جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Saturday 16 April 2016

مسئلہ طلاق ثلاثہ پر فرقہ اہل حدیث کے دلائل کی دھجیاں


ماخوذ : قرآن بمقابلہ غیرمقلدین
(آیت نمبر 15)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (البقرۃ 229)
ترجمہ
 ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دنیا ہے“۔

غیرمقلدین کا اللہ ک کلام کے ساتھ فراڈ دیکھیں
کہتے ہیں یہاں جو لفظ”مَرَّتٰنِ ۠ “استعمال ہوا ہے اس طرح سورۃ نور میں لفظ ”مَرّٰتٍ“  استعمال ہوا ہے جو کہ ”مَرَّتٰنِ ۠ “سے نکلا ہے  وہاں  اس کیلئے  تین الگ الگ وقت  آئے ہیں،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ
 (النور ۵۸)

”اے ایمان والو اجازت لیکر آئیں تم سے جو تمہارےہاتھ کے مال ہیں اور جو کہ نہیں پہنچے تم میں عقل کی حد کو تین بار فجر کی نماز سے پہلے اور جب اتار رکھتے ہو اپنے کپڑے دوپہر میں اور عشاء کی نماز سے پیچھے“۔

لہذا ثابت ہوا   کہ ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ  “ (طلاق دو مرتبہ ہے) میں بھی صرف وقفے کے ساتھ ہی دو طلاقیں دینا شامل ہے  اور ایک ہی مجلس میں یا اکھٹی دو طلاقیں اس میں شامل نہیں۔

الجواب:۔
غیرمقلدین کی اللہ کی کتاب کے ساتھ کی گئی یہ تحریف کبھی ان کی دلیل نہیں بن سکتی ۔

اسلئے کہ غیرمقلدین  کا  اللہ پاک پر  پہلے تو یہی بہتان ہے کہ ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠“صرف وقفے کے ساتھ ہی دو طلاق دینا اس میں شامل ہے اور اکھٹی ایک ہی مجلس میں دو طلاق دے دینا اس آیت میں شامل نہیں۔ معاذ اللہ

صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ (صحیح بخاری ج۱ حدیث:۱۶۲)
ترجمہ :۔عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا۔

یہاں پر بھی لفظ” مَرَّتَيْنِ“ہی استعمال ہوا ہے جو کہ ”مرت “  سے نکلا ہے جو کہ ایک ہی مجلس میں دو مرتبہ ہر عضو کو دھونے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ اگر غیرمقلدین  والا معنی یہاں لیا جائے جیسا کہ  وہ کہتے ہیں کہ  ”مَرّٰتٍ “ میں  ایک مجلس یا اکھٹی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی تو ”نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا“۔  کا معنی یہ ہو گا کہ پہلے ایک ایک مرتبہ ہر عضو کو دھویا پھر دوسری مجلس میں آکر  پھر ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔ جو کہ قطعاً درست نہیں ہو سکتا۔

معلوم ہوا کہ لفظ”مَرّٰتٍ “،”مَرَّتٰنِ “،” مَرَّتَيْنِ“  ان میں  ایک مجلس بھی شامل ہے اور الگ الگ مجالس بھی شامل ہیں لہذا یہ دلیل تو ہماری بنی کہ ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ “ طلاق دو مرتبہ ہے ۔(چاہے جیسے بھی دو) خواہ کوئی   ایک ہی مجلس میں  اکھٹی دو طلاقیں دے دے جیسا بخاری کی حدیث میں ایک  ہی  مجلس میں دو  مرتبہ ہر عضو کو دھونے کیلئے یہ استعمال ہوا ہے یا کوئی وقفے کے ساتھ الگ الگ وقت یا مختلف مجلسوں میں  دو طلاق دے جیسا کہ سورۃ نور کی آیت۵۸  میں الگ الگ وقتوں میں سلام کرنے  کیلئے استعمال ہوا ہے ہر صورت ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ  “”طلاق دو مرتبہ ہے “میں  دونوں باتیں شامل ہیں  نہ کہ کسی ایک  ہی کی قید ہے، اور  کسی ایک   ہی کی قید لگانا  (جیسا  غیرمقلدین    کا مسئلہ ہے کہ اکھٹی دو یا ایک مجلس میں دو طلاقیں  دو نہیں  ہیں) قرآن پاک کے معنوں میں کھلی تحریف ہے، جس کا انجام جہنم ہے۔

اکھٹی تین طلاق واقع نہیں ہو گی اس مسئلہ میں فرقہ اہل حدیث کو چھانٹ چھانٹ کر دیکھا گیا لیکن ان کے پاس نہ تو قرآن پاک کی کوئی  آیت ہے نہ ہی کوئی ایک صحیح  صریح دلیل  جو صریح  ہے وہ صحیح نہیں جو صحیح ہے وہ صریح نہیں۔

