جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Thursday 24 July 2014

Masla 3 TALAQ GherMuqalideen Ky Dalil Ky Jawabat
 مسئلہ تین طلاق غیرمقلدین کے دلائل کے جوابات






مسئلہ طلاق ثلاثہ مسند احمد اور ابو داؤد دو روایت حدیث رکانہ کا جائزہ اور جواب اور غیرمقلدین کو چیلنج

1 دلیل:۔
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت ! میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کر لو۔ (((ابو داؤد جلد ۱ ص۲۹۷ و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)))

اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاقوں کے بعد بھی رجوع ثابت ہئ اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت واقع نہ ہوں ورنہ رجوع کا کیا معنٰی۔
الجواب:۔
اس روایت سے تین طلاقوں کے عدم وقوع پر استدلال صحیح نہیں ہے۔
اولاً۔ اس لئے کہ اس کی سند میں بعض بنی ابی رافع موجود ہیں جو مجہول ہے۔
٭چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ رکانہ ؓ کی وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں وہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں مجہول راوی موجود ہیں۔ (((شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)))

٭اور علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ (((محلی جلد ۱۰ص۱۶۸)))

لہذا اس روایت کی سند ایسی نہیں کہ ا س سے استدلال کیا جا سکے اور خصوصاً حلال و حرام کے مسئلہ میں اور وہ بھی قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں۔ اور یہ مسئلہ بھت ہی نازک ہے جو کہ ایک طرف تو ساری عمر بدکاری کرنے کا جرم ہے تو دوسری طرح اس بدکاری کو حلال سمجھنے کا جرم جو کہ کفر ہے۔
٭حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہانپویؒ (المتوفٰی ۱۳۴۶ھ) فرماتے ہیں کہ مستدرک میں بعض بنی ابی رافع کو تعیین بھی آئی ہے کہ وہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع تھے۔ (((بذل المجہور جلد ۳ص۶۹) ))لیکن یہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے۔ علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ اس کو منکر الحدیث اور امام ابن معین لیس بشیؒ اور امام ابو حاتکم ؒ اسکو ضعیف الحدیث اور منکرالحدیث جداً کہتے ہیں۔ امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ محدثین انکی تضعیف کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے۔ (((میزان ص۹۷ج۳، تہذیب التہذیب )))

٭محدث ابن عدیؒ انکو کوفہ کے ”شیعہ“ میں بیان کرتے ہیں۔ (((تہذیب التہذیب ص۳۲۱ ج۹)))

جن کا مذھب یہ ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کرتے ہیں، قرآن سنت صحابہ تابعین کو چھوڑ کر) اور ایک اور روایت میں بھی شیعہ راویوں نے گڑ بڑ کی ہے چنانچہ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ جن راویوں نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ نے بجالت حیض اپنی بیوی کو تین طلاقی دی تھیں وہ سب کے سب شیعہ ہیں صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی طلاق دی تھی۔ (((سنن دارقطنی جلد ۲ ص۴۲۷)))

٭اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں میں منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت کرنا جائز نہیں (((میزان الاعتدال جلد ۱ ص۵ طبقات سبکی جلد ۳ص۹ و تدریب الراوی ص۲۳۵))) گویا امام بخاری کی تحقیق کے رو سے اس روایت کا بیان کرنا ہی جائز نہیں ہے۔

اور ثانیاً:۔
حضرت رکانہؓ کی صحیح روایت میں بجائے تین طلاق کے بتہ کا لفظ ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ:۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَأَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ قَالَ وَاحِدَةً قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ قَالَ هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ ۔۔۔۔ الخ
سلیمان بن داؤد، جریر بن حازم، زبیر بن سعید، عبد اللہ، علی بن یزید سے روایت ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تیری نیت کیا تھی؟ بولا ایک طلاق کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اللہ کی قسم کھا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں واللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی (یعنی ایک ہی طلاق واقع ہو گی) ابو داؤد ؒ فرماتے ہیںحضرت رکانہ کی یہ روایت (جس میں بتہ کا لفظ موجود ہے) ابن جریجؒ کی رویت سے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ بتہ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں اور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں“۔ (((ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱ وکذا فی سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۲۳۹)))

بتہ یعنی ایک ایسا جملہ جس سے نیت ایک طلاق کی بھی ہو سکتی ہے اور تین طلاق کی بھی اس لئے رسول اللہﷺ ان سے قسم لے رہے ہیں، تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا شخص سمجھ سکتا ہے کہ قسم کیوں لے رہے ہیں ورنہ ایک ہی طلاق ہونی تھی تو کہہ دیتے ایک کی نیت ہے یعنی ایک دی ہے تب بھی رجوع کر لو اور اگر تین دیں ہیں تب بھی رجوع کر لو لیکن رسول اللہﷺ کو اس بات کا باخوبی علم تھا کہ تین طلاق کے بعد بیوی حرام ہو جاتی ہے ۔ ایسے لفظ سے اگر ایک کی نیت کی ہے تو ایک واقع اور تین کی نیت کی ہے تو تین واقع ہو جائیں گی۔ یعنی هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی۔
یعنی کہ یہاں سے بھی اکھٹی تین طلاق کے واقع ہو جانے کا قوی ثبوت مل جاتا ہے لھذا غیرمقلد رافضی ہے پکا۔
اس روایت کو امام ابو داؤد نے وہیں صحیح کہا ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ(((ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱)))

٭ قاضی شوکانی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
واثبت ماروی فی تصتہ رکانہؓ انہ طلقھا البتہ لاثلاثا
حضرت رکانہ ؓ کے واقعہ میں ثابت اور صحیح روایت یہ ہےکہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین“ (((نیل الاوطار جلد۶ ص۲۴۶)))

