جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Tuesday 14 April 2015

امام ابو حنیفہؒ، کی کتاب الفقہ الاکبر ،الابسط کے راوی اور ان کے شاگرد امام ابو مطیع بلخیؒ

امام ابو حنیفہؒ، کی کتاب الفقہ الاکبر ،الابسط  کے راوی  اور ان کے شاگرد امام ابو مطیع بلخیؒ


1۔عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں
: أَبُو مطيع له المنة على جميع أَهْل الدنيا.(تاریخ بغداد ج 8 ص 220)
 ابو مطيعؒ کا ساری دنیا کے لوگوں پر بہت احسان ہے۔
2۔خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں
وكان فقيها بصيرا بالرأي
 آپ فقهاء تھے اور اہل بصیرت میں  بڑے صاحب بصیرت تھے۔
(تاریخ بغداد ت بشار ج1 ص121)
3۔ علامہ ذہبیؒ اور ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
 
وكان ابن المبارك يعظمه ويجله لدينه وعلمه
عبد اللہ بن مبارکؒ ان کی دین اور علم کی وجہ سے ان کی تعظیم  اور بڑائی کے قائل تھے۔ (لسان المیزان ج2 ص334)
4۔ابن حجر عسقلانیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
 وكان بصيرا بالرأي علامة كبير الشأ
اہل رائے میں آپ بڑے صاحب بصیرت تھے اور بڑی شان والے علامہ تھے۔(لسان المیزان ج 2 ص334)
5۔امام مالک نے کسی آدمی سے پوچھا کہاں سے آئے ہو اس نے جواب دیا بلیخ سے آیا ہوں جس کے جواب میں امام مالک نے فرمایا:
 
قَالَ مَالِك بْن أَنَس لرجل: من أين أنت؟ قَالَ: من بلخ، قَالَ:قاضيكم أَبُو مطيع قام مقام الأنبياء.
تمہارے قاضی ابو مطیع انبیاء کے قائم مقام ہیں۔ (تاریخ بغداد ج8 ص220)
6۔علامہ ذہبی کتاب العبرمیں فرماتے ہیں کہ ابو داؤد کہا کرتے تھے۔
 عن كتاب العبر للذهبي عن أبي داود وبلغنا أنه من كبار الأمارين بالمعروف والناهين عن المنكر
ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ابو مطیع امر معروف اور نہی منکر کرنے کے بہت اعلٰی درجے پر فائز تھے۔(حاشیہ لسان المیزان ج2 ص335)
ی
7۔علامہ خلیلؒ امام ابو مطیع بلخی کے ساتھ علماء کی ناراضگی سے پردہ اٹھاتے ہوئے  فرماتے ہیں:
وقال الخليلي في الإرشاد كان على قضاء بلخ وكان الحفاظ من أهل العراق وبلخ
ابو مطیع بلخی کے منصب قضا پر فائز تھے اور عراق و بلخ کے حفاظ حدیث آپ سے راضی نہ تھے۔(لسان المیزان ج2 ص336)
جو شخص امر معروف اور نہی منکر کا عادی ہو اور اس میں وہ حاکم وقت کی بھی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہو بھی حنفی اس کو برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا اس لئے لوگوں نے ان کے بارے میں رنگا رنگ باتیں پھیلا نا شروع کر دیں، یہ عادت اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ ایسا ہوتا  رہا ہے۔
8۔شوذب ؒ کے نزدیک ابو مطیع ؒ کا مقام
 دخلت مع حمويه بن خليد العابد على شوذب بن جعفر سنة الرجفة، فقال شوذب لحمويه: رأيت الليلة أبا مطيع في المنام، فكأني قلت: ما فعل بك؟ فسكت حتى ألححت عليه، فقال: إن الله قد غفر لي وفوق المغفرة.