اس مسئلے میں ان کے پاس ایک محمد بن اسحاق والی کوئی روایت ہے جو ایسی ضعیف روایت ہے کہ اگر اسے ضعیف نہ مانا جائے تو پھر دنیا کی کوئی حدیث ضعیف ثابت نہ ہو سکے تفصیل ”حرام کاری سے بچئے“ کتاب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ اور دوسری  صحیح مسلم کی حدیث  ہے جس سے انہیں دھوکہ لگا ہے جسے انہوں نے سمجھا نہیں اور انکھیں بند کر لیں  مگر اس میں بھی اکھٹی طلاق  کا ذکر نہیں اور اگر اس کا معنی اپنی مرضی سے کرنا ہو تو اس حدیث کے مطابق تو الگ الگ مجالس کی طلاق بھی ایک قرار دی جاسکتی ہے۔
لیکن حقیقت میں وہ  حدیث غیر مدخولہ کیلئے ثابت ہے جیسا کہ  خود محدث امام نسائیؒ نے بھی اس پر غیر مدخولہ کا باب باندھا ہے۔
بَابُ: طَلَاقِ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ بِالزَّوْجَةِ
(سنن النسائي ج6 ص145 مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب)
اور یہ ثابت بھی غیر مدخولہ کیلئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ مشہور غیرمقلد زبیر علی زئی صاحب اور ان کے کئی شاگردوں  نے بھی اس مسئلے میں  فرقہ اہل حدیث کو چھوڑ رکھا ہے۔
(معلوم ہوا امام نسائیؒ بھی اہلحدیث  نہیں تھے اگر تھے تو آج کے یہ غیرمقلدین اہل حدیث نہیں)
یاد رہے یہ مسئلہ غیر اجتہادی ہے۔

مسئلے کی وضاحت
   ہم سب کا اس پر اتفاق ہے بیوی کو ہمبستری سے پہلے  تین طلاق دینے کی ضرورت نہیں ایک مرتبہ اگر کہا جائے کہ تجھے طلاق تو وہ نکاح سے نکل جاتی ہے۔ مگر مرد پر ہمیشہ کیلئے حرام نہیں ہوتی دوبارہ اسی وقت اس مرد سے نکاح کر سکتی ہے اس لئے کہ حرام تین طلاق واقع ہونے کی صورت میں ہوتی ہے  ایک میں نہیں۔

اور اگر ہمبستری سے پہلے بیوی کو یوں کہا جائے کہ ”تجھے طلاق ، تجھے طلاق، تجھے طلاق“ تو چونکہ پہلے مرتبہ کہہ دینے نے  ہی نکاح سے عورت کو نکال دیا ہے اسلئے باقی دو مرتبہ کہنا فضول جاتا ہے۔ اِسے کہا  گیا کہ اس زمانے میں اگر کوئی یوں طلاق دیتا تو ایک طلاق واقع ہو جاتی۔ یہ مسئلہ کبھی نہیں بدلہ گیا حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے دور میں  بھی ایسا ہی رہا    اب بھی ایسا ہی ہے۔

اب   ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوئی اپنی  غیر مدخولہ بیوی کو ایک ساتھ ہی کہہ دے کہ  ”تجھے تین طلاق“ تو پھر کتنی طلاق واقع ہوں گی تو اس صورت میں اسے ایک طلاق نہیں ہو سکتی پوری تین طلاق واقع ہو جائیں گی اور وہ عورت نکاح سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اس مرد پر حرام بھی ہو جائے گی اور دوبارہ نکاح بھی نہیں کر سکتی۔

اب یہ جو تیسرے نمبر کی صورت ہے یہ رسول اللہ اور حضرت ابو بکرؓ  کے دور میں نہ ہونے کے برابر تھی اور غیر مدخولہ کو پہلے یا دوسرے طریقے پر طلاق دی جاتی تھی لیکن جب حضرت عمرؓ کے دور میں جیسے جیسے   اسلام  دور دور تک پھیلتا گیا نئے نئے مسئلےپیدا ہوتے گئے لوگوں کی کثر ت صحیح مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سےاپنی غیر مدخولہ بیوی کو بھی ایک لفظ سے اکھٹی تین طلاق دے کر جدا کرنے لگی  تو اب طلاقیں تو تین ہی واقع ہو رہی تھیں تو حضرت عمرؓ نے بھی اسی کو نافظ کر دیا  اور لوگوں کو آگاہ کر دیا  کہ غیر مدخولہ بھی اکھٹی تین طلاق کے بعد حرام ہو جاتی ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ غیرمدخولہ کو  جس طرح الگ الگ کرکے تین طلاق دینا ایک شمار ہوتا ہے ایسے ہی اکھٹی  تین دینا بھی ایک شمار ہو گا۔

مثال کے طور پر
متعہ پر رسول اللہ کے دور میں ہی پابندی لگ گئی تھی مگر بعض کو یہ مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہیں بھی حضرت عمرؓ نے ایسے ہی آگاہ کیا