الغرض اس روایت سے تین طلاقوں کا اثبات اور پھر تین کو ایک قرار دینا اور پھر خاوند کو رجوع کا حق دینا ظلم عظیم ہے قرآن کا سنت کا امت مسلمہ کا مذاق ہے۔ اور حلال و حرام کے بنیادی مسئلہ میں ایسی ضعیف و کمزور اور مجمل روایتوں پر اعتماد بھی کب جائز ہے؟ اور پھر وہ بھی صحیح اور صریح روایات اور اجماع امت کے مقابلہ میں۔
غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت کے راوی ابن عباسؓ ہیں،
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)))

اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))

٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷ کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۳)))

اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔
یہاں پر بھی بالکل واضح ہے کہ اس شخص نے ااکھٹی طلاقیں دیں اور وہ بھی ۱۰۰ تین اپنی جگہ واقع ہو گئیں باقی گناہ کبیرہ۔

ایک نظر
٭راوی پر زبردست جرحین۔
٭ راوی کا خود شیعہ ہونا ۔ اور یہ مذھب شیعوں کا ہے۔(تین ایک )
٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔
٭محدثین کرام کا اس پر کلام کرنا ۔
٭تین طلاقوں کی جگہ بتہ کے ہونے کا ثبوت۔
٭ امام بخاریؒ اس راوی کو منکر الحدیث کہنا ، اور منکر الحدیث سے رویت لینے کا منع کرنا۔
٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔
اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں )
کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔ لیکن غیرمقلد روافض میں یہ جرأت کہاں۔


2دلیل:۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت رکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ بہت ہی پیشمان ہوئے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم رجوع کر لو ۔۔۔۔۔۔ الخ مسند احمد جلد ۱ص۲۶۵ و سنن الکبریٰ جلد ۷ص۳۳۹) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اسکی تخریج امام احمد ؒ اور ابو یعلٰی نے کی ہے اور ماما ابو یعلٰی نے اس کی تصحیح کی ہے۔ (نیل ص۲۴۶ جلد ۶)

الجواب:۔
یہ روایت ہر گز قابل احتجاج نہیں ہے ۔
اولاً:۔ اس کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے ۔
٭ امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہے۔ (((ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)))

٭ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں کہ ہو ضعیف ہے۔ (((کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)))

٭ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ ہو قابل احتجاج نہیں محدث سلیمان تمییؒ فرماتے ہیں کہ وہ کذاب تھا ، امام ہشامؒ بن عروہ کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا امام یحیٰ ؒ بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا وہں کہ وہ کذاب ہے۔ (((میزان ص۲۱ ج۳)))

٭ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ہو دجالوں میں سے ایک دجال تھا ۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۹ ص۴۱ و تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))

٭ امام مالک نے اس کو کذاب بھی فرمایا ہے۔ (((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))

٭اس پر شیعہ اور قدری ہونے کا الزام بھی ہے۔ (((تقریب ص۲۹۰)))

٭امام خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کے بارے میں امام مالک ؒ کا کلام مشہور ہے اور حدیث کا علم رکھنے والوں میں سے کسی پر مخفی نہیں ہے۔(((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۳۲۴)))

٭ علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے۔ (((تذکرہ الحفاظ جلد ۱ص۱۶۳)))

اور یہی ہمارا مذھب ہے ایسے راویوں سے روایت نہیں لی جاسکتی خاص کر احکام میں تو ہرگز ہرگز ہرگز قابل قبول ہی نہیں۔
٭حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے جب کہ وہ متفرد ہو ا حکام کے بارے میں تو احتجاج نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ جب وہ اپنے سے ثبت اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہو۔(((محصلہ الدرایہ ص۱۹۳)))

٭نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک سند کی تحقیق جس میں محمد بن اسحاق اتا ہے لکھتے ہیں کہ:۔
در سندش نیز ہماںمحمد بن اسحاق است و محمد بن اسحاق حجت نیست “۔(((دلیل الطالب ص۲۳۹)))

یعنی اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور یہ حجت نہیں ۔
٭حافظ ابن رشد ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کی یہ روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ ثقہ راوی یوں روایت کرتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین۔ (((ہدایۃ المجتہد جلد ۲ ص۶۱)))

و ثانیاً:۔
اگر تنہا محمد بن اسحاق ہی اس سند کا راوی ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقبل احتجاج ہونے کے لیے یہی کافی تھا مگر غضب تو یہ ہے کہ اس سند میں داؤد بن حصین بھی ہے جو عکرمہؒ سے روایت کرتا ہے ۔
٭امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا ۔ اممام سفیان بن عینیہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم اس کی حدیث سے گریز کیا کرتے تھے۔ محدث عباس دوریؒ کہتے ہیں وہ میرے نزدیک ضعیف ہے (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))

٭ امام ابن حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث تھا، محدث جوزقانیؒ کہتے ہیں کہ محدثین ان کی حدیظ کو قابل تعریف نہیں سمجھتے تھے۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۳ص۱۸۱)))

٭امام علیؒ بن مدینیؒ اور امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ وہ داؤد بن حصین کی روایت عکرمہ سے منکر ہوتی ہے۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷))) اور یہ روایت بھی عکرمہ سے ہے۔

٭حافظ ابن حجرؒ ان سے متعلق یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ ثقہ الافی عکرمۃ (((تقریب ص۱۱۶))) کہ ہو ثقہ ہے مگر عکرمہ ؒ کی روایت میں وہ ثقہ نہیں ہے۔ اسی لیے امما بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ اس اس حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔(((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۹)))

٭حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معلول ہے۔ (((تلخیص الجیر ص۲۱۹)))

٭علامہ ذہبیؒ اس روایت کو داؤد بن حصین کے مناکیر میں شمار کرتے ہیں۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))