شوذبؒ اپنے ساتھی حمویہ سے کہتے ہیں ایک رات میں نے خواب میں ابو مطیع کو   دیکھا گویا کہ میں ان سے پوچھ رہا ہوں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف سے کیسا معاملہ ہوا؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے اصرار کیا تو آپ نے جواب دیا
بے شک اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت فرمادی ہے اور بہت اونچی بخشش فرمائی ہے۔ (تاریخ بغداد ج8 ص219)

ابو مطیع بلیخ ؒ  پر   محدثین نے کچھ جرحیں بھی نقل کی ہیں جو کہ مبہم اور  غیر مفسر ہیں اور یہ جرح اصول حدیث کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہوتیں (الکافیہ فی علم الروایہ للخطیب ص 101، صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح ص96 ، توجیہ النظرج2 ص550)
اما م احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں ابو مطیع سے روایت  کرنا مناسب نہیں کیونکہ ان کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے کہ وہ کہتے تھے ”جنت اور دوزخ دونوں پیدا کئے گئے ہیں اور عنقریب دونوں فنا ہو جائیں گے“۔(تاریخ بغداد ج8 ص235)
جواب:
یہ الزام سنی سنائی بات پر مبنی ہے اور ہے بھی سرا سر غلطے کاش امام احمد بن  حنبلؒ تک ابو مطیعؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کردہ کتاب  پہنچی ہوتی جس میں وہ اس عقیدہ کا  خود رد کرتے ہیں  اور ایسے شخص کو کافر کہتے ہیں۔
قَالَ إنَّهُمَا تفنيان بعد دُخُول اهلهما فيهمَا فقد كفر بِاللَّه تَعَالَى لِأَنَّهُ انكر الخلود فيهمَا
(الفقه الابسط ص157:حکم من كذب بالخلق او انكر معلوما من الدین   بالضرورۃ)
نوٹ: یہ عقیدہ جہمیہ کا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ جنت  میں جتنی اور جہنم میں جہنمی ایک وقت تک رہیں گے پھر یہ فنا ہو جائیں گی۔
یہ امام ابو مطیع پر جہمیہ ہونے کے  الزام کا جواب ہے۔
مزید تفصیل  دیکھنے کیلئے ملاحظہ کیجئے (کتاب الفقه الابسط مترجم مفتی رشید احمد العلوی ص72)



امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب ایک تحریف شدہ قول اور اس کی حقیقت
 کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ   سے پوچھا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ آسمان میں ہے یا زمین میں تو امام صاحبؒ نے فرمایا وہ شخص کافر ہے   اللہ تعالٰی فرماتے ہیں  اللہ عرش پر مستوی ہوا۔۔۔۔ الخ
حالانکہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب یہ قول تحریف شدہ  ہے اور صریح  طور پر ان پر جھوٹ ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اصل قول یہ ہے کہ :
قَالَ ابو حنيفَة من قَالَ لَا اعرف رَبِّي فِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض فقد كفر وَكَذَا من قَالَ إِنَّه على الْعَرْش وَلَا ادري الْعَرْش أَفِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض
   فقہ الابسط، شرح الفقه الأكبر ص: 135 وغیرہ))
ابومطيع بلخي کہتے ہیں کہ امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا، اسي طرح جو کہتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے ليکن مجھے پتہ نہيں ہے کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھي کافر ہے۔
 ملاحظہ ابومطيع کي کتاب کے يہ الفاظ امام بياضي الحنفي رحمہ اللہ کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ ابوالليث سمرقندي کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں، اللہ تعالي کا ارشاد ہے الرحمن علي العرش استوي، پھر اگر وہ شخص کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين تو اس بات سے بھي اس نے کفر کيا،، اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں کافر ہے،تو امام بياضي اور فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمھم اللہ دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسري بات کا مرجع بھي پہلي بات کي طرف ہے کيونکہ جب وہ اللہ کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس کا بھي وہي مطلب ہوا جو پہلي عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پر تب ايسے شخص نے اللہ کے ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور اللہ کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا۔
،اور ايسا کہنے والا اللہ کو اگر آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفي کرتا ہے اور زمين پر مانتا ہے تو آسمان پر نفي کرتا ہے اور يہ بات اللہ کے ليے حد کو بھي مستلزم ہے
اور اسي طرح فقيہ ابوالليث سمرقندي اور بحوالہ ملا علي قاري رحمہ اللہ حل الرموز ميں ملک العلماءشيخ عزالدين بن عبدالسلام الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ يہ قول اللہ جل جلالہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديتا ہے تو اس بات سے يہ شخص مشرک ہوگيا
يعني اللہ سبحانہ وتعالي تو ازل سے ہے اگر اللہ کے وجود کے ليےمکان لازم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑيں گے جو کہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
اور امام ابو حنیفہؒ کا جو قول تھا  اس  سے کچھ اگے چل  کے ہی وہ خود ہی اس بات کا جواب دیتے ہیں:الإمام الأعظم أبو حنیفة ؒ(150ھ)فرماتے ہیں کہ
أَيْن الله تَعَالَى فَقَالَ يُقَال لَهُ كَانَ الله تَعَالَى وَلَا مَكَان قبل ان يخلق الْخلق وَكَانَ الله تَعَالَى وَلم يكن أَيْن وَلَا خلق كل شَيْء . ( الفقه الأبسط و اکبر :باب الِاسْتِثْنَاء فِي الْإِيمَان (ص/161)،العالم والمتعالم (ص/57))