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُا کُنَّا نَسْتَمْتِعُ بِالْقَبْضَةِ مِنْ التَّمْرِ وَالدَّقِيقِ الْأَيَّامَ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ حَتَّی نَهَی عَنْهُ عُمَرُ فِي شَأْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ
ترجمہ
 حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی آٹے کے عوض مقررہ دنوں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے زمانہ میں متعہ کرلیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) نے عمرو بن حریث کے واقعہ کی وجہ سے متعہ سے منع فرمایا دیا۔
( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 923  )

غیرمقلدین صحیح مسلم سے جو حدیث پیش کرتے ہیں

و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ أَبَا الصَّهْبَائِ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ هَاتِ مِنْ هَنَاتِکَ أَلَمْ يَکُنْ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ وَاحِدَةً فَقَالَ قَدْ کَانَ ذَلِکَ فَلَمَّا کَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ

اسحاق بن ابراہیم، سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ایوب سختیانی، ابراہیم بن میسرہ، حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ ابوالصہباء نے ابن عباس (رض) سے کہا اپنے دل سے یاد کر کے بتاؤ کیا تین طلاق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ اور ابوبکر (رض) کے دور میں ایک نہ ہوتی تھیں؟ انہوں نے کہا ایسے ہی تھا جب زمانہ عمر میں لوگوں نے پے درپے طلاقیں دینا شروع کردیں تو آپ نے ان پر تین طلاق نافذ ہونے کا حکم دے دیا۔
( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1182 )

دیکھئے اس حدیث میں ایک مجلس یا اکھٹی کی کوئی قید نہیں اگر مرضی کا مطلب لینا ہے تو پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ الگ الگ مجالس  کی دین  طلاق بھی ایک ہوتی تھیں اس زمانے میں۔

یہی حدیث مکمل سنن ابی داؤد میں موجود ہے جس میں تصریح ہے کہ یہ حدیث غیر مدخولہ کیلئے  یے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ أَبُو الصَّهْبَائِ کَانَ کَثِيرَ السُّؤَالِ لِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَی کَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فَلَمَّا رَأَی النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا قَالَ أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ
ترجمہ
محمد بن عبدالملک بن مروان، ابونعمان، حماد بن زید، ایوب، حضرت طاؤس (رض) سے روایت ہے کہ ابوالصہباء نامی ایک شخص حضرت عباس (رض) سے کثرت سے مسائل پوچھا کرتا تھا ایک دن اس نے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ خلافت میں اور حضرت عمر (رض) کے ابتدائی عہد خلافت میں جب کوئی شخص دخول سے قبل عورت کو تین طلاقیں دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار ہوتی تھی حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا ہاں مجھے معلوم ہے جب کوئی شخص دخول (جماع) سے قبل عورت کو طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی عہد رسالت میں عہد صدیقی میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں لیکن جب عمر فاروق نے یہ دیکھا کہ لوگ کثرت سے تین طلاقیں دینے لگے ہیں تو انہوں نے فرمایا میں ان تینوں کو ان پر نافذ کروں گا
(سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 435 اسنادہ : صحیح)

یہ حدیث بلکل صحیح ہے لیکن غیرمقلدین  کا اس پر احمقانہ اعتراض ملاحظہ کیجئے 
کہتے ہیں ابو داؤدؒ کی اس حدیث کی سند میں ”عن ایوب“ کے بعد ”غیر واحد“ ہے جو کہ مجھول ہے۔ لہذا حدیث ضعیف ہے۔

الجواب :
غیر واحد کا مطلب ہے ایک سے زائد لوگ اسے بیان کرتے ہیں۔

 امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں
غیر واحد سے یہاں ابراہیم بن میسرۃؒ اور ان کے ساتھی مراد ہیں۔

 أَخْرَجَهَا أَبُو دَاوُدَ لَكِنْ لَمْ يُسَمِّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ مَيْسَرَةَ وَقَالَ بَدَلَهُ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ وَلَفْظُ الْمَتْنِ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً الْحَدِيثَ
(الكتاب: فتح الباري شرح صحيح البخاري ج9 ص 363 دار المعرفة - بيروت)

اور ابراہیم بن میسرۃؒ  بالاتفاق ثقہ راوی ہیں۔

امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں ثقہ ہیں، امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں ثقہ امام نسائی فرماتے ہیں  ثقہ ہیں، امام احمد بن صالح فرماتے ہیں ثقہ ، امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں  ثبت حافظ ، محمد بن سعدؒ فرماتے ہیں ثقہ ، یحیی بن معینؒ فرماتے ہیں ثقہ۔
(تهذيب التهذيب ج1 ص 171 الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية)