٭مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ حافظ ابن القیم نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔(((تعلیق المغنی جلد ۲ص۳۳۶) ))لیکن مولانا حافظ محمد عبداللہ روپڑی صاحب غیرمقلد فرماتے ہیں کہ مگر ابن قیم کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسناد کے حسن ہونے سے حدیث اس وقت حسن ہو سکتی ہے جب حدیث میں کوئی اور عیب نہ ہو اور یہاں اور عیب موجود ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کو معلول کہا ہے۔ خاص کہ جب امام احمد کا فتویٰ بھی اس کے خلاف ہے تو پھر معلولیت کا شبہ اور پختہ ہوجاتا ہے۔ (((ضمیہ ص۱۶)))

ابن قیم ؒ کو اس پر سخت سزائیں بھی ملیں۔ خود غیرمقلد ین کے گھر کی گواہی ملاحظہ ہو (((فتاویٰ ثنائیہ جلد ۲ص۲۱۹)))

یہ ہیں وہ روایت جن سے زمانہ حال کے غیرمقلد روافض قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں حرام کو حلال کرنے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔اللہ اکبر کبیرہ
الحاصل تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اور غیر مدخول بہا کی متفرق طور پر دی گئی تین طلاقوں پر ہت مطلقہ کا حکم چسپاں کرنا نہ رویۃ ثابت ہے اور نہ دریۃ بلکہ یہ نری غلط فہمی ہے اور ہوم کا نتیجہ ہے ۔ ایسی غلطی پہلے کے لوگوں کو بھی ہو جایا کرتی تھی مگر وہ باانصاف اور دیانت دار لوگ تھے اس لیے وہ غلطی پر آگاہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ مگر آج تو تعصب اور ضد کو چھوڑنا پسند نہیں کیا جاتا ۔ الااماشاء اللہ تعالٰی حضرت محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ مجھےبعض ایسے راویوں نے جن پر مجھے اعتماد اور بھروسہ تھا یہ حدیث سنائی کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو بحالت حیض تین طلاقیں دیدی تھیں اور پھر آنحضرت ﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا میں بیس ۲۰ سال تک اسی غلط فہمی کا شکار رہا لیکن بعد کو مجھےے ابو غلاب یونسؓ بن جبیرؒ نے جو نہات ثقہ اور ثبت راوی تھے یہ روایت سنایہ کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی نہ کہ تین اور تین کی نسبت ان کی طرف غلط ہے۔ (((محصلہ مسلم جلد ۱ص۴۷۷ و سنن الکبریٰ ص۳۳۴)))

اس قسم کی غلط فہمی کا واقع ہوجانتاا تو مستعبد امر نہیں مگر دلائل کے بعد اس پر جمہود خالص تعصب ہے ۔ اللہ تعالٰی تمام اہل اسلام کو اس سے محفوظ و مصون رکھے آمین۔
غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت ابن عباسؓ سے ہے اور یہ امام احمد بن حنبل نے بھی نقل کی ہے۔
اب دیکھتے ہیں ابن عباسؓ کا مذھب کیا تھا۔
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)))

اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))

٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷ کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۳)))

اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔
اب دیکھتے ہیں خود امام احمد بن حنبلؒ کا مذھب کیا تھا۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:۔
جس شخص نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دیں تو بے شک اس نے جہالت کا ارتکاب کیا مگر اس کی بیوی اسس پر حرام ہو جائے گی اور اس کے لئے وہ کبھی حلال نہیں ہو سکتی جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے“۔ (کتاب الصلوۃ ص۴۷)

اتنی واضح دلیل سبحان اللہ العظیم
ایک نظر:۔
٭ دونوں راویوں پر محدثین کرامؒ نے کافی تعداد میں جرحین کر رکھی ہیں۔
٭شیعہ اور قدری ہونے کا الزام اور شیعوں کا بھی یہی مذھب ہے۔
٭ احکام میں قوی نہیں ۔
٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔
٭نقل کرنے والے امام احمد بن حنبل کا اپنا مذھب اس سے جد ا ہے۔
٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔
اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں )
کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔

Monday 21 July 2014

Masla TALAQ E SALASA GHERMUQALIDIT Ka Bunyadi Rawi "Muhammad Bin Ishaq Bin Yasar" Ahkam Maen Zaif Tareen Rawi Ha


محمد بن اسحاق بن یسار  احکام میں ضعیف ترین راوی ہے۔

نوٹ:۔ یہ ضعیف ترین راوی غیرمقلدین کے   کچھ مسائل جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام  میں بنیاد ہے ، جس کے بغیر غیرمقلدیت چل نہیں سکتی۔

1۔امام مالک ؒ :۔
وقال مالك دجال من الدجاجلة
امام مالکؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔
 (تہذیب التہذیب ج۹ص۴۱،تذکرہ الحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
امام مالکؒ فرماتے ہیں:۔
محمد بن إسحاق كذاب.(تاریخ بغداد ج۲ص۱۹)
محمد بن اسحاق کذاب ہے۔

2۔ علی ن المدینی، سعید قطانؒ
علي يعني ابن المدينى قال سمعت يحيى يعيى ابن سعيد القطان يقول قلت لهشام بن عروة ان ابن اسحاق يحدث عن فاطمة بنت المنذر فقال أهو كان يصل إليها؟ فقلت ليحيى كان محمد بن اسحاق بالكوفة وانت بها؟ قال نعم، قلت تركته متعمدا؟ قال نعم تركته متعمدا ولم أكتب عنه حديثا قط.(لجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
علی بن المدینی ؒ  فرماتے ہیں میں نے سعید بن قطانؒ سے پوچھا محمد بن اسحاق اور آپ کو کوفہ میں رہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ہم دونوں کوفہ میں ہوتے ہیں  میں نے کہا آپ نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ رکھا ہے یحیی بن سعید نے کہا جی ہاں میں نے اس کو قصدا چھوڑ ا ہوا ہے اور میں نے اس سے  کبھی بھی حدیث نہیں لکھی۔

