جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Friday 27 March 2015

تذکرۃ الرشید کی ایک عبارت پر اعتراض کا جواب تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں ہوا Tazkira tur RASHEED Ki Abarat Ka Jawab TAQLEED Shaksi Par Kabi IJMA Nhi Hoa



تذکرۃ الرشید  کی ایک عبارت پر اعتراض کا جواب
مشکل وقت میں یہ عبارت غیرمقلدین کے کام آتی ہے کیونکہ قرآن حدیث میں تو کوئی ایک بھی دلیل موجود نہیں جس میں اللہ نے اولی الامر (فقیہ) اہل استنباط کی تقلید سے منع کیا ہو جیسا اس نے کافروں منافقوں بے عقلوں کی تقلید سے منع کیا ہے۔ 
بہرحال یہ بھی ان کے کسی کام نہیں آسکتی۔
تذکرۃ الرشید کےایک  حوالہ سے وکٹورین اہل حدیث حضرا   ت کچھ باتیں اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں ایک یہ بات بھی ہے کہ مولانا تھانویؒ یہ کہتے ہیں کہ تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں جب کہ مولانا ؒ فرماتے ہیں وہ میں نے بطور تحقیق اور رائے کے نہیں لکھا بلکہ (اپنے شیخ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ)،، کو بطور اشکال کے پیش  کیا ہے۔(امداد الفتاویٰ جلد4 ص 383)
مولانا تھانویؒ نے خود اپنی اس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ اہلسنت والجماعت مذہب اربعہ میں منحصر ہونے پر 
اجماع ہے۔ (اجتہاد و تقلید آخری فیصلہ ص 51)اوراس سے خروج ممنوع ہے۔(ص 52)



 مورخ اسلام علامہ بن خلدونؒ فرماتے ہیں
جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین  پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔
 اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا  کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں  یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔
(مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر)
شارح صحیح مسلم  امام نوویؒ لکھتے ہیں:
 اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے۔
(المجموع شرح المہذب ج 1 ص 91)

خود غیرمقلدین کے ایک مولوی صاحب اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہبب کے لوگ دیکھنے میں آرہے ہیں جس سے لوگ بالکل نا آشنا ہیں،پچھلے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے، بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہل حدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔ الارشاد الی سبیل الرشاد صفحہ 13
 اس کے علاوہ ایک جگہ ان کے مولوی صاحب لکھتے ہیں ” بریصغیر میں علمائے اہل حدیث کا سلسلہ میاں نذیر حسین دہلوی صاحب سے شروع ہوتا ہے“۔
۔(چالیس علمائے اہل حدیث صفحہ28)

 اس  سے پہلے تمام امت بغیر تلقین کے اپنے  ہی مجتہد امام کی تقلید پر متفق تھی کیونکہ عمل زیادہ معنی رکھتا ہے الفاظ  سے
 عین ممکن ہے مولانا صاحب نے یہ اس وقت لکھا تھا جب کہ تقلید شخصی کا لفظ اصطلاح میں پہلی صورت کے طور پر  استعمال کیا جارہا تھا۔  اور آج کے دور میں  تقلید شخصی بغیر تلقین اور بغیر دوسرے مجتہدین کو باطل قرار دیتے ہوئے اپنے مجتہد امام کی تقلید کا پابند ہونے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، چونکہ اہلسنت کے تمام مذاہب اپنے اپنے مجتہد کے مسائل و قواعد کے پابند رہتے آئے ہیں تو اس پر بلا شبہ اجماع ثابت ہوتا ہے۔

اب ذرہ غیرمقلدین پر نظر ڈالتے ہیں

غیرمقلدین کے شیخ الکل صاحب  لکھتے ہیں:
صحابہ اور تمام مومنین کا قرون اولی میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ (وہ) کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی“۔
شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی غیرمقلد معیار الحق ص
۱۴۳


آج تک کسی جاہل نے  بھی یہ بات نہیں کہی کہ ایک بت کو سجدہ کرنا تو شرک ہے لیکن صبح ایک بت کو سجدہ کرو دوپہر دوسرے بت کو سجدہ کرو سہ پہر تیسرے بت کو سجدہ کرو اور  شام کو چوتھے بت کو سجدہ کرو تو تم مشرک نہین رہو گے بلکہ اہل حدیث بن جاؤ گے۔