ایسا نہیں کہ امام ابراہیم بن میسرۃؒ   کسی  اور مجھول سے روایت کرتے ہیں بلکہ امام ابراہیم بن میسرۃؒ بیان کرتے ہیں اسی طرح ان کی جگہ ان کے ساتھی بھی یہی کہتے ہیں جو  امام ابراہیمؒ نے کہا اس لئے امام ابو داؤدؒ نے غیر واحد کہا صرف امام ابراہیم روایت کرتے تب  بھی کافی تھا جیسا صحیح مسلم کی روایت میں عن ایوب عن ابراہیم کے بعد طاؤس ہے جبکہ غیرمقلدین  نے ضعیف ضعیف کے نعرے لگا کر انصاف کو ذبح کرتے ہوئے حدیث کا ہی انکار کر دیا۔ 

غیرمقلدین اگر سنن ابی داؤد کی یہ روایت نہ بھی مانیں تب بھی وہ صحیح مسلم کی روایت سے اپنا موقف قیامت تک نہیں ثابت کر سکتے ان شاء اللہ کیونکہ مسلم کی روایت میں اکھٹی طلاق یا ایک مجلس کی طلاق کی طلاق کا کوئی ذکر نہیں اس سے تو معلوم ہی نہیں  ہوتا کہ اِس سے الگ الگ مجالس کی طلاق مراد ہے، اکھٹی (مدخولہ اور غیرمدخولہ) کی طلاق مراد ہے یا صرف غیر مدخولہ کی مراد ہے اور انصاف کی روشنی میں دلائل سب اسی طرح اشارہ کرتے ہیں کہ اس سے غیر مدخولہ مراد ہے۔ لہذا انہیں اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے یہ دکھانا بہت ضروری ہے کہ کون سی طلاق مراد  ہے  ورنہ اس روایت کے مطابق تو کوئی غیرمقلد جو اپنی بیوی کو ایک دن میں تین الگ الگ مجلسوں میں طلاق دے دے اور  بیوی چھوڑنے کا دل نہ کرے تو صحیح مسلم کی حدیث پیش کرے کہ رسول اللہ ، حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں تین طلاق ایک ہوتی تھیں لہذا تین نہیں ایک طلاق واقع ہوئی۔

غیرمقلدین کے ہاں غیر مدخولہ کسی بھی طریقے پر حرام نہیں ہوسکتی
لیکن غیر مدخولہ بھی حرام ہو سکتی ہے اور اس کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ اسے یوں طلاق دی جائے ”تجھے تین طلاق“اس طریقے پر اس پر تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔ اگر ”طلاق ، طلاق ، طلاق“ کہہ کر طلاق دی جائے تو ظاہر سی بات ہے پہلی مرتبہ ”طلاق“ کہنے پر ہی وہ نکاح سے نکل جائے گی اور باقی دو مرتبہ طلاق کہنا فضول جائے  گا اسلئے اس طرح اس پر تین طلاق واقع نہیں ہوں گی۔

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، نا أَبُو الْعَبَّاسِ، أنا الرَّبِيعُ، أنا الشَّافِعِيُّ، أنا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللهِ بْنَ الْأَشَجِّ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ قَالَ: فَجَاءَهُمَا مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَمَاذَا تَرَيَانِ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: " إِنَّ هَذَا لَأَمْرٌ مَا لَنَا فِيهِ قَوْلٌ اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَسَلْهُمَا ثُمَّ ائْتِنَا فَأَخْبِرْنَا فَذَهَبَ فَسَأَلَهُمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: أَفْتِهِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقَدْ جَاءَتْكَ مُعْضِلَةٌ , فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ " الْوَاحِدَةُ تُبِينُهَا وَالثَّلَاثُ تُحَرِّمُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِثْلَ ذَلِكَ
ترجمه:۔
حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاریؒ فرماتے ہیں کہ  میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور عاصم بن عمروؒ کی مجلس یں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیرؒ تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی (جس سے ابھی تک ہمبستری نہیں کی گئی) کو تین طلاقیں دے دی ہیں اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عبداللہؓ بن زبیرؓ نے فرمایا جا کر عبداللہؓ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے پوچھو میں ابھی ان کو حضرت عائشہؓ کے پاس چھوڑ کے آیا ہوں مگر جب ان سے سوال کر چکو تو واپسی پر ہمیں بھی مسئلہ سے آگاہ کرنا جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا  اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کر بتانا کیونکہ مسئلہ پیچیدہ ہے حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کیلئے کافی تھی اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہو گئی ہے،” حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ“(الایة) ”حتی کہ  کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے “۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی  یہی فتویٰ دیا۔
(السنن الكبري للبيهقي جلد7 ص549 ؛صحیح)