3۔ابو حفص فلاسؒ، سعید بن قطانؒ
ابو حفص فلاس ؒکہتے ہیں کہ ہم وہب بن جریر  ؒ کے پاس تھے اور جب لوٹے تو یحییٰ بن سعید ؒ کے پاس سے گذرے یحیی بن سعید ؒ نے پوچھا تم کہاں تھے۔
۔قلنا كنا عند وهب بن جرير يعنى يقرأ علينا كتاب المغازى عن أبيه عن ابن إسحاق، قال تنصرفون من عنده بكذب كثير (الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۳)
ہم وہب بن جریرؒ  کے پاس تھے اور وہ ہمارے سامنے محمد بن اسحاق کی مغارزی کتاب پڑھ رہے تھے یحیی بن سیعد قطانؒ نے کہا کہ تم اس سے بہت سا جھوٹ لے کر لوٹے ہو۔

4۔یحیی بن معینؒ
یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں۔ يزل الناس يتقون حديث محمد بن اسحاق (الجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۴)
لوگ  ہمیشہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے بچتے رہے ہیں اور کبھی یو یوں فرمایا
بذاك هو ضعيف
محمد بن اسحاق قوی نہیں ضعیف ہے۔

5۔عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ
عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ  نے اپنے باپ ابو حاتمؒ سے سنا انھوں نے فرمایا
محمد بن اسحاق ليس عندي في الحديث بالقوى ضعيف الحديث (الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۴)
اسحاق میرے نزدیک باب حدیث میں قوی نہیں بلکہ ضعیف الحدیث ہے۔

6۔ امام نسائی ؒ
امام نسائی ؒ فرماتے ہیں لیس بالقوی محمد بن اسحاق قوی نہیں ہے۔ (ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)

7۔ امام دارقطنیؒ
وقال الدارقطني: لا يحتج به.
امام دارقطنیؒ فرماتے  ہیں لایحتج بہ اس کی حدیث کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔ (تذکرہالحفاظ ج۱ ص۱۳۰)

8۔سلیمان ےتیمیؒ
وقال سليمان التيمي: كذاب
سلیمان تیمیؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ ص۴۶۹)

9۔ ہشام بن عروۃؒ
وقال وهيب: سمعت هشام بن عروة يقول: كذاب.
ہشام بن عروۃ ؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہے۔(میزان الاعتدال ج۳ ص۴۶۹)

10۔یحیی بن سعید قطان
یحییٰ بن سعید قطان ؒ فرماتے ہیں قال يحيى القطان: أشهد أن محمد بن إسحاق كذاب
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحاق بہت بڑا جھوٹا ہے۔ (میزان الاعتدال ج۳ص۴۷۱)
علامہ نوویؒ لکھتے ہیں وإذا قالوا: متروك الحديث، أو ذاهبه، أو كذاب، فهو ساقط لا يكتب حديثه
قاعدہ یہ ہے کہ جب محدثین کسی راوی کے متعلق یہ الفاظ کہہ دیں کہ وہ متروک الحدیث  ہے یا باب حدیث میں گیا گذرا ہے یا جمہور اس کو کذاب کہہ دیں تو ایسا راوی ساقط الاعتبار ہوتا ہے اور  اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔(التقریب والتیسیر للنووی ج۱ ص۵۳)
اور یہ بات واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک کذاب اور تہمت کذاب ایسی جرح ہے کہ جس کا ردارک نہیں ہو سکتا اس لیے  محمد بن اسحاق جس کو دجال کذاب مکار کہا گیا ہے اس کی وجہ سے  اس کی حدیث انتہائی ضعیف  ہے اس لیے اس کی  حدیث حجت نہیں بن سکتی۔
البتہ جن بعض محدثین نے اس کو ثقہ کہا ہے اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ محمد بن اسسحاق ان کے نزدیک مغارزی اور تاریخ میں معتبر ہے ۔ لیکن شرعی احکام اور حلال و حرام میں حجت نہیں ۔

11۔ حافظ ابن حجرؒ
حافظ ابن حجرؒ  فرماتے ہیں وَابْن إِسْحَاق لَا يحْتَج بِمَا ينْفَرد بِهِ من الْأَحْكَام  
اس کی روایت احکام میں  حجت نہیں خصوصاً جب یہ روایت کرنے میں منفرد ہو۔ اور زیر بحث اس کی جتنی بھی احادیث ہیں ان میں یہ منفرد ہے کوئی بھی ثقہ راوی اس کا متابع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایہ  جلد۲ ص۱۹)

12۔ابو داؤد ؒ
ابو داؤد ابن اسحاق کے متعلق ؒ فرماتے ہیں وقال أبو داود: قدري معتزلي.
ابن سحاو ق قدری اور معتزلی ہے۔(میزان الاعتدال جلد۳ص۴۶۹)

13۔علامہ ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں والذي تقرر عليه العمل أن ابن إسحاق إليه المرجع في المغازي والأيام النبوية مع أنه يشذ بأشياء وأنه ليس بحجة في الحلال والحرام
اور عملاً  جو چیز پختہ طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کی طرف  مغارزی اور سیر نبویہ میں رجوع کیا جاہے لیکن اس میں بھی وہ شاذ چیزیں بیان کرتا ہے  لیکن حلال حرام میں حجت نہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۱ ص۱۶۳)