” جب تم سے کوئی پوچھے  کہ اللہ (کی ذات )کہاں ہے تو اسے کہو کہ (اللہ وہیں ہے جہاں)  مخلوق کی تخلیق سے پہلے جب کوئی جگہ و مکان نہیں تھا صرف اللہ  موجود تھا۔ اوروہی  اس وقت موجود تھا جب    مکان مخلوق نا م کی کوئی شے ہی نہیں تھی“۔


لہذا آج کل جو غيرمقلدين امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے ملاوٹ کے ساتھ معني ميں بھي تحريف کرکے اس کا مطلب اپني طرف موڑتے ہيں وہ بالکل غلط اور امام صاحب کي اپني تصريحات کے خلاف ہےاور جس ملاوٹ اور لفظي تحريف کي بات ہم نے کي اس کي تفصيل يہاں ذکر کرتے ہيں
اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کي روايت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے ساتھ مروي ہے اور اس کي تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالسلام کے ارشادات کے مطابق بلا غبار واضح نظر آتي ہے ليکن غيرمقلدين ميں ايک شخص جن کو يہ لوگ شيخ الاسلام ابواسماعيل الھروي الانصار ي صاحب الفاروق کے نام سے جانتے ہيں اور ان کي کتابوں ميں الفاروق في الصفات اور ذم الکلام شامل ہيں جن ميں يہ جناب اشاعرہ کومسلم بلکہ اہل کتاب بھي نہيں سمجھتے اور ان کے ذبيحے حرام اور ان سے نکاح بھي حرام کہلاتے ہيں اور يہ فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمہ اللہ کے وفات سنہ 373ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسي روايت ميں اپني طرف جو الفاظ چاہے اپني طرف سے بڑھاديئے حتي کہ ساري بات کا مفہوم ہي بگاڑديا اور کلام کا رخ اپني مطلب کي طرف پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا
قَالَ سَأَلت أَبَا حنيفَة عَمَّن يَقُول لَا أعرف رَبِّي فِي السَّمَاء أَوفِي الأَرْض
فَقَالَ قد كفر لِأَن الله تَعَالَى يَقُول {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} وعرشه فَوق سمواته
فَقلت إِنَّه يَقُول أَقُول على الْعَرْش اسْتَوَى وَلَكِن قَالَ لَا يدْرِي الْعَرْش فِي السَّمَاء أَو فِي الأَرْض
قَالَ إِذا أنكر أَنه فِي السَّمَاء فقد كفر
کيا،،، اس عبارت ميں انہوں نے لان اللہ يقول الرحمن علي العرش استوي وعرشہ فوق سموتہ کي تعليل [عني چونکہ اللہ تعالي فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا، اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الفاظ فاذا انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعني جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ دونوں باتوں انہوں نے اس عبارت ميں اپني طرف سے بڑھاديں جس کي وجہ سے مفھوم بظاہر تجسيمي معني کي طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حالانکہ اصلي عبارت اور امام صاحب کي ديگر تصريحات سے امام صاحب کا مسلک اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے، تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے،،بلکہ يہ الفاظ تو الھروي نے اپني طرف سے بڑھاديے اور ان الفاظ کا کوئي وجود ہي نہيں ہے اصل عبارت ميں، اور کفر کي وجہ وہي ہے جو امام ابوالليث نے الھروي سے سو سال پہلے بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسلام نے بھي بيان کيا کہ دراصل يہ بات اللہ کے ليے مکان و جگہ ثابت کررہا ہے اس ليے يہ کفر ہے
اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروي ان حضرات کے ہاں بہت بڑے پايے کے ہيں جبکہ ان کے اپنے ہي شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوي ميں کلام الہي کے بارے ميں يہ نقل کرتے ہيں کہ ان کے ہاں اللہ کا کلام نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباللہ اور ساتھ ميں جناب کي يہ عجيب منطق بھي نقل فرمائي ہے کہ يہ وہ والي حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے، مجموع الفتاوى (12/ 294)
وَطَائِفَةٌ أَطْلَقَتْ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ حَالٌّ فِي الْمُصْحَفِ كَأَبِي إسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيِّ الهروي - الْمُلَقَّبِ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ - وَغَيْرِهِ وَقَالُوا: لَيْسَ هَذَا هُوَ الْحُلُولُ الْمَحْذُورُ الَّذِي نَفَيْنَاهُ. بَلْ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّحِيفَةِ وَلَا يُقَالُ بِأَنَّ اللَّهَ فِي الصَّحِيفَةِ أَوْ فِي صَدْرِ الْإِنْسَانِ كَذَلِكَ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَهُ حَالٌّ فِي ذَلِكَ دُونَ حُلُولِ ذَاتِهِ،
 ابن تيميہ کہتے ہيں کہ ايک گروہ نے يہ بات بھي کہي ہے کہ اللہ کا کلام مصحف ميں حلول ہوگيا ہے جيسا کہ ابواسماعيل الھروي جو کہ شيخ الاسلام کے لقب سے جانے جاتے ہيں وغيرہ، يہ لوگ کہتے ہيں کہ يہ وہ حلول نہيں ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفي کيا ہے بلکہ ہم يہ کہتے ہيں کہ اللہ کا کلام اللہ صحيفہ ميں ہے اور يہ نہيں کہا جائے گا کہ اللہ صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسي طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کلام اس ميں [يعني مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن اللہ کي ذات حلول نہيں ہوئي
سبحان اللہ اگر يہي کلام کوئي بھي اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ ديتا تو کيا اس کو کوئي شيخ الاسلام کے لقب سے ملقب کرتا؟ تو خلاصہ کلام يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام صاحب کي اس بات کي روايت کو اگر ابواسماعيل الھروي کي من گھڑت زيادتي کے بنا نقل کيا جائے تو اس ميں کوئي خرابي نہيں اور کلام کا مفھوم مکان کي نفي ميں واضح ہے خصوصاجب امام صاحب کے باقي ارشادات کي روشني ميں اس کو قوي قرائن مل جاتے ہيں

اور اسي کلام کو  ابن قيم  ان الفاظ کي زيادتي سے نقل کيا ہے،لانہ انکر ان يکون في السماء لانہ تعالي في اعلي عليين، يعني يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا، کيونکہ اللہ اعلي عليين ميں ہے حالانکہ قران وسنت ميں کہيں بھي اللہ کو اعلي عليين ميں نہيں کہا گيا تو يہ سب تصرفات جناب ابواسماعيل الھروي کي تحریف کرد ہ ہيں اور ان سے امام ذہبي رحمہ اللہ نے العلو ميں اور امام ابن قيم  نے اجتماع الجيوش الاسلاميہ ميں ان کو اسي طرح نقل کر لیا۔