (میعارالحق ص ١٣٤) اور حضرت امام شافعی وغیرہ سے بھی لیتے ہیں غرضیکہ وہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر حضرات ائمہ کرام رحمہ الله سے مسائل دریافت کرنا حرام نہیں سمججھتے بلکہ ان کا بعض مسائل پر عامل ہیں توغیر مقلدین حضرات کے شیخ الکل کے اس نقل کردہ اجماع کی مقلدین کے زد پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے؟ کیونکہ بوقت ضورت مقلدین نہیں کبھی ایک امام کا فتویٰ لیا اور کبھی دوسرے کا-
حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اجماع کی خلاف ورزی 
فریق ثانی کے شیخ الکل تو تقلید کی نفی پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کا حوالہ دیتے ہیں لیکن مشھور غیر مقلد عالم محمد بن ابراہیم الوزیر الیمانی رحمہ الله ایک معترض کے جواب میں لکھتے ہیں کہ-

وهذا کله یؤدی الی تمکن العامی من عدم وجوب الرجوع الی العلماء لکن المعلوم وجوب ذالک علی العوام من اجماع الصحابہ رضی الله عنہم فبطل ما ادی الی مخالفه اجماعہم-
"اور (تمہاری) یہ سب بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ عامی کے لئے علماء کی طرف عدم وجوب رجوع کی بھی وسعت ہے لیکن حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اجماع سے یہ معلوم ہے کہ عامی پر علماء کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور جو چیز حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اجماع کے خلاف ہو تو وہ خود باطل ہے- "
پھر آگے لکھتے ہیں.
واما اجماع الصحابه رضی الله عنہم علی تقریر العوام علی التقلید فلانه اجماع فعلی لا لفظی. الخ (الروض الباسم ص ١٠٩ ج ١)
"اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اجماع فعلی سے نہ کہ لفظی (اور نصی) سے یہ ثابت ہے کہ عوام کو تقلید پر برقرار رکھا جائے گا-"

یعنی حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کا اس امر پر فعلی اجماع ہے کہ لاعلم اور عامی کا علماء کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور عوام کے لئے تقلید کے جواز پر گو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لفظی (اور نصی) اجماع تو نہیں لیکن اجماع فعلی ضرور ہے اور فریق ثانی کے شیخ الکل کے بیان کے مطابق قوی تر اجماع حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ہے اور اس کے خلاف کرنے اور کہنے والا گمراہ لامذہب لائق تعزیر اور مردود الشہادہ اور بدعت ضلالہ اور حرام کا مرتکب ہے اور عملا مصداق اس آیت کریمہ ویتبع غیر سبیل المؤمنین اور مصداق حدیث اتبعوا السواد العظم ومن شذ شذ فی النار  کا ہے اب فیصلہ قارئین کرام خود کر لیں-
اور فریق ثانی کے حضرت شیخ الکل رحمہ الله ہی کے حوالہ سے پہلے یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ تقلید مباح ہے حالانکہ بدعت حرام اور ناجائز چیز کبھی مباح نہیں ہو سکتی اور یہ بات بھی انہی کے حوالہ سے بیان ہو چکی ہے کہ جاہل آدمی لاعلمی کے وقت صرف ایک ہی عالم سے دریافت کر لے تو عھدہ تکلیف سے فارغ ہو جاتا ہے مگر یہاں اس کاروائی کو اجماع صحابہ رضی الله عنہم کے خلاف قرار دے رہے ہیں عجیب دو رنگی ہے-
ساقی تیرے کرم پر بڑا اعتماد تھا                    ناکام جا رہے ہیں تعجب کی بات ہے
قیاسی دلیل
غیر مقلدین حضرات کے حضرت شیخ الکل رحمہ الله تقلید شخصی کی تردید میں چوتھی قیاسی دلیل بیان کرتے ہیں ہوئے لکھتے ہیں- چوتھی دلیل قیاس مجتہد معین کا ائمہ اربعہ رحمہ الله میں سے مجتہد معین پر خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم میں سے تصویر اس کی یہ ہے کہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جن کے اجتہاد سے کسی کو انکار نہیں اور فضائل ان کے اظہر من الشمس ہیں باجماع اہلسنّت کے تقلید بلتخصیص ان کی واجب نہ ہوئی اور کوئی مذھب ان کا خاص التزام نہیں کرتا تھا تو اب مثلا ابو حنیفہ رحمہ الله تعالی کی تلقید بلتخصیص بطریق اولی واجب اور لازم ہر مسئلہ میں نہ ہوگی- پس قول اس کے واجب ہونے کا حرام ہو گا بحکم آیت کریمہ
ولا تقولو لما تصف السنتکم الکذب هذا حلال وهذا حرام لتفترو علی الله الکذب
"اور نہ کہو اس چیز کو جس سے تمہاری زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور حرام تا کہ نہ باندھو اللہ پر جھوٹ"  (یہ ترجمہ شیخ الکل ہی کا ہے)