14۔امام احمد بن حنبلؒ
أما مُحَمَّد بن إِسْحَاق فَيكْتب عَنهُ هَذِه الْأَحَادِيث يعْنى الْمَغَازِي وَنَحْوهَا فَإِذا جَاءَ الْحَلَال وَالْحرَام أردنَا قوما هَكَذَا قَالَ أَحْمد بن حَنْبَل بِيَدِهِ وصم يَدَيْهِ وَأقَام أَصَابِعه الإبهامين
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے مغارزی  وغیرہ کی احادیث لکھی جاتی ہیں لیکن جب حلال حرام کے مسئلہ آتے ہیں تو ہم محمد بن اسحاق سے اعراض کرکے ثقہ لوگوں کا ارادہ کرتے ہیں امام احمد بن حنبلؒ  نے اس مفہوم  کو اس طرح بیان ادا کیا کہ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بند کی اور دونوں انگوٹھے کھڑے  رکھے۔ (تاریخ ابن معین برویۃ الدوری ج۳ص۲۴۷، الجرح والتعدیل ج۷ ص۱۹۳ ، طبقات الحنابلہ ج۱ ص۲۳۷، المقصد الارشد ج۲ ص۲۷۹، النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح ج۲ ص۳۰۹۔ فتح المغیث ج۱ ص۳۵۰)

15۔محمد بن ہارون فلاسؒ
محمد بن ہارون فلاسؒ فرماتے ہیں سألت يحيى بن معين عن محمد بن اسحاق فقال ما احب ان احتج به في الفرائض
میں نے یحییٰ بن معین ؒ سے محمد بن اسحاق کے متعلق پوچھا تو یحییٰ بن معین ؒ نے فرمایا کہ میں فرائض میں اس کی حدیث حجت نہیں پکڑنا پسند کرتا۔(الجرح والتعدیل جلد۷ص۱۹۴)

16۔غیرمقلد علامہ البانی صاحب
غیرمقلد البانی صاحب لکھتے ہیں وابن إسحاق
حجة في المغازي، لا في الأحكام إذا خالف
محمد بن اسحاق مغارزی میں  حجت ہے احکام میں حجت نہیں خصوصا جب وہ دوسرے ثقات کی مخالفت کرے۔(ضعیف ابی داود ج۲ص۱۶۵)

17۔غیرمقلد نواب صدیق حسن خان صاحب
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”درسندش نیز ہماں محمد بن اسحاق است ومحمد بن اسحاق حجت نیست ۔(دلیل الطالب ص۲۳۹)
نیز اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور محمد بن اسحاق حجت نہیں۔
علامہ ابن رجب ؒ لکھتے ہیں ”واما من روی عن ضعیگ فاسقطہ من الاسناد بالکلیۃ فھو نوع تدلیس ومنہ مایسممی التسویۃ وھو ان یروی عن شیخ لہ ثقۃ عن رجل ضعیف عن ثقۃ فیسقط الضعیف من الواسط“
جو راوی ضعیف سے روایت کرتا ہو  اور وہ سند سے ضعیف راوی کو گرادے تو یہ ردلیس ہے اس کی ایک قسم کا نام تدلیس التسویہ ہے وہ یہ  کہ راوی کا شیخ ثقہ ہو لیکن شیخ الشیخ ضعیف ہو اور شیخ الشیخ ثقہ راوی سے  روایت کرے پس یہ ضعیف دو ثقہ راویوں کے درمیان میں ہے جس کو راوی حدیث حذد کر دیتا ہے۔(شرح علل الترمذی لابن رجب ج۲ ص۸۲۵)
محدثین کرامؒ نے محمد بن اسحاق کو مدلس لکھا ہے۔

18۔ امام احمد بن حنبلؒ
امام احمد بن حنبلؒ   فرماتے ہیں ابن اسحاق یدلس
محمد بن اسحاق تدلیس کرتا ہے۔ (تہذیب التہذیب ج۹ص۴۳)
اثرم کہتے ہیں میں نے  امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا ما تقول في محمد بن إسحاق؟ قال
هو
كثير التدليس جدا
 آپ محمد بن اسحاق ے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا ہے۔ (الجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
قيل له: فإذا قال أخبرني وحدثني فهو ثقة؟ قال: هو يقول أخبرني ويخالف.
نیز امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا وہ بھت زیادہ تدلیس کرتا ہے ان سے پوچھا گیا کہ جب  وہ اخبرنی اور حدثنی کے ساتھ روای کرے اس کی روایت معتبر ہے ؟امام احمد بن حنبلؒ نے فرمیا کہ وہ اخبرنی کہتا ہے پھر اس کے خلاف بھی کہہ دیتا ہے۔ (میزان  الاعتدال ج۳ص۴۷۰)

19۔علامہ نوویؒ
علامہ نوویؒ لکھتے ہیں فَإِن ابْن إِسْحَاق مُدَلّس مَشْهُور بذلك، والمدلس إِذا قَالَ: عَن، لَا يحْتَج بِهِ بالِاتِّفَاقِ.
محمد بن اسحاق تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور جب مدلس عن  کے ساتھ روایت کرے تو اس کی حدیث بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔(خلاصۃ الاحکام ج۲ ص۷۱۶)

20۔ علامہ بصریؒ
علامہ بصریؒ فرماتے ہیں سَنَده ابْن إِسْحَاق وَهُوَ مُدَلّس
اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے۔ (مصباح الزجاجۃ ج۳ ص۸۲)

21۔علامہ ابن رجبؒ
علامہ ابن رجب ؒ لکھتے ہیں ”وابن اسحاق مدلس “ (فتح الباری لابن رجب ج۹ص۴۹۳)

22۔علامہ عراقیؒ
علامہ عراقیؒ فرماتے ہیں ”فی اسناد محمد بن اسحاق وقد  رواہ بالعنعنہ وھو مدلس“
اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔ (طرح التہذیب ج۲ ص۷۰)