غور کیجئے یہاں ابن عباسؓ نے بھی ایسا ہی کہا اور ابن عباسؓ وہی صحابی ہیں جن سے غیرمقلدین مسلم کی حدیث لیتے ہیں اگر واقعی مسلم کی  حدیث کا وہ مطلب ہوتا جو غیرمقلدین کرتے ہیں تو ابن عباسؓ یہاں کیوں نہ بیان کرتے؟ 
اور یہ بھی غور کیجئے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے   جو اس پر شرط لگائی ہے وہ قرآن پاک سے نکال کر لگائی ہے  کہ وہ تب تک تمہارے لئے حلال نہیں جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے۔ اگر اکھٹی تین طلاق کا یہ فتویٰ حضرت عمرؓ کو ہوتا تو پھر قرآن کی آیت کس لئے پیش کرتے؟ معلوم ہوا یہ حکم اللہ کا ہے کسی کی ذاتی رائے نہیں۔
اور ایک بات بھی معلوم ہو گئی یہ صحابہ بھی اہل حدیث نہیں تھے اگر تھے تو پھر آج  کہ یہ غیرمقلدین اہل حدیث نہ ہوئے۔
نا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , نا أَبُو الْأَزْهَرِ , نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أنا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ أَلْفًا , فَقَالَ: «يَكْفِيكَ مِنْ ذَلِكَ ثَلَاثٌ وَتَدَعُ تَسْعَمِائَةً وَسَبْعًا وَتِسْعِينَ»
ترجمہ:
سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دیں تو ابن عباسؓ نے فرمایا  تین اس کیلئے کافی ہیں باقی نو سو ستانوے  چھوڑ دے۔
(سنن الدارقطني ج 5 ص 24  : صحیح)

یہ روایت بلکل صحیح ہے۔ شمس الحق عظیم آبادی صاحب جنہیں فرقہ اہلحدیث اپنا  بہت بڑا محدث سمجھتی ہے انہوں نے بھی اس کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔ دیکھئے 
(سنن الدارقطنی ج 5 ص 24 تعلیق شمس الحق)

اب ہمیں کس طرف جانا ہے صحابہ کرامؓ کے واضح مسئلے کی طرف جو ان شاء اللہ انہیں اور ان کے ماننے والوں کو ضرور جنت میں لے جائے گا  یا پھر  غیرمقلدین کے  مضطرب مسئلے کی طرف؟

مسئلہ بس اتنا سا تھا لیکن فرقہ اہل حدیث کے احمق علماء کو سمجھ نہیں آیا تو انہوں نے کیا کیا گل کھلائے دیکھئے۔
فرقہ اہلحدیث کے مولوی عبد المتین میمن طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں لکھتا ہیں:
”سنت محمدی کو چھوڑ کر سنت عمرؓ کی طرف لوٹیں گے تو کفر ہے“۔
(حدیث خیر و شر ص 110)
العیاذ باللہ
پہلے عمرؓ کو نبی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا  پھر ان کی طرف رجوع کرنے والے کو کافر قرار دیا اس میں وہ تمام صحابہ کرام ؓ آگے جنہوں نے بقول ان کے  حضرت عمرؓ کی پیروی کی لہذا اس احمق مولوی  کے مطابق حضرت عمرؓ اور ان کے پیروا سب کافر ہوئے۔  نعوذ باللہ

(آیت نمبر 16)
 فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
(البقرۃ 230)
ترجمہ:
 پھر اگر وہ اسے طلاق دیدے تو اس کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔

اس آیت سے پہلے ”اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ “ کا ذکر آیا تھا یعنی طلاق دو مرتبہ ہے اسکے بعد یہ آیت  ہے کہ ” پھر اگر اسے طلاق دیدے (یعنی تیسری طلاق) تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں جب تک کہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے“۔

فرقہ اہلحدیث اس آیت کو مسلکی مجبوری کے تحت مخصوص کرتا ہے جب کہ اس کو  مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں لہذا اس آیت کو مخصوص کرنا بلکل جائز نہیں اس آیت سے واضح معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی شخص دوسری طلاق کے  فوراً بعد تیسری طلاق دیدے یا دوسری طلاق کے بعد وقفے کے ساتھ تیسری  طلاق دیدے تو وہ عورت اس آدمی کیلئے حلال نہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ وَحُجَّةُ الْجُمْهُورِ فِي اللُّزُومِ مِنْ حَيْثُ النَّظَرُ ظَاهِرَةٌ جِدًّا وَهُوَ أَنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لِلْمُطَلِّقِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ وَلَا فَرْقَ بَيْنَ مَجْمُوعِهَا وَمُفَرَّقِهَا لُغَةً وَشَرْعًا
ترجمہ:
قرطبیؒ نے کہا جہمور کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں وہ اس آدمی کیلئے حلال نہیں جب تک  کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے اور لغتۃ و شرعاً اس میں  کوئی فرق نہیں کہ وہ تین طلاقیں اکھٹی ہوں یا متفرق۔
(فتح الباري لابن حجر ج 9 ص 365 الناشر: دار المعرفة - بيروت)