اور اس استدلال سے ہمارے کسی کو یہ شبہ نہ گزرے کے غیر مجتہد ہو کر قیاس کیوں کیا؟ اس لئے کہ یہ وہ قیاس نہیں جو کہ مستنبط علیہ سے ہو اور مختص ساتھ مجتہد کے ہوتا ہے بلکہ دلاله النص ہے کما فی قوله تعالی  ولا تقل لہما اف  سو نہ کہو ماں باپ کو اف   دلالت علی نہی الضرب ہے اور دلاله النص کو عوام بھی سمجھتے ہیں- چنانچہ شیخ ابن الھمام رحمہ الله تحریر میں فرماتے ہیں- دلاله النص قیاس سے جدا ہے اس بات میں کہ قیاس مجتہد کے ساتھ خاص ہے اور دلاله النص کو سب عام لوگ سمجھتے ہیں اور قیاس کہنا اس کو امام رازی رحمہ الله کے مذھب پر مبنی ہے چنانچہ مسلم میں کہا ہے اور گروہ حنفیوں اور شافعیوں کا اس پر ہے کہ دلاله النص قیاس نہیں ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ وہ قیاس جلی ہے اور اس کو امام رازی رحمہ اللہ نے پسند کیا ہے وھکذا فی مغتنم الحصول انتہی بلفظہ (میعار الحق ص ١٥٨)
الجواب:-  غیر مقلدین حضرات کے حضرت شیخ الکل رحمہ الله عجیب الجھن میں مبتلا ہیں کہ اپنی اس دلیل کو دلالت النص سے ثابت مانتے ہیں اور چونکہ عنوان قیاسی دلیل کا قائم کیا ہے اس لئے علمی چکر کاٹ کاٹ کر اسے قیاس بنانے اور کہنے پر مجبور ہیں اور اس کے لئے حضرت امام رازی الشافعی رحمہ الله کے دامن میں پناہ لئے بغیر چارہ بھی نہیں پاتے اور ان کی دلیل سے استفادہ پر مجبور ہیں
؎                     چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے       قفص میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے

مگر یہ سب کچھ کرنے اور کہنے کے باوجود بھی ان کی یہ چوتھی دلیل بھی ناتمام اور تقریب تام نہیں ہے
اولا  اس لئے کہ دلاله النص کے قیاس اور غیر قیاس ہونے کا معامله اپنی جگہ پر ہے مصوف نے دلاله النص کے سمجھانے کے لئے جس طرح قرآن کی آیت کریمہ پیش کی ہے اس مقام پر قرآن و حدیث کی کون سی نص ہے جس سے دلاله النص کے طور پر ان کا استدلال سمجھ آ سکے؟ اگر وہ حضرات صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے تعامل کو بزعم خویش نص قرار دیتے ہیں تب بھی ان کا استدلال ناتمام ہے ایک تو اس لئے کے پہلے مفصل بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت میں تقریبا اڑھائی سال حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم انہیں کی اتباع، پیروی اور تلقید کرنے کے شرعا مکلف تھے اگر وہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے آخری دور تک زندہ رہتے تو تمام حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم (اور تابعین رحمہ الله) انہیں کی تلقیدواتباع میں وفات پاتے جبکہ حرام بدعت اور شرک و کفر ایک لمحہ کے لئے بھی جائز نہیں ہے اور دوسرے اس لئے کہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کسی نے ان کی اتباع اور تقلید سے گریز نہیں کیا تو کیا دلالت النص اور یہ ثابت نہ ہوا کہ تقلید شخصی واجب اور جائز ہے ورنہ کبھی وہ حضرات اس کو اختیار نہ کرتے اور تیسرے اس لئے کہ جب عبارت النص اور اشارہ النص کا تعارض ہو تو عبارت النص کو ترجیح ہوتی ہے- اور اشارہ النص اور دلاله النص کا تعارض ہو تو اشارہ النص کو ترجیح ہوتی ہے (حسامی ص ٢٠ و ص ٢١) اور ہم پہلے باحوالہ عرض کر چکے ہیں کہ مثلا حضرت ابوموسی الاشعری رضی الله عنہ کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی الله عنہ کا حضرت عمر رضی الله عنہ پر اعتماد عبارت النص سے تقلید شخصی ثابت کرتا ہے اور ان حضرات کا عبارت النص سے استدلال حضرت شیخ الکل رحمہ الله کے دلاله النص کے استدلال سے بہر کیف اور بہر حال راجح اور مقدم ہے-
وثانیا  اس لئے کہ لاعلم کے لئے تقلید کا واضح ثبوت تو نصوص سے ثابت ہے. جن میں سے ایک نص فاسئلوا اھل الذکر  الآیہ ہے کما مرّ- تو نص کے مقابلہ میں قیاس کا کیا مطلب ہے؟ اور وہ بھی اقراری غیر مجتہد سے

؎                     صد شکر کے دنیا میں بھٹکتے نہ پھرے ہم        الله کے گھر پہنچے تیرے گھر سے نکل کر

وثالثا  اس لئے کہ مؤلف مدارالحق[1] لکھتے ہیں کہ
اقول یہ قیاس مصنف میعارالحق کا قیاس مع الفلدق ہے- بیان اس اجمال کا یہ ہے کہ صحابہ رضی الله عنہم سے نہ قوائد اصول کے قرار پائے اور نہ کوئی مذھب جمع مسائل دین میں مدون ہوا- نہ ایک نہ دو- سواۓ جمع کرنے قرآن شریف کے الخ (مدارالحق ص ٣٣١)
چونکہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہ کے دور میں نہ تو فقہی قواعد و اصول مرتب اور مدوّن ہوئے اور نہ فقہی کتابیں لکھی گیئں اور نہ نئے نئے حوادث و نوازل اس وقت پیش آئے- اور نہ باطل فرقوں کے عقائد باطلہ اور بدعات اس وقت رائج تھیں- اس لیے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے مبارک زمانہ پر بعد کے حالات کو قیاس کرنا ہی مع الفارق ہے- اور اسی قسم کا سوال رافضی کا بھی تھا کہ تم حنفی شافعی تو کہلاتے ہو مگر ابوبکر اور عمری نہیں کہلاتے، جس کا جواب حافظ ابن تیمیہ رحمہ الله کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے- اور مؤرخ ابن ندیم رحمہ الله کے حوالہ سے بیان ہو چکا ہے کہ شرقا و غربا – شمالا و جنوبا علم حضرت ابو حنیفہ رحمہ الله کا تدوین کردہ ہے تو ایسے حالات میں ان پر کیوں اعتماد نہ کیا جائے؟
جناب شیخ الکل کا اس جملہ پر کہ پس قول اس کے واجب ہونے کا حرام ہو گا- گرفت کرتے ہوئے مؤلف مدارالحق لکھتے ہیں کہ-
خود مصنف میعار بھی اس میں داخل ہے- کیوں کہ فتویٰ مصنف میعار کا مہری مجود ہے- اور عبارات اس کی یہ ہے کہ جو شخص مذھب خاص کی پیروی کرنے والے کو مرتکب بدعت ضلالت کہتا ہے وہ مردود اور گمراہ ہے- (نذیر حسین) انتہی (ص ٢٩٥)
(اصل کتاب الکلام المفید فی اثبات التقلید کا صفحہ نمبر ٣٤١) قطع نظر اس حوالہ کے پہلے باحوالہ گزر چکا ہے کہ لاعلم کے لئے اہل علم کی تقلید واجب ہے- اور ایک مجتہد کی تقلید سے بھی مکلف حکم خداوندی کی تعمیل سے عھدہ برا ہو سکتا ہے اور اس میں سہولت بھی ہے اور وجوب و التزام سے گریز کرنے میں خطرہ ضیاع ایمان ہے تو اس کو ناجائز اور حرام کہنا خود ولا تقولوا الآیه کا صحیح مصداق ہے- کہ حلال چیز کو حرام قرار دینا بھی افتراء علی الله  ہے- مگر افسوس ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر تو بہت کم نظر آتا ہے- اور دوسرے کی آنکھ میں تنکے پر بھی نگاہ پڑ جاتی ہے- الله تعالی تمام مسلمانوں کو حق اور اہل حق سے محبت نصیب فرمائے اور غلو فی الدین سے محفوظ رکھے اور اس حقیر تالیف کو راقم اثیم کی نجات اخروی کا ذریعہ اور عامه المسلمین کے نفع کا باعث بنائے – وما ذالک علی الله بعزیز o ٹھنڈے دل سے علمی طور پر معنوی اور لفظی اغلاط کی نشاندھی کرنے والے کی شرح صدر سے قدر کی جائیگی اور انشاللہ العزیز غلط بات کی اصلاح سے گریز نہیں کیا جاۓ گا- ربّنا ارنا الحق حقّا والباطل باطلا-
وصلی الله تعالی وتبارک وسلّم علی خیر خلقه محمد خاتم الانبیاء والمرسلین وعلی اصحابہ واله وازواجه
وذریته وجمیع اتباعه الی یوم الدین آمین یا رب العالمین




[1]  مولانا محمد شاہ صاحب رحمہ الله ساکن پٹن ضلع ساہیوال تلمیذ مولانا نواب قطب الدین خان صاحب دہلوی رحمہ الله و تلمیذ حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی رحمہ الله نے حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید کی کتاب تنویر العینین اور ایضاح الحق کے رد میں کتاب لکھی- جس کا نام تنویر الحق ہے- اس کے رد میں حضرت میاں صاحب رحمہ الله نے میعارالحق لکھی ہے- پھر اس کے رد میں بحکم جناب قطب الدین خان صاحب دہلوی رحمہ الله، حضرت مولانا محمد شاہ صاحب رحمہ الله نے مدارالحق لکھی ہے- جو اپنے طرز میں انوکھی اور مفصل کتاب ہے- 12 منہ 

قارئین کرام ! تصویر کا یکا رخ تو آپ ملاحظہ کر چکے ہیں اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے جایئے ھم آسانی کے لئے فریق  ثانی  کی طرف سے پیش کردہ اصولی باتوں  کو چندابواب میں پیش  کرنا زیادہ مناسب اور بہتر سمجھتے ہیں۔
فریق ثانی نے  جہاں بزعم خویش تقلید اور خصوصاً شخصی کے رد میں اور بہت سے دلائل پیش کئے  اور استدلال کرنے کی ناکام کوشش لی ہے۔ وہاں اس نے قرآن کریم سے بھی احتجاج کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے ہیں۔ چانچہ غیرمقلدین کے شیخ الکل تقلید کی تردید میں چار دلیلیں پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے  ہیں:۔
پہلی ۱؎ دلیل قول اللہ تعالٰی وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا “جو دے تم کو رسول سو لے لو۔ اور  جس ے منع کرے سو چھوڑ دو”۔ اور قول اللہ تعالٰی اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ  “چلو اسی پر جو اتر ا تم کو تمہارے رب سے ”۔ وجہ استدلال کی پیچھے بیان ہو گی۔ پہلے چند مقدمات بیان کئے ہیں۔ اور چھٹے مقدمہ کے اثبات کے لیے علامہ شامیؒ عامہ طحاویؒ۔ اور حضرت ملا علی القاریؒ کی عبارتیں پیش کی ہیں اور پھر ان مقدمات کے سہارے تقلید شخصی کی تردین کی تقریر کرتے ہوئے استدلال کیا ہے۔
الجواب:۔
اس طرز استدالال اور ان آیات سے اہل اسلام میں معہود تقلید شخصی کی تردید ضیاع وقت
کے سوا کچھ  نہیں۔ہے۔