23۔حافظ ابن حجرؒ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں ”محمد بن اسحاق بن یسار امام المغارزی صدوق یدلس“
محمد 
بن اسحاق بن یسار غزوات کے نقل کرنے میں امام ہے سچا ہے لیکمن  تدلیس کرتا ہے۔ (تقریب التہذیب ص ۲۹۰)

24۔ علامہ نور الدین الہیثمیؒ
علامہ نور الدین الہیثمیؒ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ ثقات الابن اسحاق مدلس
اس حدیث کو  کو طبرانی ؒ نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن محمد بن اسحاق مدلس ہے۔(مجمع الزوائد ج۹ص۱۵۵)

25۔غیرمقلد علامہ البانی صاحب
البانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں  ورجالہ ثقات الاان ابن اسحاق مدلس (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ج۶ص۱۰۸۷)
اس کے راوی ثقہ ہیں مگر محمد بن اسحاق مدلس ہے۔

26۔ غیرمقلد علامہ شوکانی صاحب
علامہ شوکانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں  ”وفی  اسنادہ محمد بن اسحاق وھو مدلس وقد عنعن“
اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور وہ مدلس ہے  اوراس نے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔

27۔ غیرمقلد محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب
عبدلرحمٰن مبارکپوری صاحب ایک سند کا ضعف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں فان فی سندہ محمد بن اسحاق وھو مدلس ورواہ عن فاطمۃ بنت المنذر بالعنعنۃ ومع ھذا قد تفرد ھو االلفظ ولم یقلہ غیرہ
اس  کی سند میں محمد بن اسحاق ہے جو مدلس ہے اور اس حدیث کو فاطمہ بن منذر سے عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور وہ حدیث کے ان لفظوں کے نقل کرنے میں منفرد ہے یہ لفظ کسی اور نے نقل نہیں کیے اسلیے یہ ضعیف ہے۔(ابکار المنن ص۵۳)
محمد بن اسحاق شیعہ مذہب رکھتا تھا

28۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ  محمد ابن إسحاق ابن يسار۔۔۔۔ورمي بالتشيع والقدر
محمد بن اسحاق شیعہ مذہب کے ساتھ قدری بھی ہے یعنی تقدیر کا منکر ۔(تقریب التہذیب جلد۱ ص۴۶۷)

29۔علامہ خطیب بغدادیؒ
علامہ خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں وقد أمسك عن الاحتجاج بروايات ابن إسحاق غير واحد من العلماء لأسباب منها أنه كان يتشيع
محمد بن اسحاق کی روایت کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے  ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(تاریخ بغداد ج۱ ص۲۲۴)

30۔علامہ ابن عساکرؒ
علامہ ابن عساکرؒ فرماتے ہیں محمد بن إسحاق وسلمة بن الفضل يتشيعان
محمد بن اسحاق اور سلمہ بن فضل دونوں شیعہ المذہب رکھتے تھے۔(تاریخ ابن عساکر ج۵۹ص۲۰۵)

31۔علامہ ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ لکھتے ہیں وَقَدْ أَمْسَكَ عَنِ الاحْتِجَاجِ بِرِوَايَاتِ ابْنِ إِسْحَاقَ غَيْرُ، وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ, لأَشْيَاءَ مِنْهَا: تَشَيُّعُه۔
محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(سیراعلام النبلا ج۷ ص۳۹)

32۔علامہ ابن رجب الحنبلیؒ
علامہ ابن رجب الحنبلیؒ لکھتے ہیں ولا ريب أنه كان يتهم بأنواع من البدع، ومن التشيع والقدر وغيرهما
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن اسحاق مختلف قسم کی بدعات کے ساتھ متہم تھا جیسے شیعہ اور قدری یعنی تقدیر کا منکر وغیرہ۔(شرح علل الترمذی لابنرجب ج۱ ص۴۱۹)
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں بدعتی کی حدیث کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے کہ جس حدیث سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی ہو اس کی وہ حدیث قبول نہیں کی جاتی ۔(شرح مسلم للنوی ص۲ شرح نختبہ الفکر ص۱۱۸)

33۔ابو حاتمؒ
ابو حاتم ؒ  محمد بن اسحاق کو ضعیف کہتے ہیں۔ (کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)

34۔وہیب بن خالدؒ
الا روايته عن أهل الكتاب وكذبه سليمان التيمي ويحيى القطان ووهيب بن خالد
وہب بن خالدؒ  محمد بن اسحاق کو کاذب اور جھوٹا کہتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۵)

35۔جریر بن  عبدلحمیدؒ
جریر بن عبدلحمیدؒ فرماتے ہیں وقال جرير بن عبد الحميد ما ظننت أني أعيش إلى دهر يحدث فيه عن محمد بن إسحاق ويسكت فيه
میرا یہ خیال نہ تھا کہ  میں اس زمانہ تک زندہ رہوں گا جس میں لوگ محمد بن اسحاق سے احادیث کی سماعت کریں گے۔(تہذیب التہذیب جلد۲ ص۳۰۶)

36۔امام بیہقیؒ
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں
 محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔ (سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی جلد ۱
ص۱۵۵)

37۔علامہ ماردینیؒ
علامہ ماردینیؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق پر محدیثین کے نزدیک مشہور کلام ہے۔(الجوھر النقی ج۱ ص۱۵۵)

38۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ
عبداللہؒ فرماتے ہیں لم یکن يحتج به في السنن
میرے باپ احمد بن حنبلؒ ابن اسحاق کو سنن اور احکام میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔(بغدای  جلد۱ ص۲۳۰،تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
حنبل بن اسحاق کا بیان ہے کہ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق لیس بحجۃ  یعنی ابن اسحاق حجۃ نہیں ہے۔(بغدادی جلد۱ ص۲۳۰، تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
امام احمدؒ سے  دریافت کیا گیا کہ  ابن اسحاق  جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث حجت ہو گی؟ قال لا واللہ (بغدادی جلد۱ ص۲۳۰) بخدا ہرگز نہیں۔