صحابہ کرامؓ کا قرآن پاک سے استدلال
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت جو ہم نے اوپر بھی پیش کی
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، نا أَبُو الْعَبَّاسِ، أنا الرَّبِيعُ، أنا الشَّافِعِيُّ، أنا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللهِ بْنَ الْأَشَجِّ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ قَالَ: فَجَاءَهُمَا مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا فَمَاذَا تَرَيَانِ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: " إِنَّ هَذَا لَأَمْرٌ مَا لَنَا فِيهِ قَوْلٌ اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَسَلْهُمَا ثُمَّ ائْتِنَا فَأَخْبِرْنَا فَذَهَبَ فَسَأَلَهُمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: أَفْتِهِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقَدْ جَاءَتْكَ مُعْضِلَةٌ , فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ " الْوَاحِدَةُ تُبِينُهَا وَالثَّلَاثُ تُحَرِّمُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِثْلَ ذَلِكَ
ترجمه:۔
حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاریؒ فرماتے ہیں کہ  میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور عاصم بن عمروؒ کی مجلس یں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیرؒ تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی (جس سے ابھی تک ہمبستری نہیں کی گئی) کو تین طلاقیں دے دی ہیں اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عبداللہؓ بن زبیرؓ نے فرمایا جا کر عبداللہؓ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے پوچھو میں ابھی ان کو حضرت عائشہؓ کے پاس چھوڑ کے آیا ہوں مگر جب ان سے سوال کر چکو تو واپسی پر ہمیں بھی مسئلہ سے آگاہ کرنا جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا  اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کر بتانا کیونکہ مسئلہ پیچیدہ ہے حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کیلئے کافی تھی اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہو گئی ہے،” حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ“(الایة) ”حتی کہ  کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے “۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی  یہی فتویٰ دیا۔
(السنن الكبري للبيهقي جلد7 ص549 ؛صحیح)

غیر مدخولہ عورت غیرمقلدین کے ہاں کسی طریقے پر بھی حرام نہیں ہو سکتی لیکن غیرمدخولہ کے حرام ہونے کا بھی طریقہ ہے وہ یہ کہ اسے ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دے دی جائیں، یعنی کہا جائے تجھے تین طلاق اگر الگ الگ کہہ کر تین طلاق دی جائیں یعنی طلاق طلاق طلاق کہہ کر تو پہلی طلاق سے ہی وہ عورت نکاح سے نکل جائے گی دوسری دو  بیکار جائیں گی کیونکہ غیر مدخولہ کو  علیحدہ کرنے کیلئے ایک طلاق کافی ہوتی ہے اس سے وہ نکاح سے نکل جاتی ہے۔

یہاں حضرت ابو ہریرہؓ  فرما رہے ہیں کہ وہ حرام ہو گئی ظاہر سی بات ہے اب حرام ہونے کی ایک ہی صورت ہے۔ اکھٹی ایک لفظ کے ساتھ

 غور کیجئے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے   جو اس پر شرط لگائی ہے وہ قرآن پاک سے نکال کر لگائی ہے  کہ وہ تب تک تمہارے لئے حلال نہیں جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے۔ معلوم ہوا یہ حکم اللہ کا ہے۔
اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم اللہ کے حکم کو تسلیم کرتے ہیں۔
اور ایک بات بھی معلوم ہو گئی یہ صحابہ بھی اہل حدیث نہیں تھے اگر تھے تو پھر آج  کا یہ فرقہ اہل حدیث قطعاً نہیں۔

دوسرا یہ کہ فرقہ اہل حدیث اس آیت کا مذاق بھی اڑاتے ہیں تین طلاق دینے کے بعد غیرمقلد آدمی اپنی بیوی سے رجوع کر لیتا ہے اور پھر ساری عمر زنا کرتا رہتا ہے اور جو یہ کہے کہ وہ عورت تب تک تمہارے لئے حلال نہیں جب تک کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے تو اس کا مذاق اڑاتا ہے  یہ حلالہ ہے یہ فلاں ہے اگرچے خود زنا میں مبتلا ہوتا ہے۔

تیسرا یہ کہ بار بار طلاق دینا اور بار بار رجوع کرلینے کا بھی فتویٰ علماء فرقہ  اہل حدیث نے دے رکھا ہے۔

سائل نے  ایک غیرمقلد مولوی عبد اللہ ویلوری سے سوال پوچھا۔
سوال: زید نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ اس کے بعد 10 یو زید نے رجوع کر لیا پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ تنازع ہونے کی صورت میں اس نے طلاق دے دی۔ آٹھ یوم کے بعد پھر رجوع کر لیا۔ اس نے چار پانچ مرتبہ ایسا ہی کیا۔ طلاق دے دی اور رجوع کر لیا زید کو اس مسئلہ کے بارے میں کوئی علم نہ تھا اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟؟ اب پھر دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں  فتویٰ صادر فرمائیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب:
صورت مسئلولہ میں رجوع کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ دو گواہوں کے ر برو رجوع کرکے بیوی کو آباد کر سکتا ہے
(فتاویٰ جات ص 482)