اولاً ۱؎ اس لیے ان آیات سے تقلید کی تردید واضح ہوتی تو استدلال کو چھ مقدمات ک سیڑھی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ وثانیاً۲؎ ۔ اس لیے کہ لا علمی کے وقت اور اہل الذکر سے سوال خود قرآن و حدیث سے ثابت ہے بلکہ نقبل شیخ الکل واجب ہے  ہے تو پھر بھلا یہ  وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ  اور  اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ (آیۃ) کے کیوں خلاف ہو گا ۔ و ثا لثاً؎۳ اس لیے کہ خود شیخ الکل صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
اور جو مقلد تخصیص مذہب معین کی بطور قسم ثانی کے اختیا کرے وہ حقیقۃً تارک بعض  وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ  کا نہیں ہے بلکہ عامل بقتضائے عموم نص کے ہے اس لیے کہ تخصیص اس کی یا بنظر عدم استطاعۃ کے ہو گی کہ نص سے عموماً اتباع ما اتٰی بہ الرسول کا ثابت ہوتا ہے پھر اگر حنفی مذہب کے مسئلہ کے ضمن میں اخذ ما آتٰی بہٖ الرسول کر لیا تو بھی کافی ہے تو اسی نظر سے ترک بعض کا نہ ہؤا الخ (معار الحق ص155)
اور نیز لکھتے ہیں کہ
جیسا کہ مقلد بتقلید قسم ثالث باوجود عالم ایک مسئلہ کے بموجب مذہب دوسرے امام کے اس نظر سے کہ ہم کو سوائے اتباع اپنے امام کے کسی کی پیروی درست نہیں۔ اس مسئلہ کو عمل میں نہیں لاتا تو بے شک  ترک کیا اس نے بعض ما اتٰی بہٖ  الرسول کو بخلاف مقلد مخصص بتقلید قسم ثانی کے کہ تخصیص اس کی بنظر کفایت با عدم استطاعۃ و عملاً بعموم النص ہے تو ثابت بات ہؤا کہ ایسے مقلدین تارک بعض ما اتٰی بہ الرسول کے نہیں اور ان پر تقلید ہر مذہب سے ہر مسئلہ کی واجب نہیں فافہم انتہٰی بلفظلہٖ ( معیار الحق ص156)
خط کشیدہ الفاظ کو بغور ملاحظہ کیجئے کہ غیرمقلدین کے شیخ الکل نے کیا فرمایا ہےَ جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے اس پر ہمارا صاد ہے اور لاعلمی کے وقت مقلدین کا  ایک ہی امام کی تقلید میں یہی عمل اور یہی و تیرہ ہے اور شیخ الکل نے بجا فرمایا کہ ایسے مقلدین پر تقلید ہر مذہب سے ہر مسئلہ کی واجب نہیں کیونکہ جب ایک ایک ہی مام کی تقلید کفایت کرتی ہے اور تقلید کا کھا تہ بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اور عموم نص پر عمل بھی ہو جاتا ہے تو پھر سب کی تقلید کیوں واجب ہو ؟
دوسری۲؎ آیت:۔
فریق ثانی نے تقلید شخصی کے شرک و کفر ہونے پر اس آیت کریمہ سے بھی  استد لال کیا ہے۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ۔(النساء  ۶۵)
یعنی تیرے رب کی قسم وہ شخص مومن نہیں اے نبی ! جو تیرے حکم کو دل کی خوشی سے گردن جھکا کر قبول  نہ کر لیا کرے ۔
(ہم نے یہ ترجمہ غیرمقلد عالم مولانا ابو احمد محمد یونس دہلوی سے بلفضلہٖ  نقل کیا ہے ۔ اب انہی کی  زبان اور الفاظ میں اس کی مزید تفسیر تشریح اور استدلال بھی ملاحظہ فرما لیجئے لکھتے ہیں کہ:۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیغمبر خداﷺ کی حدیث کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی بڑے سے بڑے متقی۔ پرہیز گار۔ امام یا عالم کی بات کی طرف جھکنا حدیث نبوی پہ کسی قول کو مقدم کرنا ایمان سے خارج ہونا ہے۔ یہ آیت  دراصل اس منافق کے بقرے میں نازل ہوئی تھی جس کا ایک یہودی سے کچھ جگڑا تھا۔ یہ دونوں اپنا جھگڑا حضور علیہ السلام کی خدمت میں لے کر حاضر  ہوئے ۔ دربار نبوی سے فیصلہ یہودی  کے حق میں ہؤا ۔ مگر منافق نے اس فیصلہ پر اکتفاء نہ کی اور حضرت عمر ؓ سے فیصلہ چاہا۔ حضرت  عمر ؓ نے یہ معلوم کرکے کہ یہ شخص دربار محمدی سے فیصلہ لینے اور حدیث نبوی سن لینے کے بعد میرے پاس آیا ہے۔ اس کو قتل کر ڈالا اور فرمایا:۔
ھٰکذا اقضی بمن لم یرض بقضاء اللہ و رسولہ۔
جو  شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہ ہو تو اسی طرح کا فیصلہ اس کے  بارے میں کرتا ہوں”۔
یعنی جو شخص رسول خدا کے فیصلہ سے راضی نہ ہو آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے امتیوں کے اقوال تلاش کرے اس کا فیصلہ بس قتل کر دینا ہے۔ اس وقت اللہ عزو جل نے حضرت عمر ؓ کی تائید کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی کہ بے شک ایسےشخص مسلمان ہی نہیں۔
مسلمانو ! غور کرو۔ فرمان نبوی فیصلہ محمدی۔ حدیث مصطفی کے ہوتے ہوئے جو شخص حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر بزرگ خلیفہ رسول کے قول کو تلاش کرے وہ بے ایمان
اور واجب القتل ہو ۔ پھر جو شخص حدیث نبوی کی موجودگی میں امام ابو حنیفہؒ ۔ امام شافعی ؒ، امام مالکؒ  ، امام احمدؒ کے اقوال کو نہ صرف تلاش کرے بلکہ ان کی تقلید فرض ، واجب سمجھے کیا وہ مسلمان رہ سکتا ہے؟ انتہیٰ (طریق محمدی ص21 طبع مکتبہ محمدیہ کراچی)۔
الجواب:۔
اس آیت کریمہ سے اس معوم خیال پر اس سے بہتر الفاظ میں استدلال نہیں ہو سکتا ۔ مگر قارئین مندرجہ ذیل امور پر عمیق نظر اور ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں ۔
۱۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم، حدیثِ صحیح۔اٹل اور غیر معلل بعلت فیصلہ پر راضی نہ ہونے والا بلکہ غیر کی طرف  جھکنے والا خواہ وہ  آپ کا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو ۔ کافر مرتد ، منافق اور واجب القتل ہے۔ اب یہ چیز فریق ثانی کے ذمہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ مقلدین ائمہ کرام ؒ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے محکم اٹل اور صحیح فیصلہ پر راضی نہیں ہوا کرتے؟ بلکہ وہ ایسے اٹل اور محکم فیصلہ  کے ہوتے کسی امام کی تقلید کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔
۲۔ اس آیت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خد ا اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہونے والا شخص کافر اور واجب القتل ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے  یہ الفاظ کہ جو شخص خد اور اس کے رسول کے فیصلہ  پر راضی نہیں ہوتا اس کا فیصلہ میں تلوار ہی سے کیا کرتا ہوں اس پر صرحت سے دلالت کرتے ہیں کہ اس آیت سے یہ کسی طرح  ثابت نہیں ہوتا  کہ جس مسئلہ میں قرآن کریم اور  حدیث شریف سے روشنی نہ پڑتی ہو تو اس غیر منصوص مسائل میں کسی امام کی تقلید شخصی کفر اور شرک ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عمرؓ دربار نبوت کے راز دان یہ فرماتے کہ آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں کسی اور کی تقلید کرنا کفر ہے۔ اس  لیے میں تمہارا فیصلہ تلوار ہی سے کروں گا۔ مگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہونے والے کا میں یہی فیصلہ کرتا ہوں کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے الغرض جو چیز اس آیت سے ثابت ہے مقلدین اس کا انکار نہیں کرتے۔ اور جس چیز کے مقلدین قائل ہیں اس آیت کی تردید ثابت نہیں ہوتی ۔
۳۔ مولوی صاحب موصوف نے یہ کہا تھا کہ “ پیغمبر خدا ﷺ کی حدیث کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی بڑے سے بڑے متقی پرہیز گار امام یا عالم کی بات کی طر ف جھکنا حدیث نبوی پر کسی کے قول کو مقدم کرنا ایمان سے خارج ہونا چایئے۔ ہمارا بھی اس پر صاد ہے کہ حدیث صحیح کے ہوتے ہوئے
غیر کے قول کو مقدم سمجھنا ایمان سے خارج ہوتا ہے۔
مگر قارئین کرام  ! مولوی صاحب کے اس فتویٰ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مندر جہ ذیل واقعات پر نظر دوڑایئے ۔ اور پھر مولوی صاحب کے فتویٰ کی داد دیجئے۔
۱۔ ہم باحوالہ ( بخاری  و مسلم ص120ج2) کے حوالے سے پہلے نقل کر چکے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو خلافت کے لیے نامزد کروں توپھر بھی میرے لیے گنجائش ہے۔ کیونکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایسا  کیا تھا ۔ اور اگر میں کسی کو نامزد نہ کروں تو بھی کوئی    حرج نہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صرحت کے ساتھ کسی کو نامزد نہیں کیا تھا یہ فر مانے کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے عمل کو آپ نے  پسند کیا اور چھ۶؎ آدمیوں کو خلافت کیلے آپ نے نامزد کر دیا۔ کہ یہ اپنے میں سے ایک کو متحب کر لیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضورﷺ کا عمل حدیث نہیں؟ اگر ہے اور یقیناً ہے تو حضرت عمر ؓ نے جب غیر رسول متقی یعنی حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عمل کو آنحضرت ﷺ کے عمل مقابلے میں کھڑا کیا ۔ اور  پھر اس کو ترجیح بھی دی۔ تو ارشاد فرمایئے کہ کیا حضرت عمرؓ مسلمان رہے یا نہیں؟
۲۔ بلکہ ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن میں بظاہر آنحضرت ﷺ لے قول کی مخلافت بھی کی گئی۔ آنحضرت ﷺ نے مرض الموت کے دوران ارشاد فرمایا کہ (قلم دوات  لاؤ) میں تمہیں کچھ لکھو ا دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ تو حضرت عمرؓ فاروق نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔( بخاری ص22 ج1 و مسلم ص43 ج2 و مشکوۃ ص548)
دیکھئے آپ نے حکم دیا ہے مگر حضرت عمرؓ بظاہر آنحضرت ﷺ کے حکم کو ٹالتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔ آپ کے لکھوانے کی ضرورت نہیں ۔ فرمایئے۔ کہ بقول آپ  حضرات  کے حضرت عمرؓ آ نحضرت ﷺ کے حکم پر اپنی رائے  کو ترجیح د ینے کی وجہ سے مسلمان رہے یا نہ؟
۳۔ حدیبیہ کے مقام پر جب آنحضرت ﷺ  نے مشکرین مکہ کے سفیر کے ساتھ معاہدہ کی شرطیں طے کر لیں تو یہ الفاظ لکھوائے۔
ھٰذا ماقاضہ علیہ محمد رسول اللہ ۔ یہ وہ شرطیں ہیں جن پر جناب رسول اللہ ﷺ
نے (مشرکین  کے ساتھ ) صلح کر لی پے۔
تو مشرکین کے نمائندہ  سہیل  بن عمرہ نے  کہا کہ ہمارا تو آپ سے جھگڑا ہی اس بات پر ہے کہ ہم آپکو اللہ تعالٰی کا رسول نہیں مانتے ۔ آپ رسول اللہ کے الفاظ اور جملہ کو مٹا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جو شرطیں لکھ رہے تھے فرمایا کہ اچھا تم یہ مٹا دو۔ ا س پر حضرت علی ؓ نے فرمایا ۔
لا واللہ لا  امحاما  “خدا کی قسم میں اسے نہیں مٹاؤں گا”۔ (بخاری ص372ج1 و مسلم ص105 ج2 و اللفظ لٰہ و مشکواۃ ص355ج2)
 دیکھئے آپؐ فرماتے ہیں مٹا دو ۔  مگر حضرت علی ؓ حلف اٹھا کر کہتے ہیں کہ میں نہیں مٹاؤں گا۔ اور آنحضرت ﷺ کے صریح فرمان کا بھری مجلس میں فریق مقابل کے نمائندہ اور سفیر کے رو برو انکار کرتے ہیں۔ ان پر فتویٰ لگانے کی ہمت ہمارے اند ر تو نہیں ۔ البتہ فریق  ثانی ہی اس کی جسا رت کر سکتا ہے اور کرے گا ہمارے ہاں حضرت علیؓ کا نہ مٹانا پر مبنی (ملاحظہ کیجئے مقام ابی حنیفہؒ)
۴۔ ہم باحوالہ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے شرابی کی سزا چالیس ۴۰ کوڑے ثابت ہے۔ مگر حضرت علی ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صریح عمل کے مقابلہ میں حضرت عمرؓ اور  حضرت عثمان ؓ کی شرابی سے متعلق ۸۰؎ کوڑے سزا اور حد کو بھی سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ فریق ثانی ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عمل کے مقابلہ میں حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کا  عمل  حضرت علیؓ کے نزدیک کیسے بن گیاَ اور یہ کفر سے کیسے اور کیونکر بچ نکلے؟ کہ حضور کے عمل کے مقابلہ میں امتیوں کے فعل سے تعبیر کرتے ہیں؟ فریق ثانی کے نزدیک تو یہ دن زدنی کے قابل ہیں ۔ (العیاذ  باللہ تعالٰی )
۵۔ منفوقس شاہ مصر نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جب  اریہ قبطیہؓ کو بطور تحفہ ارسال کیا تو ان کے ساتھ ان کا ایک چچا اورر بھائی (جس کا نام موبور تھا) بھی خدمت اقدس میں بھیجا ۔ چونکہ سابقہ تعارف کے علاوہ یہ حضرت  ماریہ ؓ کے چیچرے بھائی بھی تھے۔ اور لونڈیوں کا پردہ بھی شرعاً نہیں ہوتا ۔ اس لیے یہ بات مدینہ میں اتنی مشہور  ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو بھی سن کر اس پر یقین نہ  گیا۔ اور غیرت میں آکر آپؐ نے حضرت علیؓ کو تلوار دی اور فرمایا کہ جا کر مابور کو جہاں بھی ملے قتل کر دینا۔ حضرت علیؓ
نے اس کو تلاش کیا ۔ قتل کرنے پر ہی تھے کہ تقدیراً اس کا کپڑا  جب ہٹا تو دیکھا کہ۔
لم یخلق اللہ عزوجل لہ ما للرجال
اللہ تعالٰی نے اس کا وہ عضو جو مردوں کے لیے ہوتا ہے پیدا ہی نہیں کیا”۔ (مستدرک ص39ج4، و تیسیر ص136)
حضرت علی ؓ نے اس کو قتل نہ کیا اور آنحضرت ﷺ سے آکر عرض کیا ۔آپﷺ نے فرمایا:۔
الشاھد  یرٰی مالا یرٰی الفائب  ”  یعنی  ؏ شنیدہ کے بود مانند دیدہ (مسند احمد،و قال ابن کثیر ؒ اسنادہ رجال ثقات (البدایۃ ص304ج5)
دیکھئے اس شخص کے قتل دربار نبوی سے صادر ہو چکا ہے۔ مگر حضرت علی ؓ اس کو قتل نہیں کرتے ۔ کیوں ؟ کیونکہ وہ نامرد و ثابت ہوا اور اس کے قتل کی علت نہ پائی جا سکی اس لیے اس کو چھوڑ دیا گیا ۔ آنحضرت ﷺ اس کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ مگر حضرت علیؓ آپ کے اس ارشاد کے مقابلہ میں اپنی دیداور رائے دیتے ہوئے قتل سے باز آتے ہیں۔
۶۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ایک خادمہ سے زنا کا  ایک فعل صادر ہو گیا۔ آپ نے مجھے حکم دیا ان اجلدھا میں اس کو کوڑے لگادوں۔ مگر میں نے جا کر دیکھا کہ وہ  زمانئہ نفاس میں ہے۔ میں  نے اس خود سے  کہ کہیں کوڑے مارنے سے وہ مرہی نہ جائے اس کو تازیا نے نہ لگائے۔ اور میں نے  آپ ؐ سے یہ قصہ کہہ سنایا۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ احسنت (مسلم ص71ج2) تم نے اچھا کیا (کہ اس کو اس حالت میں سزا نہ دی) یہاں بھی اپ کے ظاہر ی حکم  کو فوراً اس لیے نہیں پورا کیا گیا کہ مصلحت اور حالت مجرمہ اس کی متقاضی نہ تھی ۔ اس سے مصلحت کی وجہ سے  باعث ملامت نہ ٹھہرے  بلکہ  آپ نے  ان کی دا د دی ۔ اور ان کے اس فعل کی تحسین فرمائی۔
حضرات ہم نے باب ہفتم میں مصلحت ِ وقت کا لحاظ کرنے کی متعد حدیثیں نقل کی ہیں، اور مسلم وغیرہ کی وہ حدیث جس میں اللہ تعالٰی کے حکم سے ہٹ کر  امر کو اپنے حکم پر پناہ دینے کا حکم  ہے اس بحث کو اور جو کچھ  ابھی ابھی عرض کیا گیا ہے۔ ان کو آپس میں ملا کر نتیجہ نکالیہ کہ  کیا آنحضڑت ﷺ کے اس حکم اور رائے کا نکار کفر ہے جو اٹل محکم اور صحیح غیرمعلول بعلت ہو ؟ یا ہر اس حدیث اور رائے کا جو سنداً صحیح ہو  اور نہ اٹل اور محکم ہو ؟ اور خواہ اس حدیث میں فعل اور نفی کی علت ہو یا نہ ہو ؟
نواب صدیق حسن خان صاحبؒ لکھتے ہیں:۔
امام احمد ؒ بن حنبلؒ فتاویٰ حضرات صحابہ کرام ؓ کو حدیث مرسل ٌر مقدم سمجھتے ہیں۔ (الجنۃ ص8)
نسبت تو دیکھئے کہ حدیث اور اقوال صحابہؓ ؟ لیکن چونکہ حدیث مرسل ان کے نزدیک قابل اعتبار نہ تھی اس لیے اس حدیث پر وہ اقوال صحابہ ؓ کو ترجیح دیتے تھے ۔ مرسل حدیث وہ ہوتی ہے جس میں صحابئ کا ذکر نہ ہو۔ اور اہل اسلام کے نزدیک الصحابۃ کلہم عدول ہیں۔ اس لیے دوسری صدی تک مرسل حدیث کو حجت سمجھا جاتا تھا۔ (تدریب الراوی ص120)
اگر ہر حکم اور رائے میں  آنحضرت ﷺ کی خلاف  ورزی کفر ہے تو ان اکابر حضرات صحابہ ؓ کرام پر فتویٰ لگایئے۔ اور ہم باب سوم و چہارم میں باحوالہ جمہور حضرات محدثین کرامؒ کا مقلد ہونا ثابت کر آئے ہیں کیا وہ سب گردن زدنی کے لائق تھے؟َ  اور کیا سارے  کے سارے مشرک تھے؟
سہے لاکھو ستم لیکن نہ کی آہ و فغاں اب تک
زبان رکھتے ہوئے  بھی ہم رہے ہیں بے زباں اب تک
تیسری آیت:۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا  ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ (البقرہ 21)
اور جب کوئی ان سے کہے تابعداری کرو اُس حکم کی جو کہ نازل فرمایا اللہ نے کہتے ہیں ہر گز نہیں ہم تو تابعداری کریں گے  اس کی جس پر دیکھا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگرچہ ان کے باپ  دادے نہ سمجھتے ہوں  ہوں کچھ بھی اور نہ جانتے ہوں سیدھی  راہ۔ 
عینی حق تعالٰے کے احکام کے مقابلہ میں اپنے باپ داا کا اتباع کرتے ہیں اور یہ بھی شکر ہے چنانچہ بعض جُہال مسلمان بھی ترکِ نکاح بیوگان وغیرہ رسول باطلہ میں ایسی بات کہ گذرتے ہیں اور بعض زبان سے گو نہ کہیں  مگر  عملدر آمد سے اُن کے ایسا ہی مترشح ہوتا ہے سو یہ بات ا سلام کے خلاف ہے (بفضلہ یہ ترجمہ اور اس کی تشریح حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ کی ہے) اس کے ساتھ اسی مضمون کی دو آیتیں اور بھی ملاحظہ فرما لیں تاکہ بات خوب واضح ہو جائے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا  ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ (البقرہ 21)
اور جب کہا جاتا ہے ان کو آؤ اس کی طرف جو کہ اللہ
نے ناز ل کیا اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہم کو کافی ہے  وہ جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگر ان کے باپ دادے نہ کچھ علم رکھتے ہوں نہ راہ جانتے ہوں تو بھی ایسا ہی کریں گے۔
جاہلوں کی سب سے بڑی حجت یہ ہوتی ہے کہ جو کام باب دادا سے ہوتا ہے اس کے خلاف کیسے کریں ان کو بتلایا گیا کہ اگر تمہارے اسلاف بے عقلی یا بے راہی  سے قعر ِ ہلاکت میں جا گر ے ہوں تو کیا پھر بھی تم ان کی راہ چلو گے حضرت شاہ (عبدالقادرؒ) صاحب لکھتے ہیں ، باپ کا حال معلوم ہو کہ حق کا تابع اور صاحب علم تھا تو اس کی راہ پکڑے نہیں تو عبث ہے۔ یعنی کیف ما اتفق ہر کسی کو رانہ  تقلید جائز نہیں ۔
(بلفظہ ترجمہ شیخ الہند اور تشریح از مولانا عثمانیؒ)
۲۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ
اور جب ان کو کہتے چلو اس حکم پر جو اتارا اللہ نے کہیں نہیں ہم تو چلیں گے اس پر جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں  کو بھلا اور جو شیطان بلاتا ہو ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف تو بھی”۔( لقمٰن ۲۱)
یعنی اگر شیطان تمہارے باپ دادوں کو دوزخ کی طرف  لے جارہا ہو تب بھی تم اس کے پیچھے چلو گے؟ اور جہاں وہ  گریں گے وہیں  گرو گے؟
(ترجمہ شیخ الہند اور تشریح از مولانا عثانیؒ)
الجواب:۔
ان آیات کریمات میں جس تقلید کی تردید کی گئی ہے ووہ ایسی تقلید ہے جو اللہ تعالٰی اور جناب رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مد مقابل ہو ایسی تقلید کے حرام شرک  ، مذموم اور قبیح ہونے میں کیا شبہ؟ اور اہل اسلام اور اہل علم میں کو ن ایسی تقلید کو جائز قرار دیتا ہے؟ اور  ایسے مقلدوں کو کو ن مسلمان  کہتا اور حق پر سمجھتا ہے جو خدا تعالٰی اور اس کے پیغمبروں کی تعلیم اور ان کے حکم کے خلاف کہتے  اور کرتے ہیں؟ الغرض ان آیات سے جس تقلید کی تردید ثابت ہے اس کا کوئی بھی مسلمان قائل نہیں اور جس تقلید کے اہل اسلام قائل ہیں اس کی تردید ان آیات سے ثابت ہے اس کا کوئی بھی مسلمان قائل نہیں اور جس تقلید کے اہل اسلام قائل ہیں اس کی تردید ان  آیات سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ اگر باپ داددے علم و عقل اور ہدایت  پر ہوں تو انہی آیات سے ان کی اتباع اور پیروی کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ  کسی بھی
عاقل سے یہ مخفی نہیں اور خود قرآن کریم  سے اہل حق آ با ء واجداء کی پیروی کرنا ثابت ہے۔
چنانچہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروں گے تو انہوں نے
قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا (البقرۃ ۱۳۳)
کیا تم موجود تھے جس وقت قریب آئی یعقوب کے موت جب کہا اپنے بیٹوں کو تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد بولے ہم بندگی کرینگے تیرے رب کی اور تیرے باپ دادوں کے رب کی جو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق ہیں” (علیہم الصلٰوۃ و السلام) وہی ایک معبود ہے”۔
اس سے صاف طور پر معلوم ہوا  کہ اگر باپ دادے حق پر ہوں تو ان کے طریقہ پر چلنا اور ان کی اتباع و پیروی کرنا پیغمبر انہ وصیت میں داخل ہے تو اس کے جائز او رپسندیدہ ہونے میں کیا کلام ہے ۔
حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ و السلام نے جیل میں قیدیوں کو تبلیغ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا۔
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ(یوسف ۳۸)  “اور میں نے اپنے باپ دادوں  ابرہیم اسحاق او ریعقوب (علیہم الصلوۃ والسلام ) کی ملت کی پیروی کی ہے۔
اگر دین حق میں باپ دودوں کی پیروی مذموم اور بری چیز ہوتی توحضرت یوسف ؑ اس پیروی کا کبھی تکذرہ نہ فرماتے اور نہ اللہ تعالٰی  اس کو مقام مدح میں بیاں فرماتے۔  ، قرآن کریم کی ان نصوص کی روشنی میں یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ اللہ تعالٰی اور اس کے برحق انبیاء ؑ کے احکام کے مقابلہ میں آباء و اجداد کی پیروی جایز اور محمود ہے او اس صریح فرقہ کو نظر  انداز کرنا کسی عاقل اور متدین کا کام نہیں ہو سکتا الغرض حرام اور مذموم تقلید کر حرمت ے جائز اور مطلوب تقلید کا عدم جواز ثابت کرنا ایک طرفہ کاروائی اور نرالا تماشا ہے۔ ؎
صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیت دل کی                                    دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گَدلا کر کے
ہم بعض معتبر اور مشہور مفسرین کرامؒ کے چند حوالے  بھی عرض کیے دیتے ہیں تاکہ معاملہ بالکل واضح ہو جائے۔ امام قرطبیؒ (محمد بن احمدؒ ابو عبداللہ الانصاری الاندلسی القرطبی المتوفٰی ۶۷۱ھ) قَلُوْ بَل نْتّبِعُ مَا اَلْفَیْناَ عَلَیْہِ اٰ بَاؔ ءَ نَا کی  تفسیر  اور تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔
تعلق قوم بھذہ الالیہ فی ذم التقلید لذم اللہ تعالٰی الکفار باتباعھم فی الباطل و اقتداء ھم فی الکفر و العصیۃ وحذا فی الباطل  صحیح واما التقلد فی الحق فاصل من اصول الدین و عصمۃ عن عصم المسلمین یلجاء الیھا الھاھل المقصی عب درک النظر
اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے تقلید کی مذمت پر استدلال کیا ہے جنہوں نے باطل  میں اپنے باپ دودوں کی اتباع کی اور کفر و معصیت میں انکی اقتداء کی ہے اور ایسی باطل تقلید کے بطان پر اس سے استدلال صحیح ہے رہی حق کے سلسلہ میں تقلید  تو وہ تو اصولِ دین میں سے ایک اصل ہے۔ اور مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا ایک بڑا ذریعہ ہے   جو شخص اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دین کے معاملہ میں تقلید ہی پر اعتماد کرتا ہے۔
(تفسیر قرطبی ص194ج2 طبع مصر)                                           
مطلب بالکل واضح ہے کہ اگر اس آیت کریمہ  سے اس تقلید کی تردید  مقصود ہے جو باطل اور کفر  معصیت میں اپنے آباء کی کی جاتی ہے تو استدلال بجا اور درست ہے اور اگر اس سے اس تقلید کا ابطال مراد  ہے جو اہل حق میں آبا واسلاف کی تقلید کرتے ہیں تو وہ تو دین کے اصول میں سے ایک اصل ہے اور قرآن کریم اصول دین کی تردید تو نہیں کرتا ۔