39۔ابن معینؒ
ابن ابی خیثمہؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو لیس بذالك ،ضعیف ، اور لیس بالقوی کہا ۔ میمونی ؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔(بغدای  جلد۱ ص۲۳۱ تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)

40۔علی بن المدینیؒ
علی بن المدینیؒ کا بیان ہے لم  یضعفه عندي الا روایته، عن اھل الکتاب (تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۵)
میرے نزدیک ابن اسحاق کو صرف اس بات نے ضعیف کر دیا ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایتیں لے لے کر بیا ن کرتا ہے۔

41۔علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق بن ندیمؒ
 علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق بن ندیمؒ اپنی کتاب الفہرست میں محمد بن اسحاق کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
مطعون علیه غیر مرضی الطریقه الی ان قال وکان یحمل عن الیھود والنصاري ولیمیھم فی کتبه اھل العلم الاول و اصحاب الحدیث یضعفونه ویتھمونه
ترجمہ:۔ اس پر طعن کیا گیا ہے اور اس کا طریقہ ناپسند یدہ تھا ۔(پھر اگے فرمایا) کیونکہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایات لیتا تھا اور پنی کتابوں میں ان کو پہلے علم والے کہا کرتا تھا اور اہل حدیث اس کو ضعیف کہتے ہیں اور اس کو متہم قرار دیتے ہیں۔ (الفھرست لابن الندیم ص۱۴۲ طبع مصر)
حضر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں
اقول الرویه عن اھل الکتاب تججویذ فیما سبیله سبیل الاعتبار و حیث یکون الامن عن الاختلاط فی شرائع الدین ولا یجوز فیما سوٰی ذالك (حجۃ اللہ  البالغۃ جلد۱ص۱۷۱)
ترجمہ:۔میں کہتا ہوں کہ اہل کتاب سے روایت ایسے معاملات میں جہاں عبرت مقصود ہو اور جہاں دین کے احکام میں اختلاط واقع نہ ہوتا ہو درست ہے، اور اس کے علامہ ان سے روایت جائز نہیں ہے۔

42۔امام ترمذیؒ
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں  کہ بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے اس میں کلام کیا ہے۔ (کتاب العلل جلد۲ص۲۳۷)
43۔امام نوویؒ
امام نوویؒ فرماتے ہیں جو راوی صحیح کی شرطوں  کے مطابق نہیں  ہیں ان میں ایک محمد بن اسحاق بھی ہے۔(مقدمئہ نووی ص 
۱۶)

44۔امام ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق کی روایت درجئہ صحت سے گری ہوئی ہے اور حلال و حرام میں اس سے احتجاج درست نہیں۔ (تذکرہ جلد۱ ص۱۶۳)

45۔علامہ منذری اور حافظ سخاویؒ
علامہ منذری اور حافظ سخاویؒ فرماتے ہیں کہ امام احمدؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق کی روایات مغارزی میں تو لی جاسکتی ہے لیکن جب حلال حرام کا مسئلہ ہو تو اس میں ایسے  ایسے راوی درکار ہیں (یعنی ثقہ اور ثبت)۔ (التغریب والترھیب جلد۴ ص۲۹۰ و فتح المغیث ص۱۲۰)

46۔اہل سنت میں سے بہت ساروں نے اسے شیعہ لکھا ہی ہے مگر خود شیعہ نے بھی اسے اپنا تسلیم کیا ہے۔
(رجال کشی جلد نمبر ۵ ص۳۹۰)
(رجال الطوسی ص۲۸۱)
محمد بن اسحاق کو شیعوں نے اپنا تسلیم کیا  ہے۔

47۔غیرمقلد فیض عالم صدیقی نے اپنی کتاب صدیقہ کائنات ص114 پر محمد بن اسحاق کے بارے میں لکھا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ ضعیف تھا۔

امام بیہقیؒ فرماتے ہیں۔
وکان مالك بن انس لایرضاہ و یحیی بن سعید القطان لایروی عنه و یحیی بن معین یقول لیس ھو بحجۃ واحمد بن حنبل یقول یکتب عنه ھذا الاحادیث اعني المغازی فاذا جأ الحلال الحرام اردنا قوما ھکذا یرید اقوای منه فاذا کان لا یحتج به فی صفات اللہ سبحان تعالٰی وانما نقموا علیه فی رويته عن اھل الکتاب ثم فاذا روی عن ثقه وبین  سماعه منه فجماعه من الائمه لم یروابه بأسا ۔(کتاب الاسماء والصفات ص۲۹۷)
ترجمہ:۔امام مالکؒ اس کو  پسند نہیں کرتے تھے یحییٰ بن سعید بن القطانؒ اس سے روایت نہیں لیتے تھے اور ابن معین فرماتے
 ہیں کہ وہ حجت نہیں اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مغارذی کی حدیثیں تو لکھی جاسکتی ہیں لیکن حلال و حرام کی روایتوں میں ہم قوی راویوں کو تلاش کریں گے پس جب حلال و حرام میں ابن اسحاق  کی روایت حجت نہیں تو صفات باری تعالٰی میں بطریق اولٰی اس کی روایت حجت نہیں ہو سکتی اور محدثین نے اس پر جو عیب لگایا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اہل  کتاب سے روایت کرتا ہے اور ضعیف قسم کے لوگوں سے بھی روایت  کرتا ہے اور ان کے ناموں میں تدلیس  سے کام لیتا ہے پس جب ثقہ سے روایت کرے اور سماع کی تصریح بھی کرے تو ائمہ کی ایک جماعت اس میں مضائقہ نہیں سمجھتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے ابن اسحاق  کو جو حسن الحدیث کہا یا جو غیرمقلدین اس کی توثیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف مغاذی  تاریخ وغیرہ میں نہ کہ احکام  اور حلال حرام میں۔ علامہ ذھبیؒ نے سفیانؒ بن حسینؒ کے ترجمہ منقل کیا ہے کہ لایحتج به کنحو محمد بن اسحاق یعنی محمد بن اسحاق کی  طرح اس سے بھی احتجاج درست نہیں۔


چونکہ اس راوی پرہم نے بحوالہ جمہور محدثین کا کلام نقل کر دیا ہے جس میں اس راوی کو کذاب اور دجال تک قرار دیا گیا ہے اس لئے اس راوی کو اگر   کسی نے ثقہ بھی کہا ہو تو بھی حلال حرام کے مسئلہ میں اس سے احتجاج  کیلئے کافی نہیں ہو سکتا کیونکہ عین ممکن ہے جس نے کذاب اور دجال راوی کو  ثقہ کہا ہے وہ اس کے  کذب اور دجل   سے نہ واقف ہو۔
اعتراض:۔
۱۔ غیرمقلدین دلیل پیش کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ  اسے ثقه کہتے ہیں۔
 جواب :۔
ایسے کذاب اور دجال راوی کے بارے میں امام بخاری کی رائے کیا وقعت رکھتی ہے؟ خصوصاً جب کہ امام بخاری نے ابن اسحاق کا زمانہ نہیں پایا اور ہشام بن  عروہ امام مالک اور یحییٰ بن قطانؒ وغیرہ اس کا زمانہ پانے والے انتہائی سنگین الزامات اس پر عائد کرتے ہیں اور یہ بڑے محتاط اور عارف باسباب الجرح بھی ہیں۔ علامہ بریں اگر واقعی محمد بن اسحاق احادیث روایت کرنے والا راوی  ثقہ ہے تو  امام بخاریؒ نے باوجود اشد ضرورت کے صحیح بخاری میں اس سے احتجاج کیوں نہیں کیا؟
یہ امام بخاری کی ذاتی رائے ہے حق وہی جو جمہور نے کہا ہے چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک مقام پر لکھتے ہیں جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایسی حدیث سے و حسن ہو احتجاج صحیح ہے لیکن امام بخاری حدیث حسن س احتجاج کے قائل ننہیں ہیں آگے لکھتے ہیں والحق ماقاله الجمھور (دلیل الطالب ص۸۸۲) حق بات وہی ہے جو جمہور نے کہی ہے۔ قاضی شوکانی غیرمقلد نے بھی امام بخاریؒ اور ابن العربیؒ کا یہ مسلک نقل کرکے اگے لکھا ہے والحق ماقاله الجمھور (نیل الاوطار  جلد ۱ ص۲۲) کہ حق وہی ہے جو جمہور نے کہا ہے۔
۲۔غیرمقلدین  کہتے ہیں امام شعبہؒ  نے ابن اسحاق کو امیر المحدثین لکھا ہے۔
جواب :۔ اول ،غیرمقلدین کے نزدیک اس طرح کہنے سے توثیق ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ غیرمقلد مبارک پوری صاحب ایک جگہ ایک راوی ابو طاہر فقیہ کے متعلق جس کو علامہ تاج الدین سبکیؒ نے ادیب عارف اور امام المحدثین والفقھاء لکھا ہے ۔ قلت لا دلاله فی ھذا اعلٰی کو نه ثقه قابلاً للاحتجاج (تحفۃ الاحوذی جلد۲ص۷۵)  یعنی، میں کہتا ہوں کہ امام المحدثین والفقھاء  کہنے سے یہ کیسے لازم آیا کہ وہ ثقہ اور قابل احتجاج بھی تھے۔
محقق نیمویؒ نے ابو عبداللہ فخجویہ دینوریؒ کو کبتا ر محدثین لکھا ہے لیکن غیرمقلد مبارک پوری صاحب  ان پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
فان  مجود کونه من کبتا المحدثین لایستلزم کونه ثقه (تحفه الاحوذی جلد۲ ص۷۵)۔ ان کے صرف کبار محدیثین  ہونے سے یہ کیسے لازم آیا کہ وہ ثقہ بھی تھے؟'
قارئین کرام! ذرہ انصاف سے بتائیں جن کے بارے میں جرح کا ایک لفظ بھی موجود نہو ہو اور علامہ تاجدین سبکیؒ وغیرہ جیسے اما ماور ثقہ عالم ان کو امام المحدثین اور کبار المحدثین لکھیں مگر معہذا ان کی ثقاہت ثابت نہ ہو سکے تو غیرمقلدین کے نزدیک ثقہ نہیں اور محمد بن اسحاق جس کو ائمہ  جرح و تعدیل کذاب اور دجال تک کہتے ہوں  تو اس سے امام شعبہؒ کا ابن اسحاق کو امی المحدثین کہنے سے ان کی توثیق ثابت ہو سکتی ہے؟
اس کے علامہ ہم نے باحولہ نقل کر دیا ہے کہ محمد بن اسحاق غیر متعبر اور ضعیف راوی ہے  اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ، اور جنہوں نے اس کی توثقیق کی ہے وہ مغازی اور تاریخ وغیرہ میں کی ہے نہ کہ احکام اور سنن وغیرہ میں۔
نوٹ:۔ غیرمقلدین حضرات اپنے بنیادی مسائل   اس غیر معتبر راوی سے پیش کرتے ہیں جیسے طلاق ثلاثہ اور قرأت خلف الامام میں اس کے بغیر غیرمقلدین کا مذھب ادھرہ رہ جاتا ہے۔