اس احمق مولوی نے تین طلاق کی حد  ہی ختم کر دی جو کہ شریعت نے ہمیں دی تھی۔
اب کوئی غیرمقلد  صبح شام بیوی کو طلاق دیتا پھرے اور رجوع کرے بیوی اس کے لئے حلال ہے۔


مسئلہ طلاق ثلاثہ وکٹورین غیرمقلدین کے عجیب و غیریب قیاس

کہتے ہیں اکھٹی تین طلاق دینا حرام ہے لہذا واقع نہیں ہو گی۔
اگر اکھٹی تین طلاق حرام ہونے کی وجہ سے واقع نہیں ہوں گی تو اکھٹی تین طلاق دینے سے یہ ایک کیسے واقع ہوجاتی ہے دوسرا حالت حیض میں ایک طلاق دینا بھی حرام ہے لیکن غیرمقلد بھی مانتے ہیں کہ یہ واقع ہو جائے گی۔ اب یہ حرام ہے اور واقع مان رھے ہو۔
ایک دن میں تین الگ الگ مجلسوں میں  بھی طلاق دینا اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا کہ اکھٹی تین طلاق دینا لیکن  پھر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔، غیرمقلدین بھی مانتے ہیں کہ طلاق واقع ہو گئی؟
اسی طرح ایک بڑ اور بھی مارتے ہیں کہتے ہیں نماز غلط وقت پر پڑھنا حرام ہے لہذا یہ ادا بھی نہیں ہوتی، لہذا طلاق بھی نہیں ہوئی وہی جواب حالت حیض بھی غلط وقت ہے اس میں دی گئی ایک طلاق کو کیسے واقع مان لیتے ہو؟؟؟
جو غلط قیاس یہ لوگ کرتے ہو اس سے ان کا دوسرا مسئلہ خود ہی رد ہوتا جاتا ہے۔
قران حدیث قران حدیث کے زبانی دعوے کرنے والوں کی یہ حالت بھی  ہوتی جب ان کے پاس نہ قرآن ہوتا ہے دلیل کیلئے نہ حدیث پھر یہ  قرآن حدیث کے خلاف قیاسات کرتے ہیں۔

اب اس سب کے بعد کون کہے کہ یہ جدید گمراہ ٹولہ قرآن حدیث والا ہے؟

اللہ پاک سمجھ کی توفیق دے آمین
(آیت نمبر 17)

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
ترجمہ:
”اے نبی جب تم طلاق دو عورتوں کو تو انکو طلاق دو اُنکی عدت پر اور گنتے رہو ان کی عدت
اور ڈرو اللہ سے جو رب ہے تمہارا مت نکالو اُنکو اُنکے گھروں سے اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بے حیائی
اور یہ حدیں ہیں باندھی ہوئی اللہ کی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدوں سے تو اُس نے برا کیا اپنا اور اُسکو  کیا خبر تھی شاید اللہ پیدا کر دیتا اُس طلاق کے بعد  کوئی صورت “
(الطلاق 1)

قرآن کریم میں اجملاً  اور حدیث میں تفصیلاً یہ بتایا گیا ہے کہ عورتوں کو طلاق دینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے دوسرے میں دوسری طلاق دے ، تیسرے طہر میں تیسری
اور فرمایا
وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
”جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا“۔

حدود اللہ سے تجاوز تب ہو گا جب  اکھٹی تین طلاق دیدے اور تینوں واقع ہو جائیں اگر اکھٹی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو تو یہ نہ حدود اللہ سے تجاوز ہو سکتا ہے نہ اپنے نفس پر ظلم۔ حدود اللہ سے تجاوز اور اپنے نفس پر ظلم اسی صورت ہوتا ہے جب کوئی شخص اکھٹی تین طلاقیں دیدے اور پھر رجوع نہ کر سکے۔ پھر کہے فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔

آیت کے آخری حصے پر غور کیا جائے تو  اس سے بھی واضح طور پر یہی ثابت ہوتا ہے۔

لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
”ممکن تھا کہ اللہ پیدا کر دیتا اس طلاق کے بعد  کوئی صورت“۔

اگر تین طہروں میں الگ الگ طلاق دینے کا ارادہ ہو تو ممکن ہے کہ پہلی یا دوسری طلاق کے بعد اس طلاق دینے والے کے دل  کو اللہ نرم فرما دیں اور اسی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور اس وقت اس کے  پاس رجوع کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن اگر کوئی اکھٹی تین طلاق دیدے   تو پھر اسکے پاس کوئی گنجائش نہیں۔

سورۃ طلاق کی اس آیت کے بعد  اگلی آیت میں آتا ہے کہ

(آیت نمبر 18)
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا
(الطلاق2 )
ترجمہ
اور جو کوئی (طلاق دینے میں) اللہ سے ڈرتا ہے (یعنی شرعی طریقے کے مطابق طلاق دیتا ہے) تو اللہ تعالٰی اس  کیلئے راستہ نکال دیتا ہے۔

یعنی اگر کوئی آدمی اللہ تعالٰی سے ڈرے اور شرعی طریقے کے مطابق تین طہروں میں متفرق طور پر طلاق دے رو اس کیلئے اللہ نے پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش رکھی ہے۔ ممکن ہے کہ بندہ پہلی طلاق کے بعد سمجھ لے کہ اس نے غلطی کی ہے طلاق نہیں دینی تھی یا پھر دوسری طلاق کے بعد سمجھ لے تو  اللہ نے اس کیلئے رجوع کی گنجائش رکھی ہے وہ دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

چونکہ اس آیت میں رجوع والی گنجائش کو اللہ تعالٰی سے ڈرنے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالٰی نے اس کیلئے گنجائش رکھی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی اللہ سے نہ ڈرے اور خلاف شرع اکھٹی تین طلاق دیدے تو اس کیلئے رجوع کی کوئی گنجائش نہیں۔

اگر اللہ سے ڈرنے اور نہ ڈرنے دونوں صورتوں میں رجوع کر سکتا ہوتا تو اللہ تعالٰی سے ڈرنے کی شرط اور گنجائش والی بات بے معنی اور بے فائدہ جاتی۔ (نعوذ باللہ من ذلک) لیکن ہم اللہ کے  کلام کی ایک آیت بھی بے معنی اور بے فائدہ نہیں سمجھتے جبکہ غیرمقلدین اس کے برعکس ہیں۔

وَأَمَّا الْأَثَرُ الَّذِي أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ، نا أَبُو دَاوُدَ، نا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، نا إِسْمَاعِيلُ، أنا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَإِنَّ اللهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} [الطلاق: 2] وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللهَ فَلَا أَجِدُ لَكَ مَخْرَجًا عَصَيْتَ رَبَّكَ وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ
ترجمہ:
مجاہدؒ کہتے ہیں میں حضرت ابن عباسؓ کے پاس تھا آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں حضرت ابن عباسؓ خاموش رہے حتی کہ  ہم نے یہ گمان کیا شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر ابن عباسؓ نے فرمایا تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو اے ابن عباس ! اے ابن عباس !  اور اللہ عزوجل نے فرمایا  وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (الایة) جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور تو اللہ سے نہیں ڈرا پس میں  تیرے لئے  کوئی راستہ نہیں پاتا تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی۔
( السنن الكبرى للبيهقي ج 7 ص 542 : صحیح)

ظاہر سی بات ہے یہاں اکھٹی تین طلاق ہی دی گئیں تھی تب ہی تو ابن عباسؓ نے اسے ڈانٹا  اور قرآن کی آیت بطور دلیل دی اور یہ وہی ابن عباسؓ ہیں جن سے غیرمقلد مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں۔

ایک اور روایت ہے کہ
- نا أَبُو بَكْرٍ (النيسابوري) , نا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ , نا حَجَّاجٌ , نا شُعْبَةُ , عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ , وَابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ مِائَةً , قَالَ: «عَصَيْتَ رَبَّكَ وَفَارَقْتَ امْرَأَتَكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَيُجْعَلْ لَكَ مَخْرَجًا»
ترجمہ:
مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ سے ایک آدمی کا پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدی ہوں تو فرمایا تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گی تَتَّقِ اللَّهَ فَيُجْعَلْ لَكَ مَخْرَجًا کیونکہ تو اللہ سے نہیں ڈرا  پس تیرے  لئے کوئی گنجائش نہیں۔
(سنن الدارقطني ج 5 ص 24  : صحیح)
یہ روایت بلکل صحیح ہے اس کے تمام راوی ثقہ  ہیں۔

اس آدمی نے سو طلاقیں ایک ہی مجلس میں دیں تھیں یا سو طلاقیں سو الگ الگ مجلسوں مین  دے کر آیا تھا ؟ یقیناً ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو ”تجھے سو طلاقیں“ کہہ کر آیا تھا اور ابن عباسؓ جو قرآن  کی آیت اسے یاد دلا رہے ہیں کہ تمہارے لئے کوئی گنجائشن  نہیں، معلوم ہوا ہم ابن عباسؓ  جیسے جلیل القدر صحابی اور مفسر قرآن کے طریقہ پر قرآن پاک کو سمجھنے والے ہیں اور یہ ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے الحمدللہ۔
اگر آج کسی غیرمقلد وکٹورین سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے تو کتنی ہوں تو وہ کہے کہ ایک ہو گی دوبارہ رجوع کرلو۔ اسلئے ہم اس فرقے کو جدید فرقہ کہتے ہیں اور ثابت بھی ہو رہا ہے کہ یہ  ماضی قریب کی پیداوار ہے صحابہ سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔ اس زمانے میں یہ کہاں تھے؟
دعا ہے اللہ سے اللہ پاک سیدھا راستہ  دکھائے بھی اور اس  پر چلنے کی بھی توفیق دے